نظریۂ تدریج: درخت، چٹان اور بادل۔ کارسن مککلرز (ترجمہ: غلام محی الدین)
صبح کاذب تھی، ہر سو تاریکی چھائی ہوئی تھی۔ وقت بسری کے لئے کچھ لوگ نزدیکی کیفے میں بیٹھے تھے۔ کیفے کا مالک رابرٹ ادھیڑ عمر آدمی تھاجو پچھلے چودہ سال سے اس کیفے کو چلا رہا تھا۔ وہ ایک بد مزاج اور بدلحاظ شخص تھا اور گاہکوں سے لا پروائی سے بات کرتا تھا۔ چونکہ اس کا کیفے ایک با رونق جگہ پر واقع تھا اس لئے اس میں ہر وقت رش لگارہتا تھا۔ اُس وقت بھی وہاں تین مزدور، چند فوجی اور کچھ راہگیر بیٹھے کافی، چائے، یا کوئی اورمشروب پی رہے تھے یا ناشتے کا انتظار کر رہے تھے۔ ایک شخص کاؤنٹر کے ایک کونے پر بیٹھا سر خم کئے بیئر پی رہا تھا۔ وہ اپنی سوچوں میں مگن تھا کہ اتنے میں ایک لڑکا اپنے کندھے پر اخبارات کی گٹھری اٹھائے اندر داخل ہوا۔ اس کا دایاں کندھا جس پر اخبارات لدے تھے بائیں کندھے کی نسبت ذرا جھکا ہوا تھا۔ وہ چائے پینے کے لئے آیا تھا۔ جب وہ چائے پی کر رقم ادا کر کے دروازے سے نکلنے لگا توکاؤنٹر کے کونے میں بیٹھے بیئر پیتے شخص نے پیچھے سے آواز دے کر اسے بلایا۔
بیٹے! بیٹے!
لڑکے نے پیچھے مڑ کر آواز کی طرف دیکھا۔
ادھر آؤ۔
لڑکا اس کی طرف چلا آیا۔
لڑکے کی عمر بارہ سال تھی۔ شکل و صورت عام سی تھی۔ اس کے چہرے پر ،جو پچکا سا لگ رہا تھا، کیل مہاسے تھےلیکن معصوم تھا۔ آنکھیں گول گول سی تھیں۔ اس نے اخبارات کا ڈھیر فرش پر رکھا اور کہا، جی جناب۔ کیا بات ہے؟
اس شخص نے لڑکے کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ اس کا جائزہ لینے کے لئے ایک انگلی اس کی ٹھوڑی پر رکھی۔ اس کے چہرے کو اِدھراُدھرموڑا اور کہا، میں تم سے محبت کرتا ہوں۔
وہ لوگ جو کیفے میں بیٹھے تھے، یہ سن کر ہنسنے لگے۔ لڑکا یہ سن کر سہم گیااور گھبرا کر کاؤنٹر سے ایک طرف ہو گیا۔ کیفے کا مالک بھی اسے دیکھ کر طنزیہ انداز میں مسکرانے لگا۔ اس کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ تھی۔ اس کے جواب میں لڑکا بھی پھیکی ہنسی میں مسکرا دیا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اس حیران کن لمحے کا سامنا کیسے کرے۔ دوسری طرف کاؤنٹر کے کونے میں بیٹھا شخص جس نے اسے بلایا تھا بالکل سنجیدہ تھا۔
میرامقصد تمہیں چھیڑنے یا بد سلوکی کا نہیں۔ آؤ میرے ساتھ بیئر پیو۔ میرا نام جوزف ہے۔ تمہاراکیا نام ہے؟ اس شخص نے بات جاری رکھتے ہوئے پوچھا۔
میں ٹیلر ہوں۔ مجھے جانے دو۔ میں نے اخبار بانٹنے ہیں اورکام میں دیر ہوجائے گی، لڑکے نے جواب دیا۔
رکو۔ مجھے اس وقت تمہاری سخت ضرورت ہے۔ جب تک میں نہ کہوں تم نہ جاؤ، اس شخص نے کہا۔
براہِ مہربانی مجھے جانے دو، لڑکے نے التجا کی۔
گھبراؤ نہیں میں تمہارے وقت اور نقصان کی تلافی کر دوں گا، جوزف نے تسلی دیتے ہوئے کہا۔
کیفے کے مالک رابرٹ نے معنی خیز نظروں سے جوزف کو دیکھ کر یہ کہا، خیال رہے کہ یہ کم سن ہے۔
جوزف نے اسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔ اس نے اپنے پتلون کی جیب سے ایک تصویر نکالی اور لڑکے کو دیتے ہوئے کہا، اسے غور سے دیکھو۔
لڑکے نے وہ تصویر پکڑی۔ اس میں اسے کوئی خاص بات نظر نہیں آئی۔ وہ ایک مبہم تصویر تھی جس میں خاتون کا آدھے سے زیادہ چہرہ تو ہیٹ میں چھپا ہوا تھا۔ اس کا پیٹ ننگا تھا۔ اس نے پھولوں والی قمیض اور تنگ سکرٹ پہنا ہوا تھا۔ وہ ایک عام سی عورت لگ رہی تھی اور لڑکے کو اس میں اور کوئی قابل ذکر چیز نہ دکھی۔
اس پر جوزف نے پتلون کی پچھلی جیب سے ایک اور تصویر نکالی اور ٹیلر کو دے کر کہا، اب اس کو دیکھو۔
لڑکے نے دیکھا کہ اس تصویر میں ایک خاتون تیراکی کے لباس میں ملبوس ساحل سمندر پر لہروں سے اٹھکیلیاں کرتی نظر آئی۔ اس کا پیٹ موٹا اور باہر کو نکلا ہوا تھا۔
کیا تم نے اسے کہیں دیکھا ہے؟ جوزف نے سوال کیا۔
جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، میں نے اس عورت کو آج تک کبھی نہیں دیکھا، ٹیلر نے جواب دیا۔
جوزف نے وہ تصاویر پھر سے اپنی جیبوں میں ڈالتے ہوئے کہا، یہ میری بیوی کی تصاویر ہیں۔
کیا وہ مر چکی ہے؟ ٹیلر نے پوچھا۔
نہیں، جوزف نے ہونٹ سکیڑتے ہوئے جواب دیا۔ میں تمہیں اس کی تفصیل ابھی بتاتا ہوں۔ اس نے بیئر کے گلاس کو اٹھائے بغیر اپنا منہ اسے لگایا اور گھونٹ لینے لگا۔
کسی روز تمہاری ناک بیئر کے گلاس میں ڈوبی ہو گی، تم اسی طرح مر جاؤ گے، اور وہ بہت عمدہ موت ہو گی۔کیفے کے مالک رابرٹ نے مذاق کیا۔
ٹیلر کے چہرے پر الجھن کے آثار ظاہر ہوئے۔ اس نے کیفے کے مالک کودیکھ کر جوزف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ایسا لگتا ہے کہ یہ نشے میں ہے۔
رابرٹ اس کے اشارے کو نظر انداز کرتے ہوئے د وسرے گاہک کو کچھ کھانے کی چیز دینے لگا۔
ادھر جوزف کھڑا ہو کر ٹیلر کو سنجیدگی سے دیکھنے لگا۔ اس کی آنکھیں خمار آلود اور بے حد افسردہ تھیں۔ اس نے کہا، میں ایک ایسے جذبے کے بارے میں بات کرنے لگا ہوں جسے محبت کہتے ہیں۔ میرے نزدیک محبت ایک سائنس ہے۔ لڑکے نے اس کی بات پر دھیان نہ دیا اور جانے لگا تو جوزف نے بیس ڈالر کا نوٹ نکال کر اسے دیتے ہوئے کہا، اسے رکھ لو اور میری بات سن کر جاؤ۔
آج سے بارہ سال پہلے میں نے اس عورت سے شادی کی تھی۔ اس کا نام شائلا تھا۔ وہ ایک سال نو ماہ تین دن اور دو راتیں میری بیوی رہی۔ میں اس سے محبت کرتا تھا۔ میرا خیال تھا کہ وہ بھی مجھ سے محبت کرتی تھی۔ میں ریلوے میں انجینئر تھا، اچھی تنخواہ اورمراعات تھیں۔ میں نے اپنی حیثیت کے مطابق اسے تمام آسائیشیں میسر کی ہوئی تھیں۔ اس نے اشاروں کنایوں میں بھی کبھی ظاہر نہ ہونے دیا کہ وہ غیر مطمئن تھی۔ وہ ہر وقت خوش و خرم رہتی اور چہچہاتی رہتی۔ پھر پتہ کیا ہوا؟ شائلا نے مجھے چھوڑ دیا۔ اس نے یہ بات لڑکے کے چہرے پر نگاہیں گاڑتے ہوئے کہی۔ ایک رات میں نوکری سے واپس آیا تو گھر خالی پایا ۔۔۔ وہ جا چکی تھی۔
کسی اور کے ساتھ؟ ٹیلر نے سوال کیا۔
ظاہر ہے۔ ایک خاتون ہنستے بستےگھر کو کیسے بلا وجہ اجاڑ سکتی ہے؟
تو تم اس اخلاق باختہ عورت کا پچھلے گیارہ سال سے تعاقب کر رہے ہو؟ تم سراب کے پیچھے بھاگ رہے ہو، رابرٹ نے فقرہ کسا۔
براہِ مہربانی غلیظ زبان استعمال نہ کرو رابرٹ۔۔ میں تم سے مخاطب نہیں ہوں، جوزف پر زور لہجے میں بولا اور پھر ٹیلر کی طرف دیکھتے ہوئے ہدایت کی کہ کسی کی باتوں پر دھیان نہ دے۔
ٹیلر نے ہاں میں سر ہلا دیا۔
شادی سے پہلے میں ایسا شخص تھا جو کبھی فارغ نہیں بیٹھ سکتا تھا۔ ہر لمحہ کسی نہ کسی سر گرمی میں مصروف رہتا تھا۔ قدرتی نظاروں سے لطف انداز ہوتا تھا، محفلوں کی جان ہوتا تھا۔ سیر سپاٹے سے فرصت نہ ملتی تھی۔ زندگی سے بھرپور لیکن لا ابالی انداز میں وقت گزار رہا تھا۔۔۔ یہ کہنے کے بعد اس کی آنکھیں بوجھل ہو گئیں اور پھر بند ہو گئیں۔ بالکل ایسے جیسے کہ کسی ڈرامے کا ایک سین ختم ہونے پر سکرین پر پردہ پڑ جاتا ہے۔ تھوڑی دیر بعد پردہ اٹھا یعنی اس کی آنکھیں کھلیں اور اس نے بات جاری کرتے ہوئے کہا۔۔۔
پھر میری زندگی کو طوفان نے آ لیا اور مجھے شائلا سے محبت ہو گئی۔ میرے عمر اس وقت اکیاون سال تھی اور وہ ہمیشہ اپنی عمر تیس سال بتاتی تھی۔ ہماری پہلی ملاقات ایک پٹرول پمپ پر ہوئی۔ ملاقات چاہت میں بدل گئی اورتین چار دنوں کے اندر اندر ہم نے شادی کر لی۔ پہلی نظر سے ہی میں اس کی محبت میں مبتلا ہو گیاتھا۔ کیا تم جانتے ہو کہ اس کے بعد میری زندگی میں کیا انقلاب آیا؟
میری زندگی ماضی کے بر عکس ہو گئی۔ میں انتہائی ذمہ دار شخص بن گیا۔ میرالا ابالی پن ختم ہو گیا۔ میں شائلا کی محبت میں گرفتار ہو کر ہر وہ قدم اٹھانے لگا جس سے اس کی سہولیات میں اضافہ ہو، اسے زیادہ سے زیادہ آسودگی حاصل ہو۔ میری محبت اس کے لئے روز بروز بڑھتی رہی لیکن۔۔۔ لیکن اس نے بھاگ کر سب کچھ ختم کر دیا۔ یہ کہہ کر وہ خاموش ہو گیا۔ اپنے خیالات کو منظم کرنے کی کوشش کرتا رہا پھر بولا کہ میں اپنے جذبات و احساسات صحیح طور پر ادا کرنے سے قاصر ہوں۔ یوں کہنا چاہئیے کہ وہ خاتون میرے لئے سب کچھ تھی۔ اس نے مجھے جسمانی کے ساتھ ساتھ روحانی تسکین بھی دی تھی۔ میں خود کو ایک مکمل انسان سمجھنے لگا تھا۔
کیا تم نے اسے کبھی واپس لانے کی کوشش کی؟ ٹیلر نے پوچھا۔
جوزف بولا، تم جانتے ہو کہ ایسی سنگین صورت حال میں میری ذہنی کیفیت کیسی ہوئی ہو گی۔ میں نے فوراً ریٹائر منٹ لے لی اور اس بحران کا حل تلاش کرنے لگا۔
اس دوران رابرٹ نے ایک گاہک کو سینڈوچ بیچا۔ دوسرا گاہک اس کے پاس کافی کا کپ دوبارہ بھروانے کے لئے لے آیاجس کے اس نے مزید پیسے وصول کئے۔ وہ گاہکوں کو دوبارہ کافی کبھی مفت نہیں دیتا تھا۔ اس دوران جوزف نے بولنا بند کر دیا تھا کیونکہ اس کے ساتھ کاؤنٹر پر اور لوگ بھی موجود تھے۔
جب لوگ چلے گئے تو ٹیلر نے جوزف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، تو تم نے اسے دوبارہ پھر کہیں نہیں پایا؟ ساتھ ساتھ وہ یہ بھی سوچ رہا تھا کہ اس آدمی نے صرف اسے ہی کیوں روکا تھا۔ اصل واقعہ کیا ہے؟ وہ اسے ہی کیوں اپنی رام لیلا سنانا چاہتا ہے؟ اس کا اس علاقے میں اخبار بانٹنے کا پہلا دن تھا اور اسے پتہ نہیں تھا کہ اسے اس کام میں کتنی دیر لگے گی لیکن جوزف اسے روکے ہوئے تھا۔
ہاں۔ میں نے اسے ڈھونڈنے کی مقدور بھر کاوشیں کی۔ میں اس ہر جگہ پہنچا جہاں اس کی موجودگی کا ذرا سا بھی شائبہ ہو۔ میں اس کے والدین کے ہاں ٹلسا بھی گیا۔ میں ان تمام لوگوں کے پاس بھی گیا جن کا اس سے کبھی نہ کبھی تعلق رہا تھا۔ میں ہر اس مقام پر بھی پہنچا جس کا اس نے کبھی ذکر کیا تھا۔ پورٹ لینڈ، کلیو لینڈ، سان فرانسسکو، اٹلانٹا، شکاگو، ورجینیا، نیویورک، کیلیفورنیا ہر جگہ چھان ماری مگر وہ نہ ملی۔ میں دو سال تک پاگلوں کی طرح مارا مارا اسے ڈھونڈتا رہا۔
وہ جوڑا اس جہان سے ہی غائب ہو گیا، کیفے کے مالک نے لقمہ دیا۔
اس کی بات پر دھیان نہ دو ٹیلر۔ ان دو سالوں کی جستجو تو جیسے جیسے بیت گئی لیکن میری بری حالت تو تیسرے سال شروع ہوئی۔ میری اندرونی کیفیت عجیب و غریب ہونے لگی۔
وہ کیسے؟ ٹیلر نے پوچھا۔
محبت۔۔۔ محبت ایک ایسی ہیجانی کیفیت ہے جوبے جان اشیاء میں جان ڈال دیتی ہے۔ وہ فرد میں حوصلہ پیدا کرتی ہے۔ زندگی جینے کا سلیقہ دیتی ہے، عزم فراہم کرتی ہے، مقصد بناتی ہے۔۔۔ اور اس میں ناکامی تمام جذبات اور محرکات کو سرد کر دیتی ہے۔ ابتدائی ایام میں تو اسے واپس لانے کا عزم بھی تھااور لگن بھی۔ پھر تم جانتے ہو کہ کیا ہوا؟ جوزف نے پوچھا۔
نہیں! ٹیلر نے جواب دیا۔
مجھ میں بیگانہ پن پیدا ہو گیا۔ ایک رات میں سونے کے لئے لیٹا تومیں اس کی شکل تک بھول چکا تھا۔ میرے پاس اس کی جو تصاویر تھیں، وہ نکالتا اورانہیں گھنٹوں گھورتا رہتا۔ میرا ذہن ماؤف ہو چکا تھا۔ جب دماغ خالی ہوتا ہے تو پتہ ہے کیا ہوتا ہے؟ ۔۔۔ ایک فٹ پاتھ پر شیشے کا گلاس گرے یا جیوک باکس میں اپنا فرمائشی نغمہ سننے کے لئے کوئی سکہ ڈالا جائے تو جو آواز پیدا ہوتی ہے، ویسی ہی جھنکار میرے میرے ذہن میں بھی سنائی دینے لگی۔ اس تخیلاتی آواز نے مجھے کہیں کا نہ چھوڑا۔ ہر دم وہ آواز میرے دماغ میں گونجتی رہتی اور مجھے بے سکون کرتی رہتی۔ میں اپنا سر دیواروں اور کھمبوں سے ٹکرانے لگتا۔ میں ہر طرف دیکھتا، سنتا اور وہ آواز محسوس کرتا رہتا۔ اس کے بعد وہ کھنک اس خاتون کی آواز میں تبدیل ہو گئی۔ اب ہر وقت اس کی آوازیں میری کانوں میں گونجتی رہتیں۔ انہوں نے میرا ہر جگہ تعاقب شروع کر دیا۔ وہ میرے دل و دماغ پر چھا گئیں۔ میری روح کو ہر وقت کچوکے لگاتی رہتیں۔
یہ کیفیت کب طاری ہوئی؟ تم اس وقت ملک کے کس حصے میں رہتے تھے؟ ٹیلر نے سوال کیا۔
اوہ! مجھے یاد نہیں۔ اس وقت میں نے اپنے آپ کو چیچک زدہ شخص تصور کرنا شروع کر دیا تھا۔ میں نے کثرت سے شراب نوشی شروع کر دی تھی۔ میں ہر وہ کام کرنے لگا جو میرے من میں آتا تھا۔ میں عورتوں کا رسیا ہو گیا۔ میرا ذہن و جسم غلیظ سے غلیظ تر ہوتا چلا گیا۔ میں اپنے گناہوں کا اعتراف تو نہیں کرنا چاہتالیکن کہے بغیر رہ بھی نہیں سکتا کہ اس دورمیں اس کا تصور ایک جمے ہوئے دہی کی طرح میرے ذہن کے ہر گوشے میں جما ہوا تھا۔ یہ ایک بہت تکلیف دہ احساس تھا اس لئے اسے بیان کرنے میں عافیت سمجھی ہے۔ شاید اس اعتراف سے ضمیر کی چبھن کم ہو جائے۔ بات کرتے کرتے وہ گم سم کھڑا ہو گیاپھر اس نے اپنا سر جھکایا اور ماتھے کو کاؤنٹر پر مارنا شروع کر دیا۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ پھر اُٹھ کھڑا ہوا۔ اب اس کی افسردگی نے الٹ رخ اپنا لیا تھا۔ وہ مسکرا رہا تھا اور اس کا چہرہ دمکنے لگا تھا۔
پھر وہ لرزتی ہوئی آواز میں بولا، میری وہ عجیب و غریب کیفیت شائلا کے بھاگنے کے پانچ سال بعد پیدا ہوئی تھی۔ کیفے کے مالک نے جوزف کی باتیں سن کر برا سا منہ بنایا اور کہا، ہماری عمریں روز بروز بڑھ رہی ہیں۔ تم ساٹھ کے پیٹے میں ہو ڈریگن کی دم والے احمق۔ خدا کا خوف کرو کس عمر میں چونچلے کر رہے ہو بڈھے رومیو۔
جوزف یہ سن کر بولا، شانت رہو۔ زیادہ مستی نہ دکھاؤ اور خاموشی سے میرا قصہ سنو۔ میری ایسی دگرگوں حالت کی توضیح معروضی انداز میں مشکل ہے لیکن ایسا کہا جا سکتا ہے کہ میں اور شائلا تخیلاتی طور پر دنیا بھر میں بھٹکتے رہے۔ ہم مہاجروں کی طرح ایک طویل عرصے تک ٹھوکریں کھاتے رہے۔ یہ سراسر میری ذہنی حالت تھی جس میں وہ میرے ہر دم ساتھ ہوتی تھی جبکہ حقیقت میں وہ الگ تھی۔ رفتہ رفتہ حقیقت کا احساس ہوا تومیں نے ہار مان لی۔ وہ تلاطم تھم گیا، اذیت ختم ہو گئی اور ایک عجیب و غریب دلکش و دلربا ہوش باختگی پیدا ہو گئی۔
پورٹ لینڈ میں ایک رات اپنے بستر پر لیٹے ہوئے اچانک مجھے آمد ہوئی کہ میری تمام تر پریشانیوں کا مداوا تو مراقبے میں ہے۔ اس میں شخص آنکھیں بند کر کے دنیا و مافیہاسے بے خبر ہو کر سوچنے لگتا ہے۔ اس کا ایک ایک انگ اس سے باتیں کرتا ہے۔ وہ اپنے ہر عضو کوقابو میں لا سکتا ہے۔ بعض صورتوں میں تواتر سے کسی شے کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھتا ہے جس سے ارد گرد کی اشیاء کو نظر انداز کر کے صرف خصوصی چیز پر ہی توجہ مرکوز رہتی ہے۔
اتنے میں کیفے کی ملحقہ سڑک پر سٹریٹ کار آ کر رکی۔ راہگیر اور تینوں فوجی بال سنوارتے ہوئے باہر نکل گئے جبکہ مزدور بیٹھے رہے۔
ان کے جانے کے بعد جوزف نے اپنی بات جاری رکھی، تو میں کہہ رہا تھا کہ مراقبے کی اہمیت مجھے پورٹ لینڈ میں معلوم ہوئی۔ پھر میں نے مراقبے کی ورزشیں شروع کر دیں۔ یہ آسان فعل نہیں تھا۔ پہلے پہل میں گلی کوچے سے کوئی بھی چیز اٹھا کر لے آتا۔ اسے گھنٹوں ٹکٹکی باندھ کر دیکھتا اور ذہن میں محبت کا تصور لاتا۔ ابتدا ئی دنوں میں ذہن منتشر ہو جاتا تھالیکن مسلسل مشق سے اس میں مہارت پیدا ہو گئی۔ اس کے بعد میں پورٹ لینڈ سے سان فرانسسکو چلا آیا۔ وہاں آ کر میں نےمراقبے کی مشق کے لئے پالتو مچھلیاں رکھ لیں اور انہیں ٹکٹکی باندھ کردیکھتے ہوئے اپنے اعصاب مضبوط کرتا رہا۔ میرے طبق آہستہ آہستہ روشن ہونے لگے۔ محبت میں رسوائی کا غم جاتا رہا۔ میری توانائیا ں پھر سے اجاگر ہونے لگیں۔
اپنی بکواس بند کرو اور مزید کچھ نہ کہو، کیفے کے مالک رابرٹ نے اسے کہا۔ خواہ مخواہ بچے کو گمراہ کر رہے ہو۔
جوزف نے سنی ان سنی کر دی۔ اس نے لڑکے کی جیکٹ کا کالر پکڑا اور اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا، اب چھ سال ہو گئے ہیں اور میں مراقبے میں کسی حد تک ماہر ہو گیا ہوں۔ کسی بھی شے، سوچ یا موضوع کا انتخاب کرتا ہوں اور اس پر مراقبہ کرتا ہوں۔ دماغ روشن ہو جاتا ہے۔ میں اپنے من میں لوگوں کی چہل پہل دیکھتا ہوں۔ اب میں مراقبے میں کم و بیش ہر مقصد حاصل کر سکتا ہوں۔ اب مجھے غم جاناں اور غم دوراں کے بارے میں فکر کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ اب میں ہر شے سے محبت کر سکتا ہوں۔ میں اس عمل کے دوران تمام قدرتی نظارے دیکھ سکتا ہوں۔ کسی ایک سے نہیں بلکہ تمام بنی نوع انسان سے محبت کر سکتا ہوں۔
یہ سب کہہ کر اس نے ٹیلر سے پوچھا، کیا تم جانتے ہو محبت کی شروعات کیسے ہوتی ہے؟
ٹیلر خاموش رہا۔
محبت ایک درخت ، ایک چٹان اور ایک بادل کی مانندہے، جوزف بولا۔
باہر زوروں کی بارش ہونے لگی۔ فیکٹری میں صبح کی شفٹ شروع ہونے کا سائرن بجا۔ مزدور اٹھ کر ڈیوٹی ادا کرنے فیکٹری چل پڑے۔ اب کیفے میں رابرٹ، جوزف اور ٹیلر ہی رہ گئے۔
محبت ناکام اس لئے ہوتی ہے کیونکہ لوگ محبت غلط سمت سے شروع کرتے ہیں۔ آغاز میں آہیں، سسکیاں، نیند اڑنا، جذبات و احساسات میں تلاطم پایا جاتا ہے۔ محبت کی خاطر ہر ایک مشکل کا سامنا کیا جاتا ہے۔ جان تک نثار کر دی جاتی ہے پھر ٹھہراؤ پیدا ہوتا ہے جو بعد میں زوال پذیر ہوتے ہوتے ختم ہو جاتا ہے۔ جبکہ محبت کی کامیابی کے لئے یہ ترتیب الٹ ہونی چاہیئے۔ شروع میں جذبات کم ہوں۔ رفتہ رفتہ یادوں کو قائم کیا جائے اور ان حسین یادوں کو مضبوط کیا جائے تو پھر محبت ایک چٹان کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ ایسی تدریجی محبت آخرکار جولانی پر پہنچ کر لازوال ہو جاتی ہے۔
توکیا تم مراقبے کے ذریعے اس خاتون سے دوبارہ محبت میں گرفتار ہوئے؟ ٹیلر نے متجسس انداز میں پوچھا۔
یہ بات سن کر جوزف اداس ہو گیا۔ اس نے ٹیلرکی جیکٹ کا کالر چھوڑ دیا۔ اس کی سبز آنکھیں بے نور ہو گئیں۔ وہ خلا میں گھورنے لگا۔ بئیر کی بوتل اٹھائی اور منہ سے لگا لی۔ اس پر ہلکا سا رعشہ طاری ہو گیا۔ مراقبے کا یہ مرحلہ ابھی طے کرنا باقی ہے۔ میں احتیاط سے اس بات کی مشق کر رہا ہوں کہ یہ کیفیت بھی حاصل کر لوں لیکن ابھی اس میں کامیاب نہیں ہوا۔ تاہم کوشش جاری ہے، جوزف یہ کہہ کر باہر کی طرف چل پڑا۔
تم نے میرا وقت کیوں ضائع کیا؟ ٹیلر نے اسے روک کر پوچھا۔
تم کم سن ہو۔ تمہیں یہ پیغام دینا چاہتا تھا کہ عام لوگوں کی طرح محبت الٹی سمت سے شروع نہ کرنا بلکہ میرے بیان کردہ نظریۂ تدریج: درخت، بادل اور چٹان پر عمل کرنا۔ یہ کہہ کر جوزف لڑکھڑاتاہوا باہر نکل گیا۔
ٹیلر کافی دیر تک گم سم کھڑا رہا پھر اس نے اپنے اخباروں کی گٹھری اٹھائی، کندھوں پر رکھ لی اور رابرٹ سے پوچھا۔ کیا وہ نشے میں تھا؟
نہیں، رابرٹ بولا۔
کیا وہ ذہنی مریض ہے یا اس پر بد روحوں کا سایہ ہے؟ ٹیلر نے قیاس آرائی کرتے ہوئے اور سوال پوچھے۔
نہیں، رابرٹ بولا۔
کیا وہ پاگل ہے، ٹیلر نے پوچھا۔
رابرٹ کچھ دیر خاموش رہا۔ وہ چودہ سال سے یہ شبینہ کیفے چلا رہا تھا اورآس پاس کے سب پاگلوں کو جانتا تھا۔وہ اپنے گاہکوں کے ذہنی خلل کی تمام علامات سے واقف تھالیکن وہ ٹیلر کے سوالات کا جواب نہیں دینا چاہ رہا تھالہذا خاموش رہا۔
ٹیلر نے اپنا ہلمٹ پہنا اور جاتے جاتے ایک ایسا جملہ کہا جو اسے امید تھی بچگانہ یا قابل نفرت نہیں گردانا جائے گا۔ لگتا ہے اس نے کافی سفرطے کیا ہے!