انسانی تعلقات کا مخمصہ (تحریر: تنزیلہ افضل)
انسان اس دنیا میں ایک تنہا فرد کی حیثیت سے پیدا ہوتا ہے، اپنا الگ وجود، اپنی مخصوص شناخت لیے ہوئے۔ جب عمر میں بڑھ جاتا ہے تو بھی اپنی انفرادی حیثیت کو قائم رکھتا ہے۔ مگر جس خاندان میں پیدا ہوتا ہے اس خاندان کے افراد جو سب مل کر اسے پالتے پوستے ہیں، اسے بڑا کرتے ہیں، اور اسکا وہ ماحول جہاں وہ پرورش پاتا اور جوان ہوتا ہے، وہ سب مختلف حیثیتوں سے اسکی نفسیات پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ وہ خواہش کے باوجود بھی اس ماحول کے نفسیاتی نقوش سے عمر بھر جان نہیں چھڑا پاتا۔
مگر اسکی اس انفرادیت کے باوجود اسے ایک سماجی حیوان بنایا گیا ہے۔ وہ سماج سے کٹ کر جی نہیں سکتا۔ وہ خود بھی ایک خاندان میں پیدا ہوتا ہے اور شعور کی منزلیں طے کرلینے کے بعد اپنا بھی الگ خاندان بناتا ہے۔ وہ عمر کا بیشتر حصہ مختلف انسانوں کے ساتھ روابط اور تعلقات رکھتے ہوئے گزارتا ہے۔ اسے اپنے خاندان، معاشرے، اپنے کام کی جگہ، ہر ہر مقام پر اپنے جیسے دیگر انسانوں سے ربط ضبط رکھنا پڑتا ہے۔
یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ زمین پر موجود سب انسانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ میل جول رکھتے ہوئے ہی زندگی گزارنا پڑتی ہے۔ انسان فطری طور پر بھی تنہائی سے گھبراتا ہے اور سماجی حیثیت سے بھی اسے زندہ رہنے کے لیے اور اپنے بقا کے لیے دوسرے انسانوں کی مدد اور تعلق کی ضرورت رہتی ہے۔ اسی ضرورت کی کوکھ سے مختلف رشتے وجود پاتے ہیں۔ ابتدا میں اسکے ماں باپ اسکے ساتھ ہوتے ہیں، بعد میں دوست اور ہمجولی۔۔۔ اور اسکے بعد شریکِ زندگی اور بچے۔ اس طرح سے یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ وہ اپنے اکلاپے کو دور کرنے کے لیے تمام زندگی نئے نئے رشتوں میں بندھتا چلا جاتا ہے۔
مگر جینے کے ان مراحل میں وہ بہت سی قربانیاں دیتا ہے اور دوسروں سے لیتا بھی ہے۔ اور شاید اسی طرح زندگی کا تسلسل قائم رہ پاتا ہے۔
اس سب کے باوجود اسکی زندگی میں بارہا ایسے مواقع آتے ہیں جب وہ مختلف لوگوں کے اپنے اردگرد موجود ہونے کے باوجود بھی خود کو تنہا محسوس کرتا ہے۔ شاید اس دنیا میں موجود ہر انسان کو زندگی میں کبھی نہ کبھی اس طرح کے تجربہ سے گزرنا پڑتا ہے۔ وہ خواہ کتنے ہی بڑے کُنبے کا فرد ہو اسکی شخصی تنہائی اسکے ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ گویا اسکی انفرادیت اور اسکا اکیلا پن اسکی زندگی کی ابتدا سے لے کر اسکی موت تک جاری رہتا ہے۔ وہ سب لوگ جو اسکے پاس موجود ہوتے ہیں وہ بارہا قلبی طور پر بہت دور محسوس ہوتے ہیں، اور بعض وہ لوگ جنہیں زندگی ہم سے دور رکھتی ہے انکے ساتھ اکثر گہرے نفسیاتی اور دلی تعلقات بن جاتے ہیں، وہ دور رہ کر بھی پاس محسوس ہوتے ہیں۔ اسکا سبب یہ ہے کہ انسان فطری طور پر اپنے ہم مزاج لوگوں کو پسند کرتا ہے، خواہ انکے ساتھ اسکا کوئی نسبی یا خونی تعلق نہ بھی ہو۔
یوں اپنے ان چند ہم مزاج لوگوں کے سوا، خواہ وہ اسکے خاندان کے افراد ہوں یا باہر کے دیگر احباب، اسے اپنی زندگی باقی لوگوں کے ساتھ ایک سطحی تعلق کے ساتھ گزارنی پڑتی ہے۔ انکی بہت سی ناگوار باتوں کو برداشت کرنا پڑتا اور اپنی بھی بہت سی ناپسندیدہ عادات کو انکے صبر کا امتحان بنانا پڑتا ہے۔
انسانی تعلقات کے اس مخمصے کو معروف جرمن فلسفی شوپنہار، جو اپنے قنوطی فلسفے کی وجہ سے عالمگیر شہرت رکھتے ہیں، انہوں نے بظاہر ایک خوفناک جانور ”پورکیوپائین“ کی تشبیہہ کے ذریعے بیان کیا ہے۔
( پوورکیوپائین وہ جاندار ہے جسے ہماری مقامی زبانوں میں خارپُشت یا سیہہ کہا جاتا ہے۔ اس جانور کی پشت پہ نوکدار کانٹے ہوتے ہیں اور جب کوئی شکاری اس جانور کا شکار کرنے لگے تو وہ اپنے جسم کے ان کانٹوں کے ذریعے حملہ کرتے ہوئے اس شکاری کو اپنے سے دور بھگا دیتا ہے۔ اور اس دواران وہ شکاری خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور جاندار، ان نوکدار کانٹوں کی وجہ سے زخمی بھی ہو جاتا ہے)
اس حکایت کا آغاز کچھ اس طرح سے ہوتا ہے:
”موسمِ سرما کے ایک سرد روز کچھ خارپُشت ایک دوسرے کے بہت قریب قریب اکٹھے ہوئے تاکہ ایک دوسرے کے جسموں کی باہمی حدت کے ذریعے اپنے آپ کو منجمد ہونے سے محفوظ رکھ سکیں۔ لیکن پھر جلد ہی انہیں ایک دوسرے کے پنکھ کے چبھنے کا احساس ہوا، جس نے انہیں دوبارہ مجبور کر دیا کہ وہ ایک دوسرے سے دور ہٹ جائیں۔ لیکن جب وہ ایک بار پھر گرماہٹ اور تپش کے حصول کے لیے ایک دوسرے کے پاس آئے تو انکے کانٹوں کی چبھن نے انہیں دوبارہ سے نقصان پہنچایا اور وہ ان دونوں خرابیاں کے بیچ میں پھنس کر رہ گئےتھے۔ یہاں تک کہ انہوں نے ایک محفوظ فاصلہ ڈھونڈ نکالا جس کے تحت وہ ایک دوسرے کو برداشت بھی کر لیتے اور ایک دوسرے کی زندگی کے بچاؤ کے لیے کچھ کر بھی پاتے۔
اسی طرح سےانسانی معاشرے بھی انسانوں کی زندگی کے خالی پن اور بوریت سے بچاؤ کی تکمیل کے لیے وجود پاتے ہیں اور ان انسانوں کو ایک دوسرے کے قریب لاتے ہیں۔ لیکن انکی بہت سی ناگوار اور ایک دوسرے سے متنازع عادات اور ناقابلِ برداشت خرابیاں ان انسانوں کو ایک دوسرے سے پھر دور کر دیتی ہیں۔ وہ اوسط فاصلہ جو لوگ آخر کار دریافت کر لیتے ہیں اور جو انہیں اس قابل بناتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کو گوارا کر سکیں، وہ مرّوت اور اچھے آداب ہیں۔
یوں یہ بات سچ ہے کہ باہمی گرم جوشی کا جذبہ ایک حد تک یا ادھوری حد تک تکمیل پا جائے گا مگر دوسری طرف ایک دوسرے کے کانٹوں سے پیدا ہونے والی چبھن سے بھی بچا جا سکے گا۔
لیکن جس انسان کے پاس اپنی ذات کی تپش اور لو موجود ہے وہ معاشرے سے بچنے اور دور رہنے کو ترجیح دے گا۔ تاکہ دوسروں کے لیے نہ تو مسائل پیدا کرے اور نہ انکے ناقابلِ برداشت روّیوں کے ساتھ مصالحت کرسکے۔
ایک عمومی ضابطے کے تحت یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایک انسان کی مجلسی (ملنے جلنے والی) طبعیت اسکے برعکس ہوتی ہے جتنی کہ اسکی ذی فہمی اور عقل۔۔۔۔ یہ کہنا کہ فلاں اور فلاں بہت غیر ملنسار اور غیر مجلسی ہے گویا یہ کہنے کے برابر ہے کہ وہ ایک بڑی استعداد (صلاحیت) کا مالک ہے۔ تنہائی اسطرح کے فرد کے لیے دوہرے طور پر فائدہ مند ثابت ہوتی ہے۔ ایک تو وہ اسے اجازت دیتی ہے کہ وہ اپنی ذات کے ساتھ وقت گزار سکے، دوسرا وہ اسے دیگر لوگوں کے ساتھ موجود ہونے سے بھی بچاتی ہے۔۔۔ ایسا فائدہ جو بہت قیمتی ہے۔ کیونکہ انسانوں کے ساتھ ربط ضبط اور میل جول میں کتنی ناگواری، جھنجھلاہٹ اور حتی کہ خطرہ موجود ہے۔۔۔“
یہ تو اگرچہ ایک ایسے فلسفی کا تجزیہ ہے جو اپنی یاسیت پسندی اور آدم بیزاری کی وجہ سے معروف تھا، مگر اسکی رائے مکمل طور پر لغو نہیں کہی جا سکتی۔
ہم انسانوں کے پاس درحقیقت بھی یہی دو انتخابات ہیں: یا تو تنہا زندگی بسر کر لیں، یا ایک دوسرے کے مزاج کے نوک دار کانٹوں کی چبھن کو برداشت کر لیں۔ کیونکہ حیات کی حرارت بہرحال ہمارے اردگرد انہی انسانوں سے ممکن ہے، ورنہ تو ایک خلا ہے جسے معدودے چند افراد کےکوئی جھیل نہیں سکتا۔
”اور ہم نے تمہیں ایک دوسرے کے لیے آزمائش بنایا اور(اے لوگو) کیا تم صبرکرو گے؟“ (سورۃ الفرقان – آیت 20)
مختلف مزاج، مختلف طبعیتوں کے حامل انسانوں کو تخلیق کر کے اسی ایک زمین پر رکھنا اور پھر ان انسانوں کا ایک دوسرے کو جھیلتے ہوئے زندگی گزارنا، ان سب میں یقیناً آزمائش ہی تو ہے۔ کوئی اس آزمائش میں کس قدر کامیاب ہوا، یہ ہر فرد کی اپنی الگ کہانی ہے جسے ما سوا اس کے کوئی نہیں جان پاتا۔