’’دولڑکیاں وہ اورمیں‘‘ – نسرین انجم بھٹی
آدھا جنم بیج اگر کچھ خریدا جاسکتاتھا تو وہی بکاہواآدھا
اور ڈیوڑھی میں بیٹھ کر بتائی پوری رات جیسی زندگی
اپنی شرطوں پر جی جانے والی زندگی!کہاں ملتی ہے؟
وہ برسات کے بعد
دیوار میں سے جھانکتے ہوئے گھونگھے کی ست رنگی آنکھ سے آنکھ ملائے
روئے جارہی تھی
شاید اُس کی بساط میں زندگی گزارنے کاکوئی اور طریقہ تھا ہی نہیں
اور میں
آگ سے کم پر میں کیا راضی ہوتی
اور راضی نامے میں میراہونا کہاں ثابت ہوتاتھا،اسلئے مجھے
ناراض لوگوں کی صف میں شامل کرکے گھونگھے والی دیوار کے سامنے لایاگیاتھا
میں پانی کے برابر کیوں کھڑی ہوتی
میں ہواتھی اور دم پھونکنا میراکام تھا،اِس سے کم پر راضی ہونا میرا منصب نہیں تھا
اس سے زیادہ کی طلب مجھ سے کیوں کی گئی
کہ صدیاں سوال ہوجائیں
جواب دار فتوے مرضیوں پر پہریدار ہوئے تو سسیاں سوہنیاں پیدا ہوئیں
مگر میں صاحباں ہوں
سہاگ پر سودا نہیں کرتی اور خون کی سچائی پر سیاہی نہیں
سرخی پھیرتی ہوں اور اسے سرخ ہی رکھتی ہوں
تاکہ خونیوں میں میرا شمارہو
اور مردم شماری میں سے میرانام کاٹ دیاجائے
میں عشق کا آخر نہیں،دشمنی کی بنیاد ہوں
میرے بعد لوگ صاحباں نام نہیں رکھیں گے
اور لڑکیاں اس خطے میں پیداہوتے ہی قتل کردی جائیں گی
میں نے عشق کا ساتھ دے کر موت خریدی ہے،زندگی نہیں بیچی
مجھ پر فتویٰ آگ نے لگایا یاپانی نے،دونوں میں میری مرضی نہیں پوچھی گئی
اور راضی نامے میں میراہونا ثابت نہیں ہوا
صرف میری ناراضگی کی بنیاد پر مجھے ناراض لوگوں کی ڈیتھ سکوارڈ کے سامنے پیش کیاگیا۔