ایٹمی جزیرے میں تتلیوں کے خواب! خلیق الرحمان
ایٹموں کی بستی میں
خوف کے جزیرے میں
اِک نگر تمہارا ہے اِک نگر ہمارا ہے
پانیوں کی سرحد پر سُوکھتی زمینوں پر
پھول جو نہیں کِھلتے
لوگ جو نہیں ملتے
فاصلے کدورت کے نفرتوں کے پیراہن
دُکھ کے ایسے گھاؤ ہیں
دو گھڑی کی ڈھار س کے خوش گمان دھاگوں سے
جو سدا نہیں سلتے
چار دن کے جیون میں
زندگی مسرت کا عارضی کنارہ ہے
دُور کی مسافت کے ایک جیسے رستے پر
ساتھ ساتھ چلنے میں کس قدر سہارا ہے
جگنوؤں کی شمعوں میں تتلیوں کے رنگوں میں
ایٹموں کی بستی میں خوف کے جزیرے میں
سانجھ اور سویرے میں
چار دن کے جیون میں
نفرتوں کے ساگر پر
فاصلےکدورت سب کلفتیں بُھلاتے ہیں
زندگی کو ساحل پر آؤ ملنے جاتے ہیں!!
ماخذ: نظموں کا در کُھلتا ہے
انتخاب: نعمان فاروق