مولانا منتخب الحق قادری کی یاد میں۔ گفتگو: احمد جاوید صاحب (ترتیب: عاصم رضا)

 In یاد نگاری
نوٹ: دو تین روز پہلے ڈاکٹر نعمان الحق صاحب کی مترجمہ کتاب الطواسین کی تقریب رونمائی میں شرکت کا موقع ملا ۔ وہاں سے واپسی پر ہی ذہن میں یہ خیال جم چکا تھا کہ استاد گرامی احمد جاوید صاحب نے جو ڈاکٹر نعمان الحق کے والد گرامی مولانا منتخب الحق قادری صاحب پر گفتگو ریکارڈ کروائی تھی اس کو جلد از جلد قلمبند کروں۔
ایک قابل ذکر نکتہ یہ ہے کہ چونکہ یوٹیوب کی ریکارڈنگ میں فہرست عنوانات بنائے گئے ہیں لہذا میں نے بھی انہی کو استعمال کیا ہے۔ گفتگو میں ایک جگہ منطق کی اشکال کا ذکر ہوا تو میں نے احباب کی دلچسپی کے پیش نظر کچھ تصاویر منسلک کر دی ہیں۔ بعینہ سلم العلوم کہ شرح قاضی مبارک پر مولانا فضل حق خیر آبادی کے حواشی کا ذکر ہوا ہے تو اس سلسلے میں دو سرورق بطور تصویر شامل کیے ہیں۔  بعض مقامات پر میں نے اپنے تئیں روانی کے پیش نظر محض الفاظ کی ترتیب بدلی ہے جس کے نتیجے میں ہر ممکنہ غلط فہمی کا ذمہ دار صرف اور صرف میں ہی ہوں۔ 

آغاز/تمہید:
آج ہم جو کراچی کا عہدِ زریں تھا ہر اعتبار سے، (نیز) جن حضرات کی وجہ سے وہ عہد ایک مثالی عہد تھا، اُن میں سے ایک نہایت محترم، نہایت مرکزی حیثیت رکھنے والی ہستی کا تذکرہ کریں گے ۔ ہماری خوش قسمتی ہے کہ اُن کے صاحبزادے ڈاکٹر نعمان الحق بھی تشریف فرما ہیں ۔ میرے بعد وہ کچھ ارشاد فرمائیں گے۔ 

مقصد یہ ہے کہ ہم لوگ بہت تیزی سے جیسے اُوپر دیکھنا بھولتے جا رہے ہیں، بڑی شخصیتوں کی پہچان lose کرتے جا رہے ہیں (کھو رہے ہیں)۔ ہماری روایت میں جو چیزیں بھی انتشار کی اور گراوٹ کی ہیں وہی مسلسل ہیں۔ جتنے بڑائی کے عناصر ہیں اور علم کا جو بہاؤ ہے وہ گویا ہم  نے گندے نالے میں پھینک دیا ہے۔ اِتنے بڑے بڑے لوگ جو ہیں وہ اِس وقت  گمنامی میں چلے گئے ہیں کہ جو اگر کسی واقعتاً انسانی معاشرے میں ہوتے، نظریاتی کی بات نہیں کر رہا، صرف ایک علم دوست معاشرے میں وہ لوگ موجود  ہوتے، تو آج اُن کا نام ہر پڑھے لکھے آدمی  کو معلوم ہوتا۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ جن صاحب کا ہم ذکر کرنے جا رہے ہیں، جس مکتبۂ فکر پر اُن کے احسانات ہیں اور جنھیں اُنہوں نے مختلف خطرات سے بچایا وہی آج اُن کا نام نہیں لیتا،  تو اور دوسرے کیا کریں گے۔ 

میری مراد ہے پروفیسر مولانا منتخب الحق  صاحب قادری ۔ یہ خیر آباد سکول کی آخری نشانی تھے۔ اُن کی اِس حیثیت سے جو امتیازات ہیں وہ بھی عرض کروں گا ۔ لیکن پہلے تھوڑا سا ایک سوانحی سا رنگ پیدا کرنے کے لیے تاکہ لوگ اُن کی شخصیت کو بھی جانیں اور کِس ماحول میں انہیں بڑا مانا جاتا تھا  ، تو اُس ماحول کا تھوڑا ذکر کر دوں ۔ وہ کوئی ہم لوگ تھوڑی انہیں بڑا  مانتے تھے ۔ جو بڑے تھے وہ بڑا مانتے تھے۔ 

سوانحی تذکرہ:
مولانا منتخب الحق صاحب رحمہ اللہ پہلے مدرسے میں پڑھاتے تھے۔ سیال شریف سے بہت قریبی تعلق تھا اُن کا، مطلب اُن کے لوگوں سے۔ پھر اُس کے بعد (کراچی) یونیورسٹی میں اسلامک اسٹڈیز کے پہلے ڈین بنے۔ وہاں اُن کے چھے سات برس، آٹھ برس گزرے۔ اِس کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنا ایک تعلیمی و تربیتی ادارہ بھی قائم کیا، مرکزِ قادری کے نام سے ۔ اُس میں بھی اُن کی مصروفیات رہتی تھیں ۔

میرا جو حضرت سے تعارف ہوا، وہ میں نے انہیں پہلی مرتبہ مولانا ایوب صاحب ؒ کے یہاں دیکھا ۔ مولانا (دہلوی) چونکہ بالکل ہی جیسے دُورباش کہنے والی شخصیت تھے، مطلب ہم نے اُن سے سوائے ڈانٹ کے اور کچھ حاصل نہیں کیا۔ وہ اُن کا بڑا اِکرام کر رہے تھے۔ پتہ چلا کہ یہ پروفیسر منتخب الحق صاحب قادری ہیں اور یہ بہت بڑے معقولی ہیں ۔ میں نے کہا کہ بہت اچھا ۔ اُس وقت منتخب الحق  صاحب قادری بوڑھے نہیں لگتے تھے۔ ہمارے مولانا سے خاصے کم عمر تھے۔ خیر، اُس کے بعد میں نے ایک صاحب مولانا عبدالجبار صاحب سے کہا کہ مجھے بھی تو تعارف کروا دیجیے۔ انہوں نے تعارف کروایا۔ جس طرح کی مسکراہٹ سے انہوں نے دیکھا، میں تو چھوٹا تھا ناں ( کہ شاید) اٹھارہ برس کا ہوں گا، مطلب مجھے بہت عجیب لگا۔ کیونکہ مجھے تو مولانا (ایوب دہلوی ؒ) کی سخت نظروں کا تجربہ تھا۔ وہ بالکل جیسے بہت ہی (مختلف تھے)۔ ایسی مسکراہٹ  کم لوگوں کی ہوتی ہے کہ لگتا ہے جیسے اُن کے ہونٹوں کا اُن کے دل سے براہ راست تعلق ہے۔ یعنی (مسکراہٹ) سچی خوشی کے ساتھ۔  پھر اُس کے بعد مولانا (منتخب الحق صاحب قادری) کو میں نے دوسری مرتبہ جب دیکھا وہ ذہین شاہ (تاجی) صاحب کے یہاں دیکھا ۔ ذہین شاہ تاجی صاحب کے یہاں فصوص کا درس ہوا کرتا تھا تو اُس میں، مَیں اپنے استاد سلیم احمد صاحب کو  لے کر جاتا تھا ۔ وہاں میں نے ایک دن اِن کو دیکھا ۔ یہ کوئی دو مہینے کا فصل (فاصلہ) ہو گا اِس میں۔ یہ بہت جیسے مؤدب انداز سے بیٹھے ہوئے تھے ۔ مجھے عجیب سا لگا کہ مولانا (ایوب دہلوی ؒ) تو اِن کا اتنا اِکرام کر رہے تھے ، یہاں تو یہ بالکل جیسے مؤدب سے بیٹھے ہوئے ہیں ۔ میں نے پھر سوچا کہ میں انہی سے پوچھوں گا۔ مجھے ذہین شاہ تاجی صاحب کا درس وغیرہ، میں معافی چاہتا ہوں کہ اس وقت سمجھ میں نہیں آتا تھا  لیکن (وہ) بہت زیادہ منتقل نہیں ہوتا تھا۔ جیسے ہمارے مولانا (ایوب دہلویؒ) تھے، وہ علم کو experience (واردات/احوال) بنا دیتے تھے۔ وہ چاہے آپ کو سمجھ میں نہ آئے لیکن آپ کو جیسے علم کی ٹھنڈک، اُس کا جوہر ہے ، اُس کی ٹھنڈک آپ کو محسوس ہوتی تھی اور اُس کی طرف کشش محسوس ہوتی تھی۔ مجھے یہ چیزیں وہاں  نہیں لگتی تھیں۔ مولانا (ایوب دہلویؒ) کی کون سی باتیں میں سمجھتا ہوں لیکن مولانا جب بولتے ہیں تو یہ لگتا ہے کہ ہم بالکل محروم نہیں ہیں اپنی ناسمجھی کی وجہ سے ۔ 

دوسری مرتبہ جب میں نے دیکھا تو اس کے بعد ہمارے ایک دوست تھے، تھوڑے سینئر دوست، دوست محمد فیضی صاحب ۔ و ہ ابھی کچھ برس پہلے مرحوم ہوئے ہیں ۔ سیاست وغیرہ میں بھی تھے لیکن اُس وقت اُن کی اصل شہرت تھی  ڈیبیٹر (مقرر) کی ۔ وہ جو مقابلے ہوتے تھے طالب علموں میں ، اُس میں وہ مشہور تھے۔ میرے وہ مہربان تھے۔ میں نے کہا کہ یار، وہاں جانا تھا ۔ اُن کو دیکھا تو عجیب مجھے کشش سی محسوس ہو رہی تھی، تو وہ ہنسنے لگے ۔ کہنے لگے کہ میں اُن کا شاگرد ہوں۔ یہ ایک عجیب بات ہو گئی ۔ مطلب میں دوست محمد فیضی کے بارے میں یہ گمان نہیں رکھتا تھا کہ یہ علماء کے کبھی قریب بیٹھے ہوں۔ خیر انہوں نے مہربانی کی اور ہم جا کے یونیورسٹی میں ملے ۔ وہاں میں نے مولانا سے یہی پوچھ لیا۔ میں  نے کہا، مولانا آپ تو جانتے ہیں، ہم تو بالکل جاہل ہیں ۔ لیکن آپ سے محبت محسوس ہوئی ہے ۔ یہ کیا دو طرف (معاملہ ہے)۔ مولانا (ایوب دہلویؒ ) ذہین شاہ صاحب کا نام سننا نہیں گوارا کرتے تھے۔ کیونکہ مولانا ایوب صاحبؒ جو ہیں وہ تو بہت زیادہ پختہ تھے۔ سلیم احمد کو بھی ڈانٹتے تھے اِس بات پر کہ وہاں جا کے کیا تم  نے حاصل کر لیا۔ مطلب، اِس طرح مذاق اڑاتے تھے۔ کہنے لگے کہ بھئی، ذہین شاہ صاحب کے پاس میں فصوص کا علم حاصل کرنے نہیں جاتا۔ بلکہ میرے بڑے جو ہیں، کچھ میرے بڑے ہیں، اُن کے حکم پر چلا جاتا ہوں ۔ اور وہاں بیٹھ کر جیسے اپنے شغل میں رہتا ہوں ۔ یہ مولانا منتخب الحق صاحب قادری نے فرمایا ۔ ہاں، مولانا ایوب صاحبؒ سے میں علم حاصل کرتا ہوں۔ اُن سے اختلاف بھی کرتا ہوں اور اظہار بھی کرتا ہوں ۔ اِس طرح کی باتیں انہوں نے کیں ۔ 

کراچی شہر کا ایک زریں دور:
اب یہ وہ زمانہ تھا  کراچی کا  جو شاید پاکستان کے کسی شہر کو نصیب نہ ہوا ہو ۔ early    70s (ستر کی دہائی کے اوائل ) کا زمانہ تھا  کہ وہاں ہر مکتبۂ فکر کے بڑے لوگ موجود تھے، بہ اعتبارِ علم بھی اور بہ لحاظِ عمل بھی ۔ مثلاً دیوبندی مکتبۂ فکر میں مفتی محمد شفیع صاحبؒ تھے، مولانا احتشام الحق تھانویؒ تھے اور ایک قطار تھی ۔ حتی کہ عیسائیوں میں ایک صاحب تھے جوزف کارڈیرو (1918ء تا 1994ء)، وہ بِشپ تھے۔ وہ اِن سب سے ملتے تھے۔ وہ اسلامیات کا بہت زیادہ علم رکھتے تھے اور انہوں نے اپنے اندر کچھ ریفارمز بھی چلائی تھیں علماء کے زیرِ اثر ۔ یہ جوزف کارڈیرو صاحب وہ ہیں جو اُن دس آدمیوں (یعنی کارڈینلز) میں آخر میں چلے گئے تھے  جن میں سے پوپ کا انتخاب ہوتا ہے۔ بہت مشہور آدمی تھے۔ بریلوی حضرات میں بہت بڑے بڑے لوگ تھے ۔ خطیب ایسے، رشید ترابی اور خود مولانا احتشام الحق صاحب، وہاں محمد شفیع اوکاڑوی صاحب۔ اِن کی خطابت جو تھی لوگوں کو گنگ کر دیتی تھی۔ پھر کردار بھی ایسے ایسے، کوئی زاہدانہ زندگی میں ہے، کوئی امیر ہے تو اُس کی فیاضی بہت ہوتی تھی  جو اُسے امیر نہیں رہنے دیتی تھی۔ یہ علماء کی میں بات کر رہا ہوں۔ شاعروں ادیبوں میں بھی، نقادوں میں بھی (بڑے لوگ تھے)۔ خود اُس زمانے  میں  فیض صاحب بھی وہاں تھے عبداللہ ہارون کالج میں۔ یہ سب بڑے لوگ تھے۔

 کتنے بڑے لوگ تھے  جن کا مجھے نام نہیں آتا۔ آپ یقین مانیں کہ میں نے بالکل گمنام بڑائی کا تجربہ اپنی نوجوانی  میں حاصل کیا ہے کہ ایک آدمی بیٹھا ہوا ہے اور وہ بیٹھے بیٹھے آپ کی زندگی کو  بامعنی بنائے جا رہا ہے ۔ کچھ کہہ نہیں رہا وہ۔ پھر بعد میں پتہ چلتا تھا کہ ارے، یہ (صاحب)  تو  یہ ہیں، یہ  (صاحب) تو وہ ہیں  وغیرہ وغیرہ۔ 

اب اِس پورے ماحول میں کوئی کشاکش نہیں تھی اور مشترکات پر زور دیا جاتا تھا۔ اختلافات علماء آپس میں طے کیا کرتے تھے۔ یوں سمجھیں کہ سب جیسےایک ہی مینار کی تعمیر کرنے والے معمار تھے۔ اب آپ سوچیے کہ وہ کتنی خوبصورت اور کتنی  خوش نصیب اور کتنی تخلیقی زمین ہو گی جہاں جنگل اُگانے میں عیسائی بھی شامل ہے، مسلمان بھی شامل ہے۔ وہ بھولا پرشاد جو تھے گورو مندر والے، بھولا پرشاد شاستری، وہ ویدانت کے اتنے بڑے عالم تھے۔ ہر ہر ڈسپلن (شعبے) میں بڑا آدمی وہاں ایک سے زیادہ کی تعداد میں موجود تھا۔ اُن میں جو ہمارے آج کے ممدوح ہیں مولانا منتخب الحق صاحب، یہ اُن سب کی نظر میں محبوب تھے۔ اُن سب کی نظر میں محترم تھے ۔ کوئی آدمی یہ افورڈ (گوارا)  نہیں کر سکتا تھا اگر وہ علم دوست ہے کہ وہ کراچی میں رہے اور مولانا سے نہ ملے۔ مولانا کی خدمت میں کچھ بہت پیچیدہ سوالات نہ  لے جائے ۔ ذہین شاہ صاحب کے ایک مرید کو میں نے بھڑکا دیا تو وہ کہنے لگے کہ ہمارے شیخ سے زیادہ کون جانتا ہے۔ انہوں نے وحدت الوجود کے جو خفیہ سوالات ہوتے ہیں ناں، وہ لکھ لیے ۔ وہ گئے تو انہوں نے اُن کو پہلے تو جواب دیا ۔ اُس کے بعد کہا کہ اِن چکروں میں نہ پڑو ۔ مطلب، لوگوں کو آزمایا نہ کرو ۔ 

مولانا منتخب الحق قادری صاحب کی شخصیت کے علمی و تہذیبی پہلو:
مولانا جو تھے وہ معقولی تھے ۔ معقولی سے مراد یہ کہ اپنی روایت میں رہتے ہوئے ، اسلام پر رہتے ہوئے بہترین فلسفہ داں اور انتہائی competent   (قابل/لائق /ماہر) ماتریدی متکلم، انتہائی صاحبِ حال صوفی ۔ منطق وہ اِس طرح پڑھا دیتے تھے کہ جیسے ہم ڈائجسٹ بچوں کو پڑھائیں۔ مطلب، ایسے روانی سے پڑھاتے۔ اُن کے استاد تھے مولانا معین الدین اجمیری۔ اُن کی ایک کتاب ہے جو میں نے منطق میں سب سے پہلے پڑھی، وہ ہے ”مُعین المنطق“۔ اُس کو وہ کہتے تھے کہ پڑھو۔ جو سمجھ میں نہ آئے  بس وہ ایک دم (سمجھا دیتے)۔ کتابوں میں لکھا ہوا بہت مشکل لگتا تھا۔ وہ چھے اشکال جن کا منطق مجموعہ ہے، ایساغوجی اور چھے اشکال۔ وہ ایک گھنٹے میں سمجھا دیتے تھے۔ مطلب، گھنٹے بھر میں سمجھا دیا ۔ (نوٹ: معروف معنوں میں چار اشکال ہیں جنھیں اشکال اربعہ کہتے ہیں۔ )

ویسے بھی وہ جس سلسلۂ فکر کے تھے ، خیر آبادی  دبستان کے آخری آدمی تھے ، اِس دبستان کا طرۂ امتیاز تھا کہ  منطق میں اِن کے برابر کوئی نہیں ہے ۔  بلکہ وہ قاضی مبارک کی جو شرح ہے سُلّم العلوم  ، اُس پر جو مولانا فضل حق صاحب نے لکھا ہے سب کا اتفاق ہے کہ وہ متن سے زیادہ ہے۔  مطلب، وہ بڑی کتاب سمجھی جاتی ہے ۔ 

خیر، اب مولانا جو تھے وہ  بہت مجلسی آدمی اور اپنی تہذیب میں رچے بسے آدمی تھے ۔ مطلب ، آج کل کی طرح نہیں کہ جو بھی علم حاصل کریں وہ علم آپ کی  تہذیب سے کوئی زندہ تعلق نہ پیدا  کر پائے ۔ آپ کی تہذیب سے پیدا کی گئی نفسیات  میں کوئی significant (نمایاں) اضافہ نہ کرے ۔ اِس طرح تو لوگ آج کل کسی بھی علم کو نہیں دیکھتے ۔  لیکن مولانا ہمارے پڑوسی شہر کے تھے ۔ میرے آباؤاجداد الہٰ آباد  کے تھے ، یہ گورکھ پور کے تھے ۔ یہ پڑوسی (شہر) تھے جیسے لاہور اور گوجرانوالہ ۔ یہ بالکل اُس تہذیب میں تھے جس تہذیب  میں، مَیں نے اپنے بڑوں کو دیکھا تھا۔ اُس انداز کے تھے۔ اِن کے ساتھ بیٹھ کر علم تو کچھ ہی لوگ سیکھ سکتے ہیں ۔ ظاہر ہے علم کی طلب اور علم کی تحصیل  کی صلاحیت کچھ ہی لوگوں میں ہوتی ہے۔ لیکن اِن سے تہذیب سب سیکھ لیتے تھے۔ اور دوسری بات جو بہت قیمتی ہے کہ اِن کے ساتھ بیٹھنے سے آدمی صاحبِ محبت ہو جاتا تھا ۔ یہ اللہ جانتا ہے، جو لوگ اُن کے قریب بیٹھے ہوں صاحب محبت اور اپنی خوبیوں کے اخفاء کی طرف مائل ۔ یہ اُن کے ساتھ بیٹھنے کا اثر ہوتا تھا ۔ ہم لوگ تو نوجوان تھے ناں ، تو جھوٹ  میں بھی بولتے تھے کہ یہ پڑھ لیا، وہ پڑھ لیا، اِدھر اُدھر کے جھوٹے حوالے بھی دے دیے۔ اُن کے ملنے کے بعد جیسے اُس مزاج میں کمی آنے لگی۔  بحث کا شوق ہوتا ہے جیسے نوجوانی میں ہوتا ہے۔ اُس کا سبب یہ ہے کہ مولانا  کی شخصیت کا صرف تہذیبی رچاؤ نہیں، تہذیبی رچاؤ تو horizontal(اُفقی) ہوتا ہے آپ کے لیے۔ وہ جو ایک vertical    enrichment (عمودی افزودگی/تزئین) ہوتی ہے آدمی کی، انہوں نے اُن دونوں کو جمع کر لیا تھا ۔  جو ہر بڑے آدمی میں نظر آئے گا  کہ  وہ اپنی تہذیب اور اپنی روحانیت ، وہ آدمی اور اللہ کے ساتھ تعلق کو  ایک مادے میں گوندھ لیتا ہے۔ یہ میں نے انہیں دیکھا ہے۔

نماز پڑھنے کھڑے ہو گئے تو ایسا لگتا تھا کہ عاشق ہیں ۔ ہم سے ملنے لگے تو  ہمیں یہ انتظار رہتا کہ ابھی ہم سے کچھ پوچھیں گے ۔ مطلب، ہم سے فیض حاصل کریں گے۔ تو اِس طرح کی اُن کی شخصیت تھی۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ وہ جس سلسلۂ تعلیم میں تخصص رکھتے تھے ، جس دبستانِ فکر کے وہ وارث تھے ، یہ اُس کے امتیازات ہیں  کہ تصوفِ حالی، تصوفِ قالی ، تصوفِ فکری ، تصوفِ عرفانی اور منطق کے وہ خارزار ، یہ دونوں کو جمع کر کے چلتے  تھے ۔ یعنی یہ منطق کے کانٹوں پر چلتے تھے اپنی روحانیت سے اُسے پھولوں کی سیج بنا کر ۔ اِن کی روحانیت نے جو ہے ان کے لیے علوم و فنون کو ، خشک علوم و فنون کو  جیسے سہل کر دیا تھا ۔ اور وہ اتنی سہولت سے سمجھا دیتے تھے کہ میں نے کوئی اور آدمی ایسا نہیں دیکھا جو مشکل سے مشکل منطقی مسئلے کو بالکل پانی کر دیتا ہو ۔ ایسا پانی کر دیتا ہو کہ آپ دوسرے مسائل کو بھی سمجھنے کی لیاقت حاصل کر لیتے تھے۔ مطلب، آپ نے شکل ِ اول سمجھ لی اُن سے ، اب شکلِ اول تو انہوں نے سمجھا دی، اب آپ  کو شکلِ ثالث بھی سمجھ میں آنے لگتی تھی۔ اِن دونوں  میں کوئی تعلق نہیں ہے، شکلِ اول اور شکلِ ثالث وغیرہ میں۔ اگر مجھ سے پوچھا جائے کہ  تم نے بڑے اُستاد کون دیکھے ہیں، تو میں اُن میں مولانا کا نام دو تین ہی لوگوں کے ساتھ لوں گا۔ مطلب، مثالی اُستاد تھے ۔ یونیورسٹی میں رہے تو وہاں رہنے والا، پڑھانے والا، جو بھی علم دوست پروفیسر تھا وہ اِن کا شاگرد تھا۔ وائس چانسلر سمیت۔ اے بی اے حلیم (ابوبکر احمد حلیم: 1897ء تا 1975ء)، اب ان کا نام لوگ نہیں جانتے، وہ بہت قابل لوگ تھے۔ اے بی اے حلیم اُن کے سامنے  بالکل عجیب طرح رہتے تھے۔ حالانکہ وہ اس زمانے  میں شاید وہی وائس چانسلر تھے۔ خیر، اُن کی تمام حیثیتوں پر اُن کا صوفی ہونا غالب رہتا تھا۔ مطلب، وہ جو بھی کر رہے ہوں، پڑھا رہے ہوں لیکن لگتا تھا کہ ہم جیسے صوفی سے پڑھ رہے ہیں۔ ریاضیات میں بھی وہ ایسے ہی لگتے تھے۔ اُن کی مصروفیتوں میں زیادہ مصروفیتیں (مصروفیات) متصوفانہ تھیں۔ مولانا  سے جو ہمیں اُن کے بارے میں معلوم ہوا  کہ ایک تو سلسلۂ تصوف میں گورکھ پور میں کوئی بڑے آدمی تھے جو ذرا گمنام تھے۔ اُن کا انہیں فیض حاصل ہوا۔ پھر وہ  صاحب بیعت نہیں کرتے تھے، تو انہوں نے  کہا کہ تمہیں بیعت ہونے کے قابل بنا رہا ہوں   بقول مولانا کے۔ پھر مولانا نے جہاں بیعت کی ہے، کوئی آدمی جس کا نفس مِٹا  ہوا نہ ہو، وہ انہیں پیر بنانے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ یعنی ظاہر پرستی کے ماحول میں دینداری کے معیارات طے کرنے والا ذہن سوچ ہی نہیں سکتا تھا۔ وہ تھے عبدالقادر گیلانی صاحب ؒ ۔

میں اپنی سمجھ کے مطابق مولانا کی بے نفسی پر  بات کر رہا ہوں۔ عبدالقادر گیلانی صاحبؒ  عراقی تھے، شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کے خاندان کے تھے اور وہاں (بغداد میں ) جو مزار ہے شیخ کا، اُس کے متولی مطلب سجادہ نشین تھے۔ وہ عراق سے سفیر بن کے پاکستان آئے تھے۔ پاکستان انہیں اتنا اچھا لگا اور اُس اچھا لگنے میں بڑا سبب مولانا تھے کہ وہ جب سفارت سے ریٹائر ہوئے  یا کہیں اور جانا ہوا، تو انہوں نے چھوڑ دی وہ فارن سروس اور کراچی ہی میں مقیم ہو گئے۔ میرا خیال ہے کہ وہ فوت بھی کراچی ہی میں ہوئے۔ اُن کی داڑھی وغیرہ نہیں تھی  لیکن  بالکل لکھنؤی حلیہ اختیار کر لیا تھا، کڑھا ہوا کرتہ اور پاجامہ۔ بہت خوبصورت آدمی تھے۔ لیکن انہیں دیکھتے ہی آپ کو لگتا تھا کہ یہ کوئی عام آدمی نہیں ہیں۔ تو  مولانا نے اُن سے بیعت کی اور مولانا کے علم وغیرہ کا اُن سے کوئی موازنہ ممکن نہیں ہے۔ مولانا ایک پہلو سے اُن کے اُستاد تھے اور دوسرے پہلو سے اُن کے مرید تھے ۔ لیکن اپنے استاد ہونے کو ہمیشہ مغلوب رکھا اپنے مرید ہونے سے۔ مطلب، وہ انہیں کوئی بات سکھاتے اور سمجھاتے بھی تھے تو بالکل مؤدب ہو کر اور بہت اِس طرح کر کے۔ اور وہ بہت کہتے تھے لوگوں سے کہ بھئی، ہمارے استاد یہ ہیں۔ لیکن یہ نہیں مانتے تھے کبھی۔

خیر، اُس کے بعد غالباً انہی  عبدالقادر گیلانی صاحب کی تحریک پر انہوں نے المرکز القادری قائم کیا (آج کل حسن سکوائر پر واقع ہے)۔ اُستاد یہی تھے بس اور اُس میں  انہوں نے ایک عجیب طرح کا نصاب پڑھانا شروع کیا۔ (اپنے استاد مولانا معین الدین اجمیری کے استاد) حکیم برکات احمد ٹونکی صاحب  کی طرز پر درس کا سلسلہ شروع کیا  یعنی کوئی کتاب نہیں ۔ حکیم برکات احمد صاحب جو غالباً آخری سب سے بڑی معقولی ہیں۔ وہ کہتے تھے کہ کتاب نہیں ، بس کاغذ پنسل لے کر آؤ۔  میں تمہیں فن سکھا دیتا ہوں اُس کے بعد  کتابیں تم خود پڑھتے رہنا ۔ اُس کا کچھ نمونہ مولانا منتخب الحق صاحب کے پاس تھا کیونکہ  کچھ کچھ دنوں میں کتاب کا کہتے تھے ۔ لیکن انہوں نے منطق پڑھائی ، فلسفہ پڑھایا ، ردِ الحاد پڑھایا  اور پھر تھوڑا سا اُن کا شوق تھا کہ وہابیوں کے مقابلے میں بھی تیاری کرنی چاہیے ، تو وہ بھی بہت اچھی کروا دیتے تھے۔ یہی میں کہہ رہا ہوں کہ اُن کا بریلویوں پر اتنا بڑا احسان تھا  کہ سب علماء بھاگ جاتے تھے مناظرے سے اور سب کہتے تھے کہ بھئی، اِن سے بحث کر کے دکھاؤ ۔ اور یہ بحث پر تیار ہو جاتے تھے۔

مطلب، ہر فن میں آپ میں جو بھی صلاحیت ہے وہ اُسے پہچان لیتے تھے اور اُس صلاحیت کے مطابق آپ کو اُس ڈسپلن (شعبے ) میں منتہی بنا دیتے تھے۔ مطلب، اُن کے یہاں  سے فارغ ہونے والا کوئی طالب علم ایسا نہیں ہے کہ جس چیز کی اُسے سند دی گئی ہو وہ اُس سند کا مستحق نہ ہو۔ یہ بہت بڑی بات تھی ایک اُن کی۔
اب میں اُن کی کچھ علمی باتوں کی طرف آتا ہوں۔ کیونکہ شخصیت کا علم ہوناں  یعنی عالم کو جانو گے تو اُس کے علم کی منزلت پتہ چلے گی۔ اِس وجہ سے ہم نے کہا کہ پہلے ذرا اُن  کی شخصیت کے بارے میں عرض کر دیں۔ کیونکہ مجھے اِس بات پر جیسے اعتقاد سا ہے کہ عالم کی شناخت کے بغیر علم کا درجہ متعین نہیں ہو سکتا۔ اپنے قول میں معنی پیدا کرنے والا متکلم ہوتا ہے۔ ورنہ  افلاطون بھی ایک ہی جملہ بول دے، میں بھی وہی لفظ بول دوں، تو اُن لفظوں کے لغت میں معانی ایک ہی ہیں چاہے وہ افلاطون کی زبان سے نکلے ہیں یا میری زبان سے نکلے ہیں۔ لیکن افلاطون کا اعتبار ایسا ہے کہ میرا قول جہل ہے، اُس کا قول علمِ حقیقی ہے۔ اِس لیے میں نے چاہا کہ اُن کی بات کر دوں۔

لوگ اب نہیں سمجھ سکتے کہ  بے نفسی کسے کہتے ہیں، کشادہ دلی کسے کہتے ہیں، بڑوں کی بے تکلفی کسے کہتے ہیں۔ اُن کا ہاتھ اتنا چوما جاتا تھا کہ مجھے ڈر ہوتا تھا کہ وَرم نہ آجائے۔ کیونکہ وہ ذرا ماحول تھا خانقاہ وغیرہ اور یہ وہ۔ کچھ بھی نہیں، اُن پر کوئی اثر ہی نہیں ہوتا تھا۔ 

دو آبے کی تہذیب کا ثقافتی پہلو: 
پھر ہمارے یہاں ایک تہذیبی ، کلچرل بات ہے دو آبے کی تہذیب  میں کہ جو (بھی) بڑا آدمی شیروانی کے اوپر کے بٹن کھولے رکھتا ہو، وہ بہت منکسر المزاج ہوتا ہے ۔ ورنہ جو کروفر والے ہوتے تھے وہ یہاں  (گلے) تک بٹن بند کرتے تھے۔ نعمان صاحب زیادہ بتائیں گے (لیکن)  مولانا کو مَیں نے جتنا دیکھا ہے، کبھی شیروانی کے سارے بٹن بند کیے ہوئے نہیں دیکھا۔ وہ کھُلا ہوتا تھا اور عجیب طرح سرشاری میں رہتے تھے۔ یہاں میں اپنےاُستاد (سلیم احمد)  کا ایک شعر سناتا ہوں کہ 
عشق اور اتنا مہذب چھوڑ کر دیوانہ پن / بَند اُوپر سے تلے تک شیروانی کے بٹن 
یہ سب بٹن بند کرنا ذرا ایک arrogance (نَخوت) تھی۔ ذرا بالائی طبقے کی علامت تھی۔ 

مولانا منتخب الحق قادری اور خیر آبادی مکتب فکر: 
خیر، جیسا کہ میں نے عرض کیا ، مولانا ہمارے خیر آبادی سکول کے آخری وارث تھے۔ خیر آبادی سکول کو ذرا سا سمجھنا چاہیے  جو فضل امام خیر آبادی (متوفی 1829ء)  سے شروع ہوا جو فضل حق خیر آبادی صاحب (1797ء تا 1861ء) کے والد تھے۔ فضل امام سے انہوں نے اپنا عرفانی ذوق لیا۔ اُن کا کلام بہت عارفانہ ہوا کرتا تھا اور پھر فضل حق صاحب جو ہیں اِس (خیر آبادی مکتب فکر)کے عملاً  بانی بنے۔ 

مولانا فضل حق خیر آبادی صاحب کا تذکرہ: 
فضل حق خیر آبادی صاحب کی شخصیت کی اتنی جہتیں ہیں کہ آدمی کو لگتا ہےکہ اِن میں دس بیس آدمی جمع ہو گئے ہیں۔ اُن کی کتاب ”باغی ہندوستان“ (عربی کتاب بعنوان الثورۃ الہندیہ) ایک زمانے میں اُس کا ترجمہ  بہت زیادہ پڑھی جانے والی کتابوں میں تھا۔ اُس میں انہوں نے انگریز سے لڑنے کا فتوی دیا تھا۔ پھر اُن کو کالے پانی (انڈمان) میں بھیج دیا گیا، سزا بھی پائی اور فوت بھی (اُدھر ہی) ہوئے۔ مطلب، مجاہد بھی تھے، اُصولِ فقہ میں امام تھے اور یہ جو doctrinal (نظری) تصوف ہے اِس کے بھی وہ امام تھے۔ اور جو تصوف practice (یعنی عملی تصوف) ہوتا ہے اِس میں بھی وہ شیخِ سلسلہ  تھے۔ اِس کے بعد پھر اُن کو کہا جاتا تھا کہ ہندوستان میں دو منطقی پیدا ہوئے ہیں: یا تو ملا محب اللہ بہاری (متوفی 1707ء) یا پھر فضل حق خیر آبادی۔ اگر آپ اُس زمانے میں جائیں تو اُس زمانے میں منطق شرطِ علوم تھی۔ جیسے غزالی نے تو یہاں تک بھی کہا کہ اصولِ فقہ بھی منطق میں مہارت کے بغیر نہیں آتی۔ جیسے منطق اصلِ علوم بن گئی تھی، جڑ  بن گئی تھی، تو اِس کا بڑا رعب تھا۔

اب جو لوگ بہاری صاحب کی سُلّم العلوم وغیرہ کو جانتے ہیں وہ اِس کو سمجھ سکتے ہیں کہ  دوسرے یہ (فضل حق) تھے۔ پھر اسلامی روایت کے فلسفیوں کا فلسفہ انہیں ناقدانہ  نظر کے ساتھ حفظ تھا اور وہ ہندوستان میں ہمارے فلسفیانہ نظریات کے گویا synthesizer (جامع) تھے۔ 

اُن کا ایک کارنامہ بتاتا ہوں جو اُس روایت کو جاننے والے سمجھ سکتے ہیں کہ وہ کتنا بڑا کارنامہ ہو گا۔ وہ جمعِ ضدین (کارنامہ) ہے۔ 

اصالتِ ماہیت اور اصالتِ وجود:
  اصالتِ ماہیت (principality    of    quiddity) اور اصالتِ وجود (ontological    primacy) ایک دوسرے سے متصادم اور مکمل طور پر متضاد نظریات ہیں: (شہاب الدین ) سہروردی مقتول (1154ء تا 1191ء) کی اصالتِ ماہیت (principality    of    quiddity) اور مُلا صدرا (1570ء  تا 1641ء)  کی اصالتِ وجود ۔ مُلا صدرا بھی پہلے شہاب الدین سہروردی  کے دبستان میں تھے، اصالتِ ماہیت کو مانتے تھے، پھر اصالتِ وجود کی طرف چلے گئے۔ ایک دوسرے سے ٹکراؤ کے علاوہ اِن (نظریات) کا کوئی رشتہ نہیں ہے۔ ایک دوسرے کو مکمل غلط سمجھنے  کے علاوہ اِن کا ایک دوسرے پر کوئی تبصرہ نہیں ہے۔ اِس کو مولانا (فضل حق ) نے جمع فرمایا۔ اب میرا علم کم ہے، مطالعہ  کم ہے،  لیکن میرے علم  کی حد تک اتنا بڑا (کارنامہ)، اتنی binary    opposition (ثنوی مخالفت) کو ختم کرنے والا کام، ہماری یعنی مسلمانوں کی تاریخ ِ فکر میں شاہ ولی اللہ  (1703ء تا 1762ء) کے بعد  یہی تھا۔ اب انہوں نے کیا کیا؟ اب تھوڑا سا مشکل ہو جائے تو معاف کر دیجیے گا  کیونکہ ہم تو وہ (لوگ) نہیں ہیں کہ پانی کر دیں۔ اصالتِ ماہیت سمجھیں کہ  وہ آئیڈیل ازم ہے یعنی West (مغرب) والا، فلاسفیکل آئیڈیل ازم ہے اور اصالتِ وجود  سمجھیں کہ existentialism (وجودیت) ہے، یہ جو  سارتر وغیرہ کا ہے کہ آئیڈیا پہلے ہے  یا وجود پہلے ہے۔ جو کہے کہ آئیڈیا پہلے ہے، وہ سمجھو کہ اصالتِ ماہیت کی بات کر رہا ہے۔  جو کہے کہ وجود پہلے ہے، وہ اصالتِ وجود کی بات کر رہا ہے۔ اصالت کا مطلب ہے ، principal    cause (حقیقی سبب) ، جہاں سے ہر چیز شروع ہوئی ہو ۔

مولانا (فضل حق) نے اِس کو عجیب طرح سے حل کیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ماہیت کا مطلب ہے ذات اور یہی مطلب ہے۔ (یعنی) انہوں نے  نیا مطلب نہیں دیا۔ سہروردی مقتول یہی کہتے ہیں کہ  ذات پہلے ہے اور موجودیت بعد میں ہے۔ ذات وجود سے ورائیت رکھتی ہے، تقدم رکھتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اِس (معاملے) میں ہمارے بڑوں سے کچھ جوش میں ہو گیا  کہ Principality (اصالت) کے locale (مقام و محل) میں تاخیر نہیں ہوتی۔ تقدیم و تاخیر تو جہاں زمانہ پایا جائے گا وہاں ہو گی۔ آپ تو principality  کے ماحول میں ہیں یعنی الہٰی ماحول میں ہیں، تو وہاں تو زمانہ نہیں ہے ۔ زمانہ نہیں ہے تو پہلا اور دوسرا بھی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ دونوں بزرگ اِس طرف توجہ فرما لیتے، تو یہ (ایک بزرگ) کہہ دیتے کہ وجود کا مطلب ذات ہے۔ وہ (دوسرے بزرگ) کہہ دیتے کہ ماہیت کا مطلب ذات ہے۔ صرف اتنا اختلاف رہ جاتا ۔ اب یہ بہت بڑی بات ہے۔ پھر انہوں نے کہا کہ وجود اور ذات میں تقدم کسے ہے، یہ سوال جو بھی حل کرے گا وہ اپنی قوتِ وہمیہ سے حل کرے گا۔ مطلب، اس کا کوئی ہمارے پاس راستہ نہیں ہے کہ ہم عالمِ الوہیت میں ذات اور وجود میں فرق کریں اور پھر کہیں کہ وجود پہلے ہے یا ذات۔ کیونکہ عالمِ الوہیت میں نیچے اوپر بھی نہیں ہے اور  پہلے بعد بھی نہیں ہے۔  

یہ کمال کا (کارنامہ) ہے اور یہ انہوں نے ، آپ سمجھیں کہ فی البدیہہ حل کیا تھا ۔ مطلب، ہمارے علم کی حد تک ، یہ انہوں نے فی البدیہہ  حل کیا اور اِس میں وہ کچھ علماء کو پڑھاتے  یا کسی  کے سوال کے جواب میں یہ (نکتہ) کہا ۔ مطلب، پہلے سے وہ گفتگو کا موضوع نہیں تھا ۔ 

امکانِ نظیر اور امتناعِ نظیر: 
اسی طرح  ایک بہت بڑا مسئلہ ہے جو خیر آبادی سکول کی شہرت میں بہت بنیادی حیثیت  رکھتا ہے، وہ ہے امکانِ نظیر اور امتناعِ نظیر ۔ اُس کا عنوان یہ ہے۔ وہ بحث ہوئی تھی کہ شاہ اسمعیل صاحب (1779ء تا 1831ء)  نے کہیں لکھ دیا تھا  کہ اللہ اِس بات پر قادر ہے کہ وہ محمد رسول اللہ ؐ  کے مِثل یعنی ان کے برابر کے سینکڑوں لوگ پیدا کر سکتا ہے۔ یہ اُس کی قدرت سے باہر نہیں ہے۔ اِس نظریے کا عنوان ہے اِمکانِ نظیر۔  اس طرح کی بات ہماری پوری تاریخ میں نہیں ہے۔ شاہ اسمعیل خود بہت بڑے عالم اور بہت ہی بڑے خطیب اور واعظ  تھے۔ اُن سے بڑا واعظ متحدہ ہندوستان  کی تاریخ میں نہیں ہے۔ اب ان کی باتوں کا اثر بھی پھیلنے لگا۔

اس کا مولانا فضل حق خیر آبادی صاحب نے نوٹس لیا اور کہا کہ نہیں، یہ سوال بھی لغو  ہے اور اِس کا جواب بدتمیزی ہے۔ (یعنی) سوال ہی کوئی نہیں ہے۔ سوال ہی valid (درست) نہیں ہے تو  ایک بالکل زبردستی گھڑے ہوئے سوال کا جو (بھی) جواب ہو گا وہ موضوع جو ہے اُس موضوع کی رعایت سے گستاخی ہے۔ انہوں نے اُس پر ایک کتاب لکھی۔ پہلے کوئی تحریری مناظرہ ہوتا رہا۔ پھر کتاب لکھی اور وہ کتاب اچھی خاصی ضخیم ہے۔ اُس میں انہوں نے لکھا کہ نہیں، یہ سوال ہی غلط ہے اور اللہ جل جلالہ جب خود کہے کہ یہ آخری رسول ہیں، اللہ خود کہے کہ مخلوقات میں سب سے افضل رسول ہوتے ہیں، تو اپنے قول کے خلاف کیسے کرے گا۔ جو اللہ کرے گا نہیں، وہ آپ اُس کی قدرتِ مطلقہ کا فلسفیانہ تصور باندھ کے اُس سے کروانے  کے درپے کیوں ہیں۔ جیسے وہ پرانے لوگ متکلمین سے سوال کرتے تھے کہ اللہ اپنے جیسا کوئی دوسرا اللہ پیدا کر سکتا ہے۔ اب یہ کوئی سوال ہے۔ یا اللہ اتنا بھاری پتھر بنا سکتا ہے جسے وہ خود نہ اٹھا سکے۔ تو فضل حق صاحب نے کہا کہ یہ سوالات اِس قبیل کے ہیں اور اِس سوال سے یہ احساس ہوتا ہے کہ رسول اللہ ؐ کی شان گھٹانے کی  نیت سے کیا جا رہا ہے۔ مطلب، یہ سوال جواب دینے والے نے خود گھڑا ہے اور پھر اُس کا جواب دے دیا، جو اُس کے ذہن میں پہلے سے موجود تھا۔

آپ لوگ کبھی پڑھیے گا۔ فضل حق صاحب کی وہ جو تحریر ہے اُس کا اردو میں بھی ترجمہ ملتا ہے اور انگریزی میں بھی ملتا ہے۔ وہ پڑھیے گا۔ میں شاہ اسمعیل صاحب کا بھی بہت قائل ہوں لیکن مجھے یہ احسان لگتا ہے کہ فضل حق صاحب اگر نہ کھڑے ہوتے تو رسول اللہ ؐ کو نشانہ بنانا  ہندوستان کے ماحول میں آسان ہو جاتا۔ اب یہ کتنی بڑی خدمت ہے جو معقولات کے حوالے سے انہوں نے  کی ہے۔ 

تیسری  بات  یہ کہ ارسطو کی منطق  میں صغری کبری انتاج، اُس کا سٹرکچر  ہے ۔ انہوں  نے اُس کو بدل دیا ۔ انہوں نے کہا کہ صغری کبری بھی اعتباری ہیں اور انتاج بھی مفروضہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک کسوٹی قرآن نہیں بنے گا  ، جب تک کسوٹی آپ کے باہر نہیں ہے ، تو یہ صغری کبری بھی آپ خود ہی بنا ئیں گے اور اُس میں سے  نتیجہ بھی خود نکالیں گے۔ اُس سے دلیل بھی خود بنائیں گے۔ اِس پہلو سے فضل حق خیر آبادی صاحب نے منطقی اصطلاحوں سے ثابت کیا کہ  منطق کو دینی علوم میں کیا کردار ادا کرنا چاہیے یا کس حد پر رہنا چاہیے۔ یعنی ظاہر کر دیا ، پوری باؤنڈریز بنا دی ہیں ۔ 

کتاب ”الروض المجود“: 
پھر (وہ) وحدت الوجودی تھے اُس زمانے کی روایت کے مطابق ۔  ویسے بھی معقولی اگر صوفی ہو تو وحدت الوجودی ہی ہو گا۔ تو ان کی ایک کتاب ہے ”الروض المجود“۔ یہ پڑھاتے تھے منتخب الحق صاحب ۔ یہ چھوٹی سی کتاب ہے فضل حق خیر آبادی صاحب کی۔ اُس میں وحدت الوجود کی تعبیر کے لیے جو نئے context (سیاق و سباق) انہوں نے بنائے ہیں وہ صرف دَرس میں فلسفہ پڑھ لینے والا  نہیں کر سکتا۔ وہ context ایسا ہے کہ یوں لگتا ہے  کہ higher    intellect (اعلیٰ ذہانت/ برتر عقل) اور higher    passion (بلند تر جذبہ) ، یہ ایک ہو گئے ہیں۔ الروض الموجود کوئی بھی پڑھ لے وہ چاہے اِن اصطلاحوں کو نہ استعمال  کرے لیکن وہ اِس نتیجے کی تصدیق کرے گا  کہ عقل کی ٹھنڈک کم کر دینا اور passion (جذبے) کی حرارت کو قابو میں لانا ، یہ معمولی کام نہیں ہوتا ۔ اِن دونوں  میں تعلق ہی دشمنی کا ہے۔ passion (جذبے) کو عقل کی اندرونی طاقت بنانا اور  عقل کو passion (جذبے) کے لیے  ایک حفاظتی دائرہ بنا کے دکھا دینا،  ( ایک بڑا کام ہے)۔ 

میں اِس کی ایک مثال دیتا ہوں ۔ وہ کہتے ہیں کہ ازروئے قلب اللہ کے علاوہ کسی کو موجود کہنا ، یہ بے وفائی ہے۔ کیونکہ وجود سب سے بڑا شرف ہے۔ آپ کبھی غور کیجیے، ذہن کا بھی جو سب سے بڑا شرف ہے وہ وجود ہے۔ (وہ) کہتے ہیں کہ وجود سب سے بڑا شرف ہے،  رحمت سے بھی، مغفرت سے بھی، تو آپ اس شرف میں  جو صفاتِ الہیہ سے بھی بڑا شرف ہو اُس میں دوسرے  کو شریک کر سکتے ہیں۔ اب یہ ہے passion (جذبہ)۔

انہوں نے ابن عربی کے ایک شارح کا ایک قول اُس شارح کی تصحیح  کرتے ہوئے استعمال کیا  ہے۔ داؤد قیصری نے لکھا ہے مقدمے میں کہ یہاں جب ہم وحدت الوجود کہتے ہیں یعنی اللہ ہی ہے۔ تو یہاں وجودی بمعنی مصدری نہیں ہے یعنی یہاں وجود کا مطلب ہونا  نہیں ہے۔ یہ وجود جو ہے وہ وجودِ اصلی ہے ۔ یہ ذات کو ہم کہتے ہیں۔ انہوں نے اِس کو ایسا وہ  کیا ہے کہ اگر اللہ کے وجود کو ازروئے عقل دوئی میں قید کر لیا جائے، تو اس کی الوہیت کے لیے درکار وحدانیت  بھی قائم نہیں ہو سکتی۔ یہ دلیل وحدت الوجود کی پوری روایت میں کسی نے نہیں دی  کہ اگر اللہ کو واحد الوجود نہ مانا جائے تو وحدتِ الوہی کا قیام ممکن نہیں ہے۔ اس پر غور کیجیے گا۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ 

اب یہ خیر آبادی سکول ہے  منطق میں، اصولِ فقہ میں اور تصوفِ عرفانی میں، تصوفِ عملی میں وغیرہ وغیرہ۔

اب یہ ساری روایت فضل حق صاحب سے شروع ہو کے اُن کے  صاحبزادے مولانا عبدالحق خیر آبادی (1828ء تا 1899ء) میں آئی۔ اُن کا زور زیادہ معقولات اور منطق و فلسفے  کی طرف  چلا گیا۔ اُس کے بعد اِن کے یہاں ایک بہت بڑے آدمی پیدا ہوئے حکیم برکات احمد ٹونکی صاحب۔ اُن کے درس ہوتے تھے اور اُس  میں علماء ہی شریک ہو سکتے تھے۔ ہر مکتب فکر کے علماء ٹونک جاتے تھے۔ انہوں نے ایک نئے تھیم کا اضافہ کیا  خیر آبادی ڈسکورس میں۔ اب یہ میں مولانا کی شان بتانے کے لیے عرض کر رہا ہوں  لیکن تھوڑا سا تفصیل کے ساتھ ۔   

میر باقر داماد (1561ء تا 1631ء)  کے بعد  مسلم فکر میں کسی نے ایک مسئلے کو  مرکزی حیثیت دے کر نہیں اٹھایا، وہ تھا ٹائم اینڈ اسپیس کا مسئلہ۔ انہوں نے یہ مسئلہ اٹھایا۔ مُلا باقر داماد نے اِس مسئلے کو جیسے لاجیکلی میٹافزیکل طریقے سے حل کرنے کی کوشش کی، حدوث دہری اور یہ سب (تصورات کے ذریعے) ۔ انہوں نے اِس مسئلے کو بالکل امپیریکل (تجربی/اختباری) بنا دیا۔ ان کی کتاب  کا نام ہے ”غایت المرام فی  معرفت زمان“۔ وہ اردو میں ترجمہ  ہے، ہماری (اقبال) اکیڈمی نے چھاپا تھا۔ یعنی زمان و مکاں کے مسئلے پر اُن کا ایک  رسالہ ہے۔ وہ رسالہ اگر اچھی طرح ترجمہ اور شائع ہو جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ وہ فلسفے کی عالمگیر روایت میں اپنی انفرادیت ثابت کر سکتا ہے۔ 

اب حکیم برکات احمد ٹونکی صاحب  کے سب سے بڑے شاگرد  بلکہ اُن کے علمی جانشین  مولانا معین الدین اجمیری صاحب تھے۔ یہ کسی مدرسے میں ٖغالباً پرنسپل  یا بڑی جگہ پر تھے۔ مولانا معین الدین اجمیری نے منطق کو عام لوگوں کے لیے قابلِ حصول بنایا ۔ اردو میں معین المنطق سے اچھی کوئی کتاب نہیں ۔ اردو کیا اور بھی زبانوں میں۔ اُن کا درس بھی اپنے بڑوں کی طرز پر ہوا کرتا تھا ۔ مولانا معین الدین اجمیری کے جانشین مولانا  منتخب الحق صاحب ہیں ۔ 

مولانا منتخب الحق صاحب کا ذوق:
مولانا منتخب الحق صاحب کا ذوق تھا تطبیق کا، جیسے میں نے اصالتِ ماہیت والی بات بتائی۔ تو یہ دو بالکل مختلف نظر آنے والے خیالات، افکار یا احوال، اِن میں عجیب طرح سے تطبیق کر دیتے تھے۔ تطبیق کہتے ہیں دو  بظاہر مختلف چیزوں کو اصلاً  موافق کر دکھانا۔ تطبیق میں یہ ہوتا ہے کہ جو لوگ اختلاف پر لڑ رہے تھے وہ سمجھے نہیں تھے۔ مطلب، دونوں کو سمجھایا جاتا ہے کہ دونوں ذرا اَدھورے علم والے تھے اِس لیے لڑ رہے تھے۔ اِن کا مزاج ہر معاملے میں (تطبیقی تھا)۔ جیسے آپ خود سوچیے کہ (کیا) ابن رشد اور غزالی میں تطبیق ہو سکتی ہے؟ یہ اُس میں ایسی ایسی تطبیقات نکالتے تھے کہ آدمی دَنگ رہ جائے۔ اِسی طرح (کیا) ابن عربی اور ابن تیمیہ میں تطبیق ہو سکتی ہے؟ یہ اُس میں بھی نکال دیتے تھے۔ کہتے کہ بھئی سب کی بڑائیاں محفوظ رکھو۔ (بقول نعمان الحق صاحب، شیعہ سنی میں بھی تطبیق) ۔ ہاں، سب شیعہ سنی، بریلوی دیوبندی۔ 
شیعوں میں وہ ابن احسن جارچوی  (1904ء تا 1973ء)  تھے جو  بہت پرہیزگار، بہت نیک ، بہت عالم  (تھے)۔ وہ بھی کراچی یونیورسٹی  میں پڑھاتے تھے ۔ اِن کے قریبی دوستوں میں سے تھے۔ اِسی طرح علامہ محمد مصطفیٰ جوہر (1891ء تا 1985ء) تھے، طالب جوہری (1929ء تا 2020ء) کے والد۔ وہ بھی مثالی عالم اور زاہد تھے۔ وہ بھی اِن سے  بہت قریبی تعلق  رکھتے تھے۔ وہ لوگ بھی کوئی مورچہ لگائے نہیں بیٹھے رہتے تھے۔ مطلب، اب تو شیعیت کی پہنچان بن گئی کہ ہر وقت مورچے میں رہو۔ وہ لوگ بھی بے تکلفی سے کسی سُنی عالم کے پیچھے نماز پڑھ لیتے تھے۔ 

تطبیق کا فن جیسے میں عرض کرتا ہوں ۔ اُنہی کا ایک جملہ ہے۔ اُنہی کی بات ہے، لفظ میرے ہیں حافظہ ٹھیک نہ ہونے کی وجہ سے۔ وحدت الوجود کو ہم حقیقت الحقائق کہتے ہیں، ہم مانتے ہیں اور حادث و قدیم کا ربط اِسی  نظریے سے ثابت کرتے ہیں۔ تو یہ کیا بات ہوئی کہ ہم حقائق  کی کثرت کو تو نہیں مانتے (اور) صورتوں کی کثرت کو بالذات بنا رکھا ہے۔ کوئی وحدت الوجودی ہو ہی نہیں سکتا جب تک وہ تضاد کی نسبت رکھنے والی صورتوں  میں کارفرما جوہرِ وحدت کو نہ دیکھ  رہا ہو ۔ وہ (یعنی مولانا) شیعہ سُنی نہیں بلکہ اور بھی آگے چلے جاتے تھے۔ وہ اپنے مذہبی مؤقف میں بالکل  مُتصلب  (کٹڑ)  تھے  لیکن اُن کا مطلب یہ تھا کہ بھئی کچھ علم دوستی پیدا کرو ۔ مذہبی علم کو غَبابت (کند ذہنی)  کی نذر نہ کرو ۔ غَبی آدمیوں کو عالم بنانے کی روایت کو چھوڑو ۔ علم کی قدر کرو چاہے وہ کسی میں پایا جائے۔ 

ہم نہیں کہتے کہ نطشے کی تحریر ایسی ہےجیسے صورِ اسرافیل  ہے اور نطشے سے بڑا رائٹر (مصنف) تاریخ میں شاید ہی کوئی پیدا ہوا ہو۔  میں تو داڑھی والا ہوں ۔ نطشے آجائے تو شاید بھاگ جائیں ہم ۔ لیکن تعریف اُس کی کرتے ہیں۔ کون آدمی ہے جو ہیوم کو چھوٹا کہے گا۔ جو ہیوم کو چھوٹا کہے گا علم کی روایت میں، تو وہ اپنے جہل کو اپنی تقدیر بنالے گا۔ اب ہیوم سے ہمیں ظاہر ہے اختلاف ہے۔ اُس کو ماننے کا مطلب ہے اسلام چھوڑو ۔ مطلب، اِس طرح کا اختلاف ہے ناں ۔ تو مولانا اِس طرح کے اختلافات میں بھی ہیوم کو بڑا ماننے کی دعوت دیتے تھے۔ یہ میں نے اُن کے علاوہ کوئی عالم ایسا نہیں دیکھا۔

میں آخری مثال دے رہا ہوں ۔ آپ کسی کا مذاق اڑا دیں کہ ارے وہ تو غلام احمد (پرویز) نے یہ کہہ دیا ، تو وہ اُس مذاق پر روکیں گے آپ کو ۔ کہیں گے کہ بھئی پہلے بات تو سمجھو ، بات کیا ہے۔ جب آپ سے پوچھیں گے تو ظاہر ہے کہ آپ نے تو سنی سنائی  پر اپنے جذبات کا اظہار کر دیا ۔ وہ بات بھی سمجھائیں گے اور اُس بات کا رَد بھی سمجھا دیں گے ۔ ایسا عالم میں نے نہیں دیکھا ۔ 

مولانا منتخب الحق قادری صاحب کا ایک نادر وصف: 
تطبیق کی روایت کے یہ آخری آدمی تھے ۔  ایک بہت ہی نادر وصف تھا  جو آج محسوس ہوتا ہے اُس وقت نہیں ہوتا تھا ۔ کیونکہ اُس وقت وہ وصف عام تھا ۔ مطلب، وہ ماحول عام سا تھا۔ وہ یہ کہ اب مجھے خیال آتا ہے کہ مولانا منتخب الحق صاحب بہت زیادہ اپنی مذہبیت کو سیلیبیریٹ بھی کرتے تھے جیسے آج گیارہویں ہے اور کل کچھ ہے۔ پرسوں عرس ہے، نَرسوں قوالی ہے۔ وہ اِن سب میں بہت مشغول ہوتے تھےاور بہت خوش خوش  کہ چادر لیے چلے جا رہے ہیں مزار  پر چڑھانے کے لیے۔ تو میں اب سوچتا ہوں کہ جو آدمی اصولِ فقہ کا اتنا بڑا عالم، قرآن کا اتنا سمجھنے والا، تو (کیا) وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ یہ بدعت ہے؟ (کیا) وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ یہ کھیل تماشا ہے؟ اب مجھ پر یہ کھلا کہ کاش  ہم لوگ دینی اصطلاحوں میں اِس کا رَد و قبول نہ کرتے۔ مولانا کبھی نہیں کہتے تھے کہ  یہ دینی اور کوئی دینی باتیں کرتے ہوں ۔ وہ اظہارِ محبت کرتے تھے۔ اب مجھے اگر اپنے شیخ سے محبت ہے تو  کہیں ناچو، تو میں ناچنے لگوں ۔ اِس میں نہ وہ شیخ کہہ رہا ہے کہ یہ اللہ  کا حکم ہے۔ کہہ رہا ہے، میری خواہش ہے۔ نہ میں یہ کہہ رہا ہوں کہ یہ کوئی باعثِ ثواب ہے۔ ٹھیک ہے ناں۔

مولانا ایسے  لوگ اگر آگے چلتے رہتے اور ہم لوگ اُن کی اِس روایت کو آگے بڑھانے میں ہوتے تو اِس سے ہمارے دینی  ذہن  میں ویرانی اور خشکی کا خاتمہ ہو جاتا ۔  اب کیا ہے کہ مذہبی بننے کا یقینی نتیجہ ہے: یا تو ڈپریشن  یا بندوق۔ یہ اسی وجہ سے ہے ناں کہ اچھا، تم نے اِس طرف دیکھا ۔ یہ تو بدعت ہے ۔ ایک تہذیب میں خوشی کے کچھ شعائر ہوتے ہیں۔ کچھ رنگینی چاہیے کچھ رونق  چاہیے آدمی کو، تو اُس میں وہ خوب مزے سے اللہ کی عبادت بھی  احسان کی کیفیت میں کرے گا۔ اب آپ نے ہر چیز کو بدعت اور دینی اصطلاحوں میں قابلِ نفرت بنا دیا ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ  خوشی کے دشمن ہیں ۔ نفس کو جو ایک پاکیزہ اور روشن فرحت اور اُس کی مسلسل flowering (نشوونما) درکار ہے ، آپ اُس کے دشمن ہیں۔ اِس کا مطلب ہے کہ آپ سمجھتے ہیں کہ دین انسانوں  کے لیے نہیں ہے۔ یہ تو عجیب روبوٹِک سی بات ہو گئی ناں کہ یہ نہ کرو۔ مسجد میں بارہ ربیع الاول  کو لائٹیں جلا دیں تو اُس پر (فتوی) ۔ بھئی، اُس پر فتوی دینے کی تمہیں کیا ضرورت ہے۔ مجھے ایک خوشی محسوس ہو رہی ہے۔ میری سمجھ میں یہی آرہا ہے کہ خوشی کا اظہار اِس طرح کر دو۔ اُس میں کیا بات ہو گئی۔

یہ مولانا منتخب الحق صاحب نے بہت سے دیوبندیوں سے یہ رسومات کروائیں ۔ مطلب، بنوری ٹاؤن کے ایک اُستاد تھے جو بہت سخت سمجھے جاتے ہیں ۔ وہ مدرسہ ہی بہت سخت سمجھا جاتا ہے۔ تو اُن کے استاد سے بھی کچھ ہار وار (وغیرہ) لے کر مزار پر ڈلوا دیا ۔ قوالی اور یہ وہ ، کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا ۔ اب کیا ہوا کہ اُن کے لیے یہ دین ہر پہلو سے  فرحت بخش تھا ۔

 ہمارے علماء یا ہماری موجودہ روایت اِس بات کو انسانی نفسیات نہ سمجھ سکنے کی وجہ سے appreciate (تحسین) نہیں کر پاتی ۔ بلکہ اِسے غیر دینی  سمجھتی ہے۔ لیکن جب تک میں ایک نظریے کو اپنے لیے binding بناؤں کہ میرا مرنا جینا اِسی کے لیے ہے ، تو اُس نظریے سے مجھے فرحت نہ حاصل ہو ، یہ کبھی ہو سکتا ہے۔ بھئی ، ہم نے مان لیا کہ آئن سٹائن کی وہ تھیوری ، equation (مساوات ) جو ہے ، بس وہ اٹل ہے۔ تو وہ اٹل کہتے وقت ایک فرحت محسوس ہوتی ہے کہ چلو ، انسانیت کو ایک مصروفیت سے نجات دلا دی۔ مطلب، میرا سانس لینا ، میرا سونا جاگنا ، ہنسنا بولنا ، یعنی میرے اندر احساسات کی پرداخت ، احساسات کے بیج ، دین  نہیں ڈال رہا تو وہ دین نہیں ہے۔ مفروضہ ہے ، وہ تصور ہے، وہ کوئی guilt ہے، وہ کوئی نفرت ہے کسی چیز سے ۔

 یہ چیز ہم نے مولانا منتخب الحق صاحب سے  سیکھی ۔ یہ ٹھیک ہے کہ کوئی کہے عرس نہیں مناؤ  گے تو جہنم میں جاؤ گے ۔ یہ تو کوئی نہیں کہتا ۔ 

مولانا منتخب الحق قادری صاحب کا فیض: 
مولانا کا ایک فیض جو میں نے اپنی دانست میں حاصل کیا انہیں دیکھ کر ۔ وہ یہ کہ میں مسلکاً دیوبندی ہوں ۔ میرا سارا خاندان دیوبندی مشائخ کا مرید ہے۔ یا یوں کہہ لیں کہ مسلکاً بریلوی نہیں ہوں۔ اب ‘دیوبندی ہوں’ کہنا بھی میرے لیے مشکل ہے لیکن یوں کہہ لیں کہ بریلوی نہیں ہوں۔ لیکن میں ایک مسجد میں جمعہ پڑھتا تھا۔ وہ مسجد کٹڑ بریلویوں کی تھی ۔ اُن کے خطیب مجھے اچھے لگتے تھے ۔ صرف سیرت بیان کرتے تھے اپنی جمعہ کی تقریر میں ۔ وہاں سلام فوراً ہونے لگتا تھا ۔ مطلب، دو رکعت پڑھنا بھی ذرا مشکل ہوتا تھا۔ سلام ہوتا تھا تو میں کبھی نہیں نکلا سلام ہوتے ہوئے اور اکثر کھڑا ہو جاتا تھا ۔ کیونکہ اب وہاں اُس دائرے میں ادب کا عرف  یہ ہے ناں کہ کھڑے رہو ۔ وہ عرف ہے ۔ تو میں اُس عرف کی خلاف ورزی کیوں کروں ۔ پھر تو میں  بے ادب ہوں ۔ اب اِس میں کوئی فتوی وتویٰ نہیں چلتا ۔ تو میں کبھی بھی مسجد سے سلام کے وقت باہر نہیں نکلا ۔ ہاں یہ ہوا ہے کہ کبھی بیٹھا بھی رہا ہوں گا  لیکن یہ کہ کھڑا ہوتا تھا ۔ 

یہ اگر منتخب الحق صاحب کو نہ دیکھا ہوتا تو یہ عمل مجھ سے نہیں ہوتا ۔ یہ نزاکت اور یہ باریک بات ، یہ میری سمجھ میں نہیں آتی ۔ میں بھی اِن چیزوں کو بدعت اور سُنت کی کیٹیگریز میں ہی رکھ کے دیتا ، بیچ میں کوئی بھی گَرے اَیریا نہ رہنے دیتا ۔ تو مولانا منتخب الحق صاحب نے علماء کو یہ سکھایا  کہ چیزیں حق اور باطل، حلال مطلق اور حرامِ مطلق میں منقسم نہیں ہیں اور نہ ہو سکتی ہیں ۔ انسان کے اندر آتے ہی حق میں باطل مِلا ہوا ہو سکتا ہے ، باطل  میں حق مِلا ہوا ہو سکتا ہے۔ اور بہت سی چیزیں اِن دونوں کیٹیگریز کو اپنے عنوان کے طور پر قبول نہ  کرتی ہوں ۔ 

یہ میں نے فہم اُن سے حاصل کیا ۔ فہم تو چلو کسی طرح ہو جاتا لیکن یہ ذوق اُن سے حاصل کیا جو بڑی بات ہے۔ بس اللہ اُن کی قبر کو روشن رکھے۔

آج کیونکہ  ڈاکٹر نعمان الحق بھی موجود ہیں ۔ یہ  تو بین الاقوامی شہرت کے آدمی ہیں بھئی ۔ اِن کی بھی اپنے والد صاحب کی طرح بہت سی جہتیں ہیں ۔ بس ایک جہت نہیں ہے اُس کی طرف ہم بار بار اِن سے عرض کر رہے ہیں کہ اپنے والد صاحب کا ذرا کام نکالیے ، اُس پر بھی کوئی تحقیق کر لیجیے جس کے یہ ماہر ہیں ۔ مطلب، اِن کے لیے کوئی نامانوس اور مشکل کام نہیں ہے  وہ ریسرچ وَرک ۔ اللہ کر ے کہ یہ کر دیں ۔ یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے بڑوں کو ایسا نہ بنائیں  کہ مکھی بھنبھناتی رہیں  بڑائی کے تصور پر اور چھوٹے پن کو زینت دے دے کے اُسے رواج بنا دیا جائے۔ 
بس اتنا کہنا تھا ۔

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search