تسلّی کی گرد میں لپٹی لا یعنیت ۔ ارشد معراج
چلو بازو اُٹھاؤ پھر سے گنتے ہیں
کہ کتنے کام آئے اور کتنے اب بھی باقی ہیں
چلو بازو اُٹھاؤ آسماں سے
تھیلیاں خوراک کی ا تریں
کھجوریں تو بہت ہی دور کے ساحل پہ اُگتی ہیں
وہاں کی ریت پر خیمے لگانے کے لیے ویزے نہیں ملتے
ہمیں جلدی بہت ہے
پُشت پر تاریخ لا دو
اور اندھیرے غار میں چھپ کر
کسی مکڑی کو عرضی پھر سے لکھو
جال بُن جائے
(مچانوں میں کمانیں کب تلک کاندھوں پہ رہتی ہیں)
کلاشنکوف جب سے ٹوٹ بکھری ہے
اسی دن سے درندے دندناتے پھر رہے ہیں
راج کرتے ہیں
چلو ہم ورد کرتے ہیں
ہرے ملبوس والے جلد اتریں
اور ایٹم بم کو ہاتھوں میں مسل ڈالیں
ماخذ: نظموں کا در کُھلتا ہے
انتخاب: نعمان فاروق