کیسے کیسے چہرے ۔ کرامت بھٹی (تاثرات: ذیشان علی وارث)

 In تاثرات


مجھے کچھ بھی پڑھنے کا شوق ہوتا تھا تو اپنی دکان میں موجود ردی پڑھتا تھا۔ پرانے اخبارات کے بنڈل اٹھاتا، گھر لے آتا اور ادارتی صفحات اور رسالے نکال کر پڑھتا رہتا تھا۔ کیونکہ گھر کا ماحول ایسا نہیں تھا کہ کتابیں موجود ہوتیں یا خرید سکتا یا کہیں مریدکے شہر میں لائبریری ہی موجود ہوتی ۔ میرے مطالعے کی بنیاد یہی چیز بنی تھی ۔ تو ان ہی دنوں میں ایکسپریس اخبار کا ایک صفحہ ہوتا تھا ’’شخصیت‘‘ کے نام سے جس میں انٹرویو نما خاکہ لکھا گیا ہوتا تھا ۔ تب کرامت بھٹی صاحب وہ صفحہ چھوڑ چکے تھے اور ان کی بجائے کوئی اور شخص یہ کام کرتا تھا ۔ مگر وہ شخصیت جس کا ذکر کیا گیا ہوتا تھا ، اس کے بارے میں کافی جانکاری ہوتی تھی ۔ ان شخصیات میں ادیب ، اداکار ،گلوکار ، سماجی شخصیات ہوتی تھیں اور کافی زیادہ مشہور شخصیات موجود ہوتی تھیں اور ان صاحب سے پہلے یہ صفحہ کرامت علی بھٹی صاحب کے ذمہ ہوتا تھا وہ اس صفحے پر لکھتے تھے ۔ خیر وقت گزرا اور کرامت بھٹی صاحب سے ملاقات ہوئی جو غالباً چار پانچ سال پہلے ہوئی ہوگی ۔ اس ملاقات میں کسی نے مرعوب کرنے کے لیے بتایا کہ یہ صاحب کتاب بھی ہیں اور کتاب کی تقریب رونمائی کی تصاویر بھی دکھائی تھیں ۔ جن میں خواجہ زکریا ، سعد اللہ شاہ ، سمیت کئی بڑے لوگ شامل تھے ۔ وہ وقت تھا جب میں کتاب کی تلاش میں نکلا اور چار سالوں میں تمام کتابوں کی دکانیں اور کئی لائبریریاں چھان ماریں مگر کتاب عنقا تھی ۔ پھر اسی ہفتے کرامت بھٹی صاحب نے یاد فرمایا اور کتاب ملنے کی خوشخبری سنائی ۔ اور کتاب کے بارے میں بتایا کہ یہ سسرال سے زبردستی اٹھا کر لایا ہوں ۔ خیر میں پچھلے چار دنوں سے اس کتاب کے مختلف کرداروں سے مکالمے میں مصروف تھا ۔ ادب ، سیاست ، صحافت ، شوبز اور سماجی شخصیات کے انٹرویوز پر مبنی پروفائلز ہیں اور بھٹی صاحب کے اسلوب میں وہ ایک شاندار ادبی تحریریں بھی بن گئی ہیں ۔ یہ ادبی صنف خاکے اور صحافتی انٹرویوز کے بین بین کوئی چیز ہے مگر خوب ہے ۔ اس کتاب میں جن شخصیات کے انٹرویوز ہیں وہ بڑے لوگوں میں شمار ہوتی ہیں ۔ جن لوگوں کے انٹرویوز شامل ہیں ان میں احمد جاوید صاحب ، حسن عسکری رضوی (سابق نگران وزیر اعلی پنجاب)، ہمایوں احسان اور عاصم اللہ بخش جیسے دانشور تھے ۔ ادب میں ڈاکٹر وزیر آغا ، الطاف فاطمہ ، خواجہ زکریا جیسی شخصیات شامل ہیں جو کسی تعارف کی محتاج نہیں ہیں ۔ قانون کے شعبے سے حامد خان اور اللہ نواز کی شخصیت براجمان تھی ۔ البتہ سماجی خدمات کے شعبے میں بہت زیادہ لوگ ہیں جن کے انٹرویوز کیے گئے ہیں ، وجہ اس کی یہی ہے کہ بھٹی صاحب خود بھی سماجی کارکن ہیں اور خدمت کو اصل انسانیت گردانتے ہیں ۔ سماجی خدمت میں جو لوگ ہیں وہ ہیں انعام الٰہی اثر ، امجد ثاقب ، انتظار حسین بٹ ، اخلاق الرحمان، سیما عزیز، عبد التواب صدیقی ، غیاث الدین ، محمود شوکت ، ریاض فاروق ساہی ، خالد جمیل ، اظہار الحق ہاشمی، اعجاز بشیر، فرخ دیبا ، طارق جاوید ، خورشید احمد کاہلوں، خلیل الرحمٰن عبیر ، عبد الوحید جوہر ، عذرا خیال، ارسلا نگہت جدی ۔ جو لوگ تحقیق و تدریس کے شعبے سے ہیں وہ ہیں طاہر کامران ، اے آر شکوری ، اکرام چغتائی ، محسن فارانی ، خالد ہمایوں ، سلیم منصور خالد، عزیز الدین احمد ، رانا محمد صدیق، اظہر شاہد ۔ صحافت سے وابستہ لوگ سید طلعت حسین ، شاہدملک ، محمد بدر منیر ، تنویر شہزاد شامل ہیں ۔ مذہبی سیاست سےدو نام شامل ہیں حافظ محمد سعید اور سرفراز نعیمی ۔ فنون لطیفہ سے قوی خان ، سہیل احمد ، حامد علی خان ، ابرار الحق ، شوکت محمود جاوید اقبال (کارٹونسٹ) اور ریاظ شامل ہیں ۔ باہمت لوگوں میں جو بظاہر بہت عام لوگ ہیں صائمہ سلیم ، نذیر مسیح ، شہزاد مسیح، مریاں بی بی، باوا محمد اشرف، محمد دین ، رنگ الٰہی ، ریاض احمد۔ کھیلوں میں دو افراد کا تعارف ہے ۔ نصیر اختر اور ناصر بھولو ۔
اس تعارف میں ہمیں ان شخصیات کے بارے میں تو جاننے کا موقع ملتا ہی ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ ہمیں ان شخصیات کی رائے اور خیالات بھی جاننے کا موقع ملتا ہے ۔ مثلا کچھ اقتباسات آپ کے ساتھ شئیر کرتا ہوں ۔ ڈاکٹر وزیر آغا کی ڈاکٹریٹ کی ڈگری اردو نثر کے مزاح پر ہے ، ان کی اردو مزاح کے بارے میں رائے سنیے ۔ ’’ڈاکٹر وزیر آغا کے خیال میں ہمارے ہاں خالص مزاح نگار بہت کم ہیں۔ جو ایسا ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ان کی تحریروں میں طنز اور استہزاء کی آمیزش بہت زیادہ ہے۔ پطرس کے مضامین، امتیاز علی تاج کا چچا چھکن ان کے نزدیک اچھی مثالیں ہیں‘‘۔
احمد جاوید صاحب سے جب پوچھا گیا پاکستانی کلچر کا آغاز موہنجوڈارو سے کیا جائے یا پھر جب مسلمان برصغیر میں داخل ہوئے تھے تب سے کیا جائے تو انہوں نے کیا جواب دیا تھا ’’یہ مصنوعی بحث ہے۔ میرے ایک دوست ڈاکٹر مبارک علی ایک رخ پر ہیں اور کچھ لوگ دوسرے رخ پر ہیں ۔ بھئی کلچر یہ تھوڑی ہے کہ آپ کچھ چیزیں لیجیے اور باقی چھوڑ دیں ، میرے نزدیک کلچر وہ جس نے تسلسل کے ساتھ میری تہذیب میں اپنے اثرات مرتب کیے ہیں ۔ گو میں مسلم کلچر سے تعلق رکھتا ہوں لیکن اس کی تاریخ میں موہنجوڈارو آتا ہے ، گندھارا اور ہڑپہ بھی آتا ہے لہذا نہ میں اپنے کلچر کی تاریخ چھپاؤں گا اور نہ ہی انکار کروں گا ۔ لیکن مجھے اپنے زندہ کلچر کو کوئی عنوان دینا پڑا تو کہوں گا کہ یہ مسلم کلچر ہے‘‘۔
ڈاکٹر حسن عسکری صاحب نے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ مارکس ازم ہمارے ہاں بطور فکری تحریک تو رہے گا لیکن مقبول تحریک نہیں سکے گی ۔ اس کی وجہ اس کا مذہب کے بارے میں ایک خاص تصور ہے۔ وہ لبرل سیکولر جو اسلام کو رد یا اس کے کردار کو محدود نہیں کرتے ، ان کے امکانات ہیں ۔ نیز اس کتاب میں ہمیں جگہ جگہ ایسی چیزیں ملیں گی جسے ہم بطور حوالہ پیش کرسکتے ہیں۔
کتاب کے بارے میں ڈاکٹر وزیر آغا کی رائے ہے ’’انہوں نے ادیب کی تخلیق کاری میں صحافی کی تیز نگاہی کو آمیز کرکے ایک بے حد قابلِ مطالعہ کتاب پیش کردی ہے‘‘۔ اس کتاب کا نام بھی وزیر آغا صاحب کا رکھا ہوا ہے ۔ خواجہ محمد زکریا کی رائے اس کتاب کے بارے میں یہ ہے کہ یہ کتاب نا صرف دلچسپی سے پڑھی جائے گی بلکہ حوالے کی حیثیت بھی اختیار کرلے گی ۔ اسی طرح اس کتاب میں ارشاد احمد عارف ، ہمایوں احسان صاحب اور محمد عامر خاکوانی کی آراء بھی شامل ہیں ۔ یہ کتاب صحافتی اور ادبی دونوں معیارات پر پورا اترتی ہے ۔ آج کل یہ کتاب مارکیٹ سے غائب ہے ۔ امید ہے کرامت بھٹی صاحب جلد دوسرے ایڈیشن کا انتظام کریں گے تاکہ باذوق قارئین جلد از جلد اس خوبصورت کتاب سے محظوظ ہوں ۔

Recent Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search