ذلّت کا سوانحیہ ۔ ارشد معراج
ہمیں یاد ہی کب رہا
کہ ہم روشنی کو نگاہوں میں بھر کر
وقت کی سیڑھیوں پر
بہت دھیرے دھیرے سے چڑھتے رہے
سانس پھولا مگر پھر بھی ہشاش تھے
آسماں کی کہانی کہیں اور لکھی گئی تھی
عقوبت کے ملبے پے
گھوڑوں کے سُم سے جو نقشے بنائے
ہمارے بدن تھے
زمانہ جو چالو ں پہ چالیں بدلتا رہا
اور مکڑی کے جالے بناتا رہا
ہم نوالۂ تر
چاروں اطراف سے ایسے گھیرے گئے
سانس مشکل ہوئی
اور تشنّج زدہ جسم پھڑ پھڑ پھڑ کنے لگا
ایک کے چار دِکھنے لگے
کیسا بھیجے میں گھمسان کا رن پڑا
ساری محنت ہی تلپٹ ہوئی
جس کے پیچھے ہزاروں برس کی ریاضت تھی وہ
ایک لمحے میں سب بے ہنر ہوگئی
ناک مونہہ کان میں خاک ہی خاک تھی
ہم جو ہمت پکڑنے لگے
ہاتھ آئی نہیں
دھول اتنی اُڑی
کہ نظر کے سبھی زاویے منتشر ہوگئے
آسماں کی طرف مونہہ اٹھایا
تو بیگانگی کی صدائیں سنیں
ہم جو مٹی سے تھے
اورآوے میں پکتے رہے
خاک میں مل گئے
ہم پھلاہی پہ اٹکی ہوئی لیر تھے
رفتہ رفتہ جسے خاک ہونا تھا
رنگت بھی کھونا تھا
اور خاک میں خاک ہونا تھا
تو خاک ہوتے رہے
پر یہ اندر جوالہ مکھی
خاک ہونے سے انکار کرتی ہے
اور اپنے ہونے پہ اصرار کرتی ہے اب
سو اذیت دُکھن دوہری تلوار کی دھار پر
موت اور زندگی کا تلاطم ہے
جاری جو رکتا نہیں
اپنی تذلیل کو بھولتا ہی نہیں
ماخذ: نظموں کا در کُھلتا ہے
انتخاب: نعمان فاروق