یہ جاوید چوہدری کیا ہیں ؟ (تحریر: ذوالنورین سرور)
صحافی کا سب سے بڑا اختیار ’’موضوع کا چناؤ‘‘ ہے۔دنیا میں ہر وقت کروڑوں ’’واقعات‘‘ ہو رہے ہیں لیکن ہر واقعہ اخبار میں نہیں چھپتا۔ اس بات کا فیصلہ کیسے ہوتا ہے کہ کون سی بات ’’نیوز ورتھی‘‘ ہے اور کون سی نہیں ؟ ایک صحافی اپنے تجربے سے یہ بات جانتا ہے۔اس تجربے ہی میں سارا راز مضمر ہے۔کالم نویس پہلے ایک بات(خبر، واقعہ) کو موضوع بناتا ہے۔ اس کو دیکھنے کا ایک تناظر کھوجتا ہے۔ اس تناظر کے ہمدردوں کے لئے دلیل تراشتا ہے اور اس دلیل کو حقائق سے مزین کرتا ہے۔یہ وہ کام ہے جو سب کر رہے ہیں۔اس کا نتیجہ کیا ہے ؟ اس کا مقصد کیا ہے ؟ پاکستان میں کیا ہو رہا ہے ؟ آئیے ان سوالات کی کھوج لگائیں۔
کالم نویسی ایک پیشہ ہے اور اس سے وابستہ افراد سے ہم دیگر مزدوری کرنے والے طبقات کے مانند ہمدردی رکھتے ہیں مگر یہ ہمدردی ہمیں ان لوگوں کے کام پر سوالات اٹھانے سے نہیں روکتی۔اخبار ایک صنعت ہے اور وہ اپنے صارفین کی روزانہ کی ضروریات پوری کرنے کے لیے متن سازی کرتی ہے۔ یہ ’’متن‘‘ صحافی کی ذات سے پھوٹتا ہے یا کھرونچا جاتا ہے اور پھر ضروری قطع و برید کے بعد اسے صارفین کے اذہان میں انڈیل دیا جاتا ہے۔ یہ قطع و برید کئی سطح پر ہوتی ہے جس میں مالکان اور ریاستی ادارے بھی موجود ہیں۔ یہ سارا پروسث ایک بڑے پروسث کا ذیلی حصہ ہے۔بڑا پروسث یہ ہے کہ
ریاست انسان نگلتی اور شہری اگلتی ہے۔
(ہم اپنے بچے اس پروسث میں داخل کرتے ہیں اور ان کی کامرانی کی دعائیں مانگتے ہیں۔) یہ بڑا پروسث ہے اور مین سٹریم اس پروسث کا چھوٹا لیکن سب سے ایفیشنٹ حصہ ہے۔ جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہے کہ کوئی شے کسی سمت کو بہ رہی ہے۔ یہ خیالات کا بہاؤ ہے جسے سرمائے کی کشش کھینچ رہی ہے۔
پانی نیچے کو بہتا ہے اور خیال طاقت و سرمائے کی سمت میں بہتا ہے۔
مین سٹریم میں متن (افکار) بہتا ہے اور صحافی اس میں تیرنے والی چھوٹی مچھلیاں ہیں۔ متن (افکار) سرمائے اور طاقت کے رخ کو بہتا ہے، لہٰذا چھوٹی مچھلیاں بہاؤ کی مخالف سمت میں سفر نہیں کرتیں۔ یوں سمجھ لیں کہ مین سٹریم متن، حقیقت کا وہ زاویہ ہے جو دربار میں سب سے زیادہ مقبول ہے۔ متن، ایک خودمختار شعور کے اظہار کے طور پر اب باقی نہیں رہا۔ نظام نے جب اپنا شکنجہ اجتماعی حیات پر مضبوط کیا تو روایتی سماج کی آزادیاں ایک کے بعد ایک ختم ہوتی گئیں۔ یہ آزادیاں جن انسانی افعال میں اپنا اظہار پاتی تھیں، سوسائٹی میں وہ افعال متروک ہو گئے اور جن نئی انسانی سرگرمیوں نے رواج پایا ان کی بارآوری سرمائے نے متعین کی اور سیاسی طاقت نے آرگنائزیشن کے اصول پر انھیں منظم کیا۔ اس طرح حیات کی متنوع شکلیں (Forms-of-life ) ختم ہوتی گئیں اور صرف ایک سیاسی ہئیت باقی رہی۔اس نظام میں ایک خودمختار شعور کے وجود اور اظہار کے تمام راستے مسدود ہو گئے۔سارا متن سیاسی ہو گیا اور ایسے متن کا وجود میں آنا جو سیاسی سے سوا ہو، غیرممکن قرار پایا۔ یہیں سے ’’پبلیکیشن‘‘ کے ادارے کا آغاز ہوا۔
اخبار کی سطح پر جو مواد چھپتا ہےاس میں منشائے متکلم اور سیاسی طاقت سے اس کا ربط اپنی عریاں ترین حالت میں نظر آتا ہے۔
سرمائے اور طاقت کا ارتکاز ایک حقیقت ہے لیکن اس کے ایک سے زائد دعویدار ہونا بھی حقیقت ہے۔زیادہ عرصہ مین سٹریم میں رہنے سے فرد کو نظام کی ضروریات بھی سمجھ میں آ جاتی ہیں اور اس کے اہم کل پرزوں کی بابت بھی جانکاری ہو جاتی ہے۔ یہ جانکاری وہ اپنے پست نوع کے ذاتی مفاد اور اہم کل پرزوں کی ضروریات کےحصول میں استعمال کرتا ہے۔ یہ ’’اچھا شہری‘‘ اپنی کسی افادیت کی بناء پر نظام میں ایک مستقل جگہ بنا لیتا ہے اور اس سے لین دین کا ایک مستقل سلسلہ شروع کرتا ہے۔ ریاست کے نظام کو کسی حد تک سمجھ جاتا ہے،اسے اس کے بنیادی کھلاڑیوں کے نام پتےمعلوم ہونے لگتے ہیں اور وہ ان کےباہم ٹکرانے والے مفادات کی سن گن رکھنی شروع کردیتا ہے۔ریاست ایک طاقتور روڈ رولر ہے جو شہریوں کےسر پرہمہ وقت چلتا ہے۔ جمہوریت اس کی رفتار کو قدرے کم کرتی ہے۔بعض اوقات شہری ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر روڈ رولر کا راستہ روک لیتے ہیں۔ ہاتھوں میں ہاتھ ڈالنے کا یہ عمل کسی نقصان یا درد سے پھوٹتا ہے۔اس کو اگر نظریے کی کمک پہنچے تو روڈ رولر کا رخ پھیر کر دوسری سمت کےشہریوں کی سرکوبی کو روانہ کر دیا جاتا ہے۔ ریاست کی ضرورت ایک ایسے گروہ کی تعمیر ہے جو اپنے روزمرہ کے مسائل ازخود حل کر سکیں اور پیداواری ہوں۔ اس سے زائد شعور ،نظام کی ضرورت سے باہر اور مضر ہے۔انسانی شعور لیکن ایک بنیادی لازمہ رکھتا ہے کہ وہ اپنے مالی استحصال کو فوراً سمجھ لیتا ہے۔ یعنی آپ کسی سے بھی اس کا پیسہ لیں تو وہ فوراً سمجھ جائے گا کہ اس کی حق تلفی کی گئی۔ ریاست کا قیام اور بقاء دونوں ہی استحصال کے مرہون منت ہیں، ایسے میں روڈ رولر کے پروقار بہاؤ کے لیے ضروری ہے کہ پتھر (شہری) ایک جگہ اکٹھے نہ ہوں۔اس مقصد کے لیے ادارے بنائے جاتے ہیں۔سکول، ہسپتال، جیلیں وہ ادارے ہیں جن میں انسان داخل اور شہری برآمد کئے جاتے ہیں۔ حتی کہ ان کے اندر سے بغاوت یا شعور کا آخری قطرہ بھی نتھر جاتا ہے۔ اس سب کے بعد جو شہری بچ جاتا ہے اس میں خیال کی تلچھٹ بھری جاتی ہے اورتلچھٹ بھرنے کا یہ کام صحافی کرتے ہیں۔صحافیانہ تحاریر ،شعور کو شَل اور جذبات کو انگیخت کرتی ہیں۔ شعور شل ہونے کے بعد عمل (سیاسی) کا امکان بالکل معدوم ہو جاتا ہے۔ یہ وہ خدمات ہیں جن کا صلہ صحافی پاتا ہے۔ اگر آپ غور سے دیکھیں تو یہ عمل بالکل واضح ہے۔سمجھ دار صحافی یا بڑا صحافی اپنی تحریر میں چند باتوں کا خاص دھیان رکھتا ہے۔ وہ طاقت کے کھیل میں شریک کھلاڑیوں کےمفادات کو عوام پر مقدم رکھتا ہے۔ وہ ایک یا دوسرے یا تیسرے کھلاڑی کی حمایت کرتا ہے لیکن استحصال کا جو ننگا عمل جاری ہےاس کی جانب اشاروں کنایوں میں بھی بات نہیں کرتا۔اس کا سبب یہ ہے کہ وہ اپنے تجربے سے اس کے مضمرات سے واقف ہو چکا ہے۔ اس قسم کی فکر آپ کو مین سٹریم سے دور مارجنلائزیشن کی زہریلی ،گھٹا ٹوپ نالیوں میں ڈال دیتی ہے۔ان نالیوں میں جالیاں ہیں جن سے سر پٹخ پٹخ کر مچھلی جان دے دیتی ہے نیز طاقت اور سرمائے کی ناپسندیدگی کے سبب اس کا بہاؤ گمنامی اور کسمپرسی کی جانب رہتاہے۔یہ صورتحال ہر سمجھدار آدمی کو اپنی اصلاح کرنے پر مجبوری کرتی ہے۔
ہم نے مضمون کا عنوان جاوید چوہدری رکھا ہے۔ان کی ذات محض ایک استعارہ ہے لیکن یہ ایک مضبوط استعارہ ہے۔آپ پاکستان کے صفِ اول کے ’’صحافی‘‘ ہیں۔ کالم نویسی کی بنیاد پر متعدد ایوارڈز حاصل کر چکے ہیں۔ خاکسار کو قریباً ایک دہائی تک ان کےمطالعہ کا شرف حاصل ہے۔ اگر آپ ’’زیرو پوائنٹ‘‘ سلسلے کو غور سے دیکھیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ ان کی ذاتی سیاسی آراء نہایت مخفی اور مبہم نوعیت کی ہیں۔ اس ابہام کے تحت ان کے قلم میں appropriation کی زبردست استعداد موجود ہے۔وہ ایک مدت سے طاقت کے کھلاڑیوں کا پسندیدہ دستیاب مہرہ ہیں جسے کوئی بھی اپنی سہولت اور ضرورت کے مطابق چلا سکتا ہے۔ان کے استعمال کی نمایاں مثالیں موجود ہیں جن کی وضاحت ہم ابھی کرتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ ایسی اور مثالیں ان کے ’’کیرئیر‘‘ میں بھی اور باقی تمام ’’نمایاں اذہان‘‘ کی زندگی میں بھی مل جائیں گی۔دراصل ’’کیریئر‘‘ نام ہی بالائی طبقے کی خدمت کا ہے۔ ابہام اور لایعنیت کی اس خوبی کی بدولت ہمارے ممدوح صحافی، سوسائٹی کی آراء تشکیل دینے والے اہم ٹول کے طور پہ سامنے آتے ہیں۔ اس کی بناء پر وہ بجا طور پہ ایک نمایاں مقام رکھتے ہیں۔کیا ان کا کوئی بھی قاری یہ دعوی کر سکتا ہے کہ وہ تاریخ، علم یا سیاست کے فلاں سکول یا نظرئیے سے تعلق رکھتے ہیں؟ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ایسی گفتگو ان کی ’’پروڈکٹیوٹی‘‘ پر منفی اثر مرتب کر سکتی ہے۔انھیں نے کئی دہائیوں میں طاقت کے متعدد گروہوں کے لیے جو خدمات سرانجام دی ہیں وہ کسی واضح نظریاتی وابستگی کے ساتھ سرانجام دینا مشکل تھیں۔ دانشور بطور طبقہ ہمیشہ طاقت کا ساتھ دیتے ہیں۔ جاوید چوہدری ا س کی واضح مثال ہیں۔
’’مدینہ کا شہید‘‘ ایک تحریر ہے جس پر انھیں بہترین کالم نگار کا اعزاز ملا۔یہ پورا کالم ہندوستان کے سیاسی اور سماجی حالات سے بے خبری پرمشتمل ہے۔یہ بے خبری ظاہر ہے کالم کے اندر موجود مختلف شخصیات کے بیانات سے ظاہر ہوتی ہے لیکن دراصل وہ صاحب تحریر کی لاعلمی ہے۔اس کالم میں وہ دو بھائیوں کی کہانی لکھتے ہیں جن میں سے ایک سعید پاکستان (کراچی) آ گیا جبکہ دوسرا بھائی حمید ہندوستان (دہلی) میں رک گیا۔ حکیم سعید شہید کو گولی لگ گئی۔اب ان کے بھائی کو یہ خبر ملی ہو گی تو اس نے کہا ہو گا، ’’میں کربلا میں زندہ رہا، تم مدینے میں مارے گئے ؟‘‘ یہ آخری فقرہ حاصل کلام ہے. اس کے اندر غلط تلمیح(کربلا میں امام حسینؑ گئے تھے، وہاں رکے نہیں تھے) ہے، جذبات نگاری ہے، انتہا درجے کی سادگی ہے(ایک آدمی کو اگر گولی نہیں لگی تو اس کی زندگی قابل رشک ہے ) اور غلط سیاسی عمل (قیام پاکستان کی مخالفت) کی راہ سجھائی گئی ہے۔
سنہ 2012 میں انھوں نے چیف جسٹس کے بیٹے ارسلان افتخار اور ملک ریاض کے لین دین پر کالموں کی ایک سیریز لکھی۔یہ کالم خلطِ مبحث کا ایک عالمی معیار فراہم کرتے ہیں۔ مقدمہ یہ تھا کہ ارسلان افتخار نے ملک ریاض سے رشوت لی اور فیصلہ ان کے حق میں نہ ہوا۔یہ مقتدرہ کے اہم کرداروں کے لیے ایک شرم ناک مقدمہ تھا۔ جاوید چوہدری صاحب نے دونوں کرداروں کی عظمت کا ایسا ترانہ لکھا کہ آنکھیں نم ہو گئیں۔ فرماتے ہیں ،’’ملک ریاض نے کبھی شراب نہیں پی، بدکاری نہیں کی، سگریٹ کو ہاتھ نہیں لگایا، جوا نہیں کھیلا اورپرائی عورت کو کبھی آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا۔‘‘ لیکن سپریم کورٹ کے کیسز میں ارسلان افتخار کو ڈھائی کروڑ کی رشوت دینے کا دعوے دار ہے۔
خیر جاوید چوہدری صاحب چاہتے تو یہی ’’خوبیاں‘‘ چیف جسٹس افتخار چوہدری کی ذاتِ بابرکات میں سے بھی برآمد کر سکتے تھے لیکن ان کی نکتہ رس طبیعت نے ایک زاہد سنار کی کہانی بیان کرنے پہ اکتفا کیا۔ ایک جج نے اپنی بیٹیوں کے ہمراہ زاہد صاحب کی دکان سے بہت کم روپوں میں خریدار کی۔ ان دونوں کے مابین گفتگو ہوئی تو جج صاحب نے پرانی چوڑیاں (بیس ہزار تک قیمت کی) خریدنے کی خواہش ظاہر کی جو اس وقت دستیاب نہ تھیں۔ زاہد سنار نے زمین پر قبضے کا ایک کیس جج صاحب کو سنایا تو جج صاحب نے کہا،’’میں کیس تلاش کرتا ہوں اگر آپ حق پر ہوئے تو فیصلہ ضرور آپ کے حق میں ہو گا۔‘‘ جج صاحب نے کیس تلاش کر کے سنار کو فون کیا اور اس کے حق میں فیصلہ ہو گیا۔ بعد میں زاہد سنار نے جج صاحب کو فون کر کے بتایا کہ پچیس ہزار آٹھ سو پچاس کی چوڑیاں آئی پڑی ہیں۔ جج صاحب نے خریدنے سے معذرت کر لی۔ ان کے پاس وہی بیس ہزار تھا۔ساتھ میں انھوں نے سنار کا شکریہ ادا کیا کہ اصل قیمت بتا کر اس نے ان کا ایمان بچا لیا۔یہ چیف جسٹس افتخار چوہدری کا 2002 کا واقعہ ہے۔اس میں رمز یہ ہے کہ جاوید چوہدری صاحب نے بتایا کہ وہ ملک ریاض کے سولہ سال پرانے دوست ہیں اورملک صاحب نے انھیں ارسلان افتخارکو رشوت دینے کے ثبوت فراہم کئے ہیں تو انھیں چاہئے تھا کہ وہ پورے ملک کو زاہد سنار کا واقعہ سنانے کی بجائے صرف ملک ریاض کو سناتے۔ بھائی! افتخار چوہدری سے ملو ،انھیں بتاؤ کہ میرا مقدمہ حق پر مبنی ہے مگر لوگ ہیں کہ پیسے کے بغیر کام ہی نہیں کرتے،اب بتائیں کیا حکم ہے ؟ جیسا کہ زاہد سنار والی کہانی سے پتا چلتا ہے جج صاحب حق پہ مبنی مقدمات لازمی حل کرتے ہیں پس وہ حل ہو جاتا۔ دوسری بات یہ کہ اگر ملک ریاض کے کیس دو نمبر تھے جن میں وہ سر عام رشوت کھلانے کا بھی دعویدار ہے تو اس کی ’’فرشتہ صفت سیرت‘‘ کے واقعات سے عوام کو محروم رکھا جانا بہتر تھا۔آگے چل کر ملک ریاض کو سزا ہونے کی صورت میں انھوں نے ہزاروں لوگوں کےچولہے ٹھنڈے ہونے کی دہائی بھی دی ہے۔یہ چولہے ملک صاحب ایسوں کے کرتوتوں کے سبب پہلے ہی ٹھنڈے پڑے ہیں۔ ملک ریاض کو سزا ہونے کی صورت میں زیادہ سے زیادہ کوئی اور لوٹ مچانا والے آ جائے گا۔لیکن ان خطوط پر ان کے ذہنِ رساء نے نہ سوچنےہی کی تو تربیت پائی ہے۔
چیئرمین نیب کا ایک سکینڈل سامنے آنے سے چند دن پہلے انھوں نے ایک کالم لکھا جس کے مطابق چیئرمین نیب، احتساب کی واحد امید ہیں جن سے حکومت، اپوزیشن، چرند پرند الغرض ہر ذی حس بیزار اور کوفت کا شکار ہے۔کوئی دن جاتا ہے کہ ان کا کانٹا نکال دیا جائے گا. اس طرح کی تحریر سے جو بعد میں ہونے والے واقعات ہیں ان میں ایک مو ضوعیت (subjectivity )داخل ہو گئی۔ ایک سرکاری تفتیشی افسر اگر کسی ملزم کی بیوی کے ساتھ ناجائز تعلقات قائم کرتا ہے تو اس کا کیس بہت سیدھا ہے۔ جاوید چوہدری صاحب نے اس میں بلیک میل کا عنصر، اپوزیشن کو ممکنہ بدنامی سے بچانے اور ان کی برخواستگی کی صورت میں حکومت کو مورد الزام ٹھہرانے کا اچھا خاصا مواد شامل کر دیا جو یقیناً ایک ’’قابل تعریف کارروائی‘‘ ہے ۔ یہ تو خیر جملہ معترضہ تھا. ہم اصل بات کی طرف واپس آتے ہیں۔ سیاست اتنا اہم موضوع ہے کہ اسے صرف صحافیوں پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ اس مقصد کے لیے دنیا بھر میں یونیورسٹیوں کے پروفیسر حضرات اس موضوع پر قلم فرسائی کرتے ہیں۔عوامی شعور کو منظم کرنا، مزاحمت کو درست بنیادوں پر استوار کرنا اور استحصال کے متعلق ابلاغ ایسی ذمہ داری ہے جو سیاسی تجزئیے کا لازمہ ہے۔ایسے حقائق جو بغیر کسی واضح سیاسی تصور/تناظر کے پیش کئے جائیں وہ زندگی کش اور نظام دوست ثابت ہوتے ہیں۔ایسی تحاریر سے دور رہنا دانشمندی کا مظہر اور علم میں اضافے کا موجب ہے۔
سب نظریہ ضرورت ہے۔ کاروباد ہے۔ مفادات کا ٹکرائو کوئ بھی نہیں چاھتا