تمہارے سینے میں دل کہاں ہے ۔ رفعت اقبال
تمہارے سینے میں دل رہا ہے
تو اس پہ دستِ فگار رکھو
ذرا بتاؤ
سیاہ، گہرے، طویل غاروں میں
تجربہ کب سے ہورہا تھا
گذشتہ برسوں سے
زُودافزوں مہیب عفریت کو
جواں، گرم خوں کی خوراک چاہیے تھی
ہمارے بچوں، سجیلے خوابوں کا خون جواں ہے
کہاں ہیں عاجل مفاد زادے
اُنہیں بھی لاؤ
(نہ مونہہ چھپاؤ)
بھلا یہ کس نے کہا تھا
’’عفریت اور درندوں میں
فرق ہوتا نہیں ہے اتنا
یہ اک اشارے پہ سر جھکائے گا
اور جھکائے رکھے گا
جب تک وہ چاہتے ہیں‘‘
اُنہیں یہ زعمِ ہنر ہمیشہ سے تھا
’’ہم ایسے دلاوروں کو
درندگی کو غلام کرنے کا فن ودیعت کیا گیا ہے
سو ہم درندوں سے کھیلتے ہیں
مہیب عفریت پالتے ہیں‘‘
تمہی بتاؤ
یہ باؤلا کھیل آگ، بارود اور لہو کا
شروع کرنے سے پہلے کس نے یہ بات سوچی
چہار سمتوں میں پھیلنے کو
بلا بڑھے گی
تمام آنکھوں، سبھی کے خوابوں، دلوں کو
اپنے نُکیلے پنجوں سے نوچ لے گی
جوان، گاڑھے لہو کی خوراک کم پڑے گی
ذرا ٹٹولو، ہمیں بتاؤ
تمہارے سینے میں دل کہاں ہے
ماخذ: نظموں کا در کُھلتا ہے
انتخاب: نعمان فاروق