جدید آدمی نامہ: مجید لاہوری
نوٹ: مجید لاہوری نے ’’جدید آدمی نامہ‘‘ کی صورت میں نظیر اکبر آبادی کی مشہور نظم ’’آدمی نامہ‘‘ کی پیروڈی لکھی ۔ اس نظم میں مجید لاہوری نے معاشرتی عدم مساوات پر بھرپور طنز کی ہے ۔ پوری نظم ملاحظہ فرمائیے ۔
’’جدید آدمی نامہ‘‘
مُونچھیں بڑھا رہا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی
ڈاڑھی منڈا رہا ہے ، سو ہے وہ بھی آدمی
مُرغے جو کھا رہا ہے ، سو ہے وہ بھی آدمی
دَلیا پکا رہا ہے ، سو ہے وہ بھی آدمی
ٹکڑے چبا رہا ہے ،سو ہے وہ بھی آدمی
اور لنچ اُڑا رہا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی
وہ بھی ہے آدمی جسے کوٹھی ہوئی الاٹ
وہ بھی ہے آدمی ملا جِس کو نہ گھر نہ گھاٹ
وہ بھی ہے آدمی کہ جو بیٹھا ہے بن کے لاٹ
وہ بھی ہے آدمی جو اُٹھائے ہے سَر پہ کھاٹ
موٹر میں جا رہا ہے ، سو ہے وہ بھی آدمی
رِکشا چلا رہا ہے ، سو ہے وہ بھی آدمی
رِشوت کے نوٹ جس نے لیے، وہ بھی آدمی
دو روز جس نے فاقے کیے ، وہ بھی آدمی
جو آدمی کا خون پیے ، وہ بھی آدمی
جو پی کے غم کا زہر جِیے، وہ بھی آدمی
آنسو بہا رہا ہے ، سو ہے وہ بھی آدمی
اور مُسکرا رہا ہے ، سو ہے وہ بھی آدمی
یہ جھونپڑے میں قید ، وہ بنگلے میں شاد ہے
یہ نامُراد ِ زیست ہے ، وہ بامُراد ہے
ہر ’’کالا چور‘‘ قابل ِ صد اعتماد ہے
یہ ’’زندہ باد‘‘ اِدھر، وہ اُدھر ’’مُردہ باد‘‘ ہے
نعرے لگا رہا ہے ، سو ہے وہ بھی آدمی
چند جو کھا رہا ہے ، سو ہے وہ بھی آدمی
لٹّھے کے تھان جِس نے چھپائے ، سو آدمی
پھِرتا ہے چیتھڑے سے لگائے ، سو آدمی
بیٹھا ہوا ہے غلّہ دبائے ، سو آدمی
راشن نہ کارڈ پر بھی جو پائے ، سو آدمی
صَدمے اُٹھا رہا ہے ، سو ہے وہ بھی آدمی
دُھومیں مچا رہا ہے ، سو ہے وہ بھی آدمی