خدایا، خدایا۔ تحریر: محمد سجاد

 In تاثرات

میرے حافظے میں یادداشتوں کا جہنم ہے۔ جس معاشرے اور جن حالات میں ہمارا بچپن و جوانی گزرتی ہے، اس کے المیوں کی یادداشت قبر تک ہمارے ساتھ جاتی ہے۔ کبھی کبھی تو لگتا ہے، شاید یہی جہنم کسی اور صورت میں، کسی اور دنیا میں بھی ہمارا پیچھا کرے گا۔ 
2004 میں راولپنڈی میں ساون کی شدید بارشوں میں ہماری گلی میں سرگودھا کے ایک مزدور کی تین سالہ بیٹی گم ہو گئی۔ بارش اور بارش کے بعد بھی سارا دن تلاش جاری رہی۔ باپ بیچارہ گونگا تھا، روتا تھا، دل پہ ہاتھ رکھتا اور اشاروں سے ہر کسی سے کہتا کہ میری بیٹی گم ہو گئی۔ گلی میں ہر شخص نے بھاگ دوڑ کی۔ آخر شام کو جب بارش تھمی تو نالی میں ایک جگہ پانی رک رہا تھا، وہاں ایک بندے نے پانی کی بندش کھولنے کیلئے ڈنڈے سے جگہ کو ٹٹولا تو اسے لگا کوئی چیز ہے۔ جب کھوجا تو بچی مردہ حالت میں وہاں سے ملی۔ نالی پہ کور نہیں تھا۔ بچی گلی میں کھیلتی نالی میں گری، بارش ہوئی اور جان سے چلی گئی۔ ہماری ایک نسل نالیوں، مین ھولز اور نالوں میں غرق ہو گئی! یہ کیسی زندگی ہمارے حصے میں آئی۔۔۔
مجھے اس گونگے باپ کی سینہ کوبی، اس کا پردیس، غربت اور اس کی بیوی کی چیخیں اب بھی یاد آتی ہیں۔ اہل محلہ نے چندہ اکٹھا کر کے ایمبولینس اور بچی کی تدفین کے اخراجات مہیا کیے۔ اس گلی میں اس رات موت کا سناٹا تھا۔ میں اور میری چھوٹی بہن کچن میں بیٹھ کر بے تحاشا روئے۔ میرا مسئلہ ہے، جب روتا ہوں تو بے تحاشا اور بچوں کی طرح روتا ہوں۔ موت میرے لئے بہت بڑا المیہ ہے، جو دکھ موت و بیماری نے ہم انسانوں پہ مسلط کیا، اس کا درد ناقابل بیان ہے۔ اسلام آباد سیشن کورٹ میں ایک بزرگ کی بھری عدالت میں التجائیں کہ میرے مقتول بیٹے کا مقدمہ خارج کیا جائے، میری بیوی نابینا ہو چکی ہے، پولیس ہر پیشی پہ بلا کر ذلیل کرتی ہے۔ ایڈیشنل سیشن جج کی عدالت میں ٹانگوں سے معذور دو بھائیوں پہ دیوار پھلانگ کر ڈکیتی کرنے کا الزام تھا۔ دو سال سے ضمانت نہیں مل رہی تھی۔ ان کی ماں کے بین اور آنسو۔ قیامت شاید کوئی اجتماعی دن نہیں، روز کسی کی قیامت برپا ہو رہی ہے۔  
موت، بیماری، ظلم سے جڑے ہوئے دکھ بہت بھاری ہیں، خدا نے کس حکمت کے تحت یہ بوجھ ہم پہ ڈالا۔ ابھی ایک دوست کی بیٹی کے اچانک انتقال کی خبر ملی۔ وہ اکثر اپنی پوسٹس میں بیٹی کا ذکر کرتے تھے۔ دل بھر بھر آ رہا ہے۔ خدا سے ملاقات کا جو وعدہ ہے، وہاں صرف ہماری زندگی کے بارے ہی کیوں سوالات ہوں گے؟ وہاں تو دو طرفہ سوالات کی گنجائش ہونی چاہئیے۔ ہماری نیکیوں کیلئے ایک جنت، وہ بھی اگلے جہاں اور ہمارے دکھ یہیں، ہمارے لئے ہر روز جہنم؟ ایسے سوالات، اضطراب اور کشمکش کی وجہ سے انسان کا خدا سے تعلق بھی پینڈولم کی طرح جھولتا ہے۔ کبھی تشکیک، کبھی یقین۔ کبھی شکایات، کبھی تسلیم۔ 
خدا سے تعلق شاید احساسات سے ترتیب دی گئی کوئی کیفیت ہے جو ہماری تمام تر انسانی خامیوں کے ساتھ خدا کی کمالیت کے بارے تجسس سے بھرپور ہے۔ یہ رشتہ محض عقیدہ نہیں ہو سکتا، بلکہ ایک روحانی تجربہ ہے جو محبت، اپنائیت، قرب و فرار، حضور و اضطراب، شکوہ و شکایت، اور کسی مبارک لمحے میں آنسوؤں سے عبارت ہے۔ اس میں خدا سے دوری اور خدا کے قرب، دونوں دروازے کھلے ہیں۔ خدا اپنے قرب سے بھاگنے والوں کا بھی منتظر ہے، اس کا ظرف، انسان کے فرار کی حدود کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ مگر اپنی زمینوں اور اپنے گھروں اور گلیوں سے بے دخل کئے گئے انسانوں کا کون منتظر ہو گا؟ میں خدا کے ظرف اور عدل کے باہمی ربط بارے متجسس و متشکک ہوں۔
میں خدا کے قرب سے بھاگا ہوا انسان ہوں، مجھے کسی نے بے گھر نہیں کیا، لیکن میں نے لوگوں کو بے گھر و مقتول اور قبل از موت کا شکار دیکھا ہے۔ سوالات، تجسس اور شکوک نے تھکا ڈالا ہے، میرے اندر تلخی اور اضطراب ہے، جس سے ذہن میں تشکیک اور ”لا أدریت“ در آتی ہے۔ سامنے جو خون، نوحے اور چیخیں ہیں، وہ دیکھنے اور سننے کے بعد ان سب سے نجات یا اس زہریلے احساس کا تریاق کہاں، کس کے پاس ہے؟ ہمارے دل و دماغ میں وجودی المیہ سے عبارت بے نام اور بے وقت اداسی اور انسانی المیوں کی خبریں اور یادداشت ہے، کیا اس کا علاج خدا کا میزان عدل ہے؟
 دماغ، حواس خمسہ کے وسیلے سے وہ جاننا چاہتا ہے، جو ان حسی وسائل سے ماورا ہے، دل ان حالات و چیزوں بارے مضطرب ہے جن میں موت، نامکمل خواب اور نا انصافی منہ چڑاتی نظر آتی ہے، اسی لئے خدا کے حضور بھی میرا ”حضور“ ناقص اور میرا دل تفکرات میں گھرا رہتا ہے۔ رسمی عبادت یا کسی وظیفے سے یہ اضطراب نہیں جاتا، میرا تخیل تھک چکا ہے، اور میرا دل بوجھل ہے۔ خدایا، میں تیری گود میں سر رکھ کر رونا چاہتا ہوں۔ اس ساری تھکن میں، اب میرے پاس صرف نامکمل یقین، چند سوالات، ایک مضطرب دل اور آنسوؤں کیلئے دو آنکھیں سلامت بچی ہیں۔

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search