شاعروں کا جبر ۔ تابش کمال
چائے کی بھاپ میں
گھلتے، معدوم ہوتے ہوئے قہقہے شام کا بانکپن
کوئی مصرع دھوئیں کے بگولوں میں کمپوز ہوتا ہُوا
کوئی نکتہ جو اسرار کے گُھپ اندھیرے سے شعلہ صفت سر اُٹھائے
عجب دھیما دھیما نشہ اختلافات کا
اپنے نچلے سُروں میں کوئی فکر مربوط کرتا ہوا زاویہ
طنز کے ناوکِ خوش سلیقہ کی سَن سَن
ہواؤں سے محفوظ سانسوں میں آ راستہ مختلف سگرٹوں کی مہک
شام کے سُرمئی بانکپن میں
کسی کوٹ، مفلر، سویٹر سے اُٹھتی ہوئی خوشبوئےآشنا
جوڑتی ہے ہمیں اک سمے سے جو مدّت سے
اک ناملائم زمانے میں محکوم ہے
کون لحظے کو واپس بلائے، سمے کو مکمل کرے
اپنی نظمیں اسی اک تسلسل زدہ دائرے میں ہیں
پرکار جن کی رہائی پہ مائل نہیں
ریستورانوں کے کونوں میں سہمی ہوئی
کتنی شاموں کا جادو یہاں سطر در سطر محبوس ہے
ہم جو قیدِزمان و مکاں سے نکلنے کو پَر مارتے ہیں
بھلا شام ڈھلنے پہ الفاظ کے پنچھیوں کو جکڑتے ہیں کیوں
دام تصویر میں
یہ بگولے، دھواں، بھاپ اسیری کے عادی نہیں
شام خود رات کی گود میں جا کے گرنے کو بے تاب ہے
ماخذ: نظموں کا در کُھلتا ہے
انتخاب: نعمان فاروق