یہ لوگ ہم تو نہیں ہیں دیکھو ۔ خلیق الرحمان
ہمارے دل بھی کٹھور دل ہیں
جو پتھروں کی گھپا کے اندر پڑے ہوئے ہیں
یہ کیسی دیوار ہے کہ جس میں شگاف اب تک نہیں پڑا ہے
ہمیشگی کی سلوں کے نیچے
وہی ازل کی نمیدہ رنجش
وہی پرانی رقابتوں کے شریر پھندے
دلوں کی گرہوں میں پڑ گئے ہیں
یہ لوگ ہم تو نہیں ہیں دیکھو جو مرنے والوں کو رو رہے ہیں؟
یہ کون شکووں کی روغنی مٹیوں کے پُتلے بنا رہا ہے
خود اپنے جیون کے گڈی کاغذ کے آنگنوں پر
در اڑ ہوتے دُکھوں کے ملبے بنا بنا کے گرا رہا ہے!
ماخذ: نظموں کا در کُھلتا ہے
انتخاب: نعمان فاروق
Recommended Posts