ڈڈوؤں سے خطاب: ذوالنورین سرور
محترم جناب عاصم بخشی صاحب سے محبتوں کا سلسلہ ”شاہراہ شوق“ سے شروع ہوتا ہے۔ ان کے بعض اشعار تو ہمیشہ زبان پر رہتے ہیں۔ بدقسمتی ملاحظہ فرمائیں کہ پاک وطن کے شہر اقتدار میں کئی سال رہائش کے باوجود ان کی زیارت سے محروم رہا۔ سوشل میڈیا ہم ایسوں کے لئے ایک سماجی انعام ثابت ہوا ہے. اس اس پائے کے لوگوں کی صحبت نصیب ہوتی ہے کہ نصیب پر رشک آتا ہے۔ بخشی صاحب کا مقام ان میں خاص ہے۔ وہ ایسی شخصیت ہیں جنھیں میں سوشل میڈیا پر آنے سے پہلے ہی سے جانتا ہوں ۔ ان کی شاید ہی کوئی فیس بکی تحریر ہو جو میری نظر سے نہ گزری ہو۔ ان کی عالمانہ حیثیت شک و شبہ سے بالاتر ہے ۔ ان کی تحریر اس لیے بندہ پڑھتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ وہ ایک نہایت پڑھے لکھے آدمی ہیں اور تحریر پڑھنے کے بعد بھی اسے یہی پتا چلتا ہے کہ وہ ایک نہایت پڑھے لکھے آدمی ہیں ۔ مزیدیکہ ان کا معروضی انداز بیزار کن ہے۔ وہ حتی الامکان ”بات“ کہنے سے گریز کرتے ہیں ۔ مثلاً وہ لکھیں گے کہ الف آدمی نے ب باب میں ج بات کی ہے اور پھر یہ بات یہیں ختم ہو جائے گی۔ یہی صورتحال ہمیں ان کی ”ہونا چاہئے“ اور ”تعارفی“ نوع کی تحاریر میں نظر آتی ہے ۔ سادہ سی بات ہے کہ اس طرز کی تحاریر سے ایک خاص درسی ضرورت پوری ہوتی ہے ، اس موضوع سے انجان افراد کو بعض نئے افکار سے ایک درسی تعارف بھی حاصل ہوتا ہے لیکن بخشی صاحب جیسا بڑا دماغ اس موضوع پر کیا سوچتا ہے؟ یہ گوہر مراد ہاتھ نہیں آتا ۔ عاصم بخشی صاحب ہمارے معاشرے کی نمائندہ علمی شخصیت ہیں۔ پس وہ کچھ کہیں تو سہی بھلے بالکل غلط کہیں ۔
میں مکرمی محمد دین جوہر صاحب کا شکر گزار ہوں کہ ان کی ذات بابرکات کے سبب ہمیں بخشی صاحب کی جزوی ہی سہی لیکن طبع زاد تحریر پڑھنے کو ملی ۔ اس تحریر کا سارا رنگ اور حسن تب تک ہے جب تک وہ جوہر صاحب پر حملہ آور ہیں، اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ وہ ایک لائق تعظیم شخصیت کے متعلق ناروا تحریر تھی جو بہت زیادہ مزے دار بھی نہ تھی؛ ادبی جملہ بازی کا تعلق صلاحیت اور مشق سے ہے۔ اس کے باوجود میں نے اس سے ایک بیہودہ کیف پایا ۔ سبب اس کا یہی تھا کہ ایک مدت سے بخشی صاحب ادھار کی گفتگو پر قلم چلا رہے تھے سو کسی طور یہ سلسلہ تو ٹوٹا، آگے کی خدا جانے ۔ ان کی اس علمی تحریر کا معیار کافی کمزور تھا اور تنقیدی جملہ بازی بھی بہت زیادہ معیاری تو نہیں تھی لیکن بطور ان کے پرانے مداح مجھے یہ مشق دیکھ کر یک گونہ فرحت کا احساس ہوا ۔
ایسا مصنف جو غالب طاقت کے ساتھ ہو اور اس کے پسندیدہ نظریات و افکار کی ترویج کر رہا ہو، صرف اسی کو ہم استشراق کا طعنہ دیں گے ۔
ان کی یہ تحریر الشریعتہ میں چھپی تھی اور فوراً ہی پڑھ ڈالی ۔ اس کے جواب کی پہلی قسط کل ارسال ہوئی، جس پر کبیر علی نے تبصرہ لکھا ہے اور کیا خوب لکھا ہے۔صرف ایک بات ہے جو میں بخشی صاحب کی تحریر کی بابت اضافہ کرنا چاہوں گا۔ انھوں نے جوہر صاحب کو استشراقی طرز استدلال کا طعنہ دیا۔ یہ بات استشراق کے بنیادی متن کا انتہائی غلط فہم ہے۔ بخشی صاحب ایسے پڑھے لکھے آدمی کی تحریر میں حوالے کی اتنی بڑی غلطی کا در آنا بہت افسوسناک ہے۔ مستشرق وہ آدمی نہیں ہوتا جو یورپی زبان بولتا ہو یا یورپی مصنفین کے حوالہ جات استعمال کرتا ہو بلکہ اصل بات اورنٹیل اور اوکسی ڈینٹل میں طاقت کا توازن ہے ۔ ایسا مصنف جو غالب طاقت کے ساتھ ہو اور اس کے پسندیدہ نظریات و افکار کی ترویج کر رہا ہو، صرف اسی کو ہم استشراق کا طعنہ دیں گے ۔ ظاہر سی بات ہے کہ ایڈورڈ سعید کی پیش کردہ محولہ بالا تعریف ان کے کسی کام کی نہیں تھی، سو ان نے اس سے صرف نظر کیا ۔ اب اسے یا تو ان کی بددیانتی پر محمول کیا جائے گا یا پھر یہ تصور ہو گا کہ ایسی بنیادی بات ان کے فہم استشراق سے خارج ہے۔ ان دونوں باتوں پر میرا دل غیر مطمئن ہے۔ امید ہے کہ کسی بالمشافہ گفتگو میں یہ عقدہ وا ہو گا۔
اصل بات اورینٹل (Oriental) اور اوکسی ڈینٹل (Occidental) میں طاقت کا توازن ہے ۔
دوسرا معاملہ ان تحاریر میں ذاتیات پر گفتگو کا ہے جو نہایت خوش آئند ہے ۔ اس کے تین پہلو ہیں ۔ اول تو ”علمی و ادبی مباحث میں اخلاقیات“ کے عمومی مسائل ہیں۔ دوئم بخشی صاحب اور جوہر صاحب کی تحاریر میں ذاتیات کا در آنا ہے۔ سوئم اخلاقی زوال پر ہاتھ ملنے اور منہ کالا کروانے والے اصحاب کا ہے ۔
(الف) کسی تحریر پر اخلاقی حکم لگانے کے حوالے سے بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ یہ زیر بحث موضوع کو پس منظر میں لے جاتی ہے۔ محض اس بنیاد پر بھی اس سے حتی الوسع گریز لازم ہے۔ مزیدیکہ ”گروہی شناخت“ کے مسائل اس کو کبھی نہ حل ہونے والا قضیہ بنا دیتے ہیں۔ اس لئے یہ بڑی حد تک بے سود بھی ہے یعنی اگر آپ کسی گفتگو کو نتیجہ خیز بنانا چاہتے ہوں تو یہ راگ مت الاپیں ۔ تاہم اگر دلیل سے کرنے کے لیے بات نہ ہو تو پھر انگلی کے اشارے کو ”زیادتی“ قرار دے کر پتلی گلی سے نکل جانا ایک اچھی ”حکمت عملی“ ہے ۔
علمی گفتگو میں مروجہ اخلاقیات کی خلاف ورزی بڑے اذہان کا خاصہ رہی ہے ۔ یہ ممکن ہے کہ کوئی آدمی انتہائی فضول خیالات کا حامل ہو لیکن اس کا کردار معاشرے کی مطلوبہ اقدار کا حامل ہو۔ جب ہم بونگے لوگوں کو اس وجہ سے سنتے ہیں کہ وہ ٹھنڈے لہجے میں کلام کرتے ہیں تو اس سے معاشرہ جمود کا شکار ہوتا ہے ۔ ایک فطین آدمی پر اخلاقی حکم لگا کر آپ اس کی جملہ آراء کو ردی قرار دے ڈالتے ہیں۔یعنی کیونکہ یہ آدمی کسی لغزش کا شکار ہے تو دیگر تمام معاملات میں بھی اس کی رائے بالکل غلط ہی ہو گی ۔ اس طرح کا رویہ ایک داؤ پیچ تو ہے لیکن اس سے کچھ برآمد نہیں ہو سکتا ۔ ہمارے معاشرے کا علمی ذائقہ یوں بھی پس خوردہ اور جگالی کا ہے ۔ ایسے میں جو دو چار سطور لکھی جاتی ہیں، ان پر اخلاقی رائے دینا یوں بھی جہالت اور کوتاہ بینی ہے ۔ تاہم ایسا کرنے والے لوگوں سے بلند نظری اور فکری گیرائی کا مطالبہ بھی نہیں کیا جاسکتا۔ میری یہ بات ان اصحاب سے ہے جو واقعتاً کسی نتیجہ خیز عمل کے لیے پرامید ہیں ۔
(ب) اس وقت جو معاملہ زیر بحث ہے، اس میں فی الحمد دونوں اصحاب علم نے ہماری تنقید کی روشن روایت سے بخوبی نباہ کی ہے ۔ عاصم بخشی صاحب اور محمد دین جوہر صاحب نے بالکل ایک ہی سطح پر ایک دوسرے سے معاملہ کیا ہے ۔ تاہم بخشی صاحب کو ”تنقید اولیٰ“ کا ثواب ضرور حاصل ہوا ہے۔
(ج) بارش ایک کیف آگیں تجربہ ہے لیکن بارش کے بعد نکلنے والے ڈڈؤں کے باب میں کوئی ادبی شہ پارہ کبھی پڑھنے سننے کو نہیں ملا ۔ بخشی صاحب اور جوہر صاحب کا تحریری مجادلہ حالیہ بارش ہے۔ اس سے پہلے بھی ایسی بارشوں کے فوراً بعد چند ڈڈو بروئے کار آتے ہیں۔ میرے تبصرے کا بنیادی مقصد ان ڈڈوؤں سے خطاب ہے ۔
یہ لوگ خود تو کسی علمی گفتگو میں شریک نہیں ہو سکتے لیکن لکھنے والوں کو اخلاقیات پر بھاشن دے کر کسی ایک کو دوسرے سے اوپر نیچے کرتے رہتے ہیں ۔ جیسا کہ پہلے واضح کیا کہ فی زمانہ اخلاقی حکم لگانا جعل ساز اور پست اذہان کا کام ہے۔ علمی گفتگو میں مروجہ اخلاقی اصولوں کی خلاف ورزی کی نشاندہی کرنے سے بحث آگے نہیں بڑھتی ۔ یہ ایک آلاتی شے ہے جو کسی نقطہ نظر کو کمتر، گھٹیا یا مضر قرار دینے میں معاون ثابت ہوتی ہے ۔