کوئلے کی کان میں فاختہ – طارق عباس

 In تاثرات
مضمون کا عنوان Canary     in     the     Coal     Mine سے مراد کسی خطرے سے بر وقت آگاہی ہے جیسی آگاہی سنوڈن نے اپنی جان پر کھیل کر ہمیں دی۔ یہ استعارہ اس وقت سے متعلق ہے جب کوئلوں کی کان میں کام کرنے والے کان کنُ اپنے ساتھ پنجرے میں قید فاختہ لے جایا کرتے تھے، اور کان میں اگر میتھین یا کاربن مونو آکسائیڈ گیس ہوتی تو فاختہ اس وقت سے پہلے مر جاتی تھی جب گیس اس سطح کو پہنچ پاتی جو انسانوں کیلئے جان لیوا ہوتی۔

ہالی ووڈ کے مشہور اداکار جم کیری کی 1998 میں ریلیز کی گئی فلم The     Truman     Show ایک ایسے کردار کی کہانی ہے جو بظاہر ایک عام زندگی گزار رہا ہوتا ہے لیکن حقیقت میں اس کا گھر ایک بہت بڑا اسٹوڈیو ہوتا ہے جہاں جگہ جگہ خفیہ کیمرے لگے ہوتے ہیں، اور اس کی زندگی میں موجود تمام افراد دراصل اداکار ہوتے ہیں۔ ٹرو مین سمجھتا ہے کہ وہ ایک عام انسان ہے جو کہ ایک عام زندگی جی رہا ہے لیکن اسے بالکل بھی اندازہ نہیں ہوتا کہ اس کی پیدائش سے اس کے جوان ہونے تک اس کی زندگی کا ایک ایک لمحہ دراصل ایک مشہور ٹی وی پروگرام ہے جو کہ The     Truman     Show کے نام سے ایک چینل پر بلا تعطل چوبیس گھنٹے نشر ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ اس چینل کی اشتہار کی مد میں آمدنی بھی ان اشیاء کے ذریعے ہوتی تھی جو ٹرومین استعمال کرتا تھا۔ مثلاً اگر کسی ٹوتھ پیسٹ کا اشتہار دکھانا مطلوب ہوتا تو اسے ٹرو مین کے باتھ روم میں رکھ دیا جاتا اور ٹرومین کے استعمال کے دوران اس ٹوتھ پیسٹ پر کیمرہ فوکس کر دیا جاتا۔ اسی طریقے پر اشیائے خورد و نوش کے اشتہارات دکھائے جاتے۔ اس سارے دلچسپ پروگرام میں بس ایک بات غیر قانونی تھی، اور وہ یہ تھی کہ ٹرومین کو اس حقیقت کا علم نہیں تھا کہ اس کی زندگی دراصل ایک ٹی وی شو ہے اور اس کے علم میں لائے بغیر اور بنا اس کی اجازت کے اس کی تمام سرگرمیاں ریکارڈ کی جا رہی ہیں۔
اس فلم کی ریلیز کے قریب پندرہ برس بعد 2013 میں امریکی سکیورٹی ادارے NSA کے ایک سسٹم انجینئر ایڈروڈ سنوڈن نے اس وقت تمام دنیا کو حیرت اور خوف میں مبتلا کر دیا جب انہوں نے یہ انکشاف کیا کہ اِس وقت تمام دنیا کے انسان شاید ٹرومین سے مختلف زندگی نہیں گزار رہے۔ سنوڈن کے الفاظ جو اب اس کا سلوگن بھی بن چُکے ہیں، کچھ یوں تھے: ”میں ایسی دنیا میں رہنا پسند نہیں کروں گا جہاں میری ہر بات، ہر عمل، مکالمہ، تخلیق، یہاں تک کہ میری دوستی اور محبت بھی باقاعدہ ریکارڈ ہو رہی ہے۔“
سنوڈن کے مطابق ہر ملک جس کا آپ سفر کرتے ہیں، ہر وہ چیز جو آپ خریدتے ہیں، جو کال آپ کرتے ہیں، ہر وہ فون ٹاور جس کے پاس سے آپ گزرتے ہیں، آپ کے دوست احباب، آپ کے لکھے گئے مضامین، آپ کی دیکھی گئی ویب سائٹس، آپ کا گوگل پر لکھا گیا ایک ایک لفظ، آپ کا راؤٹ کیا گیا ایک ایک پیکٹ؛ اُس نظام کے ہاتھ میں ہے جو لا متناہی طاقت کا حامل ہے اورجس کے مدمقابل کوئی بھی کبھی بھی نہیں آ سکتا۔
ایڈورڈ سنوڈن کون ہیں، اُن کی وجۂ شہرت کیا ہے، جو معلومات انہوں نے تمام دنیا تک اپنے شاندارکیریئر اور زندگی کو داؤ پر لگا کر پہنچائیں،وہ کیا تھیں اور ہمارے لئے اُن کی اہمیت کیا ہے، آئیے دیکھتے ہیں:
ایڈورڈ جوزف سنوڈن 21 جون 1983 کو امریکہ میں پیدا ہوئے۔ ہائی سکول ڈپلومہ مکمل کرنے کے بعد انہوں نے کمپیوٹر سائنس کی چند سرٹیفیکیشنز حاصل کیں اور یہی سرٹیفیکیٹ بالآخر ان کے روزگار کا ذریعہ بنے۔ ان کے پاس انڈر گریجویٹ ڈگری نہیں تھی، یونیورسٹی آف لیور پول لنڈن کے آن لائن ڈگری پروگرام میں انہوں نے ماسٹرز آف کمپیوٹر سائنس پروگرام میں اپلائی کیا تھا لیکن اسے بھی وہ مکمل نہیں کر پائے۔ اس نا مکمل سے تعلیمی بیک گراونڈ کے باوصف اپنی خدداد صلاحیتوں کے بل بوتے پروہ امریکہ کی ایک مشہور کنسلٹنسی کمپنی Booz      Allen     Hamilton میں بطور کنٹریکٹر ملازم ہوئے اور امریکہ کی سیکیورٹی ایجنسی NSA کیلئے بطور Infrastructure     Analyst کام کیا۔ اور اس دوران وہ system     administrator بھی رہے، اور بقول سنوڈن جب آپ NSA جیسے ادارے میں system     administrator یا اسی سطح کے کسی اور عہدے پر تعینات ہوتےہیں، تو آپ کے پاس معلومات کی privileged     access ہوتی ہے۔ اور اس رسائی کے ذریعے آپ کسی بھی انسان کی پرائیویٹ زندگی کی وہ چیزیں تک دیکھ پاتے ہیں جو وہ شخص کسی بھی قیمت پر کسی کو بھی معلوم نہیں ہونے دینا چاہے گا۔اور ایسا جب آپ روزانہ کی بنیاد پر دیکھتے ہیں تو اچانک آپ کو یہ محسوس ہونے لگتا ہے کہ یہ ٹیکنالوجی کا نہایت غیر اخلاقی اورغلط استعمال ہے۔ اور جب آپ اپنے دفتری ساتھیوں سے اس بارے میں بات کر تے ہیں تو وہ اس کو سنجیدگی سے نہیں لیتے کیونکہ یہ اُن کیلئے ایک روز کا معاملہ ہوتا ہے۔ لیکن کسی غلط کام کو مسلسل اپنے سامنے ہوتا دیکھ کر آپ مسلسل اس پر بات کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اور جتنا زیادہ آپ اس موضوع پر ارباب اختیار سے بات کرتے ہیں اتنی ہی مرتبہ آپ کو بتایا جاتا ہے کہ یہ بالکل ٹھیک ہے اور ہماری قومی سلامتی کی غرض سے کیا جا رہا ہے۔اسی کیفیت میں رہتے رہتے بالآخر ایک ایسا وقت آیا جب مجھے یوں لگا کہ کیا ٹھیک ہو رہا ہے اور کیا غلط، یقیناً یہ حکومت طے نہیں کر سکتی ،اور چونکہ امریکہ ایک جمہوری ریاست ہے، لہذا اس کا فیصلہ امریکی عوام ہی کر سکتی ہے۔ (اگرچہ بعد میں سنوڈن نے اس امر کا اظہار کیا کہ امریکہ کو جمہوری ریاست کہنا ایک مذاق سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے۔ جمہوری تو بہت دور، اسے سوائے totalitarian کے کوئی اور نام نہیں دیا جا سکتا)۔
سنوڈن کے مطابق کوئی بھی حساس ادارہ خصوصاً جو جاسوسی سے متعلق ہو، ہمیشہ اپنے آپ کو خود ہی اس بات کی سندجاری کر دیتا ہے کہ جو کچھ بھی وہ کر رہے ہیں وہ غیر اخلاقی نہیں ہے اور قومی مفاد میں ہے۔ surveillance کے ابتدائی دور میں سکیورٹی ادارے چند مخصوص لوگوں پر نظر رکھتے تھے، لیکن موجودہ صورتحال بہت خوف ناک ہے۔ NSA کی موجودہ روش یہ ہے کہ وہ ’ہر‘ شخص کی communication کوریکارڈ کرتی ہے۔ اس لیئے کہ ہر ایک پر نظر رکھنے کا یہ سب سے آسان طریقہ ہے۔ اپنے تجربے کا ذکر کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ میں، اپنے ڈیسک پر بیٹھا ہوا، کسی بھی شخص کا ڈیٹا دیکھ سکتا تھا، اور اس کیلئے مجھے سرچ باکس میں صرف اس شخص کا ای میل ایڈریس ڈالنا پڑتا تھا، اور میرے سامنے اس شخص سے متعلق ہر طرح کی معلومات آ جاتی تھیں؛ وہ شخص کہاں جاتا ہے، کیا کرتا ہے، اس کے رابطے میں کون لوگ ہیں، اور وہ معلومات بھی، جو عموماً ہم سمجھتے ہیں کہ محفوظ ہیں، جیسے ہماری ای میلز، یا فیس بُک کا میسنجر، مکمل طور پر میری پہنچ میں ہوتی تھیں۔ اس کی فون کالز بھی میں سن سکتا تھا، ویڈیو پر وہ شخص اگر کہیں بھی نمودار ہؤا ہے تو وہ بھی میری پہنچ میں تھی، مختصراً یہ کہ میری میز پر موجود کمپیوٹر کیلئے کسی شخص کے پبلک اور پرائیویٹ ڈیٹا میں کوئی فرق نہیں تھا۔ کوئی اپنے کمرے میں بیٹھ کر کسی کے ساتھ اگر کوئی رومانوی گفتگو کر رہا ہے یا ویڈیو پر رابطے میں ہے، اور دروازہ بند کرکے یا کمپیوٹر کو پاس ورڈ لگا کر وہ اپنے آپ کو محفوظ سمجھ رہا ہےتویہ اس کی خام خیالی ہے۔
سنوڈن سے ایک انٹرویو میں یہ پوچھا گیا کہ بہت سے لوگ آپ کے اس انکشاف کو شاید زیادہ اہمیت نہیں دیں گے کیونکہ ان کے خیال میں ان کا تمام ڈیٹا اکٹھا ہو جانے کے باوجود ایجنسییوں کو ان کے خلاف کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ کیونکہ بہت زیادہ تعداد واقعتاً اُن افراد کی ہے جو کسی بھی ایسی سرگرمی میں ملوث نہیں ہوتے جو کہ حکومت کے مفادات کے خلاف ہو۔ لیکن اس سوال کا بھی سنوڈن نے چشم کشا جواب دیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ چاہے آپ کچھ غلط نہیں بھی کر رہے، اس کے باوجود آپ پر مسلسل نظر رکھی جا رہی ہے اور ہر ہر فعل ریکارڈ کیا جا رہا ہے۔ اور بالآخر آپ کسی بھی مشکوک سرگرمی میں ممکنہ طور پر ملوث پائے جا سکتے ہیں، یا ’’کیے‘‘ جا سکتے ہیں۔ ایک رانگ نمبر آپ کو کال کرتا ہے، آپ پر شک کیا جاتا ہے، سسٹم آپ کے ماضی کا تجزیہ کرتا ہے، آپ کی گفتگو، فون کالز، گوگل سرچ وغیرہ سے آپ کو مشکوک بنا کر آپ کو وہ ثابت کیا جاتا ہے جو آپ کبھی تھے ہی نہیں۔
کچھ لوگ شاید اس بات پر یقین نہ کریں کہ اس قدر ڈیٹامحفوظ کرنا ممکن ہو سکتا ہے۔ سنوڈن کے مطابق GCHQ کا ایک پروگرام جس کا نام TEMPORA ہے، سال 2011 میں یہ صلاحیت رکھتا تھا کہ یہ ایک ارب فون کالز بیک وقت ریکارڈ کرسکے اور اس کی ڈیٹا کلیکشن کی رفتار ایک سو پچیس گیگا بائیٹ فی سیکنڈ تھی۔ اور سنوڈن کے مطابق اس mass     surveillance کا آغاز 11/9 کے رونما ہونے کے ایک ہفتے کے اندراندر ہو چُکا تھا۔ اور شروع میں امریکہ کی مشہور ٹیلی کام کمپنی AT&T نے روزانہ کی بنیاد پر اوسطاً 32 کروڑ کالز ریکارڈ کرنا شروع کیں۔ پانچ برس بعد 2006 میں، حادثاتی طور پر ایک لائن مین ٹیکنیشن نے یہ انکشاف کیا کہ NSA سان فرانسسکو میں AT&T کے نیٹ ورک کی تمام کالز ریکارڈ کر رہا ہے۔ یہ خبر پھیلتے ہی صارفین نے AT&T اور NSA کے خلاف مقدمہ درج کر دیا۔ ، جو آج کی تاریخ تک preliminary     phase میں ہے۔
سنوڈن جب معلومات اکٹھی کر کے امریکہ سے فرار ہوئے تو انہوں نے جن صحافیوں کے ذریعے سے NSA اور FBI کی mass     surveillance     practice کا تمام دنیا کو بتانے کا فیصلہ کیا،وہ ہانگ کانگ میں مدعو کیے گئے۔ سنوڈن نے تحمل سے جواب دیا جب ان سے پوچھا گیا کہ ہانگ کانگ کے انتخاب سے لوگ آپ کو امریکہ کا دشمن بھی تصور کریں گے کیونکہ اس وقت امریکہ کا سب سے بڑا دشمن چائنہ کو تصور کیا جاتا ہے۔اور آپ کا یہاں آنا اور asylum لینے کی کوشش کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ امریکہ کے دشمن کی مدد کر کے امریکہ کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ لیکن سنوڈن کا کہنا تھا کہ اُن کا ہانگ کانگ آنا اور صحافیوں کو بھی ہانگ کانگ مدعو کرنا امریکہ دشمنی میں قطعاً نہیں تھا، اُن کے مطابق اگر وہ امریکہ کو نقصان پہنچانا چاہتے تو اس کے اور بہت سے طریقے تھے۔ سنوڈن کے نزدیک ہانگ کانگ آزادئ اظہارِ رائے کی علامت ہے ،مین لینڈ چائنہ میں آزادئ اظہارِ رائے میں اگرچہ بہت سی رکاوٹیں ہیں ، لیکن ہانگ کانگ کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ہانگ کانگ کے لوگ سڑکوں پر ہمیشہ سے احتجاج کرتے آئے ہیں (جو کہ نوم چومسکی کے نزدیک دورِ حاضر میں احتجاج کا واحد ذریعہ ہے)، اور اپنے خیالات سے حکومت کو آگاہ کرنے کی اُن کی ایک مستقل روایت ہے۔ اور یہاں اب بھی باقی ممالک کی طرح انٹرنیٹ کو فلٹر نہیں کیا جاتا، مزید یہ کہ چائنہ اور امریکہ کی حکومتوں کے مابین اختلافات ضرور ہیں لیکن امریکہ اور چائنہ کی عوام ایک دوسرے کو اپنا دشمن خیال نہیں کرتے، ان کے مابین آزادانہ اور کامیاب تجارتی تعلقات ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مجھے سب سے بڑا ڈر یہ ہے کہ میرے ان معلومات کو لوگوں تک پہنچانے کے بعد بھی کچھ نہیں بدلے گا۔ لوگ یہ خبر میڈیا میں دیکھیں گے اور کچھ دنوں بعد بھول جائیں گے۔ کوئی اپنے آپ کو خطرے میں ڈال کر اور اپنا وقت نکال کر سڑکوں پر نہیں آئے گا۔ اور حکومت وقت کے ساتھ ساتھ اپنے اختیارات میں مزید اضافہ کرتی جائے گی۔ اور ان کی وہی surveillance جو ابھی خفیہ ہے، بعد میں قانونی قرار دے دی جائے گی اور حکومت عوام کو مطلع کر دے گی کہ عالمی صورتحال کے پیشِ نظر اور خطرات سے نمٹنے کیلئے ہمیں مزید اتھارٹی کی ضرورت ہے۔ اور تب بہت دیر ہو چکی ہو گی اور عوام کچھ بھی نہیں کر پائے گی۔ اور یہ استبداد کی بدترین شکل ہو گی۔
سنوڈن کی فراہم کردہ معلومات کو سب سے پہلے سی این این نے اس ہیڈ لائن کے ساتھ نشر کیا: ’’امریکہ کی سیکیورٹی کی خاطر آپ کی پرایئویسی مکمل طور پر قصۂ پارینہ بن چُکی ہے۔ امریکی ادارے NSA اورFBI انٹرنیٹ کی نو کمپنیوں کا ہر طرح کا ڈیٹا ریکارڈ کر رہے ہیں۔ ان کمپنیوں میں مائیکروسافٹ، گوگل، یاہو، فیس بک، اے او ایل، سکائیپ، یو ٹیوب، اور ایپل شامل ہیں۔ اور ریکارڈ کردہ مواد میں آڈیو، ویڈیو، تصاویر، ای میلز، دستاویزات، اور کنکشن لاگز شامل ہیں۔ کنکشن لاگز وہ ڈیٹا ہوتا ہے جس کی مدد سے ڈیٹا کے تجزیہ کار کسی بھی شخص کے روابط، حرکات، اور آمد و رفت کا تعیین کر سکتے ہیں۔‘‘
جون 2013 میں امریکی حکومت نے ایڈورڈ سنوڈن پر تین مقدمات کا اطلاق کر کے انہیں مجرم قرار دیا؛ جن میں سے دو مقدمات امریکی قانون کے سب سے متنازعہ Espionage     Act کے تحت تھے۔ Espionage     Act یوں تو بذات خود ایک مضمون کا متقاضی ہے اور امریکی Totalitarian ذہنیت کا عکاس ہے۔ لیکن یہاں ہم اس قانون کے ایک جزو کا ذکر کرنا ضروری سمجھتے ہیں اور وہ یہ کہ یہ قانون عوام کو ان کی فلاح کیلئے حکومت کے خفیہ اور ظالمانہ ہتھکنڈوں سے مطلع کرنے اور امریکی حکومت کے دفاعی راز ذاتی منافع کی غرض سے کسی دشمن کو بیچنے میں کوئی فرق نہیں کرتا، اور دونوں صورتوں میں ملزم غدار قرار دیا جاتا ہے۔
سنوڈن کو غدار قرار دینے کے بعد امریکی حکومت نے ہانگ کانگ حکومت سے سنوڈن کو گرفتار کرنے کیلئے مدد مانگی۔ دو دن بعد وکی لیکس نے سنوڈن کی ہانگ کانگ سے روانگی کا انتظام کیا تاکہ وہ کسی اور ملک میں سیاسی پناہ لے سکیں۔ ماسکو کے ٹرانزٹ میں چالیس دن گزارنے کے بعد، سنوڈن کو ایک سال کیلئے روس میں سیاسی پناہ مل جاتی ہے، جس میں چند شرائط و ضوابط کے بعد تین سال کی مزید توسیع کر دی جاتی ہے۔اس وقت سنوڈن روس میں ہی کسی نا معلوم مقام پر رہ رہے ہیں۔ اور انٹرنیٹ کو محفوظ بنانے کیلئے privacy     enhancing پروگرامز تشکیل دینے کی کوششوں میں سرگرمِ عمل ہیں۔

 

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search