جمہوری تقاضے: مجید لاہوری
نوٹ: مشہور مزاح نگار مجید لاہور ’’حرف و حکایت‘‘ کے عنوان سے فکاہی کالم لکھا کرتے تھے ۔ جناب شفیع عقیل صاحب نے ان کے فکاہی کالموں کا انتخاب ’’مجید لاہوری کی حرف و حکایت‘‘ کے عنوان سے مرتب کیا ۔ فضلی سنز (پرائیویٹ ) لمیٹڈ کراچی نے فروری 2000ء میں اس انتخاب کو پہلی دفعہ شائع کیا ۔زیرِ نظر تحریر ، 20 جون 1956ء کے کالم پر مشتمل ہے۔
یہ دور ’’سلطانی جمہور‘‘ کا ان معنوں میں نہیں ہے کہ ہم ہر اس ’’نقش کہن‘‘ کو جو ہمیں نظر آتا ہے ، مٹا سکیں لیکن یہ ’’جمہوری تقاضوں‘‘ کا دور ہے اور ہم لوگ مداری کے ’’بچہ جمہورا‘‘ کی طرح ’’بچہ جمہورا‘‘ بن گئے ہیں ۔ ہر بات جمہوری تقاضوں کے لیے ہوتی ہے ، ہر آدمی کی آواز’’ پبلک‘‘ کی آواز ہے ۔
….اگر ہم کسی جماعت سے نکلتے ہیں تو ….جمہوری تقاضوں کے لیے ۔
….ایک نئی جماعت بناتے ہیں تو ….جمہوری تقاضوں کے لیے ۔
….جب نئی جماعت نہیں چلتی تو پھر اسی جماعت میں آتے ہیں جس کو ہم کل تک بُرا بھلا کہہ رہے تھے تو جمہوری تقاضوں کے لیے …
…جماعت کی نئے سرے سے تنظیم کرتے ہیں ….تو جمہوری تقاضوں کے لیے …
انگریز کے دور کو تو ہم خلافِ جمہوریت کہتے تھے اور اس کے ہر عمل کو ظلم و تشدد قرار دیتے تھے ۔ مگر آج کے دور میں :
….دفعہ 144 لگتی ہے تو ….جمہوری تقاضوں کے لیے
….گولی چلتی ہے تو….جمہوری تقاضوں کے لیے
….لاٹھی چارج ہوتا ہے تو…. جمہوری تقاضوں کے لیے
….سیفٹی ایکٹ لگتا ہے تو….جمہوری تقاضوں کے لیے
….مارشل لا لگتا ہے تو….جمہوری تقاضوں کے لیے
اور دوسری طرف ان تمام اقدامات کی مخالفت اور شہری آزادی کی حمایت ہوتی ہے تو جمہوری تقاضوں کے لیے ۔
غرض یہ ہے کہ
…. ہمارا چلنا ، پھرنا ، کھانا ، پینا ، سونا ، جاگنا ، اٹھنا ، بیٹھنا ، اوڑھنا ، بچھونا سب جمہوری تقاضوں کے لیے ہے ۔
دوسری طرف جمہور کی کیفیت یہ ہے کہ وہ جمہور کم اور ’’منظور‘‘ زیادہ ہے ۔ اور اب تو ہر جلسہ ایک ڈراما ہے جس کا نام ہے :
’’جمہور عرف منظور‘‘
….کراچی کا ’’آرام باغ‘‘ اور ’’جہانگیر پارک‘‘ ’’منظور باغ‘‘ اور ’’منظور پارک‘‘ ہے ۔
…. لاہور کا ’’موچی دروازہ‘‘….’’منظور دروازہ‘‘ ہے ۔
….پشاور کا ’’چوک یادگار‘‘ …. ’’چوک منظور‘‘ ہے ۔
….راول پنڈی کا ’’کمپنی باغ‘‘….’’منظور باغ‘‘ ہے ۔
غرضے کہ ہر شہر کا وہ مقام جہاں عموماً جلسے ہوتے ہیں ، جلسہ گاہ نہیں بلکہ ’’منظورگاہ‘‘ ہے ۔ وہاں سے کوئی کبھی مایوس ہو کر نہیں آیا ۔ جو قرار داد پیش کیجئے ، لوگ کہتے ہیں !
’’منظور ہے !‘‘
’’منظور ہے !‘‘
آپ ہر شہر میں دو جلسوں کا انتظام کیجئے ۔ ایک جلسے میں یہ قرار داد پیش کیجئے کہ:
’’اس ملک میں صحیح معنوں میں جمہوری نظام قائم ہونا چاہیے‘‘
اور اس کی حمایت میں تقریریں کرائیے کہ ڈکٹیٹر شپ تباہی کی طرف لے جاتی ہے ۔ اس سے عوام کی بھلائی نہیں ہوتی ۔ اقتدار جن لوگوں کے ہاتھ میں آ جاتا ہے وہ مزے کرتے ہیں ، عوام بھوکوں مرتے ہیں ۔ جاگیرداری ، سرمایہ داری ختم کرو اور زمین ، صنعت اور دوسری چیزوں کو قومی ملکیت بناؤ وغیرہ ۔
آپ یقین کیجئے لوگ اس قرار داد سے اتفاق کریں گے اور جب صدر کہے گا :
’’منظور ہے؟‘‘
ہر طرف سےآوازیں آئیں گی :
’’منظور ہے !‘‘
’’منظور ہے!‘‘
دوسرا جلسہ آپ ’’ڈکٹیٹر شپ‘‘ کی حمایت میں کیجئے اور اس میں یہ قرارداد پیش کیجیے !
’’اس ملک میں ’ڈکٹیٹرشپ‘ قائم ہونی چاہیے کیوں کہ ہم ابھی جمہوری نظام کے اہل نہیں ہیں‘‘۔
اور اس قرارداد کی حمایت میں بھی تقریر کرائیے کہ تجربے نے ثابت کیا ہے کہ ہم جمہوریت کے اہل نہیں ہیں ۔ ہمارے معدے صدیوں کی غلامی کے سبب جمہوریت ایسی ثقیل چیز کو ہضم نہیں کر سکتے ۔ ہمیں اپنے فرائض کا احساس نہیں ہے ، ہر شخص اپنے مفاد کے لیے قوم کو تباہ کرنے پر تُلا ہوا ہے ۔ یہ چور بازاری ، یہ اسمگلنگ ، یہ رشوت ستانی ، یہ ذخیرہ اندوزی ، یہ ناجائز منافع خوری سب اس وجہ سے چل رہی ہیں کہ کوئی مضبوط ہاتھ اس کو روکنے کے لیے نہیں ہے ۔ جو لوگ ان جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں اگر ان کے خلاف کاروائی ہوتی ہے تو سفارشیں پہنچ جاتی ہیں ۔ چوں کہ حکومت کرنے والے ان لوگوں سے ووٹ لیتے ہیں ، اس لیے ان کو ناخوش کرنا نہیں پہنچتے ۔ لاہور میں مارشل لا کے دنوں میں سب چیزیں ٹھیک ہو گئی تھیں ۔ یہ تجربہ نہایت کامیاب رہا ۔ مہنگائی ختم ہو گئی ۔ اس کے بعد آپ یہ کہیے کہ ترکی میں کمال اتاترک مصطفےٰ کمال جیسا آدمی پیدا ہوا جس نے چند دنوں میں اس ’’مردِ بیمار‘‘ کو زندہ کر دیا ۔ سب ’’ڈکٹیٹر شپ‘‘ کی برکت تھی ۔ ہٹلر نے اپنی قوم کو زندہ کر دیا ۔ اسٹالن اپنے ملک کا ’’عوامی ڈکٹیٹر‘‘ تھا ، اس نے روس کو زندہ کر دیا ۔
پھر صدرِ جلسہ اعلان کریں :
’’بھائیو! یہ قرار داد آپ کو منظور ہے؟‘‘
اس پر ہر طرف سے آوازیں آئیں گی :
’’منظورہے!‘‘
’’منظورہے!‘‘
صدرِ جلسہ اگر کہیں گے
’’کوئی صاحب اگر اس کے خلاف ہوں تو ہاتھ کھڑا کر یں !‘‘
یقین کیجئے کہ ایک بھی ہاتھ اس کے خلاف نہیں اٹھے گا ۔ شاید اس ڈر سے کہ جب سب لوگ ’’منطور ہے‘‘ کہہ رہے ہیں تو اختلاف کرنے سے کہیں بھرے جلسے میں ’’پٹائی‘‘ نہ ہو جائے ۔ ہاں تو جب جمہور کی کیفیت یہ ہو کہ وہ ہر رہبر کے ساتھ تھوڑی دور چلے اور رہبر کو نہ پہچانے تو پھر جمہوری تقاضوں کے لیے جو کچھ بھی کیا جائے وہ ….
’’سیٹھ ٹیوب جی ٹائر جی‘‘ کی زبان میں ….’’سب چلے گا!‘‘
کیوں ….؟ اس لیے کہ ….نہ کوئی روکنے والا ہے ، نہ کوئی ٹوکنے والا ہے
جمہوری تقاضے …………….. زندہ باد