انسومنیا (Insomnia) – عاصم بخشی
اب نہ سو پاؤں گا میں غیبتِ یزداں کی قسم
سجدۂ شوق میں ہر رات
یونہی عادتِ بے قصد سے مجبور
کسی بحرِخموشاں کے چمن زار کنارے پہ اترنے کی دعا کرتا ہوں
سرمئی نیند کی دہلیز کو چھوتے ہی
نظاروں کا فلک بار گجر بجتا ہے
کان پھٹتے ہیں پکاروں سے
حلق خشک،
زباں قطرۂ نمکیں کو ترستی ہے
صداؤں کے تسلسل،
یہ تماشوں کی فصیلیں،
مجھے دہلیزکے اُس پار لپکنے نہیں دیتے
کہ میں آغوشِ مسیحائے سکینت میں اتر جاؤں،
نشیبوں کی،
فرازوں کی نذر ہو جاؤں
میں،
مری تشنہ لبی ،
بینا و نابینا بصیرت،
کسی مبہم سی مثلث میں سمٹ جاتے ہیں
گر کسی ساعتِ بخشش میں
تِرا لمس ستائے
تو یہ بے رنگ تکونا سا مرقع
دمِ تقریبِ فنا،
نقطۂ عرفاں میں سکڑ جاتا ہے
ایک ہی پَل میں کئی سال گزر جاتے ہیں
پار کر لی جو یہ دہلیز تو ڈرتا ہوں
کہ غربالِ زمانہ سے یہ لمحاتِ بلاخیز پھسل جائیں گے
سوچتا ہوں کہ بھلا کیسے میں سو پاؤں گا اب!
روزنِ دید سے کترا کے گزر جائیں گے
آنکھ لگتے ہی مرے خواب بکھر جائیں گے