احمد جاوید صاحب کی ’’احتیاطی توبہ‘‘ اور ہماری گزارشات- کبیر علی
احمد جاوید صاحب نے اپنے کسی پرانے درس میں علماء کے طبقے کو بالعموم بدتمیز اور جھوٹا قرار دیا تھا۔ پُراسرار کامیابی حاصل کر چکے ’’آزادؔ(ی) مارچ‘‘ کے اسٹیج پر مذکورہ طبقے نے جاوید صاحب کے بیان کو بڑھ چڑھ کر درست ثابت کیا ، مولوی منظور مینگل صاحب کا کلام خاص طور پہ پسند کیا گیا اور مشاعرہ انھی کے ہاتھ رہا۔ کسی نے جاوید صاحب کے اُس پرانے درس کا ایک مختصر کلپ نکال کر سوشل میڈیا پہ چپکا دیا ۔ جتنی مقبولیت مینگل صاحب کے مصرعہء طرح کو ملی ، اتنی ہی دلچسپی سے جاوید صاحب کا کلام بھی سنا گیا۔ مگر ایک ’’کلوزڈ گروپ‘‘ میں جاوید صاحب کے اس کلپ کو نا پسند کیا گیا ۔بالخصوص مجیب الرحمٰن شامی ایسے سلیم القلب نے ناگواری کا اظہار کیا تو جاوید صاحب رقت میں مبتلا ہو گئے اور ایک عدد تحریر بعنوان ’’اعلانِ رجوع اور كچھ تلخ و شیریں باتیں‘‘ دانش ڈاٹ پی کے پر چھپوا دی نیز پورے اہتمام کے ساتھ اسے پڑھ کر ویڈیو بھی ریکارڈ کروا دی۔ اس طرح لکھی ہوئی تحریر پڑھ کر سنانا بھی جاوید صاحب کی زندگی کا انوکھا واقعہ ہو گا ۔
جاوید صاحب کی مذکورہ تحریر یہاں پڑھیں۔
جاوید صاحب بنیادی طور پہ ادب کے آدمی ہیں۔ مبالغہ اور تلوّن ان کے مزاج میں شامل ہیں۔ ادب کی دنیا میں مبالغہ حُسن کہلاتا ہے ۔ لہذا اگر وہ میرؔ کے ایک مصرعے پر ساری اردو شاعری قربان کر دینے کا اعلان فرمادیں یا میرؔ سمیت ساری اردو شاعری کو بیدل ؔ کے کسی شعر کے مقابل ترازو میں تول کر ہلکا قرار دیں تو کچھ حرج نہیں۔ لیکن اخلاقی ،علمی یا متصوفانہ معاملات میں یہ مبالغہ کئی مسائل پیدا کردیتا ہے، جو جاوید صاحب کی تحریروں اور انٹرویوز میں نظر آتے رہتے ہیں۔
گزارش ہے کہ جاوید صاحب کے پرانے کلپ میں واعظانہ بلند آہنگی کے باوجود ایسی کوئی برائی نہیں ہے کہ جس پر کسی بھی پیرائے میں معذرت طلب کرنی پڑے۔ البتہ ان کا وضاحتی بیان ’’عذرِ گناہ بد تر از گناہ‘‘ کی ایک اچھی مثال ہے۔ بظاہر معذرت کے لیے لکھی گئی اس تحریر پر غور کرنے پر بھی معلوم نہ ہُوا کہ وہ معذرت کس چیز پر طلب کر رہے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ ’’علماء پر بہتان باندھنے کی خفیف سی بھی نیت‘‘ نہ رکھتے تھے ۔نیت کی صفائی کی اطلاع دینے کے بعد وہ مزید فرماتے ہیں کہ ’’مجھ سے الحمد للہ بہتان وغیرہ کا جرم سرزد نہیں ہوا‘‘۔ گویا نیت اور عمل ہر دو کی پاکیزگی پہ انھیں اطمینان ہے۔ اس موقعے پر وہ مولوی منظور مینگل کے خلاف ’’ان شاءاللہ‘‘ کی آڑ میں مفتی تقی عثمانی صاحب کی گواہی بھی لے آئے۔ گویا ہر لحاظ سے جاوید صاحب کا حق پر ہونا واضح ہو گیا۔ مگر نامعلوم وجوہ کی بنا پر انھیں ’’اپنے آپ سے نفرت محسوس ہوئی‘‘ نیز اس ’’معصیت کا محرک بننے والے اسباب‘‘ کو دور کرنے کی دعا بھی فرمائی۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ جب آپ کو یقین ہے کہ آپ حق پر ہیں (اور ہمارا بھی یہی یقین ہے) تو پھر اس ’’اعلانِ رجوع‘‘ کاکیا مطلب ہے؟
آجا کر یہی سمجھ میں آیا کہ دراصل کچھ مذہبی لوگ ہیں کہ ’’سوقیانہ پن اور ابتذال‘‘ جن کی سرشت میں داخل ہے اور وہ ’’حمیت جاہلیہ‘‘ سے لیس ہو کر جاوید صاحب پر حملہ آور ہوئے ہیں اور اپنی معصومیت پہ شرح صدر رکھنے کے باوجود جاوید صاحب نے گھبراہٹ میں ناکردہ گناہ پہ معذرت (؟) طلب کر لی۔ گزارش ہے کہ قلمی جہاد اور حریت وغیرہ کا جھنڈا اٹھانے کا موقع روز روز نہیں ملتا ، اگر کسی نے اُس کلپ کو پھیلا کر مذکورہ بالا لوگوں کو آپ کے پیچھے لگا ہی دیا تھا تو آپ بھی عزیمت کا کچھ ذائقہ چکھ لیتے یا ساری عزیمت کا تقاضا علماء نامی گروہ سے ہی جائز ہے جن کی اکثریت کی نالائقی پر آپ کو (اور ہمیں بھی ) یقین ہے۔
یہاں اپنی فضیلت کے ضمن میں انھوں نے ’’اخلاقی قواعد سے نابلد‘‘ اور ’’متکبرانہ کلچر‘‘ کا شکار مہتممینِ مدارس کی رزالت اور اپنی اخلاقی برتری کے کچھ قصے بھی بیان کیے ہیں اور ایک نامعلوم شخص کی مدح میں تو پورا پیراگراف لکھ دیا ہے۔ دو سطریں ملاحظہ کریں:
’’جھوٹ، غیبت، اجڈپن، بہتان وغیرہ ان (لوگوں) کے اصلی ہتھیار ہیں جنھیں یہ بلیک میلروں اور بھتّا خوروں کی طرح بے دریغ استعمال کرتے رہتے ہیں۔ ایسے ہی ایک بلیک میلر مجھ ناچیز پر بھی مہربان ہیں اور مولوی كہلاتے ہیں۔ میرا مزاج ہے کہ خود پر تنقید کو دلچسپی بلکہ احسان مندی کے جذبے سے سنتا ہوں۔‘‘
میرا خیال ہے کہ اس متکلمانہ چالاکی کو ’’احسان مندی‘‘ یا انکساری وغیرہ قرار دینے کے لیے بڑی ہمت درکار ہے۔گزارش ہے کہ جب آپ کو معلوم ہی ہے کہ سامنے والے کی ساری تنقید ’’کم فہمی اور اظہارِ خبث کا ملغوبہ‘‘ ہے تو پھر اس میں ’’احسان مند‘‘ ہونے کا تکلف ہی کیوں؟ البتہ بلاجواز اتنا زور لگا کر احسان مندی پیدا کرنے میں اگر اپنی عظمت کی لذت محسوس ہوتی ہو تو میں کچھ کہہ نہیں سکتا۔
انھوں نے ایک ہی سانس میں مولانا حسین احمد مدنی، مولانا زکریا کاندھلوی اور مولانا اشرف علی تھانوی سے اپنی ارادت کا اظہار فرما کر دیوبند کے تین بڑے دھاروں یعنی بالترتیب جمعیتی، تبلیغی اور تھانوی گروہ کو رام کرنے کی کوشش کی ہے۔ اگر ان کی اس تحریر سے مصلحت کوشی اور واعظانہ ملمع کاری کو کھرچ دیا جائے تو ان کا سادہ بیان کچھ یوں بنتا ہے:
’’میرے پرانے کلپ میں کچھ بھی قابلِ گرفت نہیں اور میں کچھ استثناؤں کے ساتھ اب بھی مذہبی لوگوں کو بدزبان اور جھوٹا پاتا ہوں۔ میرے اس احساس کی تائید ایک عام مسلمان سے لے کر مفتی تقی عثمانی تک ہر سلیم القلب شخص کرے گا۔ بجائے اس کے کہ یہ لوگ مجھ پر حملہ آور ہوں انھیں اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے۔ مجھے اپنے بیان پر کوئی شرمندگی نہیں بلکہ میں اسے بد اخلاق مخالفین کے سامنے کہا گیا ایک کلمہء حق سمجھتا ہوں‘‘۔
لیکن جاوید صاحب نے سیدھی بات کہنے کے بجائے بہ یک وقت معذرت اور سابقہ طرزِ عمل کی توثیق کا ایسا انوکھا امتزاج پیش کیا ہے کہ سارے معاملے کو چُوں چُوں کا مربہ بنا دیا ہے ، جس سے ان کی مظلومیت پہ آدمی دل گرفتہ تو ہو سکتا ہے مگر اس سے کوئی ڈھنگ کا نتیجہ نہیں نکل سکتا۔
ضمنی طور پہ انھوں نے مغرب کی طرف سے آنے والے الحادی سیلاب کی راہ میں کسی رکاوٹ کے نہ ہونے پر شدید افسوس کا اظہار بھی کیا ہے۔ ایسی آرزوئیں بہت مستحسن سہی مگر ہر لحاظ سے زوال یافتہ ہمارے معاشرے میں الحاد بھی اپنی گھٹیا ترین شکل میں پہنچا ہے اور اس کی ’’یلغار کو روکنے والے دینی متخصصین‘‘ بھی اسی علمی و اخلاقی معیار کے حامل ہیں۔ اس صورت حال میں مسلم عوام اور علماء کی نالائقی کا نوحہ بھی مذکورہ لادینی طبقات کے بیانیے ہی کو کمک فراہم کرتا ہے۔ فرق ہے تو بس اتنا کہ لادینی طبقات جو تنقید حقارت اور نفرت کے ساتھ کرتے ہیں آپ وہی بات دردمندی اور خلوص کے ساتھ کرتے ہیں۔ گزارش ہے کہ مسلم عوام و علماء کی نالائقی کا نوحہ پڑھنے کے بجائے ہمیں اپنے تجزیے میں کُلی زوال کو ایک وسیع تر تناظر میں دیکھنا چاہیے کہ آخر وہ کیا اسباب ہیں کہ ہمارے ہاں جو شے (دین/الحاد/کمیونزم/لبرلزم) بھی پہنچتی ہے وہ اپنی ارزل ترین حالت میں ہی کیوں پہنچتی ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ اس پورے خطے میں ہی کوئی ایسی بادِ سموم چلی ہو جس نے کیا دین دار اور کیا لادین سب کے شعور کو مسخ کر دیا ہو، انھیں کسی بھی قسم کے تناظر سے محروم کر دیا ہو اور اب ہر طبقہ زوال کا الزام دیگر ناپسندیدہ طبقات پہ دھر کے مطمئن ہو بیٹھا ہو؟؟