خون بہا کون دے ۔ تابش کمال
کہاں جائے مصرعوں میں اُلجھا ہوا دل!
ہر اِک سمت اعداد کا شور ہے
لال، نیلے، ہرے کاغذوں کی کھڑاکھڑ میں اُلجھے ہوئے کان،
جھنکار ترسی ہوئی سبز آنکھیں،
بٹن پر ٹکی لالچی انگلیاں،
کچھ بھی میرا نہیں
کوئی میرا نہیں
چمچماتی ہوئی گاڑیوں کے گزرنے سے اُٹھتی ہوئی گرد کا ذائقہ
کیسے مصرعے کی گُل قند کو راستہ دے
کھڑا کھڑکی لوبھی رتوں میں بھلا کون مصرع سُنے
رات کی آخری ساعتوں میں
لہو میں مچلتا یہ آہنگ ہونٹوں تک آئے تو کیسے
اسے بہری بستی میں گویائی کا خون بہا کون دے گا!
ماخذ: نظموں کا در کُھلتا ہے
انتخاب: نعمان فاروق
Recommended Posts