لاکھوں بھارتی کسان احتجاج کیوں کر رہے ہیں؟
ستمبر 2020ء میں بھارت پارلیمنٹ نے تین نئے زرعی قوانین منظور کیے۔ مودی حکومت پہلے بھی اس طرح بڑے بڑے اقدام (بڑے نوٹوں کی بندش، ترمیمی قانون برائے شہریت، چار گھنٹوں کے نوٹس پہ کرونا لاک ڈاؤن وغیرہ) شتابی سے کرتی رہی ہے اور اس بار بھی بھارتی جنتا پارٹی کی طاقتور اکثریت کے بل بوتے پر کسی قسم کی مشاورت کے بغیر دونوں ایوانوں میں یہ قوانین منظور کر لیے گئے۔ اس کے فوراً بعد سے شمالی ہندوستان بالخصوص پنجاب او ر ہریانہ میں احتجاج شروع ہو گئے۔ ابتدا میں تو یہ احتجاج پنجاب کے اندر ہوتے رہے اور حکومت اپنی پرپیگنڈہ مشین سے یہ باور کروانے میں لگی رہی کہ احتجاج کرنے والے کچھ شر پسند لوگ ہیں جنھیں اپوزیشن کی مدد بھی حاصل ہے۔ لیکن نومبر 2020ء کے آخر میں ہزاروں ٹریکٹروں پہ سوار کسان دہلی کو روانہ ہوئے۔ ان کے راستے میں طرح طرح کی رکاوٹیں کھڑی کی گئیں، مرکزی شاہراہوں میں پچاس پچاس فٹ کے گڑھے کھودے گئے، پانی کے تیز سیلابی دھارے مارے گئے لیکن کوئی بھی رکاوٹ ان کسانوں کو روک نہ سکی۔ انھوں نے دہلی کے مختلف مضافاتی علاقوں میں عارضی بستیاں بسا لیں اور اس کام کے لیے اپنی ٹریکٹر ٹرالیوں سے بہت مدد لی۔ صورتحال گھمبیر ہوئی تو حکومت نے مذاکرات کا آغاز کیا اور تاحال دس مذاکراتی ملاقاتیں ہو چکی ہیں لیکن کوئی بھی فریق اپنی جگہ سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ کسانوں کے احتجاج سے شروع ہونے والی تحریک میں بعد ازاں دیگر شعبوں کے کارکن بھی شامل ہوتے گئے حتیٰ کہ 26 نومبر 2020ء کو بھارت میں 25 کروڑ مزدوروں اور کسانوں نے ہڑتال کی جسے تاریخ کی سب سے بڑی ہڑتال کہا جا رہا ہے۔
نئے زرعی قوانین میں آخر مسئلہ کیا ہے؟
1947ء میں انگریز استعمار سے آزادی کے بعد بھارت میں خوراک کی قلت کے کئی مسائل تھے۔ کئی قحط نما دھچکوں کے بعد 1960ء کی دہائی کے اوائل میں بھارت میں گندم اور چاول کی ہائبریڈ نسلوں کی کاشت پہ زور دیا گیا۔ اس کاشت میں درآمد کردہ کھادوں اور کیڑے مار ادویات کا بے پناہ استعمال کیا جانے لگا۔ پنجاب اور ہریانہ کے صوبے اس زرعی تحول کے لیے مرکز بنے کیونکہ یہاں کے کسان اپنی اراضیوں کے مالک خود تھے اور جدید طریقوں کے استعمال کے حوالے سے ان میں زیادہ جوش پایا جاتا تھا۔ آئندہ عشروں میں ان دونوں صوبوں نے شاندار ترقی کی جس کی بنا پر بھارت نے چاول درآمد کرنا تو چھوڑ ہی دیے اور گندم منگوانے کی بھی کبھی کبھار ہی ضرورت پڑتی تھی۔ زرعی پیدوار اور اس کی خریدو فروخت کے نظام کا بندوبست بھارتی سرکار نے اپنے ہاتھ میں رکھا۔ حکومت پہلے سے اعلان کردہ کم از کم امدادی قیمت (Minimum Support Price) پر کسانوں سے زرعی اجناس خرید لیتی اور پھر ارزاں (subsidized) نرخوں پر عوام تک پہنچا دیتی۔ یہ نظام اپنی خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ جاری تھا کہ ستمبر 2020ء میں مودی حکومت نے درج ذیل تین قوانین منظور کیے:
1) The Farmers (Empowerment and Protection) Agreement on Price Assurance and Farm Services Act
2) The Farmers’ Produce Trade and Commerce (Promotion and Facilitation) Act
3) The Essential Commodities (Amendment) Act
(ان قوانین کا مکمل متن پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں اور خلاصہ ملاحظہ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)
ان قوانین کے نتیجے میں کسانوں سے ان کی فصل براہِ راست مل مالکان، زرعی کمپنیاں اور بڑے ذخیرہ اندوزخرید سکیں گے اور پیداوار، قیمتوں وغیرہ کے تعین میں حکومتی مداخلت ختم ہو جائے گی۔ تیسرا قانون حکومت کی ریگولیٹری رکاوٹوں کو ہٹا کر زرعی اجناس کی تیز ترسیل کے لیے بنایا گیا ہے۔ مودی حکومت کا کہنا ہے کہ یہ قوانین آزاد منڈی کے فروغ اور کسانوں کی بھلائی کے لیے بنائے گئے ہیں۔ کسانوں نے ان قوانین کو رَد کر دیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ ان کے نفاذ سے زراعتی شعبے کا ہر پہلو بڑے کارپوریٹ اداروں کے کنٹرول میں چلا جائے گا اور کسان بے آسرا ہو کر رہ جائیں گے۔ کسان صوبہ بہار کی مثال دیتے ہیں جہاں اسی طرح کے قوانین پندرہ سال قبل نافذ کیے گئے تھے اور نتیجہ یہ نکلا کہ زراعتی شعبے میں حکومت کا ریگولیٹری ڈھانچہ ختم ہو گیا، زراعت کا نظام بڑے کھلاڑیوں کے کنٹرول میں چلا گیا حتیٰ کہ اجناس کے خریداری مراکز کی تعداد 87 فیصد گھٹ گئی۔ آزاد منڈی نے بہتر قیمتوں کے وعدے پورے نہ کیے اور صورتحال یہ ہے کہ پچھلے سال پنجاب میں حکومتی مداخلت کے باعث 100 کلوگرام چاول کی قیمتِ خرید 25 ڈالر تھی جبکہ بہار کی آزاد منڈی میں کسان چاول کی اتنی ہی مقدار محض 16 ڈالر میں بیچنے پر مجبور تھے۔ پنجاب کا کسان اپنا حال بہار کے کسان کا سا تصور کر کے بے چین ہے اور مسلسل سراپا احتجاج ہے۔
پنجاب کا خصوصی مقدمہ:خالصتان، آپریشن بلو سٹار ۔۔۔!
مشرقی پنجاب کا بھارت کے ساتھ ایک پیچیدہ تعلق ہے۔ سکھوں کے ہاں 1947ء میں آزادی کے بعد ہی سے یہ احساس پایا جاتا ہے کہ بھارت نے انھیں دھوکہ دیا ہے (بھارتی وزرائے اعظم کے یورپ امریکہ کے دوروں میں یہ منظر کئی بار دیکھنے کو ملتا ہے کہ خالصتان کے پُرجوش حمایتی احتجاج کر رہے ہیں)۔ یہ تلخی اس وقت اور بھی زہرناک ہو گئی جب وزیرِ اعظم اندرا گاندھی نے بھارت میں بالعموم اور پنجاب میں بالخصوص آمرانہ طرزِ حکومت قائم کرنا چاہا۔ پنجاب کے مخصوص حالات کے باعث نوبت آپریشن بلو سٹار 1984ء تک پہنچ گئی جس میں سکھوں کے مقدس مقامات پر بھارتی فوج نے آپریشن کیا۔ سات ٹینکوں اور بھاری گولہ بارود کے استعمال کے باعث امرتسر میں واقع گوردواراہ ہرمندر صاحب (گولڈن ٹیمپل) اور اَکال تخت کی عمارتوں کو شدید نقصان پہنچا، ہزاروں لوگ مارے گئے ۔ سکھوں کے اندر بدلے کی آگ بھڑک اٹھی اور بالآخر اندراگاندھی کو اس کے اپنے ہی دو سکھ محافظوں نے وزیرِ اعظم ہاؤس کے اندر قتل کر دیا جس کے بعد فسادات پھوٹ پڑے اور دہلی میں سکھوں کا مزید قتل ہوا۔ موجودہ احتجاج میں اگرچہ پنجاب کے علاوہ دیگر علاقوں کے کسان بھی شامل ہیں مگر بنیادی طور پہ یہ سکھ پنجابیوں کا احتجاج ہے اور وہ اسی بڑے پس منظر میں احتجاج کر رہے ہیں۔ اسی تلخ تاریخی پس منظر کے باعث بھارتیہ جنتا پارٹی کے وزراء نے کئی مواقع پر احتجاجیوں کی مذمت کے لیے انھیں خالصتانی قرار دیا۔
کسانوں کی خود کشیاں:
کسانوں کی صورتحال پہلے ہی دگرگوں تھی اور پچھلے کئی برسوں سے قرضوں ، خشک سالی، حکومتی عدم توجہ، ناکافی زرعی پیداوار کا شکار بھارتی کسان خودکشیوں پر مجبور ہیں۔ 2019ء میں زراعت سے وابستہ لوگوں میں خودکشی کی شرح یہ تھی کہ روزانہ تقریباً 28 لوگ خود کشی کر رہے تھے اور اس ایک سال میں 10،281 خودکشیاں رپورٹ ہوئیں۔ زراعت سے وابستہ ہزاروں لوگوں کی خود کشیاں ہر سال کا معمول ہے ۔ معروف بھارتی مصنفہ ارون دھتی رائے نے 2012ء میں بھارتی کسانوں کی خودکشیوں کے حوالے سے ایک مضمون لکھا جس میں اس وقت تک کا سرکاری عدد 250,000 تھا اور بعد کے برسوں میں یہ شرح اور بھی زیادہ ہوئی۔ ماہرینِ معیشت اور اہلِ علم کا کہنا ہے کہ اگر اس صورتحال میں یہ قوانین بھی نافذ کر دیے گئے تو کسانوں کی معاشی تنگی مزید بڑھے گی اور خوکشیوں کی شرح میں اور بھی اضافہ ہو نے کا خطرہ ہے۔
کارپوریٹ:
بھارتی کسان پورا یقین رکھتے ہیں کہ نئے قوانین اس بڑی گیم کا حصہ ہیں جس میں ریاستی مشینری کارپوریٹ سرمایہ داری کی خدمت پہ مامور ہوتی ہے اور اس کی راہ میں آنے والی رکاوٹوں کو اپنی طاقت کے ذریعے دور کرتی ہے۔ بھارت کے دو امیر ترین کاروباری دیو یعنی مکیش امبانی اور گوتم اڈانی کے خلاف کسانوں میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ اتفاق سے یہ دونوں حضرات مودی کے آبائی صوبے گجرات ہی سے تعلق رکھتے ہیں اور قریباً پچھلے دو عشروں سے مودی کی پشت پناہی کرتے آئے ہیں۔2020ء میں اگرچہ کرونا وبا کی وجہ سے بھارت میں روزگار کی صورتحال خراب تر ہوئی مگر ان دو بڑے کاروباری حضرات کی دولت میں 41 بلین ڈالر کا اضافہ ہوا۔ امبانی کی وائرلیس کمپنی کے قریباً 1500 فون ٹاورز پر کسانوں نے حملے کیے حتیٰ کہ کمپنی کو ریاستی اداروں سے مدد کی درخواست کرنا پڑی۔ حالات بگڑتے دیکھ کر دونوں کاروباری گروپوں نے اپنے اپنے مدافعتی بیانات جاری کیے ہیں جن میں کہا گیا کہ ان کا ان نئے زرعی قوانین سے کچھ لینا دینا نہیں اور وہ زرعی شعبے میں داخل ہونے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ لیکن کسان رہنماؤں نے ان وضاحتی بیانات کو ڈھکوسلا قرار دے کر رَد کر دیا ہے۔ معروف صحافی اور ایکٹیوسٹ پی-سائناتھ نے ایک پروگرام میں بتایا کہ امبانی گروپ نے ان قوانین کی منظوری سے کئی مہینے قبل زرعی اجناس کو محفوظ کرنے کے لیے اپنے بنکرز تعمیر کرنا شروع کر دیے تھے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومت کے ساتھ ساتھ کارپوریٹ کو بھی اپنی کامیابی کا پورا یقین تھا۔
احتجاج ؛ چند دلچسپ مناظر:
اس احتجاج کے دوران کئی دلچسپ مناظر بھی دیکھنے کو ملے مثلاً:
- احتجاج میں سکھ مَردوں کے ساتھ ساتھ سکھ خواتین کی بھی اچھی خاصی تعداد شریک ہے۔
- کسانوں نے دہلی پہنچنے کے لیے ٹریکٹر ٹرالی کا استعمال کیا اور انھی میں رہائش بھی اختیار کیے ہوئے ہیں۔
- اخبار پڑھنے کے ساتھ ساتھ کتابیں بھی تقسیم ہوتی اور پڑھی جاتی رہیں۔
- دہلی کے مقامی مسلمان سکھ احتجاجیوں کے ساتھ خصوصی یگانگت کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور لنگر پکا کر تقسیم کررہے ہیں۔
- دانشوروں، بائیں بازو کی تنظیموں کے ارکان اور صحافیوں کے ساتھ ساتھ پنجابی فلم انڈسٹری کے لوگ بھی کسانوں کی حمایت میں کھڑے نظر آتے ہیں۔
میڈیا بلیک آؤٹ:
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہندوستان میں صحافت کا معیار حیران کن حد تک پست ہے ۔ آزادی صحافت کے عالمی معیار کی رو سے ہندوستان ایک سو اسی ممالک کی فہرست میں 138ویں نمبر پر آتا ہے ۔ ہندوستانی میڈیا کرپشن کے میدان میں پوری دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے ۔ اس بحران کے دوران میڈیا رپورٹنگ کا معیار افسوسناک حد تک یکطرفہ رہا ۔ ہندوستان میں پانچ بڑی میڈیا کارپوریٹ ہیں جو براہ راست یا بالواسطہ تین افراد چلاتے ہیں: مکیش امبانی، نہاتا اور ابھے اوسول ! 130 کروڑ سے زائد آبادی رکھنے والے ملک کے ذرائع ابلاغ کا محض تین افراد کے ہاتھوں میں مرتکَز ہو جانا نہایت پریشان کن امر ہے ۔ موجودہ سیاسی بحران کے دوران میڈیا کی غیرجانبداری بالکل بے نقاب ہو گئی ۔ احتجاج کی رپورٹنگ سے احتراز برتا گیا ۔ دنیا کی تاریخ کے سب سے بڑے انسانی احتجاج کو مذہبی، نسلی اور جہالت پر مبنی تعصب قرار دیا گیا ۔ مکیش امبانی ہندوستان کے سب سے بڑے تاجر ہیں ۔ وہ ان نئے زرعی قوانین کے ذریعے سب سے زیادہ منافع کمانے کے امیدوار ہیں ۔میڈیا چینلز نے حکومت کے سیاسی موقف کی آڑ لے کر مکیش امبانی کے معاشی مفادات کو آگے بڑھایا اور اپنے پیشہ وارانہ فرائض سے پہلو تہی کے مرتکب ہوئے ۔
تازہ ترین صورتحال:
نومی کلائن نے اپنی مشہور کتاب ”دی شاک ڈاکٹرائن“ میں تفصیل سے بیان کیا ہے کہ کس طرح سرمائے اور ریاست کی طاقت ”آفاتی سرمایہ داری“ (Disaster Capitalism) کے ذریعے بروئے کار آتی ہے یعنی کسی بڑی آفت کی افراتفری کے دوران سرمائے اور طاقت کی جکڑ بندیوں کو مزید مضبوط کرتی ہے۔ بھارت میں پہلے سے موجود غربت، بڑھتی ہوئی امیر-غریب تفریق، صحت اور رہائش کی گھمبیر صورتحال میں جب کرونا وبا پھیلی تو ریاست-سرمائے گٹھ جوڑ نے اپنے خونی پنجے عام آدمی کی گردن میں اور بھی گہرائی تک پہنچا دیے ہیں۔ مگر دوسری طرف کسانوں کے اذہان روشن ہیں، وہ دشمن کے ہر رنگ اور ہر اَنگ کو پہچاننے لگے ہیں اور اب کسی دھوکے میں آنے کو تیار نہیں۔ ایک پیشکش سرکار کی جانب سے یہ ہوئی کہ ان قوانین کا نفاذ ڈیڑھ سال تک کے لیے موخر کیا جا سکتا ہے مگر کسانوں نے اس حیلے کو مکمل طور پہ رَد کر دیا اور اب وہ بھارت کے ریپبلک ڈے یعنی 26 جنوری 2021ء کو دہلی میں اکٹھے ہوں گے۔ پنجاب اور ہریانہ سے ٹریکٹر ٹرالیوں کے کئی کئی کلو میٹر قافلے روانہ ہو چکے ہیں، صورتحال مزید گھمبیر ہوتی جا رہی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عام آدمی اور سسٹم کی اس جنگ میں کیا پھر سے سسٹم عام آدمی کو چکمہ دینے میں کامیاب ہوتا ہے یا پھر یہ میدانِ جنگ لہو رنگ ہو کر رہے گا!