کیا نوازشریف ایک مقبول لیڈر ہیں؟ (تحریر: ذوالنورین سرور)

 In تاثرات

کیا نواز شریف ایک مقبول لیڈر ہیں ؟ آسان سوالوں کا جواب دینا مشکل ہے۔ ذہین آدمی کے لئے یہ مشکل اور بھی زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ وہ یہ جانتا ہے کہ کسی بھی سوال کو ڈس کریڈٹ کیا جا سکتا ہے۔ پہلے سے موجود علم کے تحفظ کرنے کے لئے ذہن کئی راہیں کھوجتا ہے۔ یہ بات ماننا بہت مشکل ہے کہ نیا مقدمہ اپنی جائز بنیادیں رکھتا ہے۔ اس کی بجائے سوال کا واضح انکار بہت ساری پیچیدگیاں پیدا ہونے سے بچاتا ہے۔ ’’آپ کا سوال درست نہیں !‘‘ پریشانی سے بچنے کا ایک آزمودہ اور ہر دلعزیز طریقہ ہے۔

اب ایسے میں حالیہ مقدمہ جناب میاں محمد نواز شریف کا آن پڑا ہے۔ وہ بظاہر ایک سیاسی آدمی ہیں۔ ’’مزاحمت‘‘ کے دعویدار ہیں۔ نواز شریف خوش قسمتی یا بد قسمتی سے اس ملک کی سیاست میں ایک طویل عرصے سے موجود ہیں۔ تین بار وزیر اعظم منتخب ہوئے اور پانچ بار ملک کے سب سے بڑے صوبے میں ان کی حکومت بنی۔ اس سوال کا پیدا ہونا کہ آیا وہ مقبول رہنما ہیں یا نہیں؟ اپنے آپ میں ایک حیران کن واقعہ ہے۔ یہ واقعہ لیکن دیگر کئی مغالطوں سے ہمیں بچاتا ہے۔ یہ بات شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ پورے ملک میں ایک آدمی بھی میاں صاحب پر اپنی جان نثار کرنے کو تیار نہیں۔ ان کے چاہنے والوں کی غالب اکثریت اس علاقے میں ہے جسے ریاست پاکستان نے انتظامی ضرورتوں کے تحت پنجاب کا نام دے رکھا ہے۔ ان کو گرفتار کیا گیا، سیاسی نظام سے غیر سیاسی (گو اس لفظ کا علمی دنیا میں کوئی وجود نہیں لیکن مجبوراً ہم استعمال کر رہے ہیں) بنیادوں پر نکال دیا گیا۔ ان کی اولاد کو بھی مکمل طور پر سیاست سے باہر نکال دیا گیا۔ اس سب کے باوجود ملکی سیاست ایک قرار اور سکون کی حالت میں ہے جو مصنوعی نہیں بلکہ حقیقی ہے۔ یہ کہنا کتنا آسان ہے کہ پنجابی بے غیرت ہیں،مزاحمت اس خطے کا مزاج ہی نہیں وغیرہ وغیرہ۔ اس سے گفتگو کے اندر ایک چمک پیدا ہو جاتی ہے۔ یہ چمک علمی اور تاریخی عمق اور عوامی ابلاغ اپنی جلو میں لے کر چلتی ہے۔ نیز علاقائی تاریخ کا استہزا اڑانے کے سبب ہماری انسان دوستی کی مہر بھی اس پر ثبت ہے۔ مصنف چونکہ ایک عامی ہے اور کسی علمی گروہ کا پروردہ نہیں نیز اسے تہذیبی اور لسانی امنگوں کا بھی کچھ ایسا پاس نہیں تو ایسی آسان گفتگو بھی اسے راس نہیں۔

ہمارا یہ ماننا ہے کہ پنجابی بے غیرت نہیں ہیں اور اس خطے کے مزاج میں مزاحمت ہمیشہ سے موجود رہی ہے۔ تاریخ اس نظرئیے سے پڑھی جائے یا پھر سِرے سے نہ پڑھی جائے۔ بظاہر ملک کے مقبول ترین آدمی کے ساتھ یہ سلوک کیسے روا رکھا گیا ؟ اس کے اسباب کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ کیا نواز شریف کی موت نون لیگ کے لئے حیات نو کا پیغام ثابت ہو سکتی ہے؟ ایسے کئی سوالات کے طے شدہ جوابات اگرچہ موجود ہیں۔ تاہم یہ جوابات حقیقت سے ادنی درجے پر بھی کوئی تعلق پیدا کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہے ہیں۔ لہٰذا آئیے ! ہم ان سوالوں کے نئےجوابات کی کھوج لگائیں۔

سیاست خیال کو عمل میں ڈھالنے کا فن ہے۔ اجتماعی حیات میں عمل کے تمام وسائل مرتکز ہوتے ہیں۔ ان وسائل پر قبضے کا عندیہ ایک سیاسی خیال اور ان پر قبضہ سیاسی عمل ہے۔ اس قبضے کی دو صورتیں ہوتی ہیں۔ اول : آپ دستیاب سیاسی (طاقت) نظام میں ضروری ردوبدل کے ذریعے اپنے ’’مقاصد‘‘ حاصل کرتے ہیں ۔ دوئم : آپ نئے سیاسی نظام کا مطالبہ کرتے ہیں۔ یہ مطالبہ لازماً خونریز ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ یہاں سیاسی نظام سے مراد طاقت کا نظام ہے۔ اس طرز سیاست میں ’’دشمن‘‘ کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ دشمن سے مراد ایسا گروہ ہے جو آپ کے پیروکاروں کی جان اور مال پر قابض ہو، جس کا وجود ’’امن‘‘ کے قیام کو غیر ممکن کر دے۔ اس وجود کو نیست و نابود کرنا یا اس سے چھٹکارا پانا سیاسی عمل کا لازمہ قرار پاتا ہے۔ تشدد اس سیاسی عمل کا حصہ ہے اور قوموں کے بہترین جذبوں کا ترجمان ہے۔

نواز شریف ماضی قریب تک پہلی طرز کی سیاست کے کھلاڑی رہے ہیں۔ اس طرز سیاست میں ’’دشمن‘‘ نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ تاریخ سیاست کا میدان ہے جس میں شناخت پیدا ہوتی ہے۔ اس کے سبب ہی جغرافیائی تبدیلیاں، ہجرتیں اور جنگیں ہوتی ہیں۔ نظریات ان واقعات کا ایندھن ہیں جو تاریخ کے میدان کو روشن کرتے اور سماج کو راہ سجھاتے ہیں۔ انتظامی نوع کی سیاست دراصل تاریخ میں فتح یاب گروہ کے اقتدار میں توسیع کا مظہر ہے۔ یہ مظہر شناخت میں ہم آہنگی اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کا التباس پیدا کرتا ہے۔ جبکہ دوسری طرف ایسی سیاست جو دشمن کا تصور رکھتی ہو، تاریخ اور علم کے واضح تصورات کے ساتھ ہی ممکن ہے۔ یہ وسائل نواز شریف ایسے کاروباری آدمی کی سمجھ اور بساط سے باہر ہیں۔ اگرچہ انھوں نے مابعد نااہلی ایک ’’دشمن‘‘ تخلیق کرنے کی کوشش کی ہے لیکن وہ اپنے پیروکاروں تک اس پیغام کی ترسیل میں ناکام رہے ہیں۔ یہی ان کی اصل نااہلی ہے۔ اسی سبب سے نواز شریف کی ’’قربانی‘‘ معمولی نوعیت کی مزاحمت یا کسی سطح پر بھی انسانی جذبات کو انگیخت کرنے میں مکمل ناکام رہی۔ سیاسی سطح پر کسی گروہ یا افراد کا ان کی خاطر تشدد پر نہ اترنا ، جمالیاتی سطح پر ان کے نام سے منسوب تخلیقات کا سامنے نہ آنا اور سماجی سطح پر کسی علامت یا واقعے کا نہ ہونا، نواز شریف کی براہ راست نااہلی کا نتیجہ ہیں۔ میاں صاحب کی مدحت میں سب سے زیادہ جو صنف استعمال ہوتی ہے وہ ’’اخباری کالم‘‘ ہیں۔ اخبار اشتہار (پیسے کی بنیاد پر اپنے صارف سے رابطہ) کا سب سے موثر ذریعہ ہے۔

بنیادی طور پر ان کی حیثیت ایک برانڈ کی سی ہے۔ کوکا کولا کو بہت سے لوگ پسند کرتے ہیں اور پراپیگنڈا کے ذریعے اسے کافی لوگوں کی زندگی کا حصہ بھی بنا دیا گیا ہے لیکن اگر ملک میں کوکا کولا بین ہو جائے تو خودسوزی کے واقعات ہونے کے امکانات بہت کم ہیں۔

نواز شریف دراصل عام آدمی سے کسی طور پر بھی رابطہ کرنے میں تمام عمر ناکام رہے۔ اب اخیر عمر میں ان کی سیاسی زندگی کا حاصل ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا نعرہ بھی عام آدمی کی زندگی سے بالکل غیر متعلق ہے۔ یہ مقتدرہ کی گروہی لڑائی ہے اور اس لڑائی میں عام آدمی کو زبردستی دھکیلنے کی ناکام کوشش کی گئی۔ اس ملک کا آدمی کیا چاہتا ہے؟ اس سےبراہ راست تعرض انھوں نے کبھی نہیں کیا۔ سیاست میں مرکزیت پنجاب، اور پنجاب میں لاہور کو دینے کے بعد انھوں نے افراد کی ایسی تنظیم تیار کی جو مفادات کے ایک طویل تانے بانے کے ذریعے باہم جڑی ہوئی تھی۔ ان کی کاروباری صلاحیتیں اس کارپوریشن کو کامیاب طریقے سے چلانے میں مددگار ثابت ہوئیں۔ تیس سالہ دور اقتدار میں وہ ایک مربوط ڈھانچہ تیار کرنے میں کامیاب رہے۔ اس کارپوریشن کا ہر یونٹ ان کے لئے منافع بخش اور اپنے مسائل کو حل کرنے میں خودکفیل تھا۔ انھوں نے ریاستی انتظامیہ بالخصوص محکمہ تعلیم میں اپنے پسندیدہ افراد لگائے۔ یہ انتظامیہ (بیوروکریسی ) کے افراد ان کی کرپشن کے پروردہ، انتخابات میں ان کے بازو، میڈیا میں ان کی آنکھیں اور تعلیمی اداروں میں ان کا دماغ ثابت ہوئے۔ ان لوگوں نے اپنی صلاحیتوں اور علم کو میاں صاحب کی ایمپائر کا جواز تراشنے میں کھپا دیا۔ یہ لیکن صرف سکھ کے ساتھی ہیں۔ اکثریت نمک حلال ہے لیکن پاگل نہیں ہے۔ اپنے پاؤں میں کانٹا لگنے کی نسبت وہ میاں صاحب کے گلے پر چھری چلنے کو ترجیح دیں گے۔ ان کی سیاست کی یہ بنیادی خوبی تھی کہ گلی محلوں ( کونسلر) تک وفاداروں کی ایک کھیپ تیار کی جس سے عوامی رابطے کا ایک دھوکہ پیدا ہو گیا۔ بظاہر جو لوگ نون لیگ کے ورکر نظر آتے ہیں وہ دراصل ان چھوٹے چھوٹے چوہدریوں اور راجپوتوں اور جاٹوں کے وفادار ہیں جو نسلوں سے ان کے خدمت گار ہیں۔ ایسا آدمی جسے براہ راست نواز شریف کے پیغام نے متاثر کیا ہے وہ موجود ہی نہیں۔ کیونکہ ایسا کوئی پیغام کبھی روانہ ہی نہیں کیا گیا اور نہ ہی اس کے کوئی لوازمات ان کی دسترس میں تھے۔ انھیں اس کی ضرورت بھی کبھی محسوس نہ ہوئی۔ اپنی انتخابی سیاست کے اوائل میں میاں صاحب کو پیپلز پارٹی مخالف ووٹ ملا۔ نوے کی دہائی میں انھیں دائیں بازو، سنی اسلام اور حب الوطنی سے بنے شربت کو بیچنے کا کاروبار ہاتھ آیا جو کافی منافع بخش تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ وہ الیکٹیبلز کا ایک جمگھٹا تیار کرنے میں کامیاب رہے۔ اس طرح انھوں نے ساری زندگی عملی سیاست (عوامی رابطہ) سے گریز کیا اور شاید یہ ان کے بس کی بات تھی بھی نہیں۔ اس سے بڑھ کر حیرانی کی بات کیا ہو گی کہ لوگ نوے کی دہائی میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر ان کی حمایت کرتے رہے۔ اس جعلی سفر کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ انھیں بالجبر سیاست سے بے دخل کر دیا گیا ہے اور کسی کے سر پر جوں تک نہیں رینگی۔

غالباً اب یہ کہنے کی ضرورت تو نہیں رہی کہ میاں صاحب کی مقبولیت ایک التباس کے سوا کچھ نہیں۔ ایک عام خیال ہے کہ ان کی قبر ایک نیا سیاسی مزار ثابت ہو گی۔ یہ ایک دور ازکار بات ہے۔ ان کی صورتحال کا موازنہ بھٹو خاندان سے کرنا نہ صرف خلطِ مبحث بلکہ صریح شترگربہ بھی ہے۔ سیاست صرف ان لوگوں کی قبروں پر ہو سکتی ہے جنھوں نے اپنی زندگی میں بھی سیاست کی ہو۔ خیر میری نیک تمنائیں اب بھی میاں صاحب کے ساتھ ہیں۔ اس ملک کو ان کی ’’عزیمت‘‘کی بے حد ضرورت ہے۔ طاقت کا جھگڑا بہرحال زندہ اور توانا معاشروں میں ہوتا ہے۔ پاکستان اتنا طاقتور ملک تو ہے کہ وہ اپنے اندرونی سیاسی مسائل کو ازخود نپٹاسکے۔ مثلاً عمران خان کے دھرنے کے دوران جب نظام حکومت کو مفلوج کرنے کی کوشش کی گئی تو کیا ہندوستان یا چین میں سے کوئی ملک ’’معاملہ حل‘‘ کرنے کے لئے سامنے آیا ؟ ’’نہیں‘‘۔ اس لئے میاں صاحب کی مقتدرہ سے لڑائی ہرگز تشویشناک نہیں۔ تاہم ان کا بیانیہ ایک ایسا بیج ہے جس کی آبیاری خود ان کے اپنے خون پسینے ہی سے ممکن ہے۔

ہم یہ چاہیں گے کہ وہ اور ان کے ہم نوا ’’مفاہمت‘‘کے ہر منصوبے کو مسترد کر دیں۔ بہ فرضِ محال اگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو توقع کی جاسکتی ہے کہ ان کی قبر پر بھی سیاست ہو سکے گی۔

پس نوشت : مابعد نااہلی نواز شریف نے پاکستان کے سیکورٹی اداروں کو دشمن ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی۔ اس ناکامی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ اسی قوم کے افراد ہیں۔ فوج کے سب سے بڑے عہدے (چیف آف آرمی سٹاف) تک کوئی بھی عام گھرانے کا فرد پہنچ سکتا ہے۔ یہ فوج کے خلاف منظم جدوجہد نہ ہو سکنے کا بنیادی سبب ہے۔

دشمن ایسا گروہ ہوتا ہے جس کے مفادات/معاملات عوام سے متصادم اور غیرمتبدل ہوں۔ ایسی طاقت جس سے اختیارات کا انتقال غیر ممکن ہو، اس کی مکمل تباہی لازم ہے۔ نواز شریف ایسی واضح فکر سے بہت نیچے ذاتی انا اور رنج کی بنیاد پر پالیسی ترتیب دیتے ہیں، اس لئے ان کی پالیسی کا ابلاغ بھی عامیانہ اور دکاندرانہ ہے۔

Recommended Posts
Comments
  • سجاد خالد
    جواب دیں

    زمینی حقائق کی بنیاد پر درست تفہیم

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search