خرد مندانِ کثیر اندیشہ و دانش پیشہ متحرک بر فیس بک (مکمل)۔ تالیف: عاطف حسین

 In تنقید, مزاح

علامہ کبیر علی المعروف مختون وہاڑوی نے ایک فہرست بزرگان و علمائے فیس بک کی واسطے عوام الناس کے مولف و مشتہر کی ہے جس کو خواص و عوام نے پذیرائی بخشی اور اس سے استفادہ کیا۔ تاہم شائقینِ تحصیلِ علم و فن کی جانب سے ایک مطالبہ پیہم ہورہا ہے کہ فہرست کو بڑھایا جاوے تاکہ جن ہستیوں کا ذکر شامل نہ ہوسکا ان سے استفادے کی صورت بھی پیدا ہو۔ ہرچند کہ مطالبہ ان شائقین علم کا جائز و درست ہے، اس کے پورا کرنے میں ایک مشکل یہ درپیش ہے کہ وطن عزیز کی مٹی بفضل تعالیٰ کچھ اس قدر مردم خیز ثابت ہوئی ہے کہ خردمندانِ کثیر اندیشہ و صاحبان دانش پیشہ کی تعداد میں پیہم اضافہ ہوا جاتا ہے اور فہرست آئے روز بڑھی جاتی ہے۔ اس صورتِ حال میں شائقین علم و فن کی ہدایت و آسانی کی ایک تدبیر خدا نے اس عاجز پر القاء فرمائی کہ ان علماء و بزرگان کی ایک زمرہ بندی کی جاوے، نیز ہر زمرے کے کچھ اہم خصائص بیان کردیے جاویں جن کی روشنی میں طالبان علم و فن ان کو پہچان پاویں اور ان کے واسطے مذکورہ بزرگوں سے استفادے کی صورت بہم ہو۔
مختونِ کبیر علامہ کبیر علی، نورِ صادق آباد علامہ ذوالنورین سرور نیز مرشد کھاتہ داری جناب عثمان سہیل نے تجویز کی تائید فرمائی ہے اور اس عظیم کام کی ذمہ داری بھی اس عاجز کے ناتواں کاندھوں پر ڈالی ہے۔ امید تو نہیں کہ اس عظیم کام کا حق ادا ہوپایا ہوگا لیکن اس عاجز نے ایک حقیر کوشش ضرور کی ہے جو پیشِ خدمت ہے
؎ گر قبول افتد زہے عز و شرف
تو صاحبان! بعد اس ضروری تمہید کے اب خرد مندانِ کثیر اندیشہ و دانش پیشہ متحرک بر فیس بک کے کچھ بڑے گروہوں کو ہم یہاں مذکور کرتے ہیں:

صحافیانِ نصیحت پیشہ

صحافت ام المھن ہے جس کو خدا کے بے غرض بندے ہما شما کی مانند اسفل مقاصد از قسم حصول رزق وغیرہ نہیں بلکہ خالصتاً افرادِ ملک و ملت کو معلومات بہم پہچانے نیز ان کی فکری وسیاسی راہنمائی کے واسطے اختیار فرماتے ہیں۔ ہوشیار کہ ”معلومات بہم پہچانے“ سے یہ شبہ پیدا نہ ہو کہ خدانخواستہ یہ علماء واقعات نویسی جیسا کوئی ارذل کام سرانجام دیتے ہیں۔ فراہمی معلومات سے مراد یہ ہے کہ یہ اپنے ذرائع اور تجزیاتی صلاحیت کی بنیاد پر مختلف واقعات کی اندرونی کہانی، ان کے پیچھے کارفرما سوچ و خیال اور محرکات سے قوم کو آگاہ فرماتے ہیں۔ بعضوں کی اس تجزیاتی صلاحیت نے اس قدر ترقی پائی ہے کہ واقعات میں وہ محرکات تک ٹھیک ٹھیک دریافت فرما لیتے ہیں جن کا صحیح ادراک ان واقعات کے جنم دینے والوں کو خود بھی نہیں ہوتا۔
ازیں علاوہ قوم کی راہنمائی کے باب میں یہ علماء اپنے ہمہ گیر علم کو بروئےکار لاتے ہوئے افراد سے لے کر حکومتوں تک کیلئے کچن گارڈننگ سے لے کر امور سیاسی و تعلقات خارجی کے باب میں مشورے ارزاں فرماتے ہیں۔ قوم کی بدنصیبی کچھ ایسی رہی ہے کہ اکثر حکومتوں نے ان مشوروں سے استفادہ نہ کیا اور نتیجتاً نقصان اٹھایا۔ تاہم ایک سراپا جمہوریت وزیراعظم نے بالآخر کم ازکم امورسیاسی میں ان مشوروں سے استفادہ کا سلسلہ شروع کیا اور اس قدر کامیابیاں سمیٹیں کہ وہ اب لندن پہنچ گئے ہیں۔

پرفیسرانِ جامعات آسودہ

جامعات آسودہ پروفیسرانِ کرام بالخصوص وہ جو روزمرہ عملی زندگی کی کثافتوں سے پاک فنون و علوم از قسم السنہ و ادب، بشریات و الٰہیات کی تحصیل و ترویج سے منسلک ہیں بھی آسمان ہدایت کے درخشندہ ستارے ہیں جو متلاشیان بلکہ غیر متلاشیانِ حق کی بھی رہنمائی و ہدایت پر خود کو مامور پاتے ہیں اور سبحان اللہ کیسا اس کا حق ادا فرماتے ہیں۔ زبان و تلفظ سے لے کر مسائلِ جہاں داری و شہریاری تک کونسا شعبہ ہے جس میں یہ رہنمائی کے چشمے جاری نہیں فرماتے۔ ان بزرگوں کا یہ بھی کمال ہے کہ جمیع مسائل دنیا کے بیان میں روزمرہ عملیت میں گرفتار گروہِ بے شکوہ کی آراء کو سمع قبول میں جگہ نہیں دیتے بلکہ ایسی تمام کثافتوں سے پاک اپنے علم کی بنیاد پر ہی ان تمام مسائل کا حل فرماتے ہیں۔
قوم کی بے راہ روی اور خاص طور پر توہینِ بزرگاں میں نہایت بےباک و جری نوجوانوں کی اخلاقی ابتری پر بھی مانند عاشقِ مہجور ہمہ وقت بے سکون رہتے ہیں اور متعدد اخلاقی خطبے جا و بے جا ارشاد فرماتے ہیں۔ ان خطبات میں انکی کمندِ فصاحت کنگرہِ افلاک کو حلقہ مارتی نظر آتی ہے۔
اس زمرہ میں نوجوانانِ قوم کیلئے سب سے زیادہ لائق توجہ وہ پروفیسران کرام ہیں جو اپنے اپنے شعبہ جات میں ڈاکٹریٹ کی اسناد کے حامل ہیں اور شہراقتدار میں رہائش فرماتے ہیں۔

صاحبانِ این جی او رَسیدہ

تیسرا زمرہ دنیائے شکستہ کو عالمی غیر حکومتی تنظیمات میں شامل ہوکر پارہ خیرات سے پیوند کرتے اصحابِ عالیشان کا ہے۔ یہ اپنے دل میں تمام خاک افتادہ طبقاتِ دنیا خاص کر ان کیلئے جو مسلمان نامی ایک گروہ ظالماں کے ظلم کا شکار ہیں شدید محبت و مودت کے جذبات رکھتے ہیں۔ یہ اگرچہ حقیقی و جعلی مظلومین میں فرق روا فرماتے ہیں لیکن خوش اخلاق ایسے ہیں کہ جعلی مظلوموں کے حق میں بھی زبانِ طعن دراز نہیں فرماتے بلکہ جب کوئی جعلی گروہِ مظلوماں مثلاً کشمیری نام کا ایک جعل ساز گروہ ان کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کرے تو بس ایک گھمبیر خاموشی اختیار فرماتے ہیں جو اشارہ ہوتی ہے خردمندوں کیلئے کہ یہ گروہ جعلی ہے۔
استبدادی و استحصالی رسوم و عادات و الفاظ و رویہ جات کے معاملہ میں یہ خوب چوکس رہتے ہیں اور ان کی اصلاح کو اپنا شعار کرتے ہیں۔ اور خاص طور پر پدرسری اور ٹاکسک مسکولینٹی کے معاملے میں حساس ہیں۔ ان بزرگوں کا جہانِ برق میں اتباع نوجواناںِ کیلئے حقیقی ومفروضہ مسائلِ عالم میں فرق کرنے کی صلاحیت حاصل کرنے کیلئے خاص طور پر مفید ہے۔

بزرگانِ خدارسیدہ

یہ طبقہ بزرگاں علوم مذہبی میں سند یافتہ ہے اور تقویٰ و تدین کے اس مقامِ بلند پر فائز ہے جہاں ہما شما کی رسائی نہیں۔ یہ اسی باعث شرب جداگانہ اور ملت علیحدہ رکھتے ہیں اور جامہ ملکوتی ہدایتِ نفسِ لوامہ سے اپنی قامت پر قطع فرماتے ہیں۔ ان کے اقوال و خطبات آیات ہائے قرآنی و احادیث مبارکہ سے مزین ہوتے ہیں جن کا موضوع عموماً ہدایت و ضلالت ہوتے ہیں۔ یہ فرقِ باطلہ پر ہمیشہ گرفت فرماتے ہیں اور عوام الناس کو ان کی گمراہی سے (خاص طور مذہبی مہینوں مثلا محرم و ربیع الاول کے دوران) آگاہ فرماتے ہیں۔ امتِ مسلمہ میں در آنے والی بے حیائی پر یہ خاص نظر رکھتے اور گرفت فرماتے ہیں۔

کمربستگانِ اصلاح مذہب

مصلحین کا یہ گروہِ صواب اندیش مذہب اسلام کے چشمہِ صافی کو اس میں در آنے والی کثافتوں اور اوہام و خرافات سے پاک کرنے کیلئے برپا ہوا ہے۔ ان کے دقائق تحقیق سے یہ اظہر من الشمس ہوا ہے کہ مذہبِ اسلام کی جدیدیت سے متصادم تمام تعبیرات اپنی نہاد میں غیر اسلامی ہیں جبکہ تمام تصوراتِ جدیدیت عین اسلامی ہیں۔

طفلانِ خود معاملہ

یہ وہ گروہِ رشک مقام ہے جس نے عین عنفوانِ شباب میں رسوم و رواج کی تمام زنجیریں توڑ ڈالی ہیں، اوہام و خرافات اور مطالعہ پاکستانی و نصابی اسلامیاتی علم کے شکنجوں سے خود کو آزاد کرالیا ہے اور بلاگ سائٹس پر موجود وقیع سائنسی مضامین پڑھ پڑھ کر علوم جدیدہ بالخصوص سائنس سے اپنے اذہان کو منور کرلیا ہے اور معاشرے کی اصلاح پر کمربستہ ہوئے ہیں۔ یہ اکثر سائنسی و تاریخی موضوعات پر دادِ تحقیق دیتے نظر آتے ہیں۔

تمام نوجوانانِ پاکستان کو چاہیے کہ جن گروہوں کو ہم نے اس مضمون میں مذکور کیا ہے ان کے وابستگان کو فیس بک پر تلاش کریں اور بلاتاخیر ان سے کسبِ فیض کا سلسلہ شروع کریں۔ عجب نہیں کہ ان کے دماغ بھی روشن ہوں اور گروہِ نوجوانان کی اخلاقی و علمی کمزوریاں دور ہوں۔

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search