ڈاکٹر احمد حسین کمال – امجد شاکر

 In یاد نگاری

ڈاکٹر احمد حسین کمال بہت سی گفتنی اور نا گفتنی باتیں سناتے تھے جن میں بہت سی باتیں بعد میں منظرِ عام پر آئیں اور بہت سی باتیں ابھی منظر پر آنا باقی ہیں۔وہ ایک مورخ ہی نہیں، ایک زندہ تاریخ بھی تھے۔

ڈاکٹر کمال صاحب سے میں نے پہلی ملاقات میں یہ سوال کیا تھا کہ اسلامی نظریہ اور نظام کیا ہے؟پہلی ملاقات میں تو یہ سوال قمر یورش نے اچک لیا تھا اور اپنے ڈھب سے اس کا خاص جواب بھی پیش کر دیا تھا،لیکن یہ سوال میرے دماغ میں ابھی تک مستولی تھا۔میں نے مابعد کی ایک ملاقات میں ان سے دوبارہ یہ سوال پوچھ لیا۔اب  کے قمر یورش یا اُس جیسا کوئی دوسرا شریکِ بزم نہ تھا۔ڈاکٹر صاحب بھی جواب دینے کے موڈ میں تھے۔انھوں نے ارشاد فرمایا:

“اسلام نہ تو سیاسی نظام ہے،نہ معاشی نظام ۔اسلام میں نہ ہی دوسرے سیاسی نظاموں کی طرح کی تفصیلات ملتی ہیں۔نظام کا تو اپنا ایک مفہوم ہے۔اس کو چلانے کے لیے مخصوص ادارے ہوتے ہیں۔یہ تو بہت محدود چیز  ہے۔آپ نے وفاقی نظام،وحدانی نظام،صدارتی نظام،پارلیمانی نظام،سرمایہ دارانہ نظام،اشتراکی نظام وغیرہ اصطلاحیں تو سُنی ہوں گی۔اسلام اس طرح کی کوئی چیز تو نہیں ہے۔ـــ”

جی ہاں! میری سانس میرے حلق میں اٹک رہی تھی۔میں سچائی کے قریب پہنچ رہا تھا۔

انہوں نے فرمایا:‎

“اسلام تو ایک Manifesto  کی طرح ہے جس میں مختلف مقاصد اور ترجیحات موجود ہیں۔آپ ان مقاصد اور ترجیحات کے حصول کے لیے مختلف زمانوں میں مختلف ملکوں میں ایک نظام تشکیل دیں گے۔یہ نظام انسانی ہو گا اور ترجیحات ومقاصد اسلام  کے ہوں گے۔”

اب مجھے ڈاکٹر احمد حسین کمال کی عمر بھر کی سیاسی فکر سمجھنے میں آسانی ہو گئی۔ان کا دینی جماعتوں اور سیکولر لوگوں سے بیک وقت تعلق اب میں سمجھ سکتا تھا۔ان دونوں رویوں میں مطابقت تھی،تضاد نہیں تھا۔ڈاکٹر صاحب مولانا ابوالکلام کے نیازمند بھی تھے،مولانا عبیداللہ سندھی کے تلمیذ بھی۔اُن کے افکار میں دونوں بزرگوں کے افکار وخیالات گلے ملتے نظر آتے تھے۔وہ دونوں اکابر کے افکار کو اپنی ذات میں جذب کیے ہوۓ تھے۔یہی ان کی شخصیت کی انفرادیت تھی۔ڈاکٹر احمد حسین کمال ادارہ نداۓ انقلاب میں لکھتے رہے۔برصغیر کی تاریخ پر بہت کچھ لکھا کیے،مگر ان میں سے کچھ تو نداۓ انقلاب کے صفحات پر چھپا اور پھر کہیں گم ہو گیا۔خود میرا ریکارڈادھورا تھا اور وہ بھی رسائل کے ذخیرے میں چُھپ گیا۔الفتح کے مضامین بھی مرتب ہو کر شائع نہ ہو سکے۔بہت سی دوسری تحریریں مکمل تو ہوئیں،مگر مرتب ہو کر شائع نہ ہو سکیں۔ڈاکٹر کمال صاحب نے بتایا کہ یہ تحریریں کسی لائبریری میں رکھوا دی جائیں گی،مگر ان کا کیا ہوا،مجھے کچھ معلوم نہیں۔ایک بار میں نے ان کی اشاعت پر اصرار کیا تو کہنے لگے:

“میرے پاس وسائل نہیں۔”

میں نے کہا:

“آپ ان کتب کا اشتہار دے کر پیشگی قیمت وصول کر کے شائع کر دیں۔”

فرمانے لگے:

“درخت پر موجود پھل بیچنا منع ہے تو اشاعت سے پہلے کتاب بیچنا کیسے جائز ہے۔”

یہ تھے وہ ڈاکٹر احمد حسین کمال جنھیں ایک مکتبِ سیاست کے اخبارات کمیونسٹ،دین دشمن اور جانے کیا کچھ لکھتے رہے۔میں تو ان کے تقوی پر ایمان لے آیا۔

ڈاکٹر کمال کبھی کبھی ایک صوفی کی طرح لگتے جو عبادت اور عشق کے مراحل طے کر کے معرفت کے مقام پر ہو۔اس میں عبادت،عشق اور معرفت کی حقیقتیں بیک وقت سانس لے رہی ہوں۔جس کی عبادت حساب کتاب والی عبادت نہ ہو۔جس کا عشق ادب اور عبادت سے محروم نہ ہو اور جس نے معرفت پانے کےبعد تھیّا تھیّا کرنا ترک نہ کیا ہو۔اس کا تھیّا تھیّا سنائی نہ دیتا ہو، دکھائی نہ دیتا ہو،مگر اس کے عمل میں کہیں بطون میں تھیّا تھیّا موجود ہو۔ڈاکٹر صاحب ایک صوفی ہی تھے جنھیں اپنی ذات کے بارے میں کوئی خوش خیالی نہ تھی۔جسے اپنی باتوں اور اپنے علم کی بھی کوئی پروا نہ تھی۔وہ لکھتا تھا کہ اس کو لکھنے پر مامور کیا گیا تھا۔اس کے لیکھ کتاب کا روپ دھاریں یا مخطوطے کا، کسی لائبریری کے کونے کھدرے میں چھپے پڑے رہیں یا فٹ پاتھ پر بکیں، کسی شوروم کی زینت بنیں یا کسی طالب علم کی الماری میں کاغذوں اور کتابوں کے ڈھیر میں چُھپ جائیں،اس کو ان باتوں سے کیا لینا دینا۔وہ تو صوفی تھا۔اگر کوئی اعتراض کرتا،وہ مسکرا دیتا، کوئی الزام لگاتا،چپ رہتا۔کوئی شخص سوال کرتا،تو اس کے ظرف کے مطابق جواب دیتا۔وہ بولتا تھاکہ بولنے پر مامور تھا،مگر اتنا بولتا تھا جتنا اسے بولنا چاہیے تھا۔اتنا لکھتا تھا جتنا ضروری تھا۔وہ جو بولتا ، جو لکھتا تھا بس اتنا لکھتا کہ اس کا حساب دے سکے۔اس کے بارے میں کہیں شرمندہ نہ ہو۔ اسے سر   نہ جھکانا پڑے۔وہ کہیں بھی بیٹھا رہتا،وہ ڈاکٹر کمال ہی رہتا۔وہ ادارہ نداۓ انقلاب میں تھا تو اس پر نداۓ انقلاب کا لیبل نہ لگ سکا،پھر میں نے اس کو تحریکِ استقلال والوں کے ہاں دیکھا،مگر وہ ڈاکٹر کمال ہی لگتا،اس پر تحریکِ استقلال کا لیبل چسپاں نہ ہو سکا۔وہ صوفی تھا۔اس لیے اُس پر لیبل کیسے لگتا۔مولانا ابو الکلام کانگریس میں تھے،ان پر کانگریس کا لیبل لگائیں تو وہ چھوٹا پڑ جاتا ہے۔مولانا مدنی تھے ان پر کوئی لیبل چسپاں نہیں ہوتا، مولانا سندھی تھےان پر کوئی سا لیبل لگائیں،وہ چھوٹا پڑ جاۓ گا۔اس لیے کہ یہ لوگ عارف تھے۔ڈاکٹر کمال بھی عارف تھا۔ان بزرگوں سے بہت چھوٹا تھا،مگر ان بزرگوں کے خوان علم و معرفت سے ریزے چن چکا تھا۔اس لیے وہ بھی عارف تھا۔اس منزل کا عارف جہاں عبادت کی نمائش نہیں کی جاتی،عشق کا تھیا تھیا سنائی نہیں دیتا۔صرف معرفت کا سکون ہوتا ہے۔اس میں ہر لمحہ عبادت ہے۔ہر طرح کی عبادت ہے۔ہر حکم کی بجا آوری ہے۔اس طرح نہیں جیسے نمبر ٹانکنے والا ماتحت کارروائی ڈال رہا ہو۔اس عاشق کی طرح حکم کی بجا آوری ہے جیسے یہ حکم نہیں اس پر انعام ہے،اس پر احسان ہے۔اس کی بجاآوری اُس کی فطرت کی ضرورت ہے۔اس کی بجا آوری کے بغیر وہ ادھورا ہے۔یہ حکم نہ ہوتا تو اس کے لیے سانس لینا دشوار ہو جاتا۔یہ معرفت کا مقام ہے۔ڈاکٹر کمال کے ہاں معرفت کایہ مقام تھا یا نہیں، مگر معرفت کا یہ سکون ضرور دکھائی پڑتا تھا۔

ماخذ : روایت (خاکے)

سنِ اشاعت :۲۰۱۴

ناشر: سانجھ

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search