برائے فروخت ۔ دانیال طریر
روح چاہیے تم کو
یا بدن خریدو گے
موت سب سے سستی ہے
سامنے کی شیلفوں میں
رنگ رنگ آنکھیں ہیں
ساتھ نیند رکھی ہے
خواب اس طرف کو ہیں
سب سے آخری صف میں
حُسن کی کتابیں ہیں
خیر کے فسانے ہیں
فرسٹ فلور پر سائنس
میگزین فیشن کے
اور علم دولت ہے
آج کی ضرورت ہے
سب سے بیش قیمت ہے
فرش پر جو رکھا ہے
دین ہے تصوف ہے
فلسفہ ہے منطق ہے
باعثِ تپدق ہے
ڈیسک کاؤنٹر کے پاس
شیش داں میں رکھی ہے
جیسے قیمتی چیزیں
آسماں میں رکھی ہیں
آسماں والابھی
کیا یہاں پہ ملتا ہے
کیسے بھاؤ بکتا ہے
پہلے خوب چلتا تھا
لوگ لینے آتے تھے
اب خدا نہیں بکتا
جانے کس زمانے سے
اس زماں میں آئے ہو
یہ جہاں نہیں صاحب
تم دکاں میں آئے ہو
ماخذ: نظموں کا در کُھلتا ہے
انتخاب: نعمان فاروق