’’کتابیں بعض مرتبہ خود کو پڑھوا لیتی ہیں‘‘: آصف فرخی (مصاحبہ کار: رانا محمد آصف)
اردو خاکہ نگاری، تنقید، تحقیق وتدریس کی ممتاز شخصیت ڈاکٹر اسلم فرخی حضرت نظام الدین اولیاؒ سے متعلق اپنی کتابوں میں سے ایک ”صاحب جی، سلطان جی“ کے آغاز میں حضرت محبوب الہیٰؒ کا یہ قول نقل کرتے ہیں: ”قفل سعادت کی متعدد کنجیاں ہیں۔واسطہ ہر کُنجی سے رکھنا چاہیے، کیا معلوم کون سی کنجی کام کرجائے…“۔ جہانِ ادب میں فکشن نگاری، ترتیب و تالیف، تراجم، ادارت اور ادبی صحافت کی سعادتوں کی ان سبھی کنجیوں سے ان کے فرزند آصف فرخی نے واسطہ بھی رکھا، اور خوبی سے نبھایا بھی اور یوں سمجھیے ”حسبِ ارشاد“ نبھایا۔ 16ستمبر 1959کو آصف اسلم فرخی کراچی میں پیدا ہوئے، والد علم و تحقیق کے دھنی، ادب اور شاعری کے ستارے ان کے آنگن میں اترتے تھے، کتاب اس کائنات کا محور تھی، خسرو، میر وغالب، نذیر، شبلی و حالی، اقبال، ناسخ اور ایسے کتنے ہی نام اس وقت کانوں میں پڑ چکے تھے جب ان کی سرمایہ حرف سے ابھی آشنائی بھی نہیں ہوئی تھی، لیکن ان سے کشش گھٹی میں پڑچکی تھی۔ آصف فرخی نے 1974 میں سینٹ پیٹرک اسکول سے میٹرک کرنے کے بعد ڈی۔جے کالج سے انٹر کیا، اگلے مرحلے میں شعبہ طب کی تعلیم حاصل کی اور ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے بعد امریکا ہاوروڈ یونیورسٹی سے ”پبلک ہیلتھ“ کے شعبے میں سند حاصل کی۔ دور طالب علمی میں بھی علمی و ادبی سرگرمیوں سے منسلک رہے، ابتداء مضمون نگاری سے کی، انگریزی کے روزنامہ اخبارات اور جرائد کے لیے بھی لکھا۔ ممتاز ادبی شخصیات کے انٹرویو کیے جو ”حرفِ من و تو“ کے عنوان سے کتابی شکل میں شایع ہوئے۔ ہارورڈ یونیورسٹی کے دور میں ترجمے کی جانب متوجہ ہوئے، اپنے ہم عصر شعراء کا کلام انگریزی قالب میں ڈھالا، ”AN EVENING OF CAGED BEASTS“ انہی تراجم کا مجموعہ ہے۔کشور ناہید، عطیہ داؤد اور شیخ ایاز کے منتخب کلام کا بھی انگریزی میں ترجمہ کیا۔ ہرمین ہیسے کے لازوال ناول ”سدھارتھ“ کا اردو میں ترجمہ کیا۔ ”یادوں کی باز گشت“ اور ”خواب نامہ“ کے عنوان سے نجیب محفوظ کی تخلیقات، ستیہ جیت رے، عرب مصنف رفیق شامی اور لاطینی امریکی ادیب عمر راوابیلا کے ناولوں کا بھی اردو میں ترجمہ کیا۔تنقید کے میدان میں اترے، ”عالم ایجاد“ اور ”نگاہ آئینہ ساز میں“ ان کے تنقیدی مضامین کے مجموعے ہیں۔ افسانہ نگاری کو اپنی شناخت کا حصہ بنایا، اب تک سات مجموعے شایع ہوچکے ہیں۔ ان میں ”آتش فشاں پر کھلتے گلاب“، ”ایک آدمی کی کمی“، ”شہر بیتی“، ”شہر ماجرا“، ”میں شاخ سے کیوں ٹوٹا“ اور ”میرے دن گزر رہے ہیں“شامل ہیں۔ ”سمندر کی چوری“ منتخب کہانیوں کا مجموعہ ہے۔ ادبی جریدے ”دنیا زاد“ اور اشاعتی ادارے ”شہرزاد“ کا آغاز کیا، ان دونوں اداروں نے اردو کے ادبی و علمی سرمائے میں گراں قدر اضافہ کیا۔متعدد کتابوں کی ترتیب و تالیف اور تدوین کی۔ لاطینی امریکا کی کہانیوں کے ترجمے ’موت اور قطب نما‘ پر 1995میں وزیراعظم ادبی ایوارڈ اور 2005 میں انہیں تمغہ امتیاز سے نوازا گیا۔ 2010میں آکسفرڈ یونیورسٹی اور برٹش کونسل کے اشتراک سے ”کراچی لٹریری“ فیسٹول کا آغاز ہوا تو آصف فرخی اس کے بنیاد گزاروں میں شامل تھے۔ اس فیسٹول نے بعدازاں ایک تحریک کی شکل اختیار کرلی۔ لاہور، اسلام آباد، حیدرآباد، گوادر، جہلم میں بھی اس عنوان سے ادبی محافل سجیں، پھر سندھ لٹیری فسٹیول کا آغاز ہوا۔ انہوں نے بڑی جاں فشانی سے جس فیسٹول کو مقبولیت کے بام عروج پر پہنچایا تھا اس سے بوجوہ الگ ہونا پڑا اور اب وہ ”ادب فیسٹیول“ کی بنیاد رکھ چکے ہیں، جس کا پہلا میلہ یکم سے تین فروری2020 تک، کراچی میں گورنر ہاؤس کے لان میں سجے گا۔ پیش خدمت ہے، ”ذوقِ مطالعہ“ کے سلسلے کے لیے آصف فرخی سے سے ہونے والی نشست کا احوال۔
٭ مطالعے کا شوق کیسے ہوا؟
آصف فرخی: میرے لیے کوئی ایک نقطۂ
آغاز بیان کرنا مشکل ہے، اس لیے کہ جب میں نے ہوش سنبھالا تو اپنے چاروں طرف
کتابیں دیکھیں۔ لوگوں کو اپنے گرد کتابیں پڑھتے، ان کے بارے میں بات کرتے ہوئے،
انہیں محسوس کرتے ہوئے دیکھا۔ خاص طور پر میرے والد، میرے چچا اور میرے دادا، ان
سب کو کتابوں سے دل چسپی تھی۔ کتاب کا آنا اور اسے پڑھنا ایک ایسا واقعہ ہوتا تھا،
بچپن میں جسے بارہا دیکھا۔ یہ شوق اس ماحول میں آنکھ کھولنے کا نتیجہ ہے۔
٭ گھر کے ماحول کے ساتھ معاشرے میں کتاب پڑھنے والوں کی جو پذیرائی
ہوتی تھی کیا اس کی کمی اب محسوس ہوتی ہے؟
آصف فرخی:جی ہاں اس کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ میرے بچوں نے جس اسکول سے پڑھا
تھا، وہاں مطالعے پر ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی۔ انہیں ایک ریڈنگ لسٹ تھمائی
جاتی تھی اور کہا جاتا تھا کہ آپ اتنی کتابیں پڑھیں اور اتنا وقت لائبریری میں
گزاریں۔ ان بچوں کو پڑھنے کا ایک شوق سا ہوگیا۔ ہمارے اسکول میں ایسا نہیں تھا،
گھر کا ماحول ایسا تھا۔ میں لوگوں کو اپنے والد کے پاس آتے جاتے دیکھتا تھا کہ
اچھا یہ سلیم احمد چلے آرہے ہیں، یہ احسن فاروقی ہیں۔ فلاں صاحب کی یہ کتاب آرہی
ہے تو اس سے بھی جستجو بڑھتی تھی۔ وہ سلسلہ اب نظر ہی نہیں آتا۔
٭دوستوں میں بھی کتب بینی کے حوالے سے سبقت لے جانے کا احساس ہوتا
تھا؟
آصف فرخی: شاید ہوتا ہو، لیکن انسان دوستوں سے سیکھتا بہت ہے۔ ہم خیال دوست ہوں،
مل کر بیٹھیں تو کتاب پر بات کرتے ہیں، ایک دوسرے کو کہتے ہیں کہ بھئی یہ کتاب آپ
بھی دیکھیں۔ پاکستان میں یہ مسئلہ بھی ہوا کہ ہندوستان کی کتابیں نہیں آتیں،
انگریزی کی نئی کتابیں آنا کم ہوگئیں۔ انگریزی میں ”بیسٹ سیلر“ اور ٹریش تو بہت
آجاتا ہے لیکن دیگر زبانوں کے ادب کا انگریزی میں جو ترجمہ ہوا ہوتا ہے وہ بہت کم
آتا ہے۔ بہت سے لوگ اس طرح کی کتابوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔ وہ ایسی کتابوں کی
دستیابی کے بارے میں بتا دیتے ہیں اور کبھی مہربانی کرکے کتاب بھی دے دیتے ہیں۔
٭کچھ یاد پڑتا ہے کہ پہلی کتاب کون سے پڑھی یا ایسی کتاب جس نے شوق
میں مزید اضافہ کیا ہو؟
آصف فرخی:کئی کتابیں تھیں، اس زمانے میں یہ دستور سا تھا کہ امتحان میں
اچھے نمبر لانے یا سالگرہ پر، کسی تقریب میں یا عید بقر عید کے موقعے پر کتابیں
تحفے میں ملتی تھیں۔ وہ کتابیں یاد ہیں۔ انگریزی کی کتابیں پڑھنے کا شوق ہوا تو
اینڈ بلائٹن کی کتابیں پڑھیں۔ وہ بچوں کے لیے لکھتی تھیں اور اس زمانے میں ان کی
کتابیں پڑھی جاتی تھیں۔ میرے دادا کو کتابوں کی جلد بندی کا شوق تھا، وہ خود
کتابوں کی جلد بناتے تھے۔ انہوں نے بچوں کے لیے الف لیلی مجھے دی، میں اسے پڑھتا
تھا۔ اس کی زبان تھوڑی سی نامانوس تھی لیکن پڑھنے میں بہت مزہ آتا تھا۔ اردو میں
فیروز سنز کے ناول عام تھے، پڑھے جاتے تھے، وہ بھی پڑھے۔
٭ کوئی ایسی کتاب یا کتابیں جو اتنی دل چسپ معلوم ہوئی کہ ایک ہی
نشست میں ختم ہوگئی؟
آصف فرخی: ایک نشست میں ختم کرنے کی شرط ذرا مشکل ہے، کیوں کہ اس زمانے میں وقت کی
فراوانی تھی اور ایک نشست بہت لمبی ہوتی تھی۔ یعنی اب پڑھ رہے ہیں تو پڑھے جارہے
ہیں، کیوں کہ دل چسپیاں محدود تھیں۔ سوشل میڈیا نہیں تھا۔ ٹیلی وژن بھی ہمارے
دیکھتے ہی دیکھتے آیا۔ اس لیے ایسی کتابیں تو بہت تھیِں کیوں کہ جتنا وقت ملتا تھا
پڑھتے ہی رہتے تھے۔ میرے بارے میں والدین کا کہتے تھے کہ میں جب پڑھتا تو پڑھتا ہی
چلا جاتا تھا۔ کہیں جارہے ہیں تو کتاب ساتھ ہے اور آنکھیں اس پر لگی ہوئی ہیں اور
ایسا بہت ہوتا تھا۔
٭ آپ کے سرہانے کون سی کتاب یا کتابیں رہتی ہے؟
آصف فرخی: ارے صاحب کتابوں کی
فراوانی کی وجہ سے سرہانا سکڑ جاتا ہے۔ اب بھی آپ دیکھیں تو، گھر والے بیزار آجاتے
ہیں کیوں کہ جگہ تنگ ہوتی جاتی ہے۔ کسی کتاب کو ہٹانے کو کہا جاتا ہے تو کہتا ہوں
کہ ارے بھئی اسے کیسے ہٹا دوں یہ ابھی پڑھنی ہے۔ پورے گھر ہی میں کتابیں پھیلی
ہوئی ہیں۔ بعض کتابیں ایسی ہوتی ہیں جنھیں بار بار پڑھنے کا جی چاہتا ہے۔ انہیں
ہٹایا نہیں جاتا۔ میرے کمرے میں دیوان غالب، کلیاتِ اقبال، انتخابِ میر رکھے ہیں،
یہ کتابیں گویا ہر وقت ساتھ ہی رہتی ہیں۔
٭ مطالعے کے لیے وقت کیسے نکالتے ہیں؟کیا کوئی خاص وقت مقرر کررکھا
ہے؟
آصف فرخی:جب موقع ملتا ہے پڑھتا ہوں، میرا کوئی خاص وقت مقرر نہیں رہا۔ وہ اس
لیے بھی نہیں کہ جتنا وقت ملتا تھا زیادہ سے زیادہ پڑھنے کی کوشش رہتی تھی۔ صبح یا
شام کے وقت کا کوئی تعین نہیں تھا۔ اب ظاہر ہے مصروفیات بھی بڑھ گئیں، سوشل میڈیا
پر بھی وقت لگتا ہے، دوستوں سے بھی کچھ ملنا جُلنا ہوتا ہے تو کتاب پڑھنے کا وقت
محدود ہوجاتا ہے۔ اس کی وجہ سے بعض دفعہ یہ ہوتا ہے کہ ایسی کتابوں کی تعداد بڑھتی
چلی جاتی ہے، جنھیں پڑھنے کا ارادہ کررکھا ہوتا ہے۔
٭ ایسی کتابیں جنھیں پڑھنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟
آصف فرخی: ایک بہت لمبی چوڑی فہرست ہے۔ بعض مصنف ہیں جنھیں پڑھنے کا سوچ رکھا ہے۔
ان میں سے ایک فرانسیسی ناول نگار ہیں ایمل زولا(Émile
Zola)، میں نے ان کی دو چار
کتابیں پڑھی ہیں۔ مجھے ان کی اور کتابیں پڑھنی ہیں۔ ایک اور فرانسیسی ناول نگار
بالزاک، جسے دنیا کے بڑے لکھنے والوں میں شمار کیا جاتا ہے، اس کی پانچ سات کتابیں
ہی پڑھی ہیں، اسے بھی مزید پڑھنا ہے۔ انیسویں صدی میں جب ناول نگاری کا آغاز ہوا
تو اس دور کے ابتدائی ناولز سے مجھے خاص دل چسپی رہی ہے۔ ان میں ایسے ناول ہیں جو
ابھی تک نہیں پڑھے۔ بلکہ ایک دلچسپ بات یہ ہوئی، میں ایک زمانے میں انٹرویو بھی
کرتا رہا ہوں۔ قرۃ العین حیدر نے انٹرویو کے لیے وقت دیا۔ انہوں نے ذکر کیا کہ
”گدڑی کا لعل“ تو تم نے پڑھا ہوگا۔ وہ غالباً ان کی والدہ کی پھپھی کا ناول تھا۔
میں نے جواب دیا کہ نہیں پڑھا۔ کہنے لگیں ”اچھا! تم فکشن پر بات کررہے ہو اور تم
نے ”گدڑی کا لعل“ نہیں پڑھا تو تم کیسے فکشن پر بات کروگے۔“ اس انٹرویو کے کچھ
عرصے بعد میرے نام ایک پیکٹ آیا، اسے کھولا تو اس میں ”گدڑی کا لعل“ کا ایک پرانا
ایڈیشن تھا۔ قرۃ العین نے وہ ناول کہیں سے منگوا کر بجھوایا اور پھر میں نے اسے
پڑھا۔
٭کتاب کا انتخاب کیسے کرتے ہیں، موضوع، مصنف یا فہرست دیکھ کر یا
کوئی اور طریقہ؟
آصف فرخی:مجھے تو ایسا لگتا
ہے کہ کتابیں بعض مرتبہ خود کو پڑھوا لیتی ہیں۔ یعنی کسی ایسے مصنف کی کتاب جس سے
میں واقف نہیں تھا، اچانک اس پر نظر پڑ جاتی ہے، الماری سے اسے نکال کر دیکھتا ہوں
اور اسے پڑھ ڈالتا ہوں۔ بعض کتابوں کی دکانیں مجھے بہت پسند ہیں۔ کراچی میں ایک
دکان ہے ”تھامس اینڈ تھامس“ وہاں بہت جاتا تھا، جو نئی کتاب آتی تھی نکال کر
دیکھتا تھا کہ یہ پڑھنی ہے یا نہیں تو اندازہ ہوجاتا تھا۔ لاہور میں ”ریڈنگز“ مجھے
بہت پسند ہے۔ جی چاہتا ہے کہ روز وہاں جاؤں، وہ ممکن نہیں ہے۔ جب جاتا ہوں تو کئی
گھنٹے وہاں لگتے ہیں۔ بعض دفعہ بڑی غیر معمولی کتابیں نظر آجاتی ہیں۔ مصنف کے نام
اور موضوع کے حوالے سے بھی دیکھتا ہوں۔تاریخ، فکشن اور تنقید کی کتابوں میں دیکھنے
کی کوشش ہوتی ہے کہ ان میں کیا نئی چیزیں ہیں۔
٭ کوئی ایسی کتاب جسے پڑھنے کے بعد سوچنے کے انداز میں تبدیلی آئی
یا شخصیت پر اس کا گہرا اثر ہوا؟
آصف فرخی: یہ کسی ایک کتاب کے بارے میں نہیں کہا جاسکتا۔ یہ کئی کتابوں کے بارے
میں کہا جاسکتا ہے۔ جیسے ”طلسم ہوش رُبا“ مجھے بہت پسند رہی ہے۔ اب میں ذرا غور
کروں کہ اس سے میری شخصیت پر کیا اثر ہوا تو جواب نہیں ملتا۔ الف لیلی میری
پسندیدہ کتابوں میں سے ہے۔ آج کل کی کئی کتابیں ہیں، انتظار حسین کا ”بستی“، ”آگ
کا دریا“، ”اداس نسلیں“ پڑھا۔ شخصیت پر کوئی اثر ہوا یا نہیں ہوا، بہ آسانی کچھ
کہا نہیں جاسکتا۔ شخصیت بہت ڈھیٹ اور لچکدار سی ہے۔ ہر کتاب جو پڑھتا ہوں اس سے
متاثر ہوجاتی ہے اور ہر کتاب کے بوجھ تلے پچک جاتی ہے۔ پھر کتاب کا اثر آہستہ
آہستہ ختم ہوتا ہے تو اپنی پرانی شکل پر واپس آجاتی ہے۔ یوں کہیے کہ میں تو ہر
کتاب سے متاثر بلکہ مجروح ہوجاتا ہوں۔
٭ آپ کے خیال میں کتاب (یا کتب بینی)اہم کیوں ہے؟
آصف فرخی: علم حاصل کرنے کا بہت اہم اور مؤقر ذریعہ کتاب ہے۔ کتاب آپ کی معلومات
کو مکمل کرتی ہے۔ وہ بات آپ کو سوشل میڈیا، اخبار یا ٹیلی وژن سے حاصل نہیں
ہوسکتی۔ کتاب تجربے کے ایک پورے منطقے کو یا فکر کے ایک ٹکڑے کو منور کرتی ہے۔
٭تو کیا انٹرنیٹ یا دیگر ذرایع معلومات اس کا متبادل ہوسکتے ہیں؟
آصف فرخی: نہیں ہوسکتے۔ چہ جائے کہ آپ انٹرنیٹ پر یا کنڈل پر کتاب پڑھ رہے ہیں۔
کتاب آپ کاغذ پر پڑھیں یا انٹرنیٹ پر بات تو ایک ہی ہے۔ اصل تو پڑھنے کا عمل ہے۔
ہم دراصل یہ بات بہت کہنے لگے ہیں کہ ہمارے ہاں کتاب پڑھی نہیں جارہی اور لوگ انٹر
نیٹ میں مشغول رہنے لگے ہیں۔ دنیا کے اور ملکوں میں تو ایسا نہیں ہوا۔ ہم لوگ نہ
پڑھنے کی تاویلیں بہت کرتے ہیں۔ ہم مطالعے سے بچتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ انٹرنیٹ اس
کا سبب ہے، تو کیا صاحب انٹرنیٹ آنے سے پہلے ہمارے لوگ کتاب پڑھتے تھے؟ کم پڑھتے
تھے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ پڑھنا نہیں چاہتے۔ ذہن کے دروازے بند کرنا چاہتے ہیں۔ ہم
مکالمے کے نہیں، مناظرے اور مجادلے کے لوگ بن کر رہے گئے ہیں۔ ہم ایسی کتاب سے
ڈرتے ہیں جو ہمارے فکری نہج سے ہٹ کر ہو۔ دماغ کو بند رکھنے کا یہ چلن ہمارے ہاں
بہت بھیانک ہوچکا ہے۔
٭کوئی ایسی کتاب جسے بار بار پڑھ کر بھی جی نہیں بھرتا، اور وجہ؟
آصف فرخی: بعض کتابیں ایسی ہیں جنھیں میں بڑی دل چسپی سے بار بار پڑھتا ہوں۔ حال
ہی میں جب الطاف فاطمہ کا انتقال ہوا تو ان کا ناول ”دستک نہ دو“ دوبارہ پڑھنا
شروع کیا، کیوں کہ میں نے پہلے اسے نوعمری میں پڑھا تھا تو دیکھنا چاہتا تھا کہ
کیا اب بھی وہ کتاب مجھے اپیل کرتی ہے؟ بعض کتابیں ایسی ہیں جنھیں میں یوں ہی بیچ
سے اٹھاکر پڑھنا شروع کردیتا ہوں۔ ”آگ کا دریا“، ”طلسم ہوش ربا“ اور الف لیلی کہیں
سے بھی پڑھنا شروع کردیتا ہوں۔ احمد علی کی ”دِلّی کی شام“ میں نے کئی بار پڑھی
ہے۔ اب میں ارادہ کررہا ہوں کہ چھٹیوں میں ”اداس نسلیں“ دوبارہ پڑھوں اور دیکھوں
گا کہ میرا تاثر اب کتنا مختلف ہے۔ محمد حسین آزاد کی ”آبِ حیات“ بار بار دیکھنے
کو جی چاہتا ہے۔ غالب اور میر کو بار بار پڑھتا ہوں اور کئی مرتبہ حیرانی ہوتی ہے
کہ یہ شعر یا اس کے یہ معنی کبھی سامنے ہی نہیں آئے۔ شیکسپیئر سے میں بہت حیران
ہوتا ہوں، میں نے اسے کبھی بہت منظم یا باضابطہ انداز میں نہیں پڑھا، اس لیے بار
بار پڑھتا ہوں اور ہر بار مجھے ایک نیا آہنگ نظر آتا ہے۔
٭ کوئی ایسی کتاب، آپ کے خیال میں جسے سبھی کو پڑھنا چاہیے؟
آصف فرخی: میری نظر میں ایسی کوئی کتاب نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر شخص اپنے
مزاج اور طبیعت کے مطابق کتابیں پڑھتا ہے۔ یہ ضرور ہے کہ غالب، اقبال، فیض، راشد
کو ان سب کو پڑھنا چاہیے۔ انتظار حسین، قرۃ العین حیدر کو پڑھنا چاہیے….لیکن کس
ترتیب اور سیلقے سے پڑھا جائے یہ ہر آدمی خود دریافت کرتا ہے۔ چوں کہ ادب کی
باضابطہ تعلیم حاصل نہیں کی تو میں نے بعض چیزیں بعد میں پڑھیں اور بعض وقت سے
پہلے پڑھ لیں۔
٭ آپ کے والد کبھی یہ تاکید کرتے تھے کہ کون سی کتابیں پڑھنی
چاہییں؟
آصف فرخی: کبھی کبھی کسی کتاب کے بارے میں کہہ دیتے تھے لیکن عام طور پر ایسا نہیں
تھا۔ میں چوں کہ ان کے طریقے کو سیکھنے کی کوشش کرتا تھا اگر انہیں کوئی کتاب پسند
نہیں ہوتی تھی تو میں بھی نہیں پڑھتا تھا اور ایسی کتابیں بہت بعد میں جا کر
پڑھیں۔ مثلاً مجھے یہ معلوم تھا کہ انھیں جاسوسی ناول بہت پسند تھے، میں نے بھی
جاسوسی ناول پڑھنا شروع کیے۔ لیکن ایک بہت مقبول مصنف ان کو پسند نہیں تھا، میں
نام نہیں لیتا، مجھے اس مصنف سے کبھی دل چسپی پیدا نہیں ہوسکی۔ میں نے ان کو بہت
بعد میں پڑھا اور یہ احساس ہوا کہ لوگ کہاں اپنا وقت ضایع کرتے ہیں۔ اسی طرح اور
لوگ بھی کچھ پڑھنے کا کہہ دیتے تھے۔ مثلاً انتظار حسین نے مجھ سے کہا کہ تم نے
روسی ناول پڑھنے کا سلسلہ شروع کیا ہے تو ”ابلوموف“ پڑھو، میں نے پڑھا مزہ آگیا۔
٭کتاب کی زیادہ قیمت کی عام شکایت ہے، اس بارے میں آپ کی رائے کیا
ہے؟
آصف فرخی: ہر چیز کی قیمت اب بڑھتی جارہی ہے۔ مہنگائی کا گلہ تو ہے۔ میں تو ان
لوگوں میں سے ہوں کہ جیسے لکھنؤ میں پرانے دور میں چنڈو خانے ہوتے تھے وہاں نعرے
لگتے تھے کہ ”منہگا کر آٹا، سستی کر افیم“ تو میں یہ مطالبہ کرتا ہوں کہ آٹا اور
روٹی مہنگی ہوجائے اور کتاب سستی ہوجائے۔کتاب مہنگی ہے جس طرح دیگر اشیا کی قیمتیں
بڑھ گئی ہیں۔ برگر اور پیزا کھانے پر اتنے پیسے اٹھا دیتے ہیں لیکن کتاب کی قیمت
کا گلہ ہے۔ اور کتاب جب سستی بھی ہوتی ہے تو کتنے لوگ خریدتے اور پڑھتے ہیں۔
کتابوں کی سیل لگتی ہے، اس میں لوگ جاتے ہیں پڑھتے ہیں۔ کاش ایسا سلسلہ زیادہ
ہوتا۔ کتاب کی قیمتیں دنیا بھر میں زیادہ ہوتی ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں یہ ایک vicious
cycleبن گیا ہے، چوں کہ کتابیں کم چھپتی
ہیں تو مہنگی چھپتی ہیں۔ زیادہ کتاب چھپے گی اور بار بار ایڈیشنز آئیں گے تو کتاب
سستی ہوگی۔ لوگ نہیں پڑھتے اس لیے بھی کتاب مہنگی ہوجاتی ہے۔ اگر زیادہ پڑھیں تو
کتابیں سستی بھی ہوں اور وافر بھی۔ اس طرح کی بات ہوتی ہیں تو لوگ فوراً حکومت پر
الزام لگا دیتے ہیں، یہ آسان ہے اور میرا بھی جی چاہتا ہے کہ ہر بات کا الزام
حکومت کے سر دھر دوں۔ لیکن حکومت آپ کو کتاب پڑھنے سے تھوڑی روکتی ہے۔ ہمارے ہاں
بہرحال ایسی اسکیمز کم سے کم ہیں جن میں کتابوں کی ترغیب دی جاتی ہو۔ پھر بہت سی
کتابوں کے بارے میں ہمیں معلوم ہی نہیں ہوتا، جیسی تعلیم اب رائج ہوگئی ہے اس میں
ہمیں کتابوں سے دور رکھا جاتا ہے۔
٭ کوئی کتاب مستعار مانگے تو عام طور پر کیا جواب ہوتا ہے؟
آصف فرخی: اس سوال پر بڑی تکلیف ہوتی ہے۔ جس حد تک ٹال سکتا ہوں ٹال دیتا ہوں۔
کیوں کہ کتاب مانگنے والوں میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہوتی ہے جو کتاب پڑھتے نہیں
ہیں۔ ان کو بس مانگنے کے لیے کوئی چیز چاہیے ہوتی ہے کہ ارے صاحب آپ کے پاس بہت
کتابیں رکھی ہیں ایک کتاب دے دیجیے۔ اس لیے جن کے بارے میں مجھے شک ہوتا ہے کہ
کتاب نہیں پڑھیں گے تو انھیں ٹال دیتا ہوں۔ پڑھنے والوں کو کبھی کبھی دے بھی دیتا
ہوں۔ ان کے لیے بھی میں نے ایک طریقہ ڈھونڈ رکھا ہے۔ بعض کتابیں ایسی ہیں جو اگر
آپ مجھ سے مانگیں تو میں فوراً کہوں گا کہ یہ لیجیے، کیوں کہ یہ وہ کتابیں ہیں جن
کی میں نے کئی کئی کاپیاں رکھی ہوئی ہیں۔ اب آپ مجھ سے انتظار حسین کی کتاب مانگیں
تو جس کاپی پر ان کے دستخط ہیں وہ میں تھوڑی ہی آپ کو دے دوں گا۔
٭کوئی ایسی کتاب جس کے گم ہوجانے یا عدم دستیابی کا آج بھی افسوس
ہوتا ہو؟
آصف فرخی: جی ہاں، ایسی بہت سی کتابیں ہیں، کچھ گم ہوگئیں، کچھ ادھر ادھر ہوگئیں۔
ایسی تو کوئی کتاب نہیں جو کسی کو دی اور واپس نہیں ملی۔ ایک آدھ ہیں لیکن بہت
قیمتی یا نادر کتابیں نہیں۔
٭ ایسی کتابیں جو اب عرصہ سے شایع نہیں ہورہیں، آؤٹ آف پرنٹ ہیں،
آپ کے خیال میں ان کی دوبارہ اشاعت کا اہتمام ہونا چاہیے؟
آصف فرخی:ایسی بہت سی
کتابیں ہیں۔ میں نے پرانے ناولوں کا ذکر کیا۔ اشرف صبوحی اور شاہ احمد دہلوی کی
بعض ایسی کتابیں ہیں۔ میرے سامنے کی اور میرے خاندان کے لوگوں کی کئی کتابیں ہیں،
جنھیں دوبارہ شایع ہونا چاہیے۔ ہمارے ہاں اردو میں ایک عجب معاملہ یہ بھی ہوا ہے
کہ کتاب چھپتی بھی ہے لیکن سامنے نہیں آتی۔ درست طریقے سے تشہیر یا مارکیٹنگ نہ
ہونے کی وجہ سے بہت سی کتابوں کے بارے میں کسی کو معلوم ہی نہیں ہوپاتا۔ کتنے اچھے
شاعروں اور افسانہ نگاروں کی کتابیں نہیں آسکیں۔
٭ کون سی کتاب یا کتابیں کوشش کے باوجود پوری نہیں پڑھ سکے؟
آصف فرخی: ہاں، جیمز جوائس کی”Finnegans Wake“ بہت کوشش کے باوجود پڑھی نہیں گئی، بہت مرتبہ اس پر ہلّہ بولا۔
وہ کتاب بہت مشکل ہے، لیکن میں اسے اس کتاب کا عیب نہیں سمجھتا۔ یہ میرے پڑھنے کے
طریقے کی خامی ہے۔ چوں کہ میں ادب کو ایک اسکالر کی طرح نہیں پڑھ سکا شاید اسی لیے
وہ رہ گئی۔ اسی طرح ناسخؔ کا دیوان میں نہیں پڑھ پایا، ارے صاحب دانتوں پسینہ
آگیا۔ میرے والد کو ناسخؔ بہت پسند تھے مگر مجھ سے ان کا دیوان نہیں پڑھا جاتا۔
میں انتخاب میں ان کے چند اشعار پڑھ لوں گا، دیوان کھول کر دیکھنا میرے لیے بہت
مشکل ہے۔
٭ ای بکس وغیرہ بھی پڑھتے ہیں؟
آصف فرخی: میں نے بہت کوشش کی لیکن میں کنڈل وغیرہ پڑھ نہیں پایا۔ جب تک کتاب نہ
ہو اور اس کو بستر پر نیم دراز ہوکر پڑھیں اور کتاب کا بوجھ سینے پر رہے اور دل اس
سے بند نہ ہونے لگے، مزہ نہیں آتا۔
٭”دنیا زاد“ سے نئے قاری بھی دریافت ہوئے؟
آصف فرخی: ہاں بعض لوگ ایسے ملے جنھیں پڑھنے سے دل چسپی ہے، حالاں کہ ان کی تعداد
کم ہے۔ میں ایسے بہت سے لوگوں تک رسائی حاصل نہیں کرسکا۔ اگر میرے پاس زیادہ وقت
اور پوری ٹیم ہوتی تو یہ صورت حال زیادہ بہتر ہوتی۔
٭ماضی میں ہم دیکھتے ہیں کہ ادب کے علاوہ مختلف شعبوں سے تعلق
رکھنے والے لوگ بھی مطالعے کا ذوق رکھتے تھے، اس میں تنوع بھی ہوتا تھا۔ اس کی کمی
کے باعث اب معاشرے میں ”اکہری شخصیت“ کے لوگ بڑھ نہیں گئے؟
آصف فرخی: یہ کام تو ہم نے بہت محنت
سے کیا ہے۔ ایک شخص آیا اور اس نے طلبہ تحریکوں کو کچلنے کے لیے پورے نظامِ تعلیم
کو ووکیشنل کردیا۔ میڈیکل اور انجینیئرنگ کی یونیورسٹی میں آپ کو ایک ڈبّے میں بند
کردیا جائے گا جہاں آپ کو صرف انہی شعبوں کی تعلیم دی جائے گی۔ ان شعبوں سے تعلق
رکھنے والوں کی ادب میں دل چسپی کا امکان ہی ختم کردیا گیا۔ چیخوف، جسے دنیا کا سب
سے بڑا افسانہ نگار مانا جاتا ہے، وہ ڈاکٹر تھا اور آخری وقت تک اس نے میڈیکل کی
پریکٹس بھی جاری رکھی۔ میں بھی میڈیسن کا طالب علم رہا، اس دور میں بھی طلبا میں
شوق ہوتا تھا لیکن رفتہ رفتہ وہ لوگ بہت کم ہوگئے۔ ہمارے ہاں تو اپنے شعبے کی
تعلیم بھی پوری طرح نہیں دی جارہی۔ تعلیم محض حصول روزگار کا ذریعہ ہے، اس کا اصل
مقصد زندگی، انسان اور معاشرے کے بارے میں بنیادی سوال اٹھانے کے لیے ذہن کو
کھولنا تھا، ہم اس سے بہت دور ہوتے جارہے ہیں۔ ہمیں اب ایسے طالب علم چاہییں جو
سوال نہ کرتے ہوں۔
٭ ”کتاب سے عشق“ کی
کوئی مثال جو آپ کو بہت بھائی ہو؟
میں نے بعض بہت پڑھاکو لوگوں کو بھی
دیکھا ہے۔ فہمیدہ ریاض سے میری بہت دوستی رہی۔ وہ میرے پرچے کے لیے لکھتی بھی
رہیں۔ ان کے سرہانے کاغذوں کا ڈھیر لگا رہتا تھا۔ ان کا ایک رجسٹر تھا، جس پر
انہوں نے لکھا ہوا تھا”بیماری کی تحریریں“ اور اُس پر وہ نوٹس لیتی جاتی تھیں۔ میں
نے پوچھا آپ کیا کررہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ زندگی کا اعتبار نہیں ہے، انہیں اپنی
موت کا احساس تھا، تو کہا کہ چلو مرنے سے پہلے (دوستوئیفسکی کا ناول) ”کرائم اینڈ
پنشمنٹ“ (جرم و سزا) تو پڑھ لوں۔انہوں نے پڑھا اور اس میں سے جو چیزیں نکالیں وہ
نوٹ کرتی گئیں۔ ان کی اس ڈائری کے کچھ ابتدائی صفحات میں نے ”دنیا زاد“ میں چھاپے
ہیں۔ اب یہ دیکھیے کہ زندگی ختم ہورہی ہے لیکن دُھن کیا ہے کہ جلدی سے دوستو
ئیفسکی کو تو پڑھ لیں۔ یہ کمال کی بات ہے۔ یعنی جو پیاس ہے ادب کی وہ اور بھڑک رہی
ہے، بجھ نہیں رہی۔ زندگی کا شعلہ بجھ رہا ہے مگر جاتے جاتے یہ بھی پڑھ لیں۔ یہ Passionہے۔“
٭ آپ نے کئی تراجم کیے، اس کے لیے انتخاب کیسے کرتے ہیں؟
آصف فرخی: اس کا طریقہ تو یہی ہے جو چیز پڑھ رہا ہوں وہ مجھے اگر اپنے ذہن میں
اردو میں سنائی دینے لگے یا اردو میں نظر آنے لگے تو اس کا ترجمہ کردیتا ہوں۔ جیسے
میں نے ”سدھارتھ“ کا ترجمہ کیا، اسے پڑھتے ہوئے مجھے محسوس ہورہا تھا کہ اسے تو
اردو میں ہونا چاہیے تھا۔جتنی کتابیں ترجمہ کرنا چاہتا ہوں ظاہر ہے اس کا عشر عشیر
بھی نہیں کرسکا۔ ترجمے کا کام بہت منظم طور پر ہونا چاہیے۔ ناشر مستعد ہونا چاہیے۔
ترجمے کے کام کی حوصلہ شکنی بہت ہوتی ہے۔
٭آپ کے خیال میں کیا اُردو میں دیگر زبانوں کے تراجم کم ہوئے؟
آصف فرخی: دیکھا جائے تو ہمارے ہاں ترجمے بہت کم نہیں ہوئے۔ بہت اچھے ترجمے بھی
ہوئے ہیں مگر وہ یا تو غائب ہوگئے یا فراموش کردیے گئے۔ دور جانے کی ضرورت نہیں
ہے۔ منٹو نے روسی اور فرانسیسی افسانوں کا ترجمہ کیا اور یہ کام اس وقت کیا جب
اردو افسانہ خود کروٹ بدل رہا تھا۔ ان تراجم کی وجہ سے اردو افسانے میں نئے ماڈل
متعارف ہوئے اور نئی تحریک پیدا ہوئی۔ عسکری صاحب نے بہت اچھے ترجمے کیے۔ انتظار
حسین اور ممتاز شیریں کے تراجم عمدہ تھے۔ آج اجمل کمال بہت اچھے ترجمے کررہے ہیں۔
ان کی ریڈرشپ محدود ہے اسے زیادہ ہونا چاہیے۔ مارکیز اور اورحان پامک کا نام بہت
لیا جارہا ہے، لیکن اردو میں ان کی کتابیں جتنی چھپنی چاہییں اتنی چھپ نہیں رہیں۔
میں نے اس پر لکھا بھی ہے کہ مارکیز کے ناول ”تنہائی کے سوسال“ کا جو ترجمہ دستیاب
ہے وہ بہت اچھا ترجمہ نہیں ہے۔ اس کے کئی تراجم ہونے چاہییں۔ یہ تو مغربی ادب کی
بات ہوئی ہمارے ہاں تو پاکستان کی دیگر زبانوں کے ادب کا ترجمہ برائے نام ہوا۔
ہمارے ہاں ترجمہ کچھ سرپھرے دیوانے کررہے ہیں، انھیں حکومت یا ناشرین کی سرپرستی
حاصل نہیں ہے۔ یہ بہت افسوس کی بات ہے۔ اس کی وجہ سے آپ پوری دنیا سے کٹ کر بیٹھے
ہوئے ہیں۔ ایران میں بے تحاشا ترجمے ہوتے ہیں، حیرت کی بات ہے کہ ساری بڑی چیزیں
چھپ جاتی ہیں اور پڑھی بھی جاتی ہیں۔ احمد مشتاق نے ہوزے ساراماگو کے ناول
”بلائنڈنیس“ کا ترجمہ کیا میں نے اسے (”اندھے لوگ“ کے نام سے) شایع کیا۔ بعد میں
پتا یہ چلا کہ فارسی میں اس کی ساری کتابوں کا ترجمہ اس کی زندگی میں ہوچکا تھا۔
ہمارے ہاں ترجمے کا کام اس انداز سے نہیں ہوا۔
(یہ انٹرویو جولائی 2019 میں کیا گیا اور اسی برس روزنامہ 92کے سنڈے میگزین میں شایع ہوا)