ایک مسئلہ:خورخے لوئیس بورخیس (ترجمہ: عاصم بخشی)

 In افسانہ, ترجمہ, خورخے لوئیس بورخیس

        ذرا تصور کیجیے طلیطلہ میں ایک کاغذ کا ٹکڑا دریافت ہوتا ہے جس پر عربی میں لکھی ایک عبارت موجود ہے۔قدیم نگارشات کے  ماہرین  فیصلہ کرتے ہیں کہ یہ اندازِ تحریر حامد بینن جلی کا ہے جس سے سروانتس نے اپنا مشہور ناول ڈان کیوٹےاخذ کیا۔ عبارت سے ہمیں  پتہ چلتا ہے کہ ہیرو  کو(جیسا کہ سب کو معلوم ہی ہے کہ ہسپانیہ کی شاہراہوں پرنیزے اور تلوار سے لیس گھومتا پھرتا اور کسی بھی وجہ سے  کسی کو بھی للکار دیتا ہے) اپنے بہت سے معرکوں میں سے ایک  کے بعد یہ معلوم ہوتا ہے کہ  اس کے ہاتھوں ایک آدمی کا  قتل ہو گیا ہے۔ اسی جگہ یہ عبارت ختم ہو جاتی ہے۔اب مسئلہ یہ ہے کہ کیسے اندازہ لگایا یا مفروضہ قائم کیا جائے کہ  ڈان کیوٹے کا ردعمل کیا ہوگا؟

        میری رائے کی حد تک تین ممکنہ جواب ہو سکتے ہیں۔پہلا منفی : کچھ خاص نہیں ہوگا کیوں کہ  ڈان کیوٹے کی  خیالی دنیا میں موت کسی طلسم جتنا ہی  غیرمعمولی واقعہ ہے اورکوئی وجہ نہیں کہ محض ایک آدمی کا قتل  اُس انسان کو  مضطرب کرے گا جو اپنے تئیں لڑے جاتا ہے یا   پھرسوچتا ہے کہ  وہ  افسانوی عفریتوں اور جادوگروں سے برسرِ پیکار ہے ۔ دوسرا رقت انگیز: ڈان کیوٹے کبھی یہ  بھلا ہی نہیں سکا   کہ وہ    حیرت انگیز داستانوں کے ایک قاری الونسو کیوخانو کی ایک تخلیق، اس کا گھڑا گیا ایک عکس تھا۔ موت کو دیکھتے ہی اس پر یہ منکشف ہوا کہ ایک خواب  خیالی نے اسے گناہِ قابیل کی جانب دھکیل دیا  ہے، اور اس انکشاف کے ساتھ ہی وہ خود پر طاری دیوانگی سے جاگ اٹھا، شاید ہمیشہ ہمیشہ  کے لیے۔ تیسرا جواب غالباً سب سے زیادہ قرینِ قیاس ہے: اس آدمی کو مارنے کے بعد ڈان کیوٹے یہ تسلیم نہیں کر سکتا  کہ یہ ہولناک عمل ہذیان کا نتیجہ ہے۔ حقیقتِ اثر اسے ایک  موزوں حقیقتِ علت کی پیش قیاسی  پر مجبور کر دیتی ہے اور ڈان کیوٹے اس حالتِ دیوانگی سے کبھی نہیں ابھرتا ۔

        لیکن ایک چوتھا قیاس بھی ہے جو ہسپانوی ذہن بلکہ مغربی ذہن  تک کے لیے بھی  اجنبی ہے، اور  ایک مزید قدیم، مزید پیچیدہ اور مزید   کلیشے زدہ  فضا کا متقاضی ہے۔ ڈان کیوٹے — جو اب  ڈان کیوٹے نہیں رہا  بلکہ سلسلہ ہائے ہندوستاں کا شہنشاہ ہے—  اپنے دشمن کے لاشے کے سامنے کھڑے ہوئے یہ محسوس کرتا ہے کہ مارنا اور  پیدا کرنا  افعالِ خدائی  یا  سحر ہیں جو  واضح طور پر   کیفیتِ انسانی  سے ماورا ہیں۔ وہ جانتا ہے کہ موت فریبِ نظر  ہے، جیسے اس کے ہاتھ پر بوجھ بنی یہ خون آلود تلوار، وہ خود  ، اس کی تمام  پچھلی زندگی  ۔ لاتعداد دیوتااور   بے کراں کائنات۔

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search