بابل کا کتب خانہ: خورخے لوئیس بورخیس (ترجمہ: عاصم بخشی)

 In افسانہ, خورخے لوئیس بورخیس

اس فن کے ذریعے تم  تئیس حروف کے تغیرات  پر غور کر سکتے ہو۔۔۔۔(’’تشریح ِافسردہ خیالی‘‘  از   رابرٹ برٹن)

کائنات (جسے دوسرے کتب  خانہ کہتے ہیں) ایک لاتعداد بلکہ شاید لامتناہی گردشی راہداریوں پر مشتمل ہے۔ہر راہداری کے وسط سے ایک ہوادان  شروع  ہو کر ایک  پست  احاطے پر ختم ہوتا ہے۔کسی بھی مسدس سے یکے بعد دیگرے اوپر نیچے جاتی لا انتہامنزلیں دیکھی جا سکتی ہیں۔راہداریوں کی ترتیب ہمیشہ سے  یکساں ہے: کتابوں کی کُل بیس، یعنی مسدس کے چھ اطراف  میں چوتھی قطار کے ہر طرف   رکھی  پانچ الماریاں جن کی اونچائی  زمین  تا چھت ایک  عام کتابدار  کے قد سے ذرا سی نکلتی ہوئی ۔ مسدس کے آزاد اضلاع میں سے ایک ضلع تنگ سی ڈیوڑھی میں کھلتا ہے، جو ایک اور  ایسی راہداری میں کھلتی ہے جو بعینہٖ پہلی ، بلکہ ہر ایک جیسی  ہے۔ڈیوڑھی کے دائیں  اوربائیں دو ننھی سی کوٹھڑیاں ہیں۔ ایک سونے کے لیے، بالکل سیدھی اور دوسری  رفع حاجت کے لیے۔یہاں سے بھی ایک مرغولہ نما زینہ گزرتا ہے جو اوپر   نیچےدُور تک گھومتا چلا جاتا ہے۔ڈیوڑھی میں  نصب ایک آئینہ پوری  وفاداری سے  تمام منظر  کی ٹھیک ٹھیک  عکاسی کرتا ہے۔انسان اکثر اس آیئنے سے یہ نتیجہ  اخذ کرتے  ہیں  کہ کتب خانہ  لامتناہی نہیں  کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو  پھر اِس پُر فریب  عکاسی کی کیا  ضرورت ؟   میں  اس تصور کو ترجیح  دیتا ہوں کہ  چمک دار سطحیں لامتناہیت کا خاکہ اور امید ہیں۔۔۔روشنی  کچھ ایسے کرّوی پھلوں سے فراہم کی جاتی ہے جنہیں ’’بلب‘‘ کہتےہیں۔ ہر مسدس میں  آر پار دوایسے دو بلب  آویزاں ہیں۔ ان کی فراہم کردہ  روشنی ناکافی اور  دائمی ہے۔

کتب خانے کے تمام باسیوں کی طرح میں  نے بھی اپنی جوانی میں سفر کیا۔ کتاب کی  تلاش میں منزلوں پر منزلیں بلکہ شاید  فہرستوں پر فہرستیں طے  کرتا رہا۔ اب جب کہ میری  بینائی خود اپنی لکھائی بھی بمشکل پڑھ سکتی ہے ، میں اپنی  جائے پیدائش یعنی   اس مسدس سے کچھ ہی کوس   دور پڑا ایڑیاں  رگڑ رہا ہوں۔ موت واقع ہو تے ہی دو ہمدرد ہاتھ مجھے احاطے سے نیچے پھینک دیں گے، اتھاہ  ہوا میرا مقبرہ ہو گی، میرا بدن  زمانوں ڈوبتا رہے گا اور آخر کار میرے گرنے  سے  جنم لیتی لامتناہی  ہوا میں گل سڑ کے گھل جائے گا۔ میں  اعلان کرتا ہوں کہ کتب خانہ بے انت ہے۔مثالیت پسندوں  کا دعوٰی ہے کہ مسدس کمرے مکان ِ مطلق یا کم از کم ہمارے ادراکِ مکان کی ناگزیر  صورت ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک تکونی یا مخمس کمرہ ناقابل تصور ہے۔ (عارفوں کا اصرار  کہ ان پر ایک دائروی کمرہ منکشف ہے جس میں  پڑی ایک ضخیم گول  کتاب کا مسلسل  پشتہ دیواروں کے دائرے کا   چکر مکمل کرتاہے ۔لیکن ان کی شہادت مشتبہ ہے اور ان کےالفاظ مبہم۔یہ دائرو ی کتاب خدا ہے!)  ایک لمحے کو اس مستند اظہار پر اکتفاکیجیے جسے میں یوں دہراتا ہوں: کتب خانہ ایک کرّہ ہے جس کا  مرکز  کوئی بھی  مسدس اور جس کا  محیط ناقابلِ  رسائی ہے ۔

ہر مسدس کی ہر دیوار  کتابوں کی  پانچ الماریوں سے مزین ہے۔ہر کتابی الماری میں یکساں وضع کی بتیس  کتابیں موجود ہیں۔ ہر کتاب کے چار سو دس صفحات ہیں۔ ہر صفحے پر چالیس سطریں اور ہر سطر میں تقریباً اسّی سیاہ حروف ہیں۔ ہر کتاب کے سرورق پر بھی حروف کندہ  ہیں۔ یہ حروف  نہ تو نشاندہی کرتے اور نہ ہی یہ بتاتے ہیں  کہ اندر کے صفحات میں کیا ہے۔میں جانتا ہوں کہ تبادلۂ خیالات اور ابلاغ کا فقدان کبھی انسانوں کو  پُر اسرار لگتا تھا۔ اس راز کے حل کا خلاصہ پیش کرنے سے قبل (جس کی دریافت  المناک نتائج کے باوجود شاید تاریخ کا اہم ترین واقعہ ہے) میں کچھ  بدیہی مسلمات دہرانا چاہتا ہوں۔

اول:  کتب خانہ ازل سے موجود ہے۔یہ سچائی جس کا  لازمی نتیجہ دنیا کی آنے والی ابدیت ہےکوئی معقول ذہن نہیں جھٹلا سکتا۔انسان، ایک غیر کامل کتابدار،   یاتوشاید   اتفاقات کا حاصل یا  پھر بد باطن  دیوتاؤں کی تخلیق ہوسکتا ہے ،   مگر کائنات  اپنی شاندار ترتیب ،  یعنی  اپنی الماریوں،  ان میں دھری اپنی چیستانی کتب،مسافر وں کے لیے  اپنے بے تکان زینوں، اور براجمان کتابدار کے  لیے  اپنی آبی طہارت گاہوں کے ساتھ ، کسی دیوتا ہی کی صناعی ہو سکتی ہے۔ انسان اور  ہستی ٔمطلق کے درمیان حائل فاصلے کو  ذہن کی گرفت  میں لانا مقصود ہو  تو  صرف ان  تھرتھراتی ہوئی خام علامتوں کا موازنہ   کر لیجیے جنہیں میرے  مائل بہ خطا ہاتھ بدخطی  سے ایک ایسی کتاب کے سرورق پر  لکھ  رہے ہیں جس کے اندر صاف ستھرے، نازک،  گہرے سیاہ اور  بے نظیر تناسب کے ساتھ  نامیاتی  حروف موجودہیں۔

دوم: کُل ملا کر ابجدی علامات پچیس ہیں[1]۔تین سو سال قبل اس دریافت نے انسانیت کو ایک عمومی نظریۂ    کتب خانہ تشکیل  دینے کے قابل کیا ا ور یوں اس پہیلی کو حل کر دیا  جس کا بھید آج تک کوئی   قیاسی مفروضہ  نہ کھول سکا تھا ،یعنی   تقریبا تمام کتب کی ایک بے شکل اور  منتشر ہئیت۔ایک کتاب جسے ایک بار میرے ابا جان نے ۹۴۔۱۵ نمبر گردش  کی ایک مسدس میں  دیکھا تھا صرف  حروف’’ م۔ک۔و ‘‘ پر مشتمل تھی جو اول تا آخر سطر تک کج روی سے  دہرائے گئے تھے۔ایک اور (جس سے اس  حلقے میں  کافی راہنمائی لی جاتی ہے)  فقط حروف کی بھول بھلیوں  پر مشتمل ہے جس کے قبل از آخر صفحے پر  یہ عبارت درج ہے: ’’اے  زمانے تیرے  مزار!‘‘۔اتنا  معلوم ہے کہ ہر معقول سطر  یا  بے باک بیان کے عوض بے معنی کریہہ الصوتی، لفظی لغویات اور بے ربطی کے مجموعے ہیں۔(میں ایک ایسے نیم وحشی حلقے  سے واقف ہوں  جہاں کے کتابدار کتابوں میں مفہوم تلاش کرنے  کی ’’بے ثمر اور ضعیف الاعتقاد‘‘ عادت  کو  مسترد کرتے اور ایسی  کسی  بھی جستجو کو خوابوں اور کسی ہاتھ کی منتشر لکیروں میں معانی ڈھونڈنے کے برابر سمجھتے ہیں۔وہ یہ  تو مانتے ہیں  کہ  لکھاوٹ  ایجاد کرنے والوں نے پچیس فطری علامات کی نقل کی مگر  ساتھ ہی اصرار کرتے ہیں کہ اپنانے کا یہ عمل   بے سبب اور اتفاقیہ تھا،  اور یہ بھی   کہ کتابیں فی نفسہٖ معانی نہیں رکھتیں۔یہ دلیل جیسا کہ ہم دیکھیں گے  مکمل طور پر مغالطہ آمیز نہیں ہے۔)

کئی سال تک یہ مانا جاتا رہا کہ یہ  ناقابل نفوذ کتابیں بہت پرانی یا   دوردراز علاقوں کی زبانوں میں ہیں۔یہ سچ ہے کہ کئی قدیم لوگ  یعنی کہ اولین کتابدار ہماری رائج بولی سے بہت مختلف زبان استعمال کرتے تھے، یہ بھی سچ ہے  کہ یہاں سے  کچھ کوس دائیں ہماری زبان لہجوں میں ڈھلنا شروع ہو جاتی ہے اور  نوے منزلیں اوپر  یہ  بالکل ناقابل فہم ہو جاتی ہے۔میں ایک بار پھر دہراتا ہوں کہ یہ سب سچ ہے لیکن  چاہےلہجہ کتنا ہی مختلف یا  غیر متمدن کیوں  نہ ہو ،چار سو دس غیر متغیر ’’ م۔ک۔و ‘‘ کسی  بھی زبان سے تعلق نہیں رکھ سکتے ۔کچھ لوگوں کی رائے ہے کہ  ہر حرف اگلے پر اثر ڈالتا ہے اور  ’’ م۔ک۔و ‘‘ کی جو قیمت  صفحہ ۷۱سطر۳  پر ہے  وہ کسی اور صفحہ اور سطر پر اسی سلسلے  کی قیمت سے مختلف ہے، لیکن یہ مبہم  نظریہ  کچھ زیادہ مقبولیت  نہیں پا سکا۔ اس کے برعکس کچھ دوسروں نے   کسی خفیہ لغت کا امکان ظاہر کیا ہے اور یہ قیاسی مفروضہ بالاتفاق تسلیم کر لیا گیا ہے، گو اس  تاثر میں نہیں جس میں اس کے بانیوں نے اولین تشکیل  کی تھی۔

لگ بھگ پانچ صد سال قبل کسی  مسدس ِبالا[2] کے ایک مہتمم کے  ہاتھ ایک ایسی کتاب لگی  جو  باقیوں کی طرح گڈ مڈ  توتھی مگر اس کے  تقریباً  دو صفحات یکساں سطروں پر مشتمل تھے۔اس نے اپنی یہ دریافت ایک  رمز شناس مسافر کو دکھلائی جس  کی رائے میں  وہ سطریں  پرتگالی زبان میں   تحریر کردہ تھیں، کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ  یہ عبرانی میں تھی۔ایک صدی کے اندر اندر ہی  ماہرین  نے متعین کر دیا کہ وہ زبان اصل میں کونسی تھی: کلاسیکی عربی کی تصریف کے ساتھ گوارانی  کا ایک  سامویائی لیتھوانی لہجہ[3]۔ ساتھ ہی مشمولات کا تعین بھی کر دیا گیا: لا انتہا متواتر  تغیرات  کی مثالوں سے مزین مبادیٔ علم اتصال۔ان مثالوں کی مدد سے ایک  نابغہ کتابدارنے  کتب خانے کا بنیادی قانون دریافت کر لیا۔اِس  حکیم نے مشاہدہ کیا  کہ تمام کتب  چاہے وہ ایک دوسرے سے کتنی ہی مختلف کیوں نہ ہوں یکساں  عناصر پر مشتمل ہیں یعنی فاصلہ،   وقفہ ،  علامتِ وقف  اور  ابجد  کے بائیس حروف۔اس نے  مفروضے کے طور  پریہ  واقعہ بھی سامنے رکھا جس کی توثیق  اس دن سے تمام مسافر کرتے آئے ہیں: سارے کتب خانہ میں  کوئی دو کتابیں تک ایک جیسی نہیں ہیں۔ ان غیر متنازعہ  بدیہی مسلمات  سے کتابدار نے یہ  نتیجہ  نکالا  کہ کتب خانہ ’’کُل‘‘یعنی  بے عیب ، مکمل اور  پورا ہے ، اور  کتابوں کی الماریاں   بائیس (ایک ایسا عدد جو ناقابل تصورہونے کے باوجود لامتناہی نہیں ہے ) حروفی علامات  کی تمام ممکنہ   ترکیبوں  پر مشتمل ہیں، یعنی  وہ سب کچھ جو ہر ایک زبان میں قابلِ بیان ہے۔سب کچھ۔۔۔مستقبل کی  تفصیلی تاریخ،    رؤسائے ملائکہ کی سوانح،  کتب خانے کی  قابل ِ اعتماد اور  ہزاروں ناقابل ِ اعتماد فہرستیں، ان ناقابلِ اعتماد فہرستوں  کے کذب کے ثبوت، درست فہرست  کے کذب کا ایک ثبوت،  اسکندریہ کے   مدرس  باسیلیدی سے منسوب  غناسطی انجیل،  اس انجیل کی شرح، اس شرح کے حواشی، آپ کی موت کی سچی کہانی، ہر کتاب کا ہر ایک  زبان میں ترجمہ،  ہر ایک کتاب کا  باقی تمام کتب میں  اندراج،    سیکسن  اقوام کی اساطیری روایت سے متعلق وہ رسالہ جو سینٹ بیڈ لکھ سکتا تھا (مگر اس نے    نہ لکھا)،  رومن مؤرخ  تیکیطوس کی گمشدہ کتابیں۔

جب یہ اعلان کیا گیا کہ کتب خانے میں ہر کتاب   پائی جاتی ہے تو پہلا ردّعمل  بے پایاں مسرت  کا تھا۔ لوگوں نے  اپنے آپ کو ایک  محفوظ اور خفیہ خزانے کا مالک سمجھا۔ایسا کوئی انفرادی یا اجتماعی مسئلہ نہ تھا جس کا  فصیح و بلیغ حل کہیں کسی مسدس میں  نہ پایا جاتا۔  مانوکائنات کے ہونے  کا جواز مل گیا، وہ  یک لخت  انسانی  آدرشوں کے غیر محدود  طول و عرض سے موافق ٹھہری۔اس وقت  ایک ’’مجموعہ برأت‘‘   کا ذکر زبان زدِ عام تھا یعنی  غیب گوئی اور بریت کی  وہ  کتابیں  جو آنے والے ہر زمانے کے لئے  کائنات کے ہر انسان کو بری قرار دیں۔بنی نوع انسان کے مستقبل کے واسطے   یہ ایک  حیرت انگیز اکسیرِ اعظم  تھا۔  ہزاروں  حریص افراد اپنی اپنی’’ کتاب برأت‘‘ کو تلاش کرنے  کی ایک لاحاصل خواہش  سے مغلوب، اپنے  پر سکون مسدس  چھوڑ کر  بالائی اور زیریں منزلوں  کی طرف بھاگے۔یہ زائرین تنگ   غلام گردشوں میں  ایک دوسرے سے  جھگڑتے، بدترین لعنتیں بڑبڑاتے، مقدس  زینوں میں  ایک دوسر ے کا گلا گھونٹتے،  پُر فریب جلدیں ہوا دانوں  سے نیچے پھینکتے،  دور دراز علاقوں کے انسانوں  کے ہاتھوں   اپنی موت سے جاملے۔ باقی اپنے حواس کھو   بیٹھے۔۔۔۔’’مجموعہ برأت‘‘ واقعی موجود ہے  (میں نے اس میں شامل دو کتابیں دیکھی ہیں جومستقبل کے دو  ایسےافراد کا ذکر کرتی ہیں جو   شاید  فرضی نہیں ہیں) مگر  اس کی  کھوج  میں نکلنے والے مہم جو یہ بھلابیٹھے کہ  انسان کے ہاتھ اس کی اپنی ’’کتاب برأت‘‘ یا اس  کی کسی جعلی نقل لگ جانے کا امکان صفر تھا۔

اسی زمانے میں یہ امید بھی قائم تھی کہ بنی نوع انسان  کے بنیادی  راز یعنی کتب خانے اور  زمانے کی ابتدا  کے اسراربھی شاید  ظاہر ہو جائیں۔آثار قوی تھے کہ  یہ عمیق راز واقعتاً  الفاظ میں بیان  کیے جا  سکیں گے ۔ اگر اس کے لئے فلاسفہ کی  لغت کافی نہ ہو توعظیم الہئیت کتب خانے  نے  یقیناً کسی  ایسی غیر معمولی  زبان کو بمع اس کی لغت اور  قواعد کےجنم ضرور دیا ہوگا۔ چار صدیاں لوگ پھرتی کے ساتھ مسدسوں کے چکر کاٹتے رہے۔۔۔سرکاری’’تفتیش کار‘‘ آج بھی موجود ہیں۔ میں  نے انہیں اپنے کام میں مصروف دیکھا ہے: وہ تھکے ہارے ، ایک ایسے زینے کی بابت  بڑبڑاتےہوئے جس کی چند  سیڑھیاں غائب ہونے کے باعث وہ مرتے مرتے بچے، کسی   نہ کسی مسدس  پر جا پہنچتے ہیں ، کتابدار سے احاطوں اور زینوں کے بارے میں  بات چیت  میں مشغول رہتے ہیں،  پھر کبھی کبھار  کوئی قریب پڑی کتاب اٹھا کر شرمناک اور ذلت آمیز الفاظ ڈھونڈنے کی نیت سے ورق گردانی کر لیتے ہیں۔ ظاہر ہے  کوئی ان سے کسی دریافت کی امید نہیں رکھتا۔

اس بے لگام امید کے بعد  فطری طور پر  ایک ویسی ہی غیر متناسب  مایوسی  نے آلیا۔ یہ یقین تقریباً ناقابل برداشت تھا کہ کہیں کسی مسدس میں کوئی  الماری قیمتی کتابوں پر مشتمل مگر ان  قیمتی کتابوں تک رسائی دائماً   ناممکن  ہے۔ ایک  گستاخانہ فرقے  نے تجویز دی کہ  تلاش  ترک کر دی جائے اور تمام لوگ  حروف اور علامات کی ترتیب بدلتے رہیں یہاں تک کہ  وہ  تفویض کردہ کتابیں  حادثاتی طور پر  متشکل ہو جائیں۔حکام کو سخت احکامات صادر کرنے پڑے۔ وہ فرقہ تو خیر کب کا معدوم ہو گیا مگر میں نے اپنے بچپن میں   دھاتی طبق اور  پانسے کی ڈبیا  لیے  کئی بوڑھے آدمیوں کو  بیت الخلا میں  چھپے،   خدائی  بے ترتیبی کی دھیمی نقالی کرتے ہوئے دیکھا ہے۔

دوسروں  نے بالکل معکوس سمت  اپناتے ہوئے سوچا کہ پہلا قدم  یہ ہونا چاہیے کہ تمام  بے مصرف کتابوں کو تلف کر دیا جائے۔وہ مسدسوں  پر آن دھمکتے، اپنے وثیقہ ہائے تقرر دکھاتے جو ہمیشہ  جعلی نہیں ہوتے تھے،   نفرت سے ایک جلد کے صفحے پلٹتے اور کتابوں کی پوری دیوار  کے خلاف فیصلہ صادر کر دیتے۔لاکھوں  جلدوں  کا احمقانہ  ضیاع انہی کے  صحت بخش اور زاہدانہ  طیش  کا مرہونِ منت ہے۔ان کا نام آج مطعون ہے مگر وہ  جو  ان ’’خزانوں‘‘  کی اس جنونی تباہی  کے غم میں الم زدہ ہیں، عمومی طور پر تسلیم شدہ دو واقعات  سے صرفِ نظر کرتے ہیں: اول کہ  کتب خانہ اتنا وسیع ہے کہ انسانی ہاتھوں کسی بھی قسم کی  کمی  بے وقعت ہے۔ دوم  یہ کہ  گو ہر کتاب  بے مثل اور  بے بدل ہے، بہرحال (کتب خانہ کُل ہونے کے باعث) ہمیشہ   چند لاکھ ناقص مگر  ہو بہو نقلیں   موجود ہوتی ہیں جو اصل کے مقابلے میں  ایک حرف  یا ایک  علامت وقف سے زیادہ مختلف نہیں۔ عمومی رائے کے باوجود   میں یہ کہنے کی جرأت کر سکتا ہوں کہ ’’مخلصین‘‘ کی غارت گری کےاثرات  میں  مبالغے کی  وجہ وہ  دہشت ہے جو  انہی  جنونیوں کا فیضان ہے۔ایک مقدس اشتیاق سے متحرک  وہ  اس کوشش میں  سرگرم تھے کسی دن  انتھک کوشش سے  وہ’’ ارغوانی مسدس ‘‘یعنی   قدرتی کتابوں سے چھوٹی  ،  قادرِ مطلق، منقش اور  طلسماتی کتابوں تک جا پہنچیں گے۔

اسی زمانے کی ایک اور ضعیف الاعتقادی یعنی  ایک  ’’کتابی انسان‘‘  نامی ہستی پر اعتقاد بھی مشہورومعروف ہے۔  یہ مفروضہ پیش کیا گیا کہ  کسی مسدس کی کسی الماری میں کہیں ایک کتاب ایسی ہونی چاہیے جو  بقیہ تمام کتابوں  کی کنجی اور  بے عیب  تلخیص ہواور ظاہر ہے کسی کتابدار نے ضرور  اس کا معائنہ  بھی کیا ہو گا۔ یہ کتابدار خدا کا مثیل مانا جاتا تھا۔اس حلقے کی زبان  میں  آج بھی  اس فرقے کی  سراغ مل جاتے ہیں جو اس  دور دراز کتابدار کو پوجتا تھا۔کئی لوگ اس کی تلاش میں نکلے ۔پورے سو سال لوگوں نےلاحاصل تلاش میں   ہر ممکن  اور ہر ایک راستے کی خاک  چھانی۔ کسی  ایسی مقدس خفیہ مسدس کو کوئی کیسے تلاش کر سکتا ہے جس نے متلاشی ہی  کو  اوٹ دے رکھی ہو؟کچھ نے  تلاش کے لئے بتدریج تنزلی کا یہ طریقہ تجویز کیا کہ کتاب’’ الف‘‘  تلاش کرنے کے لئے پہلے کتاب ’’با‘‘ سے رجوع کیا جائے جو کتاب’’ الف‘‘  تک راہنمائی کرے،  کتاب’’با‘‘  تلاش کرنے کے لئے پہلے کتاب ’’جیم‘‘ سے رجوع کیا جائے، اور اس طرح لاانتہا سلسلہ۔۔۔اسی  قسم کے  جوکھم ہیں جن میں پراگندہ حال مصروف ، میں نےاپنے   ماہ و سال صرف  کر ڈالے۔میں  اسے خلاف قیاس نہیں سمجھتا  کہ ایسی کو ئی’’کُل کتاب‘‘[4]  کائنات میں کسی الماری  میں  موجود ہو۔میں نادیدہ   دیوتاؤں سے دعاگو ہوں کہ کوئی انسان، بے شک صرف ایک ایسا انسان  توہو جس نے بیسیوں  صدیاں پہلے  چھان پھٹک کر اُس  کتاب کا مطالعہ کیا ہو۔اگر  ایسے کسی مطالعے  سے حاصل ہونے وا لی عزت وحکمت اور مسرت میری قسمت میں نہیں تو دوسروں کے لئے تو ہو۔جنت موجود ہونی چاہیے بھلے میرا  ٹھکانہ جہنم ہی کیوں نہ ہو۔چاہے   تعذیب واذیت  اور   نیست و نابود ہونا ہی میرا مقدر ٹھہرے، فقط ایک ساعت، ایک مخلوق تو ایسی ہو  جس میں تیرا ضخیم و جسیم  کتب خانہ  اپنا جواز پا سکے۔

بےاعتقادوں کا دعوٰی ہے کہ کتب خانے کا  قاعدہ  ’’  معنویت ‘‘ نہیں  بلکہ  ’’ لامعنویت ‘‘اور معقولیت (یہاں تک کہ  عاجز، خالص   مطابقت) تقریباً معجزانہ  استثنا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ  وہ  ’’ایک بے چین کتب خانے ‘‘ کےمتعلق بات کرتے ہیں ’’جس کی  بے قاعدہ جلدیں مسلسل  دوسری جلدوں کی  ہئیت  میں  ڈھل جانے کی دھمکی  دیتی  رہتی ہیں تاکہ  تمام اشیا  کا  رد ّو اثبات کیا جا سکے،  انہیں یوں درہم برہم ، منتشر و  مبہم کیا جا سکے، جیسے کوئی  دیوانی اور  پراگندہ  الوہیت ہو۔‘‘ یہ الفاظ جو نہ صرف  بے ترتیبی کو مشتہر کرتے  بلکہ اس  کی نظیر بھی پیش کرتے ہیں، بے اعتقادوں  کے تأسف انگیز  ذوق  اور  یاسیت  انگیز جہالت  کا بیّن ثبوت ہیں۔کیوں کہ کتب خانے میں گو  تمام  لفظی ڈھانچے یعنی پچیس حروفی علامات  کے تمام ممکنہ تغیرات موجود ہیں،  اس میں کوئی ایک بھی مطلقاً نامعقول  نمونہ موجود نہیں۔یہ مشاہدہ  بے معنی ہے  کہ میری زیر نگرانی تمام مسدسوں  میں  موجود بہترین جلد  کا عنوان  ’’بل کھاتی گرج‘‘ ، یا ایک اور کا عنوان  ’’پلستر زدہ شکنجہ‘‘ یا  ایک  اور  ’’ایکساایکساایکساز  ملو‘‘ ہے۔یہ عبارتیں جو کہ پہلی نظر میں  مہمل  لگتی ہیں بلا شک و شبہ  ایک رمزی یا  تمثیلی ’’مطالعے‘‘ کا موضوع بن سکتی ہیں۔  وہ  مطالعہ یعنی کہ لفظوں کی  ترتیب اور وجود کا وہ جواز   فی نفسہٖ  لفظی ، فرضی اور کتب خانے کے اندر ہی کہیں موجود ہے۔ حرفی علامتوں کی کوئی ممکنہ  ترکیب  مثلاً    ’’دحکمرلکھتدج‘‘ تخلیق نہیں کی جا سکتی جو مقدس کتب خانے  کی پیش بینی سے بعید اور  اپنے ایک یا ایک سے زیادہ خفیہ لہجوں میں کوئی ہولناک مفہوم  نہ  رکھتی ہو۔ایسا کوئی  صوتی پیکر منہ سے نہیں اگلا  جا سکتا  جو  نزاکت یا دہشت  سے  لبریز نہ ہو، جو ان میں سے کسی بھی زبان میں خدا کا اسمِ اعظم نہ ہو۔ بات کرنا  ایسے ہی ہے جیسےتکرار ِمعنی ۔یہ بے معنی لفّاظ  مراسلہ  پہلے ہی سے   لاتعداد مسدسوں میں سے کسی ایک  کی پانچ الماریوں  میں  رکھی گئی تیس میں سےکسی  ایک  جلدمیں موجود ہے۔ (تمام ممکنہ زبانوں کی کوئی ایک  تعداد ’’لا‘‘ یکساں  ذخیرۂ الفاظ  پر  مشتمل ہے۔ ان میں سے چند   کے اندر علامت ’’کتب خانہ‘‘درست تعریف    رکھتی  ہے یعنی   ’’ایک ہی وقت میں ہر جگہ موجود  مسدس  راہداریوں کا ایک لازوال نظام‘‘، جبکہ  کتب خانہ ایک شے  کی حیثیت میں  روٹی کا ایک ٹکڑا ہے ، یا کوئی مقبرہ یا کچھ اور، اور  وہ چھ حروف جو اس کی تعریف کرتے ہیں آ پ اپنی مزید تعریفیں رکھتے ہیں۔تم جو میری تحریر میں غوطہ زن ہو، کیا تمھیں یقین ہے  کہ تم میری زبان سمجھتے ہو؟)

باضابطہ تصنیف نگاری میرا رخ انسانیت  کی موجودہ حالت   کی طرف سے  پھیر  دیتی ہے۔ یہ یقین کہ  ہر چیز پہلے ہی ضبطِ تحریر ہے ہمیں موقوف کر دیتا یا  پھر محض ایک پیکرِ خیالی بنا چھوڑتا ہے۔مجھے ایسے اضلاع معلوم ہیں  جہاں نوجوان کتابوں کے آگے سر بسجود ہیں  اور ایک  لفظ بھی پڑھ نہ سکنے کے باوجود ان  کے صفحات کو  غیر مہذب وحشیوں کی طرح چومتے ہیں۔ وبائی امراض،  ملحدانہ تنازعات،  اور ناگزیر طور پر بگڑ کر  قزّاقی  میں ڈھل چکی زیارتیں آبادی کو نابود کر  چکی  ہیں۔ یاد پڑتا ہے کہ میں نے خود کشیوں کا ذکر کیا تھا جو ہر سال پہلے سے زیادہ کثیرالوقوع  ہوتی جاتی ہیں۔ شاید میں بڑھاپے اور خوف کے ہاتھوں  بھٹک چکا ہوں مگر مجھے گمان ہے  کہ بنی نوع انسان (اکلوتی نوع ) معدومی کے کنارے پر جھول رہی  ہے  اور فنا کے قریب ہے پھر بھی یہ  روشن خیال،  خلوت پسند، لامتناہی،  بدرجۂ کامل غیر متحرک،  قیمتی جلدوں سے لیس، بے معنی،  ناقابل تحلیل اور خفیہ کتب خانہ ہمیشہ  قائم رہے گا۔

میں نے صرف لفظ  ’’لامتناہی ‘‘ لکھا ہے۔ یہ صفت میں نے   محض خطیبانہ عادت  کے زیرِ اثر استعمال نہیں کی، بلکہ میں  یہ اعلان کرتا ہوں کہ دنیا کو لامتناہی سمجھنا غیر منطقی نہیں ہے۔ اس  کو محدود جاننے والے یہ مفروضہ قائم کرتے ہیں کہ  شایدکسی دور دراز مقام یا مقامات پر   غلام گردشوں ، زینوں اور مسدسوں کا  اختتام  ممکن ہے ، جو کہ ناقابل تصور اور  لایعنی ہے۔اور پھر بھی  عالم کو لامحدود گرداننے  والے یہ بھول جاتے ہیں کہ ممکنہ کتابوں کی تعداد لامحدود نہیں ہے۔میں جرأت مندی سے کام لیتے ہوئے اس قدیم مسئلے کا یہ حل تجویز کروں گا: کتب خانہ لامحدود  مگر تکراری ہے۔ اگر ایک ہمیشہ  چلتے رہنے والا مسافر  کسی بھی سمت میں سفر کرتا رہے تو وہ ناقابل ِبیان صدیوں  کے بعد  انہی جلدوں کو  یکساں بے ترتیبی کے ساتھ دہراتے ہوئے پائے گا  جو اس تسلسل کے باعث ایک ترتیب ہی تو ہے:  آہ،ایک ترتیب!  میری  تنہائیاں  اسی حوصلہ افزا  امید سے پر مسرت ہیں ۔[5]

 

پسِ تحریر: یوں تو  بورخیس کی تمام تحریروں کی  متعدد تعبیرات موجود ہیں لیکن ’’بابل کا کتب خانہ ‘‘ اس لئے ممتاز ہے کہ اس  نے  سائنس ،  فلسفے، فلم اور آرٹ میں جا بجا اپنے تاثرات   چھوڑے ہیں  اور ثانوی نوعیت  کے مستقل  مباحث کو بھی جنم  دیا   ہے۔ ایک کہانی کی حیثیت میں اس کا موضوع  بورخیس ہی کے  مضمون  ’’ کتب خانۂ کل (۱۹۳۹) The-Total-Library‘‘ سے ماخوذ ہے جس میں انہوں نے  اس  مضمون  کا ابتدائی محرک  جرمن  کہانی نگار  کرڈ لاسوٹز کی  ۱۹۰۱ میں لکھی گئی ایک کہانی کو قرار دیا ہے۔بورخیس کے  کہانیوں اور مضامین میں   استعمال شدہ مخصوص  تصورات  جیسے کہ  حقیقت، لامتناہیت، مذہبی نفسیات، سری  استدلال (cabalistic-reasoning)   اور  بھول بھلیاں  وغیرہ  اس  کہانی میں بھی  موجود ہیں۔

کتب خانے کے تصور کی کئی تعبیرات پیش کی جا سکتی  ہیں۔ مثلاً اسے کائنات کے ایک  ایسے تصور  کی  تمثیل سمجھا جا سکتا ہے جو کروّی ہے اور جس کا مرکز ہر نقطہ ہے اور محیط   لامتناہی۔  سترھویں  صدی کے ماہر ریاضیات اور فلسفی  بلز  پاسکال (Blaise-Pascal)  نے  کائنات کے لئے ایک ایسا استعارہ ہی استعمال کیا تھااور بورخیس نے اپنے کسی مضمون  میں اس کا ذکر کیا ہے۔مزید برآں یہ تصور  بھی  وزن  رکھتا ہے کہ ایک ایسے  کتب  خانہ میں کوئی کتاب موجود نہیں  جس میں تمام ممکنہ کتابیں موجود ہوں اور بے ترتیبی  سے رکھی ہوئی ہوں کیوں کہ ایسے کتب خانے سے کوئی معانی درآمد کرنا  نظری طور پر ناممکن ہے۔ اس  نظریےکو  بورخیس کے کئی شارحین  نے   مختلف کمپیوٹر پروگراموں کے ذریعے واضح کیا ہے۔کتب  خانے کی ایک اور دلچسپ ترین   جہت ریاضیات سے تعلق رکھتی  ہے جس  کے باب میں کچھ ریاضی دانوں نے کتب  خانے کی کتابوں کا ایک تخمینہ  لگانے کی کوشش کی ہے اور ان کے نزدیک   اس کی ایک کتاب  معلوم کائنات جتنی  جگہ کا احاطہ کر لے گی۔  ایک لامتناہی کتب خانے  سے کئی فلسفیانہ مسائل بھی  جڑے ہیں۔ کانٹ  کے  مطابق ذہن  ہمارے  حقیقت کے متعلق تجربے کو متشکل کرتا ہے لہٰذا  قوائدِحقیقت   ذہن سے تعلق رکھتے ہیں۔اگر ہم ان قواعد کو جان لیں تو ہم حقیقت کو سمجھ سکتے ہیں۔اسی طرز پر   چوں کہ کتب خانے کی ہر کتاب کی کنجی  کسی دوسری کتاب میں ہے،  لہٰذا’’ارغوانی مسدس‘‘ میں شاید کوئی ایسا ہی مجموعہ قوائد پوشیدہ  ہے جو دوسری تمام مسدسوں میں موجود کتابوں کے لئے کنجیوں کا کام کر سکتا ہے۔کتب خانہ کو پورے طور پر سمجھناا صل میں حقیقتِ مطلق تک مکمل رسائی  ہے اور اس کوشش کی نفسیاتی جہت یہ ہے کہ معلومات کا لامتناہی خزانہ اپنے اندر اتنی بے انتہا کشش رکھتا ہے کہ  انسان  اس جستجو میں کھو کر اپنی کتاب زندگی لکھنے سے  قاصر رہتا  ہے۔ کیوں کہ آخر جو بھی وہ لکھے  گا وہ تو پہلے ہی اسے کسی نہ کسی مسدس کی کتاب الماری میں  کہیں موجود ہے۔ایک تعبیر یہ بھی ہے کہ اگر ایک مصنف ارب ہا ارب سال کتب خانہ کی مختلف کتابو ں سے حروفی علامات  جمع کرتا رہے تو  آخرکار وہ متن تشکیل پا جائے گا جو اس  کے تصور  میں ہے۔ مزید ایک تعبیر وہ  جوابی دلیل ہے جو  خدا کی ہستی کے اثبات میں  دلائل  کے خلاف ڈیوڈ ہیوم نےایک فکری تجربے کے طور پر پیش کی ہے جس میں ایک اسی طرز کےفطری  کتب خانے  کا ذکر ہے۔آخرش اس انوکھی تعبیر کا ذکر ضروری  ہے جس کے مطابق کتب خانہ  متناہی ہے کیوں کہ  ہم نظری طور پر تاریخ  میں  ایک ایسی ساعت  پر ضرور پہنچیں گے  جہاں  سب کچھ ضبطِ تحریر ہو چکا ہو گا ۔یوں مورس علامتی نظام (Morse-Code)اور  ثنائی ضابطہ  (Binary-Code) کی  ایجادات  کے بعد  پورا کتب خانہ صرف  دو علامات یعنی  نقطے اوروقفے  کی مدد سے  تعمیر کیا  جا سکتا ہے اور کائنات کی ہر سچائی اور ہر قابل  بیان شے  انہیں دو نشانات کی مسلسل ترتیب بدلنے  سے بیان  کی جا سکتی ہے۔

[1]  اصل مسودے میں نہ تو  اعداد ہیں اور نہ ہی حروف جلی،  رموز اوقاف واوین اور  وقفوں تک  محدود ہیں۔یہ دو نشانات، فاصلہ اور بایئس حروف  ابجد وہ  پچیس علامات ہیں جن کی طرف ہمارا نامعلوم مصنف اشارہ کر  رہا ہے۔(مدیر)

[2]   قدیم وقتوں میں  ہر تین مسدسوں کی جگہ ایک آدمی تھا۔ خود کشی اور پھیپھڑوں کے امراض نے اس تناسب  کو بگاڑ کے رکھ دیا۔ایک ناگفتہ بہ  پر ملال یاداشت: میں نے  بعض اوقات ایک بھی  کتابدار سے مڈبھیڑ ہوئے بغیر،      لمبی غلام گردشوں اور   چمک دار زینوں کے  سفرمیں راتیں گزاریں ہیں۔

 [3]  ارجنٹائن کے ایک صوبے میں بولی جانے والی ایک جنوبی امریکی زبان۔

   [4]  میں دہراتا ہوں: ایک کتاب کے موجود ہونے کے لئے یہ کافی ہے کہ وہ ممکن ہو۔ صرف ناممکن مستثنٰی ہے۔مثال کے طور پر ایسی کوئی کتاب نہیں جو زینہ بھی ہو گو بے شک ایسی کتابیں موجود ہیں جو  اس امکان  کے بارے  میں بحث کرتی ہیں اوراس کا ردّ و اثبات کرتی ہیں ،  علاوہ ازیں دوسری ہیں  جن کی ساخت ایک زینے سے مشابہ ہے۔

[5]  لیٹیزیا  ایلواریز  ڈی ٹولیڈو  نے یہ مشاہدہ کیا کہ وسیع کتب خانہ بے معنی ہے، دقّت نظر سے کام لیں تو عام جسامت کی نو یا دس ٹائپ میں تحریر کردہ  ایک  جلد  کافی ہے جو لامتناہی تعداد میں لامتناہی رقاقت کے حامل صفحات پر مشتمل ہو۔(سترھویں صدی کی اوائل میں کیویلیئری نے  یہ دعوی کیا کہ ہر ٹھوس جسم  لامتناہی مسطحات کا انطباق ہے۔)اس نفیس دستور العمل کااستعمال آسان نہیں ہے: ہر   ظاہری صفحہ دوسرے اسی طرح کے صفحات میں کھلے گا اور ناقابل تصور وسطی صفحے کا کوئی ’’عقب‘‘ نہیں ہو گا۔

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search