کامیابی کا مغالطہ: عاطف حسین (تاثرات: حسن رحمان)
میرے پسندیدہ مصنف آنجہانی ڈیوڈ فاسٹر ویلس اپنے ایک انتہائی اہم اور پُر معنی مضمون میں ایک تمثیل کے ذریعے واضح کرتے ہیں کہ بعض اوقات انسان سامنے کی نہائت اہم بات کو نظرانداز کر بیٹھتا ہے۔ تمثیل کچھ یوں ہے کہ ایک بوڑھی مچھلی کا گزر سمندر میں ایک ایسے مقام سے ہوتا ہے جہاں دو جوان مچھلیاں تیر رہی ہوتی ہیں۔ بوڑھی مچھلی اُن سے سلام دعا کے طور پر پوچھتی ہے کہ ’پانی کیسا ہے؟‘۔ وہ دونوں مچھلیاں حیرت سے کہتی ہے ہیں ’یہ پانی کیا بلا ہے؟‘۔ آنجہانی ڈیوڈ اس تمثیل کے بعد تفصیل سے اس امر پر روشنی ڈالتے ہیں کہ ہم کیسے نادانستگی میں اپنی آنکھوں پر کچھ ایسے غلاف، عدسے، یا ’کھوپے‘ چڑھا لیتے ہیں جو ہمیں بظاہر مستور مگر دراصل بیّن حقیقت کو پہچاننے سے مانع رکھتے ہیں۔
عاطف حسین نے اپنی کتاب ’کامیابی کا مغالطہ‘ میں ایک ایسے کھوپے کو نہایت دانشمندی اور ہنرمندی سے ادھیڑا ہے جو کئی سالوں سے ہم پر مسلط کیا جا رہا ہے اور وہ ہے کامیابی حاصل کرنے کے لئے موٹیویشنل سپیکرز کے بے سروپا خطبے سننا۔ مصنف نےکامیابی کی تعریف متعین کرنے کی کوشش کی ہے اور ہمیں احساس دلایا ہے کہ ایسا کیوں ہے کہ ہر موٹیویشنل سپیکر جن حضرات کو کامیابی کے نمونے کے طور پر پیش کرتا ہے وہ دولت مند یا مشہور ہوتے ہیں؟ پہلی بات یہ کہ اس تعریف کی روشنی میں ڈاکٹر اختر حمید خان، اقبال احمد، مدرٹریسا، عبدالستار ایدھی، پنسلین کے موجد سب ناکام ٹھہرتے ہیں اور یوں ہم اپنے معاشرے کے حقیقی محسنوں کو پہچاننے میں ناکام رہتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
’کامیابی کے کسی یونیورسل تصور کا خیال ہی عبث ہے اور ایک ہی طرح کا کوئی تصور زورِ خطابت کے ذریعے سب پر ٹھونس کر متنوع مزاجوں کے حامل انسانوں کو انکے فطری راستوں سے بہکا کر کسی خاص راستے پر چلانے کی کوشش کرنا قابلِ مذمت اور نتائج کے اعتبار سے خطرناک ہے۔ اسی طرح میری رائے میں یہ خیال بھی مضحکہ خیز ہے کہ کوئی ایسا Success Coach بھی ہوسکتا ہے جو ہر مزاج اور ہر پیشے کے آدمی کو کامیابی کے گر بتائے۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہو سکتا ہے کہ کوئی آدمی کسی ایک مخصوص پیشے میں کامیابی کے متعلق لوگوں کی راہنمائی کردے۔ عمومی طور پر صرف اعلیٰ انسانی اقدار کا پرچار ہی کیا جانا چاہیے۔‘
دوسری بات یہ کہ لوگ جب کامیابی کے حصول کی خاطر صرف محنت پر انحصار، غیر ضروری امید پرستی، سات عادات وغیرہ کے گمراہ کن تصورات کے پیچھے بھاگیں گے تو اپنی self-esteem کو نقصان پہنچائیں گے کیونکہ کامیابی کے مبلغین زندگی میں قسمت کے کردار کو تقریبا نظر انداز کر دیتے ہیں۔ عاطف لکھتے ہیں:
’اپنی قسمت کا معمار خود ہونے کے تصور یا کسی Hyper-Optimistic نظریے پر یقین رکھنے سے واقعی انسان اپنی قسمت کا معمار نہیں بن جاتا۔ کامیابی یا ناکامی سراسر ان اتفاقات کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے جو انسا ن کے بس سے باہر ہیں اور اس کا اپنے اختیار میں ہونا محض ایکIllusion ہے جو ہمارے دماغ کی محدود صلاحیتوں سے پیدا ہوتا ہے۔ان اتفاقات کو اگر آپ محض اتفاقات سمجھیں یا پھر خدا کی جانب سے کی گئی Interventions ، ہر دو صورتوں میں اس چیز پر کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کی کامیابی اور ناکامی کا انحصار ان فیکٹرز پر ہے جو آپ کے بس سے باہر ہیں۔ ‘
(اس بات کو مزید تفصیل میں جاننے کے لیے نسیم طالب کی کتاب Fooled by Randomness کا مطالعہ مفید ثابت ہو سکتا ہے ۔ ح ر)
عاطف صاحب دو وجوہات کی بنا پر داد کے مستحق ہیں: ۱) انہوں نے ایک اچھوتی اور دانشمندانہ بات کی ہے۔ ۲) انہوں نے اپنے متعدد contrarianنظریات نہایت متانت اور سنجیدگی سے بیان کیے ہیں جب کہ احتمال تھا کہ وہ موٹیویشنل سپیکرز کے بارے میں عامیانہ طرز گفتگو اختیار کریں گے۔ متانت اور سنجیدگی آج کل نایاب نہیں تو کمیاب عناصر ضرور ہیں۔ مزید یہ کہ انکی متانت کہیں بھی تکلف سے آلودہ محسوس نہیں ہوتی۔ (اگرچہ اپنی فیسبک دیوار پر انکا طرزِ عمل کچھ مختلف ہے)۔ اس متانت نے کرٹ اینڈرسن کا نوے کی دہائی میں دی نیو یارکر میں چھپنے والا ایک مضمون بھی یاد دلا دیا جسکا عنوان تھا:
Son of est: The terminator of self doubt
ان دونوں مصنفین میں ایک اور مماثلت باریک بینی بھی ہے۔ عاطف صاحب کی ژرف بینی کے کچھ شواہد ملاحظہ ہوں:
’جس طرح حد سے بڑھ جانے پر راست گوئی بداخلاقی ، مصلحت منافقت اور بہادری بے وقوفی بن جاتی ہےاسی طرح امید حد سے بڑھ جائے تو Delusion بن جاتی ہے اور فائدے کے بجائے نقصان دیتی ہے۔ دوم یہ جس طرح امید کی ایک افادیت ہے اسی طرح دوسرے جذبات، احساسات ، Instincts اور ذہنی حالتوں کی بھی ایک افادیت ہے جو ….مخصوص Situations میں نمایاں ہوتی ہے۔ امید پرستی پر بے جا اصرار شخصیت میں ان تمام چیزوں کے توازن کو بگاڑنے کا باعث بنتا ہے جو انجام میں برا ہی ثابت ہوتا ہے۔‘
’بارہا ایسا ہوتا ہے کہ آپ کسی چیز کے بارے میں سوچتے ہیں اور وہ ہو جاتی ہے۔ اگر آپ نےلاء آف اٹریکشن سن رکھا ہو تو رفتہ رفتہ آپ کو یقین آنے لگتا ہے کہ یہ واقعات آپکی سوچ کے تابع ہی ہورہے ہیں۔لیکن اس کی ایک اور Explanation بھی ہوسکتی ہے ۔ وہ یہ کہ دراصل ہمارا دماغ ایک طرف تو مبہم اور غیر یقینی صورت حالات کو پسند نہیں کرتا اور Understanding چاہتا ہے لیکن دوسری طرف اسکی بہت ساری چیزوں کو بیک وقت توجہ دینے،محفوظ رکھنے اور پراسیس کرنے کی صلاحیت محدود ہے……………….. لہذا دماغ دستیاب انفارمیشن کو بہت سارے شارٹ کٹس اور Simplifying طریقوں کے ذریعے اس طرح پراسیس کرتا ہے کہ انڈرسٹینڈنگ کا Illusion قائم رہ سکے ۔ ان میں سے صرف دو کے ذریعے لاء آف اٹریکشن کو اعتبار دینے والا سارا کھیل Explain کیا جاسکتا ہے۔‘
’Optimism پر تنقید اور انسان کے خود اپنی قسمت کے مالک ہونے کے بجائے قسمت کی حاکمیت کے نظریے کی تائید پر یہ اعتراض کیا جاسکتا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ حالات کو بدلنے کی کوئی کوشش ہی نہ کی جائے اور بس مایوس ہو کے بیٹھ رہا جائے کیونکہ ہونا تو وہی ہے پہلے سے قسمت میں لکھا جاچکا۔ لیکن میرے خیال میں ایسا نہیں ہے۔ تنقید صرف حد سے بڑھی ہوئی امید پرستی پر کی جارہی ہے۔‘
’مروجہ Success Literature لٹریچر اس لیے بھی خطرناک ہے کہ یہ ان دوچیزوں کی اہمیت کو کم کرکے دکھاتا ہے جو لوگوں کی زندگی میں واقعی کوئی تبدیلی پیدا کرسکتی ہیں یعنی ایک بہتر نظام اور تعلیم۔ انسان کو اکیلا اپنی کامیابی اور ناکامی کا ذمہ دار قرار دے کر ایک بہتر سماجی ، معاشی اور قانونی نظام کی اہمیت کا انکار کیا جاتا ہے ۔تاہم جیسا کہ قسمت کے کردارسے متعلق باب میں بڑی تفصیلی بحث اور خصوصاً Bill Gates کے والد اور دوسرے متمول ترین امریکیWarren Buffet کی گواہیوں سے یہ بات واضح کی گئی ہے ، کامیابی میں غالباً سب سے بڑا کردار ایک سازگار ماحول اور نظام کا ہی ہوتا ہے۔‘
(مزید دیکھیے: Intergenerational Mobility: Evidence from Pakistan Panel Household Survey, PIDE, 2012 ۔ ح ر)
’دنیا بہت پیچیدہ جگہ کا نام ہے۔ یہاں لاتعداد فیکٹرز کارفرما ہیں جو لاتعداد Combinations میں فرد پر Randomly اثرانداز ہوتے اور یہ طے کرتے ہیں کہ کس کے ساتھ کیا ہونا ہے ۔ انسان کی اپنی پلاننگ، صلاحیت اور محنت ان لاتعداد فیکٹرز میں سے صرف تین ہیں۔ یہ خیال بہت مضحکہ خیز ہے کہ صرف یہی تین فیکٹرز Determine کرتے ہیں کہ انسان کے ساتھ کیا ہونا ہے۔‘
’زندگی کی خوبصورتی اسکی پیچیدگی، بے یقینی، بے کرانی، ہمہ جہتی اور تموج میں ہے اسے کسی Linear راستے پر چلانے کی کوششیں اکثر ناکام تو ہوتی ہی ہیں، اس کے حسن کو گہنا بھی دیتی ہیں۔‘ (یہ جملہ تو ’آبِ پلیٹنم‘ سے لکھے جانے کے قابل ہے! ح ر)
ایک ویکسین کے موجد، جو اپنی ایجاد سے کروڑوں ڈالر کما سکتے تھے، کو جب کہا گیا کہ وہ اپنی ایجاد کو پیٹنٹ (patent)کروا لیں تو انہوں نے جواب دیا: ’سورج کو کون پیٹنٹ کرتا ہے‘! (اگرچہ حال ہی میں دریافت ہؤا ہے کہ انکے اس فیصلے کے پیچھے کچھ دیگر عوامل بھی کارفرما تھے)۔
ایک نیم اعتراض: انگریزی الفاظ کے استعمال کے بارے میں مصنف متضاد کیفیات کا شکار محسوس ہوتے ہیں۔ بعض اوقات عوامل، تعین، منصوبہ بندی، محسوس، امید پرست، خوشی، منفی، مثبت، کارکردگی، وضاحت، توجیہ کی جگہ انکے انگریزی مترادفات بےتکلفی سے استعمال کر لیتے ہیں۔ جوش میں آتے ہیں تو linear، visualization ، start up وغیرہ کا نہایت عمدہ ترجمہ کر گزرتے ہیں!
مصنف کے بارے میں کچھ عرصہ مجھے یہ اندیشہ لاحق رہا کہ وہ نسیم نکولس طالب کے مجاور نہ بن جائیں، اگرچہ اب یہ خوف زائل ہو چکا ہے۔ وہ خدشے جو ہنوز گاہے گاہے پھنکارتے ہیں وہ یہ ہیں کہ اُنہیں صحافت نہ نگل لے یا دیو (مانسٹر) سے لڑتے لڑتے وہ اپنی جون نہ بدل ڈالیں! دیکھیے اس بحر کی تہ سے۔۔۔۔خیر، فی الحال تو اُنکی تاجپوشی کی جانی چاہیے (گر نہیں سونا تو چاندی ہی سہی!)۔
(ناشر بھائی، کاش آپ پروف خوانی کروا لیتے! خیر کچھ داد کے حقدار تو آپ پھر بھی ہیں۔)
یہ کتاب ایمل پبلیکشنز نے چھاپی ہے، اسکی قیمت چار سو روپے ہے اور یہ یہاں دستیاب ہے۔
ماخذ: لالٹین