عدوان نکتہ چیں، ناصحان باریک بیں سے خطاب۔ تحریر: ابوبکر
قبلہ بھائی جان، حضرت ؛ یہ آپ فلاں طرز میں کیوں لکھتے ہیں اور فلاں میں کیوں نہیں لکھتے؟ آپ نے یاسیت پھیلانے کی بیعت کررکھی ہے کیا؟ آپ چپ کیوں نہیں ہوجاتے؟ یہ آپ گالیاں کیوں بکنے لگتے ہیں؟ آپ نام کے ہی سہی پر استاد تو ہیں؛ سنجیدہ و پروقار انداز کیوں نہیں اپناتے؟ یہ آپ صبح شام قبرستانوں کے قومی ترانوں جیسی اداس شاعری کیوں گنگنانے لگتے ہیں؟ آپ عجیب شخص ہیں کہ فلسفہ نہیں لکھتے بلکہ اپنے کتے کے معمولات اور روزنامچوں میں پڑے رہتے ہیں؟ ایک روز اس کی دہن درازی تو دوسرے دن اس کی قبض کشائی، کچھ سمجھ نہیں آتا۔ بھائی کیا آپ شوقین مزاج ہیں؟ کہیں آپ کو چڑھ تو نہیں جاتی؟ آپ ریسٹ کیوں نہیں کرتے؟ آپ نہ مانیں پر اللہ کی زمین بڑی وسیع ہے، ناامیدی چھوڑ دیں گے ناں پلیز؟ کیا آپ کو محبت میں ناکامی ہوئی ہے، کوئی مالی دقت ہے، نفسیاتی الجھن کی کوئی تاریخ ہے یا پھر یہ سب کسی ایکسیڈنٹ سے سر پہ لگی چوٹ کا نتیجہ ہے؟ آپ سفلی علوم اور مکافات عمل کے تناظر میں اس سب کو کیسے دیکھتے ہیں؟ اتنا ہی کیوں نہیں دیکھ لیتے کہ آخر آپ شریف زادے ہیں۔ یار آپ خود کو بدلتے کیوں نہیں ہیں؟
بندہ افگن؛ مجھ سے کچھ فرماتے ہیں؟ جی سبحان اللہ؛ ہمہ تن گوش ہوں۔ کیا کہا؟ اچھا آپ نے جو کہنا تھا وہ پہلے ہی کہہ چکے ہیں۔ ارے آپ تو وقت سے بھی آگے نکلتے جاتے ہیں۔ جی؟ کسی چوں چراں کی مہلت نہیں ہے؟ جی اچھا، بہت بہتر، پھر میں اپنی سی عرض کیے دیتا ہوں۔
عدوان نکتہ چیں، ناصحان باریک بیں! اول تو یہ خوش کن اعتراف کہ میں ایک سنکی شخص ہوں جو کبھی کبھی آدم بیزار دو پایے میں بدل جاتا ہے (اور وہ اس پر قادر ہے) ۔ ناصرف یہ بلکہ میری رائے میں تو مجھ ایسے سنک مزاج چڑچڑے افراد معاشرے کی وسیع تر بہبود کے لیے کہیں ضروری ہیں جو اپنی غیرمسلح چڑچڑاہٹ کے زور سے اس سماجی و وجودی اسٹیس کو کو توڑتے رہیں۔ شاید میں غیردانستہ طور پر سقراط کے اس بیان کا مفہوم دہرا رہا ہوں جو اس نے ایتھنز میں اپنی موجودگی کے جواز میں دیا تھا۔ پس اتنا ہے کہ میں ایک سنک مزاج اور چڑچڑا شخص ہوں جو بعض اوقات ان کیفیات کو دبائے رکھتا ہے۔
میں کھوکھلی لفاظی، فارمولہ فقرے بازی اور ڈیزائن مارکہ ترکیب سازی کا کبھی قائل نہیں رہا۔ میں لفظ و معنی کا سرچشمہ اپنے وجود کی گہرائیوں میں پاتا ہوں۔ میں صرف ان مفاہیم میں تصرف کرتا ہوں جو میری ذات کا حصہ بن جانے پر رضامند ہوتے ہیں۔ دراصل میں ہمیشہ صرف اپنے متعلق لکھتا ہوں کیونکہ میرے خیال میں تاریخ کے تمام معقول مصنفین ہمیشہ سے ایسا ہی کرتے آئے ہیں۔ میں ان کی مجبوری بھی سمجھتا ہوں اور اپنی عادت سے بھی واقف ہوں۔ میں نظری امور کو بھی اپنے وجودی عدسے تلے دیکھتا ہوں۔ میرے خیال میں تصورات کی اس سے بہتر پذیرائی ممکن ہی نہیں۔ میں سر تا پا صرف اپنے لیے جیتا ہوں اور اس کا بیشتر حصہ خود میں منہمک گزارتا ہوں۔ میں سر منڈلاتی فنا کا مقابلہ اور کسی انداز میں نہیں کرسکتا۔ اور شاید تمام انسانوں کو ایسا ہی کرنا چائیے۔ پتہ نہیں؛ میں کوئی اصرار نہیں کرتا۔
میں تجربہ و تخلیق کا قائل ہوں۔ میرے نزدیک تحریر یونہی نہیں بن جاتی نہ ہی یہ غیب سے اترا کوئی الہام ہوتی ہے۔ تصنیف کرنا؛ ہر سانس کی ریاضت چاہتا ہے۔ جس طرح ہر وہ شخص جو محض آڑھی ترچھی لکیریں لگانا جانتا ہو مصور نہیں کہلا سکتا بالکل اسی طرح ہر وہ شخص جو کوئی سطر یا چند الفاظ لکھنا جانتا ہو مصنف کہلانے کا حق دار نہیں ہے۔ بامعنی و پر اثر لکھ سکنا کسی بھی انسٹرومنٹ سیکھنے جیسا ہے جو مسلسل مشق اور اخلاص کا متقاضی ہے۔ کوئی شخص تب تک دل میں پیوست ہوتی سطر نہیں لکھ سکتا جب تک اسے خود اپنا دل ٹٹولنا نہ آتا ہو کہ یہ کسی بھی اور دل سے زیادہ قریب پڑتا ہے۔ غالب فرماگئے؛
حسن فروغ شمع سخن دور ہے اسد
پہلے دل گداختہ پیدا کرے کوئی
یہ دل گداختہ پیدا کرنا آسان نہیں ہے۔ کار خدائی سے کم نہیں۔ اور خود سے منافق شخص پر تو یہ دروازہ بالکل بند ہے۔ اس راہ چلے بنا آپ نوٹنکی کرتے پھریں؛ شمع سخن تو اپنے دم سے ہی جلے گی۔
میں بیشتر حدود کا قائل نہیں ہوں۔ اظہار پر کسی بھی ناروا اخلاقی و سماجی قدغن کا بھی منکر ہوں۔ تاہم اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ میرے نزدیک ہر ہماشما کے مغلظات معتبر قرار پاتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے۔ گالی صرف اخلاقی و فکری طور پر تربیت یافتہ اور آزمودہ کار اہل نطق کا استحقاق ہے۔ عامتہ الناس کے لیے تو حسن زبان نیز باقی موقعوں پر صرف خاموشی کے احکام ہیں۔
میں بعض اوقات چرکینی ہونے لگتا ہوں۔ محبت کرتا ہوں پر ساتھ موتنے بھی لگتا ہوں۔ خدائے قصہ گویاں میری لاچاری کو آپ رنگ داستان بخشے۔
پھر میں اکثر معاملات میں محض خائف رہتا ہوں۔ عالمگیر انسانی صورتحال کے تناظر میں اتنا کچھ تو مجھے روا سمجھا جانا چائیے۔ میں مروجہ اخلاقیات پر صرف قہقہہ لگا سکتا ہوں۔ مجھے اشراف کو ننگا دیکھنے کا منظر تصور میں لاکر ایک خاص راحت کا احساس ہوتا ہے۔ میرے اندر آج بھی ایک ہنگامہ جو انارکسٹ روح زندہ ہے۔ میں نمائشی زندگی کا شخص نہیں ہوں۔ میں اپنی تلخی کا حق بھی نہیں مارتا۔ میں صرف اپنے انداز پر ہی زندہ رہ سکتا ہوں۔ اگر مجھے لگتا ہے کہ مجھے بک بک کرنی چائیے تو میں بخوشی کرنے لگتا ہوں۔ جب میں سمجھوں کہ اب اس کا وقت نہیں تب میں کچھ اور کرنے لگتا ہوں۔ پر میں یہ سب کامل خلوص سے کرتا ہوں۔ میں نے سب سے تلخ تصویر جس شخص کی اتاری وہ میرے اپنے سوا کوئی اور نہیں۔ میں نے اور کسی کو یوں بے نقاب نہیں کیا جوں خود کو کیا ہے۔ اور اس سے سوا کچھ بھی نہیں کہ کبھی کبھی میں دوسروں کے لیے بھی وہ سب چاہنے لگتا ہوں جو اپنے حق میں ہمیشہ چاہتا ہوں۔