نظم بازی کے گُر ۔ دانیال طریر
جو آنکھوں کے اندر ابلتا رہا ہے
جو دل پہ دھواں بن کے چلتا رہا ہے
جو سوچوں میں چہرے بدلتا رہا ہے
میں اب سب لکھوں گا
دلوں میں ہمارے کدورت ہے کتنی
محبت پری خوبصورت ہے کتنی
بدن کو بدن کی ضرورت ہے کتنی
میں اب سب لکھوں گا
کہاں سے کہاں تک ہے امکاں کی وسعت
مکاں لا مکاں کے سوالوں کی حیرت
زماں لازماں میں ہے کیا سر وحدت
میں اب سب لکھوں گا
جہاں ہندسوں کے ترانے میں گم ہے
ہوا جشنِ وحشت منانے میں گم ہے
یہ سب کیوں اجالا مٹانے میں گم ہے
میں اب سب لکھوں گا
یہ زر کے پجاری کہاں جا رہے ہیں
زمین کے ذخائر کو ہتھیار ہے ہیں
تو کیا خود کو دولت میں دفنا رہے ہیں
میں اب سب لکھوں گا
خدا کیوں کہانی سے باہر کھڑا ہے
یہ کیا ہو رہا یہ وہ کیا سوچتا ہے
وہ کیا چاہتا ہے یہ کیا ماجرا ہے
میں اب سب لکھوں گا
بہت دن سے تُو یاد آئی نہیں ہے
کوئی رات رو کر بِتائی نہیں ہے
تو کیا یہ جدائی، جدائی نہیں ہے
میں اب سب لکھوں گا
مجھے نظم لکھنے کا فن آگیا ہے
ماخذ: نظموں کا در کُھلتا ہے
انتخاب: نعمان فاروق