سقوطِ ڈھاکہ اور آج کا پاکستان (تحریر: عامر منیر)
کبھی کبھار زندگی میں کوئی فیصلہ، کوئی انتخاب، کوئی اتفاق ایسا شدید صدمہ پہنچاتا ہے، ایسا گہرا زخم دے جاتا ہے کہ فرد عمربھر دوبارہ ویسا فیصلہ، ویسا انتخاب کرنے یا ویسی صورتحال کا سامنا کرپانے کے قابل نہیں رہتا۔ دوبارہ ویسا ہی فیصلہ کرنا پڑ جائے، ویسا ہی انتخاب درپیش ہو، ویسی ہی صورتحال کا سامنا ہو تو فرد کی ٹانگیں کانپنے لگتی ہیں، حلق خشک ہو جاتا ہے، دل کی گہرائیوں سے خوف کے دھارے پھوٹ اٹھتے ہیں اور یہ خوف بیت چکے صدمے کی دہائیاں دیتا، چیختا چلاتا ہوا وجود کے ہر تار میں جھنجھناتا پھرتا ہے۔ فرد مفلوج ہو جاتا ہے، کوئی قدم اٹھانے، کوئی فیصلہ کرنے، صورتحال کا سامنا کرنے کے قابل نہیں رہتا، فرار کی راہیں ڈھونڈنے لگتا ہے۔ خدایا کسی صورت یہ بلا ٹل جائے، مجھے کچھ کرنا نہ پڑے، کوئی نجات دہندہ افق کے اُس پار سے ابھرے اور اس فیصلے، اس انتخاب، اس صورتحال کا سامنا کرنے کی آفت سے مجھے نجات دلا دے۔ یہ کہنے کی ضرورت تو نہیں کہ کوئی نجات دہندہ کسی افق کے پار سے نہیں نمودار ہوتا، جی کڑا کر کے کوئی قدم اٹھانا، فیصلہ کرنا، صورتحال سے نپٹنا پڑتا ہے اور بعض اوقات صرف ایک لمحے کو جی کڑا کرنا، خود اپنے آپ کو سنبھالنا، حوصلے کی ایک رمق کے سہارے کچھ کر گزرنا ہی اس خوف سے آزادی اور دوبارہ نارمل زندگی کی طرف لوٹنے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔
یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ سقوط مشرقی پاکستان کے صدمے سے تحریک اور جواز پانے والے اسلامائزیشن کے پروسث کو پلٹا یا روکا جا سکتا۔
ایسا ہی معاملہ بعض اوقات اقوام کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔ سقوط ڈھاکہ ایک ایسا ہی صدمہ، ایک ایسا ہی گہرا زخم تھا جو پاکستانی قوم کی نفسیات پر گہرے اثرات چھوڑ گیا۔ ایک مخصوص نظریاتی ماڈل کو سامنے رکھ کر یہ کہنا ایک عام کلیشے ہے کہ ہم نے سقوط ڈھاکہ سے کچھ نہیں سیکھا، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سقوط ڈھاکہ کے بعد کی کم از کم تین دہائیاں پاکستانی ریاست نے اسی صدمے کے زیراثر، اس کوشش میں گزاریں کہ ایسا سانحہ دوبارہ رونما نہ ہونے پائے۔ یار لوگ ریاست کی اسلامائزیشن کے پراسیس کو کچھ اس طور پیش کرتے ہیں جیسے ضیاءالحق اچانک سیاسی منظرنامے پر ابھرا، جیسے فرد واحد نے چیف آف آرمی سٹاف کی چھڑی ہلا کر کچھ ایسا منتر پڑھا کہ ریاست اور سماج کی بنت اور ہیئت اس کی مرضی کے مطابق بدلتی چلی گئی، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس پراسیس کا آغاز مشرقی پاکستان کے بحران کے دوران ہوا جب کارپردازان ِریاست پر یہ منکشف ہو چکا تھا کہ پاکستانی قومیت کا تعین نیشن سٹیٹ کے روایتی ماڈل کی حدود میں ممکن نہیں، جغرفیائی حدود اس کی ہیئت منتظمہ کا تعین تو کر سکتی ہیں، اس کی شناخت کا تعین نہیں کر سکتیں، اسلام کے نام پر بننے والا ملک انسانیت کو قوموں اور خطوں میں تقسیم در تقسیم کرنے والے نیشن سٹیٹ ماڈل سے وسیع تر کسی نظریاتی ماڈل کا طلبگار ہے۔ تب افراتفری میں، جھٹ پٹ نظریہ پاکستان کا ڈول ڈالا گیا، یونیورسٹیوں کے اساتذہ اور اہل علم و دانش کو اس کی صورت گری کے کام پر لگایا گیا۔ جلدی جلدی کچے پکے، آدھے ادھورے نظریاتی سانچے تشکیل دے کر ان سے تعمیر ملت کے لیے نظریات برآمد کرنا شروع کر دئیے گئے، لیکن یہ کوششیں بہت دیر سے، بہت عجلت میں، بہت ہی بے ڈھنگے انداز میں شروع کی گئی تھیں اور تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ سولہ دسمبر انیس سو اکہتر آ کر گزر گیا، مشرقی پاکستان نہ رہا۔صدمے سے گنگ اور مفلوج مغربی پاکستان رہ گیا یا منیراحمدراشد کا کمانڈوفور جس نے اپنےسینے پر چاقو سے کھرچ کرسولہ دسمبر لکھ دیا تھا۔ اس بچے کھچے پاکستان نے اس بحران کے ممکنہ اسباب کے تدارک اور ایک نئی قومی وحدت کی تشکیل میں اپنی ساری توانائیاں جھونک دیں۔ اسی تاریخی پروسث کا جبر تھا کہ قادیانیوں کو غیرمسلم قرار دینے کا فیصلہ، جمعے کی چھٹی اور شراب پر پابندی جیسے فیصلے ضیاء دور سے کہیں پہلے، ذوالفقارعلی بھٹو کے دور میں نمودار ہونا شروع ہو چکے تھے اور یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ اگر اَسی کی دہائی میں جنرل ضیاءالحق کی جگہ ذوالفقارعلی بھٹو کی حکومت ہوتی، تب بھی یہ پروسث اسی طور جاری رہتا اور انہی خطوط پر استوار ہوتا، پالیسی سازی کی سطح پر حکمران کی مختلف شخصیت اور پارلیمنٹ کا وجود یقیناً کچھ معاملات کی مختلف صورت گری پر منتج ہوتا، لیکن یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ سقوط مشرقی پاکستان کے صدمے سے تحریک اور جواز پانے والے اسلامائزیشن کے پروسث کو پلٹا یا روکا جا سکتا۔ چونکہ مشرقی پاکستان کے بحران کے دوران فوج ہی کارپرداز ریاست تھی اور سقوط ڈھاکہ میں سب سے زیادہ ہزیمت بھی فوج کے لئے ہی پنہاں تھی، اس لئے کچھ عجب نہیں کہ فوج اسلامائزیشن کے اس پروسث کا انجن بھی تھی اور اس پروسث سے سب سے زیادہ بنیادی طور پر متاثر ہونے والا ادارہ بھی، لیکن مجموعی طور پر یہ پروسث پورے سماج پر محیط تھا۔
اسلامائزیشن کا یہ پروسث نائن الیون کے بعد تیزی سے سست پڑا، دوہزار پانچ چھ تک بالکل رک گیا اور اس کے بعد الٹی سمت میں چل پڑا۔ تحریک طالبان پاکستان نے اپنی سرگرمیوں کو جواز بخشنے کے لئے اسلامائزیشن کے اس پروسث میں تشکیل پانے والے نفاذ شریعت اور اسلامی نظام کے آدرشوں کو اتنی کامیابی کے ساتھ استعمال کیا کہ کارپردازان ریاست نے، جو انیس سو ستر کی مانند اب پھر فوج سے تھے، خود کو اس پراسیس کی بساط لپیٹنے اور اسے تقریباً اسی شدومد سے undo کرنے پر مجبور پایا جس شدومد سے اسے شروع کیا گیا تھا۔ ریاستی سالمیت کے تحفظ کی خاطر نہایت عجلت میں شروع ہونے والا یہ پروسث ریاستی سالمیت کے تحفظ کے پیش نظر ہی ایک اچانک abrupt انداز میں لپیٹ دیا گیا، سماجی سطح پر اس پروسث سے پھوٹنے والے فکری دھارے بھی سانحہ آرمی پبلک سکول کے بعد تیزی سے معدوم ہونے لگے لیکن اس دوران جو روایات، ادارے اور آدرش تشکیل پا چکے تھے، وہ ہمارے سماج کا ایک نہایت متحرک اور فعال حصہ ہیں اور شاید کم از کم اگلی دو سے تین دہائیوں تک فعال رہیں۔ آج کا پاکستان اس پروسث کے نتیجے میں ابھرنے والا پاکستان ہے اور بدقسمتی سے ایک ایسی نسل کا پاکستان ہے جو تیزی کے ساتھ ان فکری بنیادوں کو منہدم ہوتے دیکھ رہی ہے جنہوں نے اس کے سیاسی اور سماجی شعور کی ابتدائی صورت گری کی۔ لیکن اس سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ سقوط ڈھاکہ کے لگ بھگ نصف صدی بعد اور دہائیوں پر محیط اس پروسث کے باوجود اب بھی یہ صدمہ ہمارے اجتماعی شعور پر یوں مسلط ہے کہ شاید ہی کوئی قومی بحران ایسا ہو جس میں یہ سوال نہ سنائی دے کہ کیا ہم سقوط ڈھاکہ جیسے ایک اور سانحے کی جانب بڑھ رہے ہیں؟ یہ سوال خبث باطن کے مظہر ایک دھمکی نما انداز میں پوچھنے والے بھی بہت ہیں اور سہمے ہوئے انداز میں پورے خلوص کے ساتھ پوچھنے والے بھی کم نہیں، باوجود ایں کہ اس دوران پاکستان نے اپنی سالمیت کو لاحق کئی خطرات کا نہایت کامیابی سے مقابلہ کیا ہے ،جس میں سب سے شدید اور خونیں ٹی ٹی پی کا مقابلہ ابھی ماضی قریب کی بات بھی نہیں بلکہ حال کا حصہ ہے ،اور یہ ثابت کیا ہے کہ پاکستان ایک سخت جان ملک ہے جس کی سالمیت کو نقصان پہنچانا آسان نہیں، یہ سوال ہے کہ ہمارے قومی منظرنامے پر منڈلائے جاتا ہے اور اس کی گھمبیرتا کم ہونے کا نام نہیں لیتی۔ ایسا کیوں ہے؟ آج پی ٹی ایم اور فوج کے مابین مسلح تصادم کے بعد پی ٹی ایم کے حامیوں نے نہایت بلند آہنگ سے دھمکی آمیز انداز میں انیس سو اکہتر کی یادیں دہرانا شروع کیں تو یہ سوال نہایت شدومد سے ذہن میں اٹھا کہ ایسا کیوں ہے؟ اس سانحے کے زخم ابھی تک ہرے کیوں اور اس کی یادیں ویسی ہی traumatic کیوں ہیں جیسے یہ سانحہ کل ہی وقوع پذیر ہوا ہو؟ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے تدارک کی جو کوششیں کی گئیں، ان کی سمت درست نہیں تھی؟ اگرچہ اسی اسلامائزیشن پروسث کی ایک پراڈکٹ کے طور پر، اس کے آدرشوں اور فکری حدود کے اندر میں خود کو یہ سوچنے پر مجبور پاتا ہوں کہ شاید ان کوششوں میں خلوص کی کمی تھی، شاید ہم نے خدا کو کسی ایسے طور ناراض کر دیا جس کی معافی ہمیں ابھی تک نہیں مل سکی اور ہمیں اس پروسث کو اور زیادہ توانائی، اور زیادہ خلوص نیت کے ساتھ جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔ لیکن ایک وسیع تر فکری تناظر میں یہ احساس ہوتا ہے کہ ہمیں اس اعتراف کی ضرورت ہے کہ اسلامائزیشن کا یہ پروسث اپنے مقاصد کی تحصیل میں ناکام رہا، اس کی تعمیر میں ہی خرابی کی کچھ ایسی صورتیں مضمر تھیں کہ اسے جلد یا بدیر ایسے کسی انجام سے دوچار ہونا تھا، خواہ جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں ہوتا، خواہ مولانا فضل الرحمٰن کے ہاتھوں، اس کا منطقی انجام یہی تھا اور ہمیں اس کے آدرشوں کی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے اس سے دستبردار ہو جانا چاہئے۔
لیکن یہ تسلیم کرنا بھی ضروری ہے کہ اس اعتراف میں کسی قسم کی آسانی مضمر نہیں۔ اس پروسث کی ناکامی سے قطع نظر، یہ امرحقیقت ہے اور حقیقت رہے گا کہ پاکستان اسلامیان ہند کی مذہبی بنیادوں پر جداگانہ شناخت کے ایک مظہر کے طور پر روایتی قومی ریاستوں nation-states سے مختلف ایک ریاست ہے اور اسے روایتی جغرافیائی شناخت کے ڈبے میں بند نہیں کیا جا سکتا، کیا جائے تو اس کے پاس سوائے تاریخی تسلسل کے اپنے وجود کا کوئی جواز نہیں بچتا۔ یہاں اتنے سوال ابھرتے ہیں، اتنی الجھنیں پیدا ہوتی ہیں کہ دماغ کی رگیں چٹخنے لگتی ہیں۔
اس معاملے کی دوسری جہت سیاسی ہے۔ سقوط ڈھاکہ ایک سیاسی عمل کے نتیجے میں وقوع پذیر ہوا، اگرچہ حتمی ضرب بھارت نے عسکری طور پر لگائی لیکن بنیادی طور پر یہ ایک سیاسی عمل تھا۔ کہا جاتا ہے کہ مجیب الرحمٰن کو اقتدار منتقل کر دیا جاتا تو بھی یہی کچھ ہوتا کہ وہ بھارت کے ساتھ مل کر مشرقی پاکستان کوآئینی طور پر الگ کرنے کی سازش کر چکا تھا، لیکن اس امر سے انکار ممکن نہیں کہ اقتدار آئینی طور پر اسی کا حق تھا اور اس کا جائز حق اسے دینا پاکستان کو متحد رکھنے کی وہ آخری کوشش تھی جو کی جا سکتی تھی، بنیادی طور پر یہ سیاسی غلطیاں تھیں جو متحدہ پاکستان کو لے ڈوبیں۔ فوج سیاسی عمل کے غالب شراکت دار کے طور پر ان غلطیوں میں پوری طرح ملوث اور بنیادی ذمہ داروں میں سے ایک تھی اور اس کی عسکری ہزیمت کا اصل سبب بھی یہی سیاسی غلطیاں بنیں۔ اصولاً یہ ہونا چاہئے تھا کہ ان غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے فوج سیاست میں دخل اندازی سے کنارہ کشی کرتی اور سیاسی عمل کو سیاستدانوں کے لئے چھوڑ دیتی، لیکن اس کے برعکس یہ ہوا کہ قومی وحدت کی تشکیل کے پراجیکٹ اور اسلامائزیشن کے اس پروسث کے روح رواں کے طور پر فوج نے سیاسی عمل کو اپنے اس پراجیکٹ میں رخنہ انداز ہونے اور قومی وحدت کو پارہ پارہ کرنے والی ایک قوت کے طور پر دیکھا جسے کنٹرول کرنا اور قابو میں رکھنا ملکی دفاع کے تقاضوں کی خاطر ضروری تھا۔ یوں ریاستی نظم کی ایسی صورت تشکیل پائی جس میں فوج صرف سرحدوں کے دفاع پر مامور ایک ادارہ نہیں بلکہ اس کی نظریاتی سرحدوں کی محافظ، سیاسی عمل کی چوکس نگران اور ریاست کی نظریاتی راہنمائی کرنے والا سمت نما بھی ٹھہری۔ کون انکار کر سکتا ہے کہ نظریاتی سرحدوں کے محافظ کی حیثیت سے فوج کو ایسی وسیع عوامی حمایت اور احترام میسر رہا جسے بڑے سے بڑا اور قدآورتر سے قدآورترین سیاستدان بھی صرف حسرت سے دیکھ سکتا ہے، پا نہیں سکتا اور اس عوامی حمایت کے بل پر فوج نے بارہا سیاسی عمل کی سمت اپنی مرضی کے مطابق تبدیل کی ہے۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ اس پروسث کے خاتمے کے ساتھ ہی ملکی سیاست میں فوج کے کردار پر سوالات اٹھنا شروع ہو گئے۔ یہ پروسث سیاسی عمل میں فوج کی مداخلت کے اخلاقی جواز کے طور پر function کرتا رہا ہے۔ نظریاتی سرحدوں کی تقدیس اور تحفظ کا نعرہ جیسے جیسے دھیما پڑتا چلا گیا، اس ناکام پروسث کے روح رواں کے طور پر اس ناکامی اور اس کے دوران وقوع پذیر ہونے والی غلطیوں کی جواب دہی کا نعرہ بلند سے بلندتر ہوتا گیا۔ برسہا برس شمال مغربی سرحد پر امریکہ جیسی سپرپاور کے دباؤ اور ٹی ٹی پی جیسے ملک دشمنوں کا سامنا کرنے اور ملکی سالمیت کا کامیابی سے تحفظ کرنے والے ادارے کے طور پر فوج کی تحسین اور اس سے ہماری جذباتی وابستگی اپنی جگہ، اس پروسث کے abrupt اختتام سے ریاست اور سماج کو پہنچنے والا نقصان اور ایک پوری نسل کو نظریاتی بے سمتی کے بیاباں میں دھکیل دینا اتنا بڑا blunder ہے کہ اس کی جواب طلبی نہ کرنا ممکن ہی نہیں۔ تاریخ یہ جواب طلبی کر رہی ہے اور کرتی رہے گی، اگر اپنوں کی زبانیں احترام یا دباؤ کے زیرِاثر خاموش ہو رہیں گی تو غیروں کی زبان سے کرے گی، لیکن کرے گی ضرور۔