بھارت کا کسان مزدور احتجاج۔ تحریر: محمد دین جوہر

 In تاثرات

ستمبر سنہ ۲۰۲۰ء میں بھارتی پارلیمان کی طرف سے نئے کسان قوانین کی منظوری نے جس  احتجاج کو جنم دیا ہے وہ اب ایک فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ صنعتی نظامِ سرمایہ میں زراعت روایتی انسانی چہرے کے ساتھ باقی رہنے کی گنجائش رکھتی تھی، لیکن کارپوریٹ سرمایہ کسی بھی معاشی سرگرمی کو یہ گنجائش نہیں دیتا۔ صنعتی سرمائے میں انسان ایک پیداواری عامل تھا لیکن کارپوریٹ سرمائے میں انسان محض ایک خام مال ہے۔ بھارت کے موجودہ کسان احتجاج میں تین قوتیں اور دو فریق ہیں: کارپوریٹ سرمایہ اور اس کا بگل بردار جیبی میڈیا، کارپوریٹ سرمائے کی خدمتگار مرکزی بی جے پی سرکار اور کروڑوں بھارتی کسان و مزدور جن کی قیادت اس وقت  پنجاب کے سکھ کر رہے ہیں۔ بھارت میں کارپوریٹ سرمائے اور میڈیا کی مکمل حمایت سے دائیں بازو کی مرکزی حکومت کی متحدہ قوت اس قدر زیادہ ہو چکی تھی کہ وہ قانون کو کُن کی طرح نافذ کرتی چلی آئی ہے۔ لیکن کسان قوانین کی منظوری کے بعد حکومت کو پتہ چلا کہ بھارت میں جنتا نام کی ایک مخلوق بھی پائی جاتی تھی جو اچانک دھرتی سے اگ آئی ہے اور ان قوانین کے خلاف  نبرد آزما ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ باہم پیکار قوتوں میں طاقت کا عدم توازن غیرمعمولی ہے اور کسانوں کی کامیابی کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔

تاریخی طور پر، برصغیر کے تمام ملکوں میں قائم معاشی نظام برطانوی استعمار نے کھڑا کیا تھا اور معاشی استحصال اور لوٹ اس کی خلقت میں داخل رہا ہے۔ جیسا کہ اُٹسا پٹنائک کی تحقیق نے اس امر کو دستاویز بنا دیا ہے کہ برطانوی استعمار کا قائم کردہ معاشی نظام صدیوں تک انسانی  تاریخ کی سب سے بڑی لوٹ مار اورتاراج کو روا رکھنے کا کامیاب ذریعہ رہا۔ پٹنائک کہتی ہیں کہ یہ لوٹ اتنی بڑی تھی کہ اکیلا برطانیہ اس کو ”ہضم“ کرنے کے قابل نہیں تھا اور اسے لوٹ کا سرمایہ باقی یورپ اور امریکہ میں برآمد کرنا پڑا۔ ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ ہندوستان کی لوٹ سے مرتکز ہونے والا سرمایہ برطانیہ، یورپ اور امریکہ میں صنعتی انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔  یورپ کے صنعتی انقلاب نے ہندوستان کو غلام منڈی بنا کر یہاں کے استحصالی نظام کی شدت کو دوچند کر دیا۔ آزادی کے بعد برصغیر کے کسی بھی ملک نے اس نظام میں بنیادی تبدیلیاں لا کر اسے عوام دوست نہیں بنایا اور یہ کسی نہ کسی حد تک پرانے ڈھرے پر ہی چلا آتا ہے۔ آزادی کے بعد نہرو حکومت نے کچھ اشتراکی معاشی پالیسیوں کے ذریعے متوارث نظام کی شدتِ استحصال کو کچھ کم ضرور کر دیا تھا۔ سنہ ۱۹۹۲ء کی اصلاحات کے بعد سے بھارتی معیشت میں کارپوریٹ سرمائے کی قوت بتدریج بڑھتی چلی گئی تآنکہ موجودہ صورت پر منتج ہوئی۔ 

گزشتہ ربع صدی میں لاکھوں بھارتی کسان اپنی معاشی تباہی کے ہاتھوں خود کشی کر چکے ہیں۔  یہ صورت حال جنوب میں زیادہ تھی اور اب بھارتی پنجاب بھی اس کی گرفت میں آ رہا تھا۔ گزشتہ صدی کے اواخر تک معاشی اعتبار سے پنجاب بھارت کی اول درجے کی ریاست رہا لیکن کارپوریٹ سرمائے کے عروج کے ساتھ پنجاب کی یہ حیثیت ختم ہو گئی۔ بھارت کے جمہوری نظام میں کارپوریٹ سرمائے کے بڑھتے ہوئے غلبے میں مزدوروں اور کسانوں کی شدید بدحالی کسی بھی سیاسی جماعت کا ایجنڈا نہ بن سکی۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ احتجاج کسانوں کی چار سو سے زائد تنظیموں کی مشترکہ قیادت میں سامنے آیا ہے۔ کسانوں نے ہر نوع کی سیاسی قیادت کو احتجاج سے دور رکھا ہے تاکہ ان کا ضروری مسئلہ سیاست بازی کی نذر نہ ہو جائے۔ اگر نئے فارم قوانین منسوخ نہ ہوئے تو بہت جلد ساری زرعی زمینیں کارپوریشنوں کی ملکیت میں چلی جائیں گی اور بے زمین کسان ان کارپوریشنوں کا معاشی ایندھن ہوں گے۔

موجودہ کسان احتجاج کو تاریخی تناظر میں دیکھنا بھی مفید ہو گا۔ ہندوستان کے دہلی مرکز میں قائم طویل مسلم اقتدار کے خلاف جاندار سیاسی مزاحمت صرف مرہٹوں اور پنجابیوں میں سامنے آئی تھی۔ ”سیاسی مزاحمت“ سے ہماری مراد ایسی جدوجہد ہے جو آخرکار اقتدار کے حصول اور سلطنت کے قیام پر منتج ہوئی ہو۔ اٹھارھویں صدی میں قائم ہونے والی مرہٹہ اور سکھ ایمپائرز اسی مزاحمت کے مظاہر تھے۔ مسلم اقتدار کی طرح بعد ازاں یہ دونوں سلطنتیں بھی استعمار کا چارہ بن گئیں۔ تقسیم برصغیر کے بعد بھارت میں مرہٹہ اور پنجابی فعال سیاسی عناصر کے طور پر سامنے آئے۔ مہاراشٹر نہ صرف مہا سرمائے کا مرکز اور نمائندہ ہے بلکہ ہندو احیا کی تحریکوں کا مرکز بھی ہے۔ پنجاب ایک زرعی صوبہ ہونے کی حیثیت سے انسانی محنت کا نمائندہ رہا ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں میں تیزتر معاشی اور سیاسی تبدیلیوں کے باعث بھارت مہاسرمائے کی گرفت میں چلا گیا۔ اور پنجاب کا کسان بھی کارپوریٹ سرمائے کے سامنے اپنی زندگی کی جنگ لڑ رہا ہے۔ یہ دیکھنا مشکل نہیں کہ مرہٹہ اور سکھ برصغیر میں جس طرح مسلم مخالف مزاحمت کے فعال ترین عنصر رہے ہیں، اسی طرح  تقسیم کے بعد بھی انہوں نے اپنی حیثیت کو باقی رکھا، اور اب بھارت کے دو فعال ترین سیاسی عناصر، یعنی پنجابی اور مرہٹے ایک دوسرے کے بالمقابل ہیں۔ پنجاب اور مہاراشٹر کا قومی سیاست و معیشت میں بالمقابل ہونا بھارتی قومی زندگی کے لیے گہرے مضمرات رکھتا ہے۔ یہاں اس امر کا ذکر کرنا مناسب ہو گا کہ اپنی مذہبی شناخت کے مسئلے پر اختلاف کی وجہ سے سکھ نمائندوں نے بھارتی آئین پر دستخط نہیں کیے تھے۔  ہندو احیائی سیاست اور کارپوریٹ سرمائے کے غلبے میں پنجاب کے لیے اپنی حیثیت کو باقی رکھنا اب ایک کٹھن جدوجہد اور آدرش بن چکا ہے۔ 

کارپوریٹ سرمائے کی پیشرفت میں میڈیا اور جدید ریاست کا رول حد درجہ اہم ہے۔ کارپوریٹ میڈیا عوامی سوچ کو کارپوریٹ سرمائے کے لیے ہموار کرتا ہے جبکہ جدید قومی ریاست قانون سازی کے ذریعے سرمائے کی تاراج کو جواز فراہم کرتی ہے۔ اس وقت بھارت میں میڈیا اور ریاست دونوں مقامی اور عالمی کارپوریٹ سرمائے کے مہرے کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ کارپوریٹ سرمایہ ہر مخالفت کو خرید لیتا ہے یا بھرتی کر لیتا ہے یہانتک کہ میڈیا اور ریاست بھی اس کے کارندے بن جاتے ہیں۔ اپنی ہمہ گیر قوت کے پیش نظر کارپوریٹ سرمایہ عوام دشمن اور انسان دشمن ایجنڈے کو ترقی وغیرہ کے نام پر آگے بڑھانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ بھارت کے قومی منظرنامے میں اس وقت پورا میڈیا، بولی وڈ کے فنکار، اینکرز اور تجزیہ کار، دانشور اور سیاستدان کسان احتجاج کے خلاف سرمائے کی خدمت میں ڈٹے ہوئے ہیں۔ لیکن پنجاب کے فنکار اور چند ایک باضمیر قومی دانشور کسان احتجاج کی حمایت کر رہے ہیں۔ کارپوریت سرمائے، میڈیا اور قومی ریاست کے گٹھ جوڑ کی مایوس کن صورتحال میں کسانوں کا احتجاج برصغیر کی تاریخ کا ایک غیر معمولی واقعہ ہے۔ اور یہ احتجاج بھارتی کسانوں کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے، اور ان کی کامیابی اور ناکامی کے اثرات برصغیر کے تمام ملکوں پر مرتب ہوں گے۔

بھارتی کسانوں کی پر امن جدوجہد نے جس عوامی آرٹ، خصوصاً موسیقی اور گلوکاری کو جنم دیا ہے وہ مزاحمتی ادب و فن کی تاریخ میں یاد رکھا جائے گا۔ کسانوں کی اس کانٹے کی جدوجہد میں جو گلوکار و فنکار سرمائے اور غاصب حکومت کے ساتھ کھڑے ہوئے ان کی حیثیت بھی اس مزاحمتی فن میں طے ہو گئی ہے، اور انہیں میر جعفر و میر صادق کی قبیل کے لوگوں میں شمار کیا جا رہا ہے۔ شاعروں، فنکاروں اور گلوکاروں نے اپنے فن کے ذریعے میڈیا کی دیوثی اور معاشی سسٹم کے جبر کا جو عوامی شعور پیدا کیا ہے اس پر ہزاروں دانشوریاں قربان کی جا سکتی ہیں۔ پنجاب اور ہریانہ کے فنکار جس طرح عوام کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں وہ چشم کشا ہے۔

ارون دھتی رائے نے کسانوں اور مزدوروں کے احتجاج کے سامنے تقریر کرتے ہوئے اپنی تاخیر سے شرکت کی وجہ یہ بتائی کہ اسے تو پہلے ہی ملک دشمن اور دہشت گرد کہا جاتا ہے، اور وہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کی شرکت سے کسان کاز کو نقصان پہنچے۔ اب جبکہ کسان احتجاج کو بھی ملک دشمن، دہشت گرد اور خالصتانی قرار دیا جا چکا ہے، اس کی شرکت میں کوئی رکاوٹ نہ رہی تھی۔ اس نے کسانوں اور مزدوروں کو یہ خطابات ملنے پر مبارکباد پیش کی۔ رائے نے آدی واسیوں، مزدوروں اور کسانوں کے طویل استحصال اور جبر کا ذکر کیا اور ان کی جدوجہد کی ناکامی کے بارے میں بتایا۔ رائے کے خیال میں مظلوم طبقات کی قیادت کرنے والا کوئی نہ تھا، اور اب پنجاب کے کسانوں کی صورت میں ان طبقات کو ایک ایسی قیادت میسر آئی ہے جو ہار نہیں سکتی۔ رائے کا ماننا تھا کہ پورے ملک کے محکوم طبقات کی امیدیں اب پنجاب کسانوں کی جدوجہد سے وابستہ ہیں کیونکہ وہ اپنے حقوق کے لیے لڑنا جانتے ہیں اور دہلی تک آ پہنچے ہیں۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ وہ لوگ زندگی بھر جو کچھ پڑھتے اور لکھتے رہے کسان اندولن نے اسے ایک حقیقت بنا دیا ہے۔ انہوں نے سیاستدانوں کو عوام کے ووٹوں کا تاجر اور بروکر قرار دیا جو کامیابی کے بعد عوام کے ووٹوں کو انبانیوں اور اڈانیوں کے ہاتھ اچھے نرخوں پر فروخت کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مظلوم عوام کی جدوجہد اب ایک آفاقی دور میں داخل ہو چکی ہے کیونکہ پنجاب کے کسان نے اب پورے ہندوستان کے مقہور عوام کو نمائندہ قیادت فراہم کر دی ہے۔

Recommended Posts
Comments
  • Manzar Faraz Manzar
    جواب دیں

    MasahAllah sir g praoud of you

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search