100 الفاظ کی کہانیاں: سیف الرحمن ادیب
تصویر
وہ ایک مصور تھا اور تصویر بنا رہا تھا۔ کسی قدرتی منظر، پہاڑ یا جان دار کی نہیں بلکہ اپنے اردگرد پھیلے اندھیر نگر اور چوپٹ راج کی۔ نچلے طبقے کی آہوں اور سسکیوں کو لے کر خاکہ بنایا۔ مزدور کا پسینہ، معصوم کا خون اور کسی ظلم سہنے والے کی آنکھ سے نکلے آنسؤوں کو ملا کر اس خاکے میں رنگ بھرا اور بہت ساری چیخوں، بددعاؤں، غموں، پریشانیوں اور درد ناک آوازوں کو اٹھا کر تصویر کو مزید بدصورت بنا دیا۔ تصویر مکمل بن چکی تھی پر دیکھنے والے ابھی تک اسے سو الفاظ کی کہانی سمجھ رہے تھے۔
رازدار
لمبے عرصے سے سینے میں بہت سارے رازوں کو چھپائے چلا آ رہا تھا۔ اب ان رازوں کو اگلنا چاہتا تھا اور اپنے من کو ہلکا کرنا چاہتا تھا۔ ایک سچے رازدار کی تلاش تھی جو میرے ان رازوں کو اپنے سینے میں ہمیشہ کے لیے دفن کر دے۔ بڑی مشکل سے ایک راز دار ملا۔ اس کے سامنے کھڑا ہو کر میں رونے لگا۔ روتے روتے سارے دکھ اور سارے راز اس کے حوالے کر دیے۔ سر اٹھا کر دیکھا تو اس کی آنکھیں بھی سرخ تھیں۔ آئینے میں کھڑا میرا راز دار میرے ساتھ رو رہا تھا۔