ہم اپنے آپ میں کتنے شامل ہیں – نسرین انجم بھٹی
ماسک لگاؤ تو اس میں
آنکھیں،ہونٹ اورکان شامل نہ کرنا
ماسک ہٹاؤ تو
چہرے کو دورنگوں سے دیکھنا
نیند سے جاگو تو سوچ لینا
خواب،خواہش اور کچھ بھی لینا
تیار ہوکر آئینہ دیکھو
تو نئے دن کی آواز نہ دبانا
جو مسلسل کہے جاتاہے
میری توفیق تو دیکھ لو
میری بساط تو ناپ لو
آواز دل کو دھکا دیتی ہے
میں گرتے گرتے بچتی ہوں
یا نہیں بچتی۔۔۔۔
مجھے اُسکا وعدہ یادآیاجو آئینے کے دوسری طرف اُتر کر
میرے خواب میں درآیاتھا
اور کہتاتھا ساڑھی پہنوگی؟
دماغ خراب ہے میرا۔۔اور تمہارابھی!گراؤ گے مجھے عین چوراہے میں
گرگئی تو!
تھام لیں گے ہم اسکے بھرے بھرے بازؤں نے کہا
اور اس نے اثبات کیا
میراخیال ہے ہم اسی طرح ایک دوسرے میں شامل ہوجاتے ہیں
اپنے آپ سے کٹ کٹ کر
ہم میں کون پوراہے؟کوئی بھی نہیں شاہد
کم ازکم میں وہ تو نہیں جو میں تھی
اب اسکے بھرے بھرے بازؤں کا تعویزہوں
ہم سب لوگ جو ماسک لگاتے یا نہیں لگاتے!
مگر رنگوں اور روشنیوں کی پیوندکاری تو ہے،اندھیرے نے بوجھ لیا
دھیمے اور کالے ٹکڑے میرے ہیں
میں چپکاؤں ان پر اپنے نشان۔۔۔رکھوں بساط پر؟
دل کہیں،دماغ کہیں،آنکھ کہیں،چراغ کہیں۔۔۔
ہم اپنے آپ میں اتنے ہی شامل ہیں۔