سسی فیرن ہول لیکچر۔ خطبہ: اروندھتی رائے (ترجمہ: سارنگ)
نوٹ: حال ہی میں منظر عام پر آنے والی کتاب ”آزادی: وبا کے دور میں فسطائیت، افسانہ، اور خودمختاری“ (ناشر: ھے مارکیٹ بکس) کی مصنفہ اروندھتی رائے نے انیس اپریل، ۲۰۲۲ کو ٹیکسس یونیورسٹی، آسٹن میں خطاب کیا، جس کا ترجمہ یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔ پاکستان میں اس کتاب کا ترجمہ یہاں سے خریدا جا سکتا ہے۔
سہ پہر بخیر، اور میں آپ سب کی شکرگزار ہوں کہ آپ نے مجھے سسی فیرن ہول (Sissy Farenthold) لیکچر کے لئے مدعو کیا۔ اسے سے پہلے کہ میں شروعات کروں، میں چند کلمات یوکرین میں چھڑی جنگ کے متعلق کہنا چاہوں گی۔ میں واضح طور پر یوکرین میں روس کی مداخلت کی مذمت کرتی ہوں۔ میں یوکرینی عوام کی بہادرانہ مزاحمت کو خراج تحسین پیش کرتی ہوں۔ میں اُن روسیوں کی جرات کی بھی معترف ہوں جو بہت خطرات مول لیکر سرکاری موقف سے اختلاف کرتے ہیں۔
میں یہ کہتے ہوئے امریکہ اور یورپ کی منافقت، اور دوسرے ممالک میں اسی قسم کی جنگوں سے اچھی طرح واقف ہوں جو ان دونوں نے مسلط کیں۔ دونوں نے مل کر نیوکلیائی دوڑ کی قیادت کی ہے اور ہتھیاروں کے ذخائر اکٹھے کئے ہیں جو ہمارے سیارے کو کئی بار تباہ کرنے کے لئے کافی ہیں۔ کس قدر ستم ظریفی ہے کہ یہ ہتھیار ان کی ملکیت ہیں اور انہیں مجبور کرتے ہیں کہ وہ بے بسی میں اس ملک کو تباہ و برباد ہوتا دیکھیں جسے وہ اپنا حلیف سمجھتے ہیں؛ ایسا ملک جس کا علاقہ اور لوگ، حتی کہ وجود تک، سامراجی طاقتوں کی جنگی سازشوں اور کبھی نا ختم ہونے والے طاقت کے نشے نے خطرے میں ڈال دیا ہے۔
اور اب میں بھارت کی طرف متوجہ ہوتی ہوں۔ میں اپنی گفتگو کو بھارت میں ضمیر کے قیدیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے نام کرتی ہوں۔ میں آپ سب سے درخواست کرتی ہوں کہ آپ پروفیسر جی این سائی بابا (G.N. Saibaba)، عالموں، موسیقاروں، سرگرم کارکنان، بھیما کوریگاؤں سولہ (Bhima Koregaon 16) کے نام سے جانے والے وکلا، ترمیمِ شہریت ایکٹ (Citizenship Amendment Act CAA) کے خلاف احتجاج کرنے والے سرگرم کارکنان کی گرفتاری، اور پانچ مہینے پہلے کشمیر میں گرفتار ہونے والے خرم پرویز کو یاد رکھیں۔ خرم اُن غیر معمولی شخصیات میں سے ایک ہے جن سے میں واقف ہوں۔ وہ اور اس کی تنظیم (Jammu Kashmir Coalition of Civil Society- JKCCS)، جس کے لئے وہ کام کرتا ہے، سالوں سے بے حد تفصیل سے تشدد، جبری گمشدگی، اور کشمیریوں پر مسلط کی جانے والی اموات کا حساب رکھتی آ رہی ہے۔ لہذا میری آج کی گفتگو ان سب کے نام ہے۔
بھارت میں تمام اختلاف رائے کو جرم قرار دے دیا گیا ہے۔ ابھی کچھ وقت پہلے اختلاف رائے رکھنے والوں کو ملک دشمن کہا جاتا تھا۔ اب ہمیں کھلم کھلا دانشورانہ دہشتگرد کے لقب سے نوازا جاتا ہے۔ ایک بھیانک قانون (Unlawful Activities Prevention Act)، جس کے تحت لوگوں کو کئی کئی سال بغیر عدالتی کاروائی کے قید رکھا جاتا تھا، میں ترمیم کر دی گئی ہے تاکہ موجودہ حکومت کی اس چبھن کی تسکین ہو سکے جو اسے دانشورانہ دہشتگردی کے ساتھ ہے۔ ہم سب کو ماؤ کے پیروکار (Maoists)، عام زبان میں یعنی شہری نکسل (Urban Naxals)، یا جہادی پکارا جاتا ہے، اور یوں ہم سب پر نشانے باندھ لئے گئے ہیں تاکہ ہم بپھرے ہوئے ہجوم یا قانونی حراسانی کے لئے جائز شکار بن سکیں۔
مجھے نئی دلی چھوڑے چند دن ہی ہوئے ہیں۔ صرف ان چند دنوں میں ہی وہاں وقوع پذیر ہونے والے واقعات اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ ہم خطرے کا ایک نشان پار کر چکے ہیں۔ ہم اب ان ساحلوں کی جانب واپس نہیں لوٹ سکتے جنہیں ہم کبھی اپنا کہتے تھے۔
مارچ 2022 میں بھارتیہ جنتا پارٹی (BJP) نے دوسری مرتبہ بھارت کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش کا الیکشن جیتا۔ اس مسلسل کامیابی کی کوئی نظیر نہیں۔ اتر پردیش کے چناؤ کو مئی 2024 میں ہونے والے عام انتخابات کا ”سیمی فائنل“ گردانا جا رہا ہے۔ الیکشن مہم میں حصہ لینے والے زعفرانی لباس میں ملبوس گرو تھے، جو کھلم کھلا مسلمانوں کے قتل عام اور انکے معاشی و معاشرتی بائیکاٹ کی دعوت دے رہے تھے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی (BJP) کی کامیابی بہت عظیم الشان تھی لیکن زمین پر مقابلہ بہت قریب قریب تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ انتخابات کے نتائج نے بھارتیہ جنتا پارٹی کے کارکنان اور لیڈران میں ایک مخصوص اور عجیب و غریب خوف اور ضرورت سے زیادہ حوصلے کا امتزاج پیدا کر دیا۔ انتخابات کے نتائج کے کچھ ہی دنوں بعد ہندوؤں نے رام نوامی کا تہوار منایا جو اس سال رمضان کے مہینے کے ساتھ آیا۔ رام نوامی کا تہوار منانے کے لئے تلواروں سے لیس شدت پسند ہندوؤں اور انکے کارندوں نے لگ بھگ گیارہ شہروں میں جلوس نکالے۔ سوامیوں اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے کارکنان کی رہنمائی میں یہ جتھے مسلمانوں کی بستیوں میں داخل ہوئے، مساجد کے باہر نفرت بھڑکاتے رہے، فحش نعرے بلند کرتے رہے، اور مسلم عورتوں کی آبرو ریزی اور مسلم مردوں کے قتلِ عام کی دعوت دیتے رہے۔
مسلمانوں کی طرف کسی بھی طرح کے ردعمل کا نتیجہ حکومت کی طرف سے ان کی جائیداد کا انہدام یا شدت پسندوں کی جانب سے لگائی گئی آگ ہوتا ہے۔ جو گرفتار کئے جاتے ہیں، عموماً مسلمان، ان پر بغاوت اور سازش کا الزام لگایا جاتا ہے اور عین ممکن ہے کہ وہ جیل میں سال ہا سال گزاریں۔ جن پر الزامات لگائے گئے ان میں سے ایک ملزم رام نوامی سے بہت عرصہ قبل کسی اور الزام کے تحت جیل میں قید تھا۔ ایک اور ملزم وسیم شیخ ہے، جس پر ہندو پوجا کے دوران پتھر برسانے کا الزام ہے، وہ دونوں ہاتھوں سے محروم ہے۔ حکومت نے ملزمین کے گھروں اور دکانوں کو منہدم کر دیا۔ کچھ شہروں میں پاگل پن کی حد کو پہنچے ہوئے ٹی وی اینکرز (گھروں اور دکانوں کو) منہدم کرنے والے بلڈوزروں میں سوار تھے۔
اسی دوران بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈران، جو ہندو فسادیوں کو 2020 کے دہلی میں ہونے والے قتل عام کے لئے اکساتے رہے، کو دہلی ہائی کورٹ نے یہ کہتے ہوئے بری کر دیا کہ مسکرا کر اکسانا قابل جرم نہیں۔ ان میں سے بیشتر لیڈران دوسرے شہروں کی سڑکوں پر اسی قسم کے تشدد کو بھڑکا رہے ہیں۔ جبکہ عمر خالد، ایک مسلمان سکالر جیل میں ہے۔ ترمیم شہریت ایکٹ کے خلاف احتجاج کے دوران کی گئی اس کی تقریر، جو اس بھائی چارے، محبت اور عدم تشدد کا ذکر کرتی ہے جو بھارتی آئین کو مضبوط بناتا ہے، پولیس کی چارج شیٹ کے مطابق، 2020 میں ہونے والے دہلی قتل عام کی سازش کو چھپانے کی کوشش ہے۔ بظاہر، مسلمانوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کے سرکاری دورے کے دوران بھارت کے عمدہ نام کو خراب کرنے کی خاطر خود کو مارنے اور قتل عام کی سازش کی۔
اس تمام صورتحال میں وزیراعظم نریندر مودی، جن کے سیاسی سفر کا آغاز گجرات میں بطور وزیراعلی 2002 کے مسلم قتل عام سے ہوا، ایک متاثر کن شخصیت سمجھے جاتے رہے۔ اکثر اوقات خاموش مگر اکثر نفرت انگیز نعروں کی سرپرستی میں مصروف، وہ اُس شدت پسند عوام اور ان کے محترم رہنماؤں کے مسیحا ہیں، جو وٹس ایپ پر مہیا کی جانے والی جعلی تاریخ کی مسلسل خوراک پر پلتی ہے، جو خود کو تاریخی جور و ستم اور مسلمانوں کے ارتکاب کردہ قتل عام کا شکار بتاتی ہے۔ اور اس عوام کے خیال میں اس جور و ستم کا بدلہ ابھی اور اسی جگہ لینا ضروری ہے۔
ہم ایک ایسے خطرناک مقام پر موجود ہیں جہاں ایسے کوئی حقائق یا تاریخی تصورات نہیں جن پر اتفاق رائے کیا جا سکے، اور یہاں تک کے بحث کا آغاز ہو پائے۔ مختلف بیانیے نا تو ایک دوسرے سے متصل ہیں اور نا ایک دوسرے سے میل کھاتے ہیں۔ یہ حقیقی تاریخ اور مفروضوں کا مقابلہ ہے۔ مفروضے ریاستی مشینری، تجارتی اداروں کے سرمائے، اور چوبیس گھنٹے سرگرم رہنے والے ان گنت ٹی وی نیوز چینل کی مدد سے خود کو مؤثر بناتے ہیں۔ مفروضوں کی طاقت اور اثرات لاثانی ہیں۔ دنیا پہلے بھی اسی مقام سے گزر چکی ہے اور ہم جانتے ہیں کہ جب بحث و دلائل کا خاتمہ ہوتا ہے، گروہ کے زوال کا کا آغاز ہوتا ہے۔
فرض کیجئے کہ آپ کو کیسا محسوس ہوگا اگر آپ کو موت یا قید کے لئے چنا جائے۔ ایک گروہ کے طور پر مسلمانوں کو پہلے ہی الگ تھلگ کر دیا جا رہا ہے، اور معاشی و معاشرتی طور پر ان کا بائیکاٹ کیا جا رہا ہے۔ مسلمانوں پر اکثر محبت جہاد (ہندو عورت کو اپنی محبت میں گرفتار کر کے مسلم آبادی میں اضافہ کرنے کی سازش کرنا)، کرونا جہاد (اپنی مرضی سے کرونا کی وبا پھیلانا، اسی طرح جیسے نازی یہودیوں پر ٹائی فس بخارکی وبا پھیلانے کا الزام لگاتے تھے)، اور نوکری جہاد (سول سروس میں نوکری حاصل کر کے ہندو نسل پر حکمرانی کی سازش) کا الزام لگایا جاتا ہے؛ اور ابھی خوراک جہاد، فکری جہاد، لباس جہاد، اور ہنسی جہاد کا تو ذکر ہی نہیں ہے۔ (منور فاروقی نامی ایک نوجوان مسلم مزاح نگار کو مہینوں اس مذاق کے الزام میں جیل کاٹنی پڑی جو اس نے کبھی کیا نہیں پر کرنے کا ”ارادہ “ کیا تھا۔)
معمولی سی بحث یا چھوٹی سی غلطی ایک مسلمان کے لئے جان سے ہاتھ دھونے اور مارنے والے کے لئے انعام و اکرام، پھولوں کے ہار، اور ایک روشن سیاسی مستقبل کا باعث بن سکتی ہے۔ ہم میں سے سب سے زیادہ سنکی اور مضبوط حضرات بھی ایک دوسرے سے سرگوشیوں میں پوچھتے ہیں: کیا وہ (جان لینے والے) ابھی تک تیار ہو رہے ہیں، یا اس سب کی شروعات ہو چکی ہے؟ کیا یہ (شدت پسندی) منظم ہے یا قابو سے باہر ہے؟ کیا یہ (دنگے فساد) بڑے پیمانے پر رونما ہوں گے؟
بھارت بطور ملک اور بطور جدید نیشن سٹیٹ صرف اور صرف کثیر زبانوں، مذہبوں، ذاتوں، نسلوں، اور چھوٹی قومیتوں کے درمیان ایک معاشرتی معاہدے کے طور پر وجود رکھتا ہے، جو قانونی طور ایک آئین کے تحت یکجا ہیں۔ ہر بھارتی شہری، کسی نا کسی طرح، ایک اقلیت سے تعلق رکھتا ہے۔ ہمارا ملک اس کی اقلیتوں کے درمیان ایک معاشرتی معاہدہ ہے۔ سیاسی اکثریت پیدا کرنے کی کوشش میں اس معاشرتی معاہدے کو ایک مصنوعی طور پر پیدا کی گئی ” ہندو ستم زدہ اکثریت “ کے ذریعے ختم کیا جا رہا ہے، وہ اکثریت جسے یہ سبق سکھایا جا رہا ہے کہ وہ اس ملک کے اکلوتے شہری، اس قیاسی ہندو قوم کے پہلے وارث، اور ایسی اکثریت ہیں جس کی تعریف یہ ہے کہ وہ ایک ” ملک دشمن گروہ “ کی مخالف ہے۔ بھارت کو برباد کیا جا رہا ہے۔
ہم میں سے چند لوگ جو اس اقلیتی قوم کا حصہ ہیں اپنی ایک شفاف اور واضح تاریخ لکھ سکتے ہیں جس میں ہم تشدد کے بے گناہ مظلوم کردار ہیں۔ ہماری تواریخ آپس میں ملتی، جڑتی اور جمع ہوتی ہیں۔ یہ (تواریخ) مل کر ہمیں وہ بناتی ہیں جو کہ ہم ہیں۔ ذات، طبقہ، مذہب، نسل، اور جنس کی غالب تقسیم کے علاوہ ہمارا معاشرہ خوردبینی سطح پر بھی درجہ بندی کا شکار ہے۔ یہاں چھوٹے درجے کا نوآبادیاتی نظام، چھوٹے درجے کا استحصال، اور چھوٹے درجے کا ایک دوسرے پر انحصار پایا جاتا ہے۔ اس چادر کا ہر دھاگا شاندار ہے اور مطالعے، بحث، علم و تحقیق، دلیل، اور سوچ بچار کی دعوت دیتا ہے۔ لیکن اس چادر کے محض ایک دھاگے کو الگ کرنا اور اس کی بنیاد پر اجتماعی زیادتی اور قتل عام کی آواز لگانا، کیا یہ جائز ہے؟
جب برصغیر دو حصوں میں تقسیم ہوا تو سینکڑوں ریاستوں اور راجواڑوں کو، بعض اوقات زبردستی، پاکستان یا ہندوستان کا حصہ بنایا گیا۔ یوں ہزاروں لاکھوں افراد (ہندو، مسلمان، سکھ) ایک دوسرے کے جانی دشمن بن گئے۔ دس لاکھ لوگ مارے گئے۔ کروڑوں افراد ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے۔ کسی ایک فرد یا گروہ کی بربادی اور بد قسمتی کی کہانی جس قدر بھی سچ ہو، اگر اس انداز سے سنائی جائے کہ دیگر کہانیوں کو نظر انداز کر دے، تو جھوٹ، ایک خطرناک جھوٹ، کے زمرے میں آئے گی۔ کسی پیچیدہ تاریخ کو سادہ دکھانے، اسے اس کی باریکی سے محروم کرنے یا اسے ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کے نتائج بہت ہیبت ناک ہوں گے۔
برصغیر میں رہنے والے ہم تمام لوگوں کے پاس یہ آزادی ہے کہ ہم انصاف کے ایک مشترکہ تصور کے حصول کی کوشش اور ہماری اجتماعی شناخت کو دیمک کی طرح چاٹنے والے درد اور تکلیف کا قلع قمع کریں یا اس درد اور تکلیف کو مزید بڑھاوا دیں۔ بھارتی وزیراعظم، ان کی سیاسی جماعت جس کے وہ سربراہ ہیں اور اس کی مادری تنظیم راشٹریہ سیوک سنگھ (RSS)، فسطائیت پر مبنی تنظیم جس کے وہ رکن ہیں، اس تکلیف کو بڑھاوا دینے کا فیصلہ کر چکی ہے۔ وہ ہماری خون میں لتھڑی ہوئی زمین کی انتڑیوں سے کسی بہت ظالمانہ وجود کو آواز دے رہے ہیں۔ ان کی بھڑکائی ہوئی آگ کسی طے شدہ علاقے کو نہیں جلائے گی بلکہ پورے ملک کو راکھ کر دے گی۔ اس آگ کی چنگاری کا آغاز ہو چکا ہے۔ بھارت اور کشمیر کے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ مسیحی بھی ان کے نشانے کی زد میں ہیں۔ صرف پچھلے سال میں گرجا گھروں پر سینکڑوں حملے ہوئے، یسوع مسیح کے مجسموں کی بے حرمتی کی گئی اور راہباؤں اور پادریوں پر تشدد کیا گیا۔
ہم اپنے سہارے ہیں۔ کسی قسم کی امداد نہیں آئے گی۔ یہ یمن میں نہیں آئی، سری لنکا میں نہیں آئی، روانڈا میں نہیں آئی۔ ہم کس لئے یہ امید لگائیں کہ یہ بھارت میں آئے گی؟ بین الاقوامی سیاست میں صرف نفع، طاقت، نسل، معاشی طبقہ اور سیاسی جغرافیائی حقائق ہی اخلاقیات کا معیار ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ سب باتیں ایک عارضی کیفیت اور سائے کا رقص ہے۔
بھارت پر ایسے افراد کی حکومت ہے جن کا اقتدار ہزاروں مسلمانوں کے دن دہاڑے قتل عام پر، غیر حقیقی بنیادوں پر مبنی قتل کے منصوبوں، اور جھوٹ پر مشتمل حملوں (false flag attacks) کے ذریعے پیدا کئے گئے ہسٹیریا کی بنیاد پر قائم کیا گیا ہے۔ یقیناً اس نفرت کے کاروبار کی مخالف ہر ذات اور فرقے کے عام آدمیوں نے کی ہے۔ ان افراد نے جنہوں نے ترمیمِ شہریت قانون (Citizenship Amendment Act – CAA) کی مخالفت کی، کسانوں کی تاریخی تحریک نے، مغربی بنگال، تامل ناڈو، کیرالا، اور مہاراشٹرا کی علاقائی سیاسی جماعتوں نے بھی، جنہوں نے بھارتیہ جنتا پارٹی (BJP) کا دوبدو سامنا کیا اور اسے شکست دی۔ یہ کہنا حق بجانب ہو گا کہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے بھارتی عوام کی اکثریت اس کی حمایت نہیں کرتی۔
لیکن ان کی عدم حمایت زیادہ تر ان کی بد مزگی سے، لاپرواہی سے کندھے اچکانے سے، یا محض منہ پھیر لینے سے عیاں ہے جو اس فسطائی گروہ، جسے اچھی خاصی مالی مدد میسر ہے، کے پرجوش نظریاتی جذبے کے مقابلے میں یکسر بے اثر ہے۔ بھارت کی واحد حزبِ مخالف جماعت بھارتی نیشنل کانگریس، کسی قسم کا بھی اصولی موقف قائم کرنے کے لئے ہم میں محض کمزوری اور عدم اہلیت کو جنم دیتی یے؛ اور عوامی جلسوں میں کی گئی تقاریر میں ” مسلمان “ کا لفظ بھی نہیں بول پاتی۔ مودی کا نعرہ ”کانگرس مکت بھارت“ یعنی کانگرس سے محفوظ بھارت درحقیقت حزبِ مخالف سے پاک حکومت کی پکار ہے۔ ہم اس صورتحال کو جو بھی عنوان دینا چاہیں جمہوریت نہیں پکار سکتے۔
جبکہ بھارت میں ایک بظاہر انتخابی جمہوریت کا تمام آرائشی سامان موجود ہے، یعنی ایک آئین جو ہمیں سیکیولر پکارتا ہے، سوشلسٹ مملکت، آزاد اور شفاف انتخابات، ایک آئین ساز اسمبلی جسے جمہوری طور پر منتخب کی گئی حزبِ اقتدار اور حزبِ مخالف چلاتی ہیں، ایک خودمختار عدلیہ، اور ایک آزاد میڈیا؛ حقیقت میں یہ ریاستی مشینری (جس میں کافی حد تک عدلیہ، سول سروس، سیکیورٹی فورسز، انٹیلیجنس ایجنسیاں، پولیس، اور انتخابی ڈھانچہ شامل ہیں) اگر مکمل طور پر نہیں تو کافی حد تک بھارت کی سب سے طاقت ور، فسطائیت پر مبنی ہندو قومیت پرست تنظیم، راشٹریہ سیوک سنگھ کے زیر اثر ہیں۔ 1925 میں وجود میں آنے والی راشٹریہ سیوک سنگھ (RSS) نے عرصہ دراز تک بھارتی آئین کو نظر انداز کرنے اور بھارت کو ہندو راشٹریہ، ایک ہندو قوم قرار دینے کی کوششیں کی ہیں۔ راشٹریہ سیوک سنگھ کے نظریاتی کارکنوں نے کھلم کھلا ہٹلر کی تعریف کی ہے اور مسلمانوں کو جرمنی کے یہودیوں سے تشبیہ دی ہے۔
آریائی نسل کی برتری اور بڑائی، یہ عقیدہ کہ کچھ انسان ربانی اور خدائی صفات کے مالک ہوتے ہیں اور کچھ انسانیت کے مقام سے گرے ہوئے، اچھوت، اور آلودہ ہوتے ہیں بہر حال برہمن عقیدے یعنی ہندو ذات پات کے نظام، جو آج بھی ہندو معاشرے کی ترتیب کا بنیادی اصول ہے، کی بنیاد ہے۔ یہ ایک المیہ ہے کہ انہی سب سے زیادہ مظلوم افراد میں سے بیشتر راشٹریہ سیوک سنگھ کے نظریے کے پیچھے یکجا ہیں اور پراپیگنڈہ کے طوفان کی نذر ہو کر اپنی ہی غلامی کے حق میں ووٹ دینے پر مجبور کر دیے گئے ہیں۔ 2025 میں راشٹریہ سیوک سنگھ کے سو سال مکمل ہو جائیں گے۔ سو سالوں کی پرجوش اور مشنری کوششوں نے اسے پہلے سے موجود قوم کے اندر ایک الگ مملکت کا درجہ دے ڈالا ہے۔ تاریخی طور پر راشٹریہ سیوک سنگھ کو مغربی ساحل کے برہمنوں نے مضبوطی سے اپنے زیر قابو رکھا ہے۔
آج یہ (راشٹریہ سیوک سنگھ) دیڑھ کروڑ افراد پر مشتمل ہے جس میں مودی، اس کی کابینہ کے کئی اراکین، وزرائے اعلیٰ، اور کئی گورنر بھی پائے جاتے ہیں۔ یہ اب ایک متوازی کائنات ہے جس میں دسیوں ہزار پرائمری سکول، اس کی اپنی مزدور کسان طلباء تنظیمیں، اس کا اپنا چھاپہ خانہ، ایک مشنری و تبلیغی ادارہ جو جنگلوں میں بسنے والے قبیلوں کو ” پوتر “ کر کے انہیں ہندومت میں ” واپس “ لاتا ہے، عورتوں کی بہت سی تنظیمیں، کئی لاکھ افراد پر مشتمل مسولینی کے سیاہ لباس سے متاثر ہونے والے مسلح دستے اور سوچ سے بالاتر حد تک پرتشدد ہندو قومیت پرست تنظیمیں موجود ہیں جو شیل یا آفشورکمپنیوں کا کردار ادا کرتی ہیں اور (ساتھی تنظیم کے جرائم سے) قابل فہم انکار (plausible deniability) کی سہولت مہیا کرتی ہیں۔.
جیسے جیسے بھارت میں نوکریوں کا بڑھتا فقدان اسے معاشی بحران کی طرف دھکیل رہا ہے، بھارتیہ جنتا پارٹی تواتر سے امیر سے امیر تر ہوتی چلی جا رہی ہے اور اس وقت دنیا کی سب سے ثروت مند سیاسی جماعت ہے۔ اس نے یہ حیثیت حال ہی میں متعارف کروائے گئے گم نام انتخابی بونڈ کے ذریعے حاصل کی ہے، وہ بونڈ جن کے ذریعے (بڑے) سرمایہ دار اور (بڑے) تجارتی ادارے چپکے سے کسی بھی جماعت کو چندہ دے سکتے ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کا ہاتھ وہ کئی سو ٹی وی چینل بٹاتے ہیں جو (بڑے) تجارتی اداروں کی استعانت سے چلائے جاتے ہیں اور تقریباً ہر بھارتی علاقائی زبان میں پائے جاتے ہیں۔ ان ٹی وی چینلوں کی مشہوری سوشل میڈیا پر موجود دستے (ٹرول) کرتے ہیں جو غلط اور جھوٹی خبریں پھیلانے میں مہارت رکھتے ہیں۔
اس سب کے لئے بھارتیہ جنتا پارٹی (BJP) ابھی تک راشٹریہ سیوک سنگھ کی محض آڑ کا کام سرانجام دیتی ہے۔ اب قوم میں موجود (RSS) مملکت آڑ سے باہر آنے اور دنیا کے سامنے اپنی الگ جگہ بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ پہلے ہی بیرون ممالک کے سفیر جوق در جوق راشٹریہ سیوک سنگھ کے مرکزی دفتر میں سلامی دینے اور اپنی اسناد پیش کرنے کے واسطے پہنچنا شروع ہو چکے ہیں۔ امریکہ میں موجود اعلی تعلیمی ادارے اخلاقی توثیق و تصدیق حاصل کرنے کی اس شدید کوشش میں اک نئے میدان جنگ کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ خطرہ یہ ہے کہ اس تحریک کے رہنما اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ جو اصولی طریقے سے حاصل نہیں کیا جا سکتا اسے آزاد بے لگام سرمایہ دارانہ معیشت میں خریدا جا سکتا ہے۔
راشٹریہ سیوک سنگھ کی 2025 میں منائی جانے والی سو سالہ تقریب بھارتی تاریخ میں ایک اہم سنگِ میل ثابت ہوگی۔ ایک سال قبل عام انتخابات ہوں گے اور شاید انہی کی وجہ سے تشدد کی سرگرمیوں میں تیزی آئی ہے۔
اسی دوران مودی مسیحا ہر جا حاضر ہے۔ اس کا چہرہ ہماری کووڈ ویکسین اسناد پر، آٹے اور نمک کے تھیلوں پر جو حال ہی میں بے روزگار ہوئے افراد کو نوکریوں کی جگہ دیے جاتے ہیں، موجود ہے۔ لوگ کس لئے شکرگزار نا ہوں؟
وہ لوگ جنہوں نے کثیر تعداد میں مردوں کے اجتماعی کریاکرم اور اتھلی قبریں دیکھیں اور پاک گنگا کو لاشوں سے بھرتے دیکھا، اور (کووڈ) وبا کی دوسری لہر کے دوران اس کے کناروں پر اتھلی قبروں کی قطاریں دیکھیں، کیسے نا اس سب پر یقین کریں جو ان کو بتایا گیا؛ کہ اگر مودی (مسیحا) نا ہوتا تو حالات اس سے بھی بدتر ہوتے؟
ہماری امیدوں کو داغا گیا ہے، ہمارے تخیل کو آلودہ کر دیا گیا ہے۔
اگر راشٹریہ سیوک سنگھ یہ جنگ جیت جاتی ہے تو اس کی بہت بھاری قیمت ادا کرنی ہوگی۔ کیوں کہ بھارت کا وجود ختم ہو جائے گا۔ انتخابات اس لہر کو واپس نہیں موڑ پائیں گے۔ واپسی کے لئے بہت دیر ہو چکی ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کو اس جدوجہد میں شامل ہونا ہے۔ آگ ہماری دہلیز تک پہنچ چکی ہے۔