کنگن کہتے ہیں۔تم کیاکہتے ہو – نسرین انجم بھٹی
کنگن کہتے ہیں
اداسی کا منہ دھلواؤ،دکھ کا سنگھار کرو
زخم دھونے سے بکھرتے ہیں خراشیں جھلمل آنسو اتارتی ہیں
کیا محبت تماشا ہے کہ لوگ اُس پر ہنسیں
اور نفرت علامیہ کہ لوگ اس سے ڈریں اور اسے اختیار کریں
بغاوت میری گھٹی میں ہے اسی لیے میں
شور مچاتی آنکھیں نیچے رکھتی ہوں
یہ دل کا لہو چکھتی ہیں
پیارکرنا جو سیکھ رہی ہیں
ٹھوکریں تو کھائینگی
نادانیاں عمروں سے نہیں عملوں سے ناپو
کس کی بات میں میری بات سنی نہ گئی اور کہی ان کہی رہ گئی
ٹھاکر!گھوڑا روکو!میں دہلیزنہیں دروازہ ہوں
تم اسم اعظم ہوتو مجھے یاد رہو
نہیں ہوتومیں تمہیں مانتی ہوں۔۔۔کیونکہ میں تمہیں جانتی ہوں صرف میں
میں دریا کے بان کی پکارہوں مگرمیں نے اپنی آواز صدقے کے برتن میں چھپارکھی ہے
جب پانی بوتلوں میں آکر اپنا دریابھول جائے
توکوئی کیاکرے،کسے گھاٹ کرے
اپنی آنکھوں سے کدھر دیکھے،جدھر دیکھے اُسکی آنکھوں سے دیکھے
اپنی آنکھوں سے نہ دیکھے
میں پھاگن کی اوٹ سے چیت کا منہ دیکھتی ہوں
دیکھتے رہنے کو دیکھتی ہوں
دیکھتے رہنے کی طاقت اُسکا مکھ دیکھنے سے ٹوٹ جاتی ہے
اور نظر نظر ہوکرگرتی ہے
سائبیریاکے مسافر پرندوں میں سے کسی ایک کی طرح،کسی دوکی طرح
جو سب کے سب مرتے مرتے اپنی سیٹیاں ہواکے ہاتھ میں تھما گئے
مت کہو کہ مثلاً
مثالوں سے کہانی نہیں بنتی،نظم بھی نہیں بنتی۔۔۔اپنے آپ کو ہی سامنے رکھنا پڑتاہے
مجھے پار نہیں جانا،میری کشتی کویہیں ڈوبنے دو
ہمالیہ کے پہاڑوں سے پانی تڑپتاہوانکلے تو پتھروں کو خبر ہوجاتی ہے کہ اُسے
دریاہونا ہے کہ بادل
اور میں تمہیں سامنے رکھ کرجیتی ہوں
تمہارے اندر کسی اور صدی کا سبھاؤہے
تم کہاں کے ہو
اپنے آپ سے نہ ڈرو تو بتانا کبھی یہیں بٹھاکر
کیونکہ ہرضروری بات راہ چلتے نہیں ہوتی
لوگوں میں لوگ اورباتوں میں باتیں گم ہوجاتی ہیں
ڈورکٹ بھی سکتی ہیں
عکس ڈوب بھی سکتاہے
مگر تم ساتھ ساتھ چلتے رہنا ایک جیون سے دوسرے جیون تک
شاید ہماری پہچان کسی اور جہاں میں ہو۔