دنیا کی سب سے بڑی ڈی مین کریزی کا مقابلہ کرتے کشمیری۔ بلال حسن بھٹی

 In تاثرات

ارُندھتی رائے انڈین ادیب، ایکٹیوسٹ اور صحافی ہیں۔ ان کا پہلا ناول ’گاڈ آف سمال تھنگز‘ 1997 میں شائع ہوا اور مین بُکر ایوارڈ حاصل کیا۔ گاڈ آف سمال تھنگز کا ترجمہ ’سسکتے لوگ‘ کے نام سے چھپ چکا ہے۔ ان کا دوسرا ناول دو دہائیاں بعد ’منسٹری آف اٹموسٹ ہیپی نیس‘ کے نام سے شائع ہوا۔ اس کا ترجمہ ’بےپناہ شادمانی کی مملکت‘ کے عنوان سے ارجمند آرا نے کیا اور آج پبلیکیشن، کراچی نے اسے شائع کیا ہے۔ اس کے علاوہ وہ کئی نان فکشن کتابیں لکھ چکی ہیں۔ مجھے رائے کی نان فکشن کو پڑھنا فکشن پڑھنے سے زیادہ پسند ہے کیونکہ نان فکشن منطق اور اعداد و شمار کے ساتھ مل کر ایک مضبوط بیانیہ بناتی ہے۔ ان کے مضامین فکر کو بدلنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ رائے کے مضامین کو پڑھتے ہوئے تیسری دنیا کے مجھ جیسے نوجوانوں کو عجیب شرمندگی محسوس ہوتی ہے۔خاص کر وہ لوگ جو اپنے ملک کے اندر ہونے والی ظلم، زیادتی، انتہا پسندی اور اقلیتوں پر ہونے والے تشدد کے خلاف بولنے کی ہمت تو نہیں رکھتے لیکن انڈیا یا دیگر مخالف ملکوں میں ہونے والی ایسی سب باتوں پر شور مچاتے ہیں۔ جو بیانیہ رائے کشمیر پر اپناتی ہیں اور ہم لوگ اسے بہت پذیرائی دیتے ہیں، جب وہی منطق بلوچستان کی طرف آتی ہے تو اس پر بات کرنے سے ہمارے پَر جلنا شروع ہو جاتے ہیں۔

رائے کی فکشن میں وہ روانی مفقود ہوتی ہے جو ان کے مضامین میں نظر آتی ہے۔ شاید پوری دنیا میں مارکیز جیسی رواں نثر اور سحر انگیز حد تک اپنی طرف متوجہ کرنے والی داستان گوئی کسی اور صحافی ادیب کے حصے میں نہیں آئی۔ ہیمنگوئے بھی اپنا الگ مقام رکھتے ہیں۔ رائے کی افسانوی نثر اس قدر بوجھل محسوس ہوتی ہے کہ کئی کوششوں کے بعد بھی ایک کتاب مکمل کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ گاڈ آف سمال تھنگز میں یہ چیز زیادہ نظر آتی ہے۔ ”مملکت“ پڑھتے ہوئے بھی بعض جگہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ رائے بہت ساری معلومات اس میں کھپانا چاہتی ہیں۔ ولادت اور ڈاکٹر آزاد بھارتیہ والے دو ابواب پڑھتے ہوئے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ یہ رائے کے مضامین کا ہی سلسلہ ہے۔ ”مملکت“ ایک ایسا ناول ہے جسے رائے نے دو دہائیوں تک اپنے سیاسی اور انسانی حقوق کے ایکٹیوزم کے دوران سینچا ہے۔ چھوٹی چھوٹی کہانیاں بیان کر کے اس ناول کے ذریعے رائے نے ہندو انتہا پسندوں کے بڑھتے ہوئے جنون کے خلاف ایک مضبوط بیانیہ کھڑا کیا ہے۔چونکہ لمبے عرصے سے رائے کشمیر کی آزادی کے لیے متحرک رہی ہیں اس لیے یہ ناول مجاہدین کے کشمیر سے نکل کر برہان وانی کے کشمیر میں ہونے والی جدوجہد کی کہانی تمام تر تفصیل کے ساتھ قاری کے سامنے رکھتا ہے۔ ایک عام غیر ملکی قاری کے لیے بھی اس ناول میں انڈیا کے بارے میں اس قدر معلومات موجود ہیں کہ اگر ایک ایک واقعہ پر مزید تحقیق شروع کی جائے تو اس سے معلومات اور کاغذات کے کئی دفتر بھرے جا سکتے ہیں۔

انڈیا میں ہیجڑوں کی زندگی کے احوال، لینڈ مافیا کے طریقہ ، للا جیسے گجرات کے انتہا پسند کا نئے انڈیا کا چہرہ بننا، انا کے احتجاج کا احوال، کشمیریوں پر ہونے والے مظالم اور کیمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے ممبر کی تلخ زندگیوں کے احوال جا بجا ناول میں بکھرے پڑے ہیں۔ تیسری دنیا میں ایک مشق جو حکومتوں کے تختے الٹنے کے لیے بہت شدت سے دہرائی جا رہی ہے وہ کرپشن کے نام پر ناپسندیدہ حکومتوں کو چلتا کر کے سرمایہ داروں کے پٹھوؤں کو لا بٹھانا ہے۔ جو بظاہر تو سفید سیاہ کا مالک ہو لیکن اس کے ہینڈلر بڑی بڑی کمپنیوں کے سرمایہ دار ہوتے ہیں۔ انڈین اقتصادی معجزے کا مسیحا سمجھے جانے والے ”خرگوش“ کی حکومت کو کس طرح گجرات کے للا نے، انا ہزارے کی کمپیئن سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مفلوج کر دیا یہ ہم پاکستانیوں کے لیے بھی اپنا سا قصہ محسوس ہوتا ہے۔ چیختے چنگھاڑتے رپورٹر کس طرح کرپشن کی پروجیکشن کر کے منی پوری قوم پرستوں کے مطالبات، تبتی پناہ گزینوں کی آزاد تبت کی مانگ، ان ماؤں کی انجمن جن کے ہزاروں بیٹے کشمیر کی جنگ میں لاپتہ کر دیے گئے تھے یا ان جیسے دیگر عوامی ایشوز یوں نظر انداز کر دیے جاتے ہیں جیسے کرپشن کے خلاف اس بڑے احتجاج میں وہ وجود ہی نہ رکھتے ہوں۔

بنیادی طور پر رائے اس کہانی کے ذریعے سیکولر اور نئی ابھرتی بین الاقوامی طاقت کی شہرت پانے والی انڈین اقتصادی قوت کی حقیقت کو بے نقاب کرتی ہیں۔ انڈین بیوروکریسی کے ایک اعلی عہدیدار گارسن ہوبارٹ کے ذریعے جس طرح کے کشمیر اور انڈیا کی تصویر دکھائی گئی ہے وہ بہت بھیانک ہے۔ وہ سیکولر انڈیا جس میں ہندو قوم پرستوں نے ایسا زہر بھر دیا ہے کہ لوگ مذہبی عقیدے اور دیش بھکتی کے فرق کو سمجھنے کے اہل نہیں رہے۔ ایک جگہ گارسن ہوبارٹ کہتا ہے کہ ” ان میں زیادہ تر لوگ تنگ نظر، چھپے ہوئے برہمن ہیں۔ جو اپنے سفاری سوٹوں کے اندر پوتر جنیئو پہنتے ہیں اور ان کی دھارمک چوٹیاں اُن کی سبزی خور کھوپڑیوں میں اندر کی طرف لٹکتی ہیں۔ وہ مجھے اس لیے برداشت کر لیتے ہیں کیونکہ میں ان کی طرح برہمن ہوں“ـ گجرات کے للے کی حکومت کے بعد ابھرتا بھارت ایسا بھارت ہے جہاں چماروں کو عام سی لڑائی پر گاؤ کشی کا الزام لگا کر مار دیا جاتا ہے۔ جہاں مسلمان اب محفوظ نہیں ہیں۔ جہاں امیر تو امیر تر ہوتا جا رہا ہے لیکن غریبوں کو لوٹنے اور ان کی بوٹیاں نوچنے والے بہت سے لوگ ہیں۔

ناول کی زبان کو دھو کر صاف شفاف نہیں کیا گیا بلکہ ہر کردار اپنا الگ انداز بیاں اور الفاظ کا ذخیرہ رکھتا ہے۔ تکنیک کے ذریعے کہانی کے پلاٹ کو بہت جاندار طریقے سے آگے بڑھایا گیا ہے۔ رائے کی منظر نگاری میں اکثر ایک عجیب تلخی محسوس ہوتی ہے۔ شاید یہ اس کے کرداروں اور کہانی کا تقاضا ہوتا ہے۔ دہلی سے لے کر کشمیر تک پھیلا ہوا یہ ناول خواب گاہ اور جنت کے رہائشیوں کی کہانیاں سناتا ہے۔ انجم جیسے ہجڑے، صدام جیسےچمار، ریتو جیسی نیگرو شباہت رکھنے والی، ضیا جیسے امام، ڈاکٹر آزاد بھارتیہ جیسے بھوکے، موسی جیسے کشیری حریت پسند، ناگا جیسے ریاستی صحافی اور گارس ہوبارٹ جیسے بیوروکریٹ کے کردار ناول کے بیانیے کو گہرا اور وسیع اور تیسری دنیا کی حقیقی کہانی بنا دیتے ہیں۔ ناول کے اختتام پر کیمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی تیلیگو رکن مس ریوتی کا خط پڑھ کر ایک الگ انڈیا کی تصویر ابھرتی ہے، جو ٹی وی کی چکا چوند سے دور سیکولر ہندوستان کی حقیقت کو عیاں کرتی ہے۔

”مملکت“ میں کشمیر میں موجود آزادی کے پروانوں کی پچھلی دو دہائیوں میں کی جانے والی جدوجہد کو بہت تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ کشمیر جو کشمیریوں، ہندوستانیوں، چینیوں، پاکستانیوں، گوجر، ڈوگرے، پشتون، شِن، لداخی، بلتی، گلگتی، پوریکی، واخی،یشکون، تبتی، منگول، تاتار، مون اور خووار کا گھر ہے۔ کشمیر کی جدوجہد کو ناول میں دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ نوے کی دہائی اور اس کے بعد کی جدوجہد سے موازنہ کر کے آنے والی پیلٹ زدہ کشمیری نسل کو آزادی کی ایک نئی لہر کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔ جو پیلٹ گن سے اپنی ایک آنکھ اندھی کروا کر اور ایک ٹانگ زخمی کروا کر بھی پتھروں سے لڑنے کا جذبہ رکھتے ہیں۔ جو اس جدوجہد سے مختلف ہے جس میں کشمیریوں کو پاکستانی مجاہدین کی حمایت حاصل تھی۔ جب خود انڈین فوج پیسے لے کر مجاہدین کو وادی میں داخل ہونے کا راستہ دیتی تھی اور دو تین سال کے اندر اندر اپنی طاقت ور انٹیلیجنس کے ذریعے ان کو ختم کر دیتی تھی۔ نوے کی دہائی میں کیوں کشمیری اپنی جدوجہد کے بہترین دور میں آزادی حاصل نہیں کر سکے، اس کو سمجھنے کے لیے یہ اقتباس کسی حد تک بہت اہم ہے۔

” ایمان والے اپنی اپنی بندوقیں، اپنی اپنی تسبیحیں اور اپنی اپنی تباہی کا منشور اپنے ساتھ لے کر آتے تھے“۔ ” کشمیر میں داخلی خبط، جہاد کا تصور، پاکستان اور افغانستان سے رس کر آیا ہے۔ پچیس سال کا عرصہ گزر چکا ہے کہ حقیقی اسلام کے آٹھ یا نو دعویدار گروہ کشمیر میں جہاد کر رہے ہیں۔ اور میرا خیال ہے کہ اس سے ہمیں فائدہ ہی ہوا ہے۔ ہر گروہ میں ملاؤں، مولاناؤں کا اپنا اپنا اصطبل اور طویلہ ہے۔ ان میں جو گروہ سب سے زیادہ شدت پسند ہیں۔ جو وطن پرستی کے خلاف اور عظیم الشان امت اسلامی کے تصور کی تبلیغ کرتے ہیں، دراصل ہمارے تنخواہ داروں کی فہرست میں ہیں۔ ان میں سے ایک کو حال ہی میں اپنی مسجد کے باہر بائیسیکل بم سے اڑا دیا گیا۔ اس کی جگہ دوسرے کو بھرتی کرنا مشکل نہیں ہو گا۔ جو شے کشمیر کو پاکستان اور افغانستان کی طرح از خود تباہ ہونے سے روکے ہوئے ہے وہ یہاں کی پیاری پیٹی بورژوا سرمایہ داری ہے۔ اپنی تمام تر مذہب پرستی کے باوجود کشمیری لوگ بڑے زبردست تاجر ہیں۔ اور آخر تو تمام تاجر کسی نہ کسی طرح حالات کو جوں کا توں برقرار رکھنے میں ہی اپنی بھلائی دیکھتےہیں۔ جسے ہم پیس پروسیس کہتے ہیں۔ جو بہرحال امن سے مختلف، تجارت کا ایک الگ ہی طرح کا موقع ہے“۔

کشمیریوں کے جوش اور جذبے سے نمٹنے کے لیے جو حکمت عملی انڈین فورسز اپناتی ہیں وہ یہ ہے کہ کشمیریوں کے غصے کو لاوا نہ بننے دو۔ اگر وہ غصہ لاوا بن کر پھٹا تو وہ سب کچھ جلا دے گا۔ اس لیے وہ کہتے ہیں کہ ” تلخ تجربوں سے ہم یہ سیکھ چکے تھے کہ لوگوں کو اپنے جذبات کا غبار نکالنےاور گاہے بگاہے نعرے لگانے دینے سے یہ فائدہ ہو گا کہ ان کا غصہ جمع ہو کر غیظ و غضب کی ناقابل عبور چوٹی نہیں بن سکے گا۔ کشمیر میں ایک چوتھائی صدی کی شورش میں اس طریقے نے اب تک فائدہ ہی پہنچایا ہے۔ کشمیری ماتم کرتے تھے، روتے تھے، نعرے لگاتے تھے، لیکن آخر میں ہمیشہ اپنے گھروں کو لوٹ جاتے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ جیسے جیسے بتدریج عادت میں بدلتا گیا، ایک قابل پیش بینی، قابل قبول سلسلے میں بدلتا گیا، ان کا اپنے اوپر اعتماد ختم ہونے لگا، وہ خود کو، اپنے فوری جوش و غضب کو اور اپنی آسان سپردگیوں کو تحقیر کی نظر سے دیکھنے لگے۔ یہ بلا منصوبہ فائدہ تھا جو ہمیں ملا تھا“۔

”کشمیر میں جب ہم صبح کو جاگتے ہیں اور good-morning کہتے ہیں تو ہماری مراد در اصل میں good-mourning (ماتم بخیر) ہوتا ہے“

کشمیریوں کے لیے موت کوئی اجنبی شے نہیں رہی بلکہ وہ تو ان کے جینے کا قرینہ بن گئی ہے۔

” موت ہر جانب تھی، موت ہر شے تھی۔ کرئیر۔ آرزو۔ خواب۔ شاعری۔ عشق۔ خود جوان بھی۔ موت جیسے جینے کا قرینہ بن گئی۔ قبرستان اُگ آئے، پارکوں اور چراگاہوں میں، چشموں اور ندیوں کے ساحلوں پر، کھیتوں اور جنگلوں کے سبزہ زاروں میں۔ قبروں کے کتبے زمین سے یوں اگنے لگے جیسے چھوٹے بچے کے دانت۔ ہر گاوں، ہر بستی کا الگ الگ قبرستان بن گیا۔ جہاں نہیں بنا لوگ اس پر پریشان تھے کہ کہیں انھیں دشمن کا شراکت دار نہ سمجھا جائے۔ دور دراز کے سرحدی علاقوں میں، لائن آف کنٹرول کے نزدیک، جس رفتار اور تسلسل سے لاشیں برآمد ہو رہی تھیں، اور ان میں سے بعض کا جو حال ہوتا تھا، اس سے نمٹنا آسان نہ تھا۔ ان میں بعض بوریوں میں بھر کر بھیجی جاتیں، بعض پلاسٹک کی چھوٹی تھیلیوں میں، گوشت کے چند لوتھڑوں، بالوں اور دانتوں کی صورت میں۔ موت کے رسد رساں ان کے ساتھ کاغذ کی پرچیاں نتھی کر کے بھیجتے: ایک کلو، پونے تین کلو، پانچ سو گرام“ـ

رائے دنیا کی سب سے بڑی ڈی مین کریزی کے انسان دشمن سرمایہ داروں اور سیاستدانوں کے خلاف ایک توانا آواز ہیں۔ اس ناول میں ہم رائے کی انسانی حقوق کے لیے کی جانے والی بیس سالہ جدوجہد کو دیکھ سکتے ہیں۔ آخر میں رائے کے اس تھیسز سے اتفاق کیے بنا چارہ نہیں ہے کہ تمام تر فاشسٹ اپروچ کے باوجود انڈین فورسز کشمیریوں کے جذبہ حریت کو کم نہیں کر پائے بلکہ پتھروں اور ڈنڈوں سے مسلح ایک نئی نسل اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کے لیے تیار بیٹھی ہے۔

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search