جواب دو – نسرین انجم بھٹی
بچے کے پاؤں سے ٹکراکر،سوال لڑھکتاہوا میرے پاس آگیا
درخت کیوں سوکھ رہے ہیں؟
بادل برستے تو ہیں پر دھمکاتے بہت ہیں
من میں کھوٹ رکھ کر نہیں برستے
پھر بھی لگتاہے کنجوسی کررہے ہیں
ریت میں چاندنی کسی خوف سے نہیں چوٹ کھائے ہوئے من کو گود لیے گہری اترتی جاتی ہے
میٹھی چوٹ کی طرح پیار کی پیاسی
کسی سے آنکھ نہیں ملاتی،اسی لئے درخت سوکھ رہے ہیں
پانی اور ریت میں سمجھوتہ نہیں ہوا شاید اور بہار آبھی گئی
چیت مہینہ جل رس برسا
بادشاہ سنہری تخت پہ بیٹھا ہے دیکھتاہے کہ
پانیوں کی گھن گرج دور ہوتی جارہی ہے،لہریں تن،پیار کیاسب ڈوب جائیں گے؟
اُسے کہو کہ نظر ہٹاکے مجھے دیکھے اور بتائے
کہ درخت کیوں سوکھ رہے ہیں
کھوٹی بیریاں پتے نکالتی تھیں تو رائج الوقت ہوتی تھیں
بیج مٹی میں نہ رکھ،مٹی کھاری ہے۔۔۔پانی سے پیاس الگ کررہی ہے
اور بیج تو میں خود ہوں،کوئی خیال نہیں کہ گزرجائے تو گزرجائے
چھوٹے چھوٹے پانیوں سے دریا نہیں بنتے تو لوگ مٹی میں ڈوب جاتے ہیں کم بخت
مگر پیاسے رہتے ہیں!بھرے بھرائے آنکھوں تک چھلکتے؛
پھر بھی پیاسے رہتے ہیں
یہی بتانے کو میں رکی تھی
تڑخے گھڑے کمرپررکھ کر کہاں جاتی ہو؟
راستہ تو پیچھے کو آرہاہے
اور نظر دھواں دیتی ہے
اور حدیں لکیروں سے نہیں ارادوں سے بنتی ہیں
گھر چیزوں سے بھرگئے،محبت کہاں رکھوگی اور خود کہاں رہوگی
آنگن شام کے قہقہوں سے بھرگیاہے روشن!آنکھیں پلیٹ میں رکھ کر ڈھانپ دے
مہمان کو یہ دیکھنے کی فرصت نہیں
کہ باہر درخت سوکھ رہے ہیں اور اندر آنکھیں
یہ درخت کیوں سوکھ رہے ہیں؟
پچاس برس پہلے والی آندھی ایکبار پھر آئیگی
شاید وہ ہی بتائے
کہ درخت کیوں سوکھ رہے ہیں۔