وائلن، ایک سرخ ہندی کہانی: جان نائیہارڈٹ (ترجمہ : قیصر شہزاد)

 In ترجمہ

 گاؤں کے سب سے بڑے خیمے میں قبیلے کے بزرگ اکٹھےتھے اور ان سب کے چہروں پر سنجیدگی اور فکرمندی چھائی ہوئی تھی کہ  آج   انہیں ایک ملزمہ   کا مقدمہ سن کر  اپنا فیصلہ سنانا تھا۔ پائپ کا دور چل رہاتھا لیکن سب لوگ  خاموش تھے ۔  انسان سے نیک روحیں سکوت  کے عالم میں ہی ہمکلام ہوسکتی  اور رہنمائی کرسکتی ہیں۔  وہ سب خوب جانتے تھے کہ کسی کے جرم یا بے گناہی کا فیصلہ کرنا کتنی  بھاری  ذمہ داری ہے ۔

وہ سب یوں ہی  خامشی اور گہرے غور وفکر  میں ڈوبے  تھے کہ خیمے کے کواڑ  کا کپڑا ہٹا کر دو افراد داخل ہوگئے: گزرے  سالوں کے بوجھ  سے خمیدہ کمر لیے  ایک بڈھا اور اس کے پیچھے  ایک نوجوان لڑکی جس کی آنکھوں میں ابھی تک بہار کے آثار نمایاں تھے ۔ وہ دونوں   دائرے کی صورت  میں  بیٹھے سیانوں  سے پیچھے  براجمان ہوچکے تو سردار  نے بلند آواز میں   بڈھے کو بات شروع کرنے کااشارہ کیا۔ بوڑھا کھڑا ہوا اور کہنے لگا:

’’ میں اپنا دکھی دل لیے آپ کے سامنے کھڑ ا ہوں  کیونکہ میں آپ کی عدالت میں  جو مجرم  لایا ہوں وہ کوئی اور نہیں بلکہ میری اپنی بیٹی ہے۔ اگر  میں چاہتا تواس کا جرم  اپنے سینے کی گہرائیوں میں دفن کردیتا، لیکن میں   بوڑھا ہوں اور پرانے بزرگوں سےسمجھداری  کی بہت باتیں سیکھ چکا ہوں  ۔ جرائم کو بھلا کون اتنا گہرا دفن کرسکتا ہے کہ روحیں ان سے لاعلم رہیں؟

لیکن  آپ کے سامنے  میں صرف اپنی بیٹی ہی کو نہیں بلکہ اپنے آپ  کو   بھی  ملامت کرتا اور قصور وار ٹھہراتا ہوں کہ باپ اوراولاد  میں کوئی فرق نہیں ہوتا، وہ دراصل  ایک ہی وجود  ہوتے ہیں۔

آپ لوگوں کو وہ سفید فام آدمی  یاد ہوگا  جوتین برساتیں قبل  ہمارے ہاں آیا تھا۔ وہ بدقماشیاں کر کے خوش ہونے  والے  اپنے دوسرے بھائی بندوں جیسا ہرگز نہ تھا۔ وہ ان سب سے بہت مختلف اور منفرد تھا۔ یاد ہے نا اس کی باتیں اور کام کتنے اچھے اور آواز کتنی میٹھی تھی ۔  مرد ہونے کے باوحود  اس کا چہرہ کسی دوشیزہ جیسا پرکشش لگتا تھا۔ اس کے ہاتھ  سبزے پر گری  پہلی برف کی مانند سفید اور بال ہمارے لوگوں جیسے لمبے تھے  اور  وہ اس کے سر پر یوں جمے رہتے گویا کسی ڈھلتی شام کا  بھورا بادل۔

 ہمارے پاس جب وہ پہنچا تو بہت  کمزور اور بھوکا  تھا ۔ یہی حال اس کے خچر کا بھی تھا۔  ہم نے خوشدلی سے اس کا استقبال کیا اور اس کی خاطر مدارت  کے لیے الاؤ دہکاکر  ضیافتوں کا اہتمام کیا تھا۔  اسی طرح اس کے خچر کو ہم نے چرنے کے لیے سرسبز ترین چراگاہوں میں چھوڑدیاتھا، اس لیے کہ  وہ ہمیں دوسرے گوروں سے بہت مختلف لگا تھا۔

 اپنے ساتھ وہ لکڑی اور تانتوں سے بنا ایک ڈبا لایا تھا۔

 ایک روز  جب ہم سب کھانے میں مشغول تھے  اس نے    ڈبے کی تانتوں پر ایک چھڑی   رگڑنا شروع کی جس پر خچر کی دم کے بال بندھے تھےتو اس ڈبے سے ایسے گیت سنائی دینے لگے جو ہماری بہترین گانے والیوں کے گیتوں  سے شیریں تر اور خوش باش مردوں کی آواز سے بھی زیادہ گہرے تھے۔

ہم  سب حیرت زدہ سوچ رہے تھے کہ  گوروں کا جادوکتنا بڑھیا ہے۔ اور پھر  جب اس نے تانتوں اور لکڑی کی سنگت سے   گیت  پیدا کیا تو ہم  سب اس قدر مبہوت ہوئے کہ کھانا بھول گئے ، یہاں تک کہ ہمارے الاؤ سرد پڑگئے۔ ہمارے دیس میں ایسے گیت پہلے کبھی نہ سنے گئے تھے۔  

پھر اس نےزخم خوردہ  ریگستانی سانپ  کی مانند پھنکارتے ، جنگجوؤں کی مانند للکارتے ،  تیروں کی طرح چیختے ، خچروں کےسموں  کی طرح  گرجتے ، جنگ میں کام آجانے والے  سورماؤں کو واپس لاتے جتھوں کو دیکھ کر بین کرتی عورتوں کی آہوں اور کراہوں  جیسے جنگی ترانوں  کی دھن سنائی ۔ یہ دھن سن کر ہم   سب، یہاں تک کہ مجھ جیسے بوڑھے  اور سیانے بھی ایک دم کھڑے ہوگئے ، اپنی تلواریں سونت لیں اور جنگی نعرےلگانے لگے۔ اس قدر پر اثر تھا وہ نغمہ!  ہمارا شور تھما تو  اس آدمی نے اپنے جادوئی ڈبے سے  دھیما اور رات کو  اپنے بیمار بچے پر  روتی کسی عورت جیسی نرم آواز کا ایک نغمہ سنایا۔  اسے سنتے ہی ہم اپنے جنگی نعرے بھول کر بوڑھیوں کی مانند آنسو بہانے لگے۔

  ہم اسے’ گیت گاتے ڈبے والا ‘ کے  نام  سےپکارا کرتے ۔

تم لوگوں کو یاد ہے نا وہ شخص ؟

کئی چاند طلوع  و غروب ہوئے پر وہ ہمارے درمیان  ہی رہا، یہاں تک کہ وہ  تقریبا ًہمارا ہم وطن ہوگیا ۔  اپنی سمجھداری سے  اس نے ہماری زبان بھی سیکھ لی تھی۔ایک مرتبہ  اس نے ہمیں   کسی اور قبیلے کے آوارہ گرد کی کہانی سنائی تھی، جسے اس کی قوم نے دھتکار دیا تھا ۔ اس آورہ گرد کا جرم یہ تھا کہ اسے  گیت گانے والی روحوں  سے محبت  تھی اور محبت بھی  اس سے کہیں زیادہ جتنی کوئی دولت مند اپنے خزانو ں سے کرتا ہو۔ہم سمجھ گئے  تھے کہ وہ کسی اور کی نہیں بلکہ اپنی ہی داستان سنا رہا ہے: آوارہ گرد وہ خود ہی تھا۔ یہ داستان سن کر  اور اس کی نرم گفتاری اور  اس کے جادوئی نغموں کے  باعث ہم اس سے محبت کرنے لگے۔

اس عرصے میں  یہاں بیٹھی میری یہ لڑکی روز بروز لمبی اور خوبصورت ہوتی گئی۔

 کئی مرتبہ میں اپنی بیوی سے کہا کرتا: ’’ ان دونوں کے درمیان  کچھ نہ کچھ ضرور ہے ‘‘ ۔او ر ہم سب یہ خوشدلی سے دیکھ رہے تھے کیونکہ وہ آدمی بہت عظیم تھا۔

اور پھر ایک رات میری آنکھ اچانک کسی نوحے کی سی آواز سے کھل گئی۔عجیب بات یہ تھی کہ نوحے کی سی  وہ آواز  کانوں کو کھنکھاتی ہنسی سے زیادہ بھلی معلوم ہوتی تھی!  لمحہ بہ لمحہ بلند ہوتی اور پھر ویرانوں میں بین کرتی رات کی ہوا کی طرح مدھم پڑتی  ایک ماتمی دھن!

پاس سے میری بیوی نے سرگوشی کی: ’’ یہ گیت کوئی آدمی نہیں بلکہ روحیں گارہی ہیں۔ ‘‘

 میری بیٹی خاموش رہی اور  بس اس کے  بھاری سانسوں کی آوازیں  مجھے اندھیرے میں سنائی دیتی رہیں۔

میں نے  اٹھ کر  چمڑے کے پردے کو ہٹایا تو  یوں لگا گویا میں کوئی خواب دیکھ رہا ہوں ۔  کچھ ہی  دور ٹیپی کے سامنے وہ اپنے گانے والےڈبے کو گردن کے ساتھ ٹکائے  کھڑا تھا۔  اس کی لانبی سفید انگلیاں  تانتوں کو چھیڑرہی تھیں اور اپنے بازو سے وہ  بال لگی چھڑی کو اوپر نیچے گھما رہا تھا۔ اس کا چہرہ آسمان کی جانب بلند تھا اور سفید الاؤ  کی روشنی میں  دمک رہا تھا۔ ویسا چہرہ میں نے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا  وہ نہ تو کسی مرد کا سا تھا نہ کسی عورت جیسا۔ ستاروں کی رہگزر سے لوٹ آئی کسی نیک روح جیسا تھا وہ چہر ہ! ۔ میں نے اس کے ہونٹوں کو غور سے دیکھا کیونکہ مجھے محسو س ہوا تھا کہ گیت اس کے منہ ہی سے برآمد ہورہے ہیں ، لیکن اس کے ہونٹ ساکت تھے۔

میری آنکھیں  اشک بار ہوگئیں  کہ بہت سے بھولے بسرے غموں نے مجھے ایک دم پھر سےگھیرلیا تھا۔ اور مجھے اپنے اندر ہر چیز کے لیےبہت گہری اور ناقابلِ فہم ہمدردی امڈتی محسوس ہوئی۔

پھر اس نے  جب اپنے بازو گرائے اور مجھ پر نگاہ ڈالی تو میرے سینے پراس کی آنکھوں سے نرم سفید آگ سی گرنے لگی۔ تب مجھے پتہ چلا کہ اس کا وہ  گانا میرے لیے نہیں تھا۔  جب میری بیوی ابھی نوجوان لڑکی ہوا کرتی تھی اور اپنے ماں باپ کے ساتھ رہا کرتی تھی تب میں بھی اسے اسی طرح دیکھا کرتا تھا۔

پس  میں نے اپنی بیٹی  کو اس شخص سے بیاہ دیا ۔ کچھ عرصہ گانے والا ڈبہ خاموش رہا، کہ تب وہ دونوں بس آپس میں اور اپنے لیے ہی گیت گایا کرتے تھے۔ ابھی پہلی برفباری سے درختوں نے  کانپنا شروع نہیں کیا تھا کہ   سمور کی تجارت کرنے والے گورے ہمارے گاؤں آپہنچے  اور وہ  بھی اپنی بیوی ساتھ لیے ان کے ساتھ چلا گیا۔ ظاہر ہے  کوئی  بھی اپنے قبیلے والوں کی آواز پر لبیک کہے بغیر نہیں رہ سکتا۔ تو اسے جانا ہی تھا ۔

اور باقی کہانی  اب یہ لڑکی خود بیان کرے گی اور اس کے بیان کی روشنی میں آپ لوگ فیصلہ کرسکیں گے۔ ‘‘

یہ کہہ کر بوڑھا بیٹھ گیا اور سر کو اپنی ہتھیلیوں پر ٹکا لیا۔

لڑکی کی داستان سننے کےلیے  سیانے  آگے کو  جھک آئے ، ان سب کے منہ تجسس کے مارے  کھلے ہوئے تھے۔ لڑکی خوب صورت ، لمبی او ر دبلی تھی ۔ لیکن اس کے  نرم گالوں پر اور مسلسل رونے سے بڑی ہوچکی  اس کی سیاہ آنکھوں کے گرد بڑی جانفشانیوں اور دکھوں کے سائے  منڈلاتے دکھائی دیتے تھے۔  

’’ میرے بزرگو، میں آپ کے سامنے اپنا جرم کروں گی  تاکہ پھر آپ لوگ فیصلہ سناسکیں۔ مجھے ہر سزا قبول ہوگی   کہ  میں خود کو ندامت کے پہاڑ تلے دبا محسوس کرتی ہوں اور یہ بوجھ اب مزید برداشت نہیں کرسکوں گی۔ ‘‘

’’ تین گرمیاں پہلے میں جادوئی ڈبے والے شخص کے ساتھ شمال کو گئی تھی۔ یہ تو آپ جانتے ہیں لیکن باقی قصے سے آپ لوگ ناواقف ہیں۔ گورے لوگ ایک سفید دھات کی خاطر کشٹ اٹھانے کے عادی ہیں ۔ان لوگوں نے میرے خاوند کو یہ دھات دکھائی تھی اور اسی کی تلاش اسے اجنبی لوگوں کے درمیان شمال کی جانب لے گئی، وہاں جہاں اسمو ر اکٹھے کرنے کا بہت رواج ہے۔ میں بھی اس کے ساتھ چل پڑی تھی کہ بیوی کا کام ہی  شوہر کی پیروی کرنا ہے۔

شمال کی جانب ہم دور بہت دور چلتے گئے اس مقام کی جانب  جہاں دریا کا پاٹ اتنا سمٹ جاتا ہے کہ چھوٹا سا بچہ بھی پتھر ایک کنارے سے دوسرے کنارے پر پھینک سکے۔  وہ گانے والا ڈبہ بھی ہمارے ہمراہ تھا۔

وہاں رہنے کے لیے گوروں کی طرح ہم نے بھی شہتیروں کی مدد سے ایک جھونپڑا سا بنا لیا۔  یہ جھونپڑا ہم نے  ایک بڑے  سے ڈیرے کے پاس بنایا تھا جہاں گوروں کا سردار رہتا اور ایسے فرمان جاری کرتا جنہیں سننا اور ماننا  لازم سمجھا جاتا تھا۔

کچھ دن ہم دونوں کے دل ایک ساتھ گاتے گنگناتے رہے۔ لیکن پھر برفباری شروع ہونے کے بعد ایک روز سردار نے  ایک اعلان کیا  جسے سنتے ہی  میرا  شوہراپنے بھائی بندوں اور  بہت سے کتوں  کے  ساتھ   شمال کی جانب بہت دور  روانہ ہوگیا ، جہاں نہایت بیش قیمت کھالیں ملتی ہیں۔

جاتے ہوئے میرا خاوند مجھے کہنے لگا: ’’ یہ  وائلن  مجھے اپنی زندگی سے بھی زیادہ عزیز  ہے اس لیے میرے  جانے کے بعد اس کا  اچھی طرح خیال رکھنا۔ ‘‘ مجھے اس کی بات بالکل سمجھ نہ آئی ،میں بس اسے گھورتی رہی  کہ وہ گانے والے ڈبے کا  ذکر یوں کررہا تھا گویا وہ کوئی جیتا جاگتا انسان ہو۔ مجھے اس ڈبے کا نام بھی پتہ چلا کیونکہ وہ اسے ’’ وائلن ‘‘ کہہ رہا تھا۔ میں بہت دیر حیران رہی۔

میرے دل میں چونکہ اپنے شوہر کی  بے پناہ  محبت تھی اس لیے میں نے گانے والے اس ڈبے کے ساتھ، جسے اس نے وائلن کہا تھا، بہت اچھا برتاؤکیا۔ کیونکہ اس وقت تک مجھے یہ معلوم نہ ہوا تھا کہ وہ محض لکڑی کا ڈبہ نہیں بلکہ اس کے اند ر ایک  مردہ گوری کی روح ہے۔

جاڑے کی طویل راتوں میں میں اسے کمبل میں اپنے ساتھ چپکائے رکھتی۔ رات کو کئی مرتبہ  جب کبھی  میں اسے ذرا سختی سے چھولیتی تو اس کی چیخ سے میری آنکھ کھل جاتی، وہ کسی بچے کی مانند روتا ۔ میرے دل میں اس کے لیے رحم  کا جذبہ پیدا ہوگیا کہ اس وقت میرا  اپناکوئی بچہ نہیں تھا ۔ دن کو میں اس سے باتیں کرتی رہتی ۔ اسے میں  ہر وقت نہلاتی رہتی کہ وہ صاف ستھرا رہے اور اس کے پاس سے بو نہ آئے۔ اس سے اکثر  ایسی  ہلکی ہلکی آوازیں سنائی دیتیں جیسے کوئی ننھا بچہ خوشی کا اظہار کررہا ہو۔تب میں اسے اپنی خشک چھاتیوں سے لگا لیتی اور اسے گیت سنانے لگتی۔

لیکن میرا یہ احساس روز بروز بڑھتا گیا کہ وہ محض گیت گانے والا ڈبہ نہیں بلکہ کوئی زندہ شے ہے۔ میں نے دیکھ لیاتھا کہ اس کی ہیئت کسی عورت کی سی ہے: اس کی گردن لمبوتری اور  سر چھوٹا تھا اور اس کے بالوں کی چار لٹیں  گردن اور سینے پر  کسی آبشار کی مانند گرتی تھیں۔ جوں جوں میرا  یہ احساس  بڑھتا گیا میرے سینے میں آگ سے لگتی گئی: ’ میرا شوہر  اس  وائلن سے پیار کرتا ہے کہ اس کی آواز مجھ سے زیادہ میٹھی ہے! ‘ میں اپنے آپ سے کہنے لگی: ’ یہ میرے لیے نہیں بلکہ اُس کے لیے گاتی ہے ۔ اسی کی محبت میں چُور ہے۔ ‘

جب  سبزہ ایک بار پھر اگنے لگا اور برف چٹخ گئی تو میرا  خاونددوسرےآدمیوں ، کتوں اور بہتیری  کھالوں سمیت لوٹ آیا۔ وہ سب دریا کے ذریعے بڑی بڑی کشتیوں میں سوار  واپس آئے تھے۔ جب وہ گھر پہنچا تو میں خوشی سے گیت گانے لگی  ۔ میں نے اسے بتایا کہ میں وائلن کے ساتھ کتنا اچھا سلوک کرتی رہی تھی اور میں نے اس کا کیسے خیال رکھا تھا۔ مجھے امید تھی کہ یہ سب سن کر وہ بہت خوش ہوگا۔ لیکن اس کی پیشانی پر بل آگئے اور مجھے اس نے سخت سست کہا۔ کہنے لگا کہ وائلن کو نہلانا بیوقوفی ہے۔ میرا دل ٹوٹ گیا، میں سمجھ نہ پائی کہ وہ اس قدر غصے میں کیوں  ہے؟ کیا ایک اچھی ماں اپنے بچوں کو   صاف ستھرارکھنے کے لیےنہلاتی دھلاتی نہیں؟  تب میری اپنی کوئی اولاد نہ تھی اس لیے میں نے وائلن کو بالکل اپنے بچوں کی طرح رکھا تھا۔۔

اور جب میں نے اسے یہ سب بتایا تو وہ بہت روکھی سی ہنسی ہنسا اور کہنے لگا: ’ پاگل  عورت! یہ بچہ نہیں  ، وائلن ہے۔ ‘

 جب تک اس نے  پھر سے پیار  کے دوبول مجھ سے  نہ بول دیئے  میں بہت اداس  اور غمزدہ رہی ۔ پھر کئی دنوں تک  مجھے اس کی ناراضگی یاد نہ آئی ۔

لیکن پھر جوں جوں گھاس لمبی ہوتی اور سبزے کی خوشبو ہواؤں کے دوش  رقص کرنے لگی  میرے خاوند کا رویہ میری جانب روز بروز عجیب و غریب ہوتا گیا۔ یوں لگتا تھا گویا اسے اپنے گھر کی یاد ستانے لگی ہے۔ وائلن سے گیت  سنتے ہوئے  گہری خاموشی میں گم ہوجانا   اس   کی عادت  بنتی گئی۔ کیا عجیب و غریب گیت تھے وہ!نرم ولطیف، جیسی روحیں گریہ کررہی ہوں!

اور میرا دل روز بروز وائلن سے اوبھتا چلا گیا کہ جب بھی میں وائلن سے اس کی توجہ ہٹا کر اپنی جانب مبذول کرنے کے لیے گیت گانے کی کوشش کرتی وہ  چین بجبیں ہوکر مجھے ڈانٹنے لگتا۔

تو ایک روز جب وہ سائے میں بیٹھا  اسے اپنی انگلیوں  سے سہلارہا تھا  اور اس کے  میٹھے گیت سن رہا تھا، میں نے اس سے کہا: ’’ اگر تم اپنی انگلیاں یوں ہی میری گردن پر  رکھو تو میں بھی ایسے ہی میٹھے گیت گا سکتی ہوں! ‘‘ وہ مسکرادیا اور مجھے یوں لگا گویا سارا دن بادل کے پیچھے چھپے رہنے کے بعد آخر کار سورج نکل آیا ہو۔اس نے مجھے اپنے قریب کرلیا اور کہا: ’’ اُس پیڑ کے پتے دیکھ رہی ہو،  جانتی ہو وہ کتنے ہیں؟ ‘‘ میں ہنس پڑی ، کہ میں بہت خوش تھی، اور پرانے دنوں وہ اکثر ایسے ہنسی مذاق کیا کرتاتھا۔ لیکن وہ کہنے لگا۔ ’’ جتنے اس درخت پر پتے ہیں اسی قدر گورے  وائلن پر میرے گیت سن کر آنسو بہا چکے ہیں۔ لیکن اب میں بہت دور دراز علاقے میں پھنسا ہوں اور میرے اردگرد اجنبی لوگ ہیں۔ ‘‘   

آئندہ کئی ماہ تک مجھے نصیب ہونے والی وہ آخری خوشی تھی کہ اس پر پڑنے والے خاموشی کے دورے طویل سے طویل تر ہوتے گئے۔ اور جب برف پڑنے لگی تو چلا گیا اور میں بہت اداس بہت تنہا رہ گئی۔ پھر ایک روز مجھے احساس ہوا کہ میں ماں بننے والی ہوں تو میرا دل  گیت گانے لگا ۔  میں نے سوچا: ’’ میرا شوہر اب ایک بار پھر مجھے  دیکھے گا اور مجھے سے پہلےکی طرح پیار بھری باتیں کرے گا۔ کیا یہ بھی اسے بچے دے سکتی ہے؟ ‘‘

جاڑے کے وہ سب دن میں نے بہت خوشی سے گزارے، میرا دل نرم ہو چکا تھا اور میں وائلن کا پھر سے خیال رکھنے لگی تھی، اس سے مہربانی سے پیش آنے لگی تھی ۔ مجھے لگتا تھا کہ  آخر کار اب اس کے دل میں وائلن  کا مقام پہلا نہیں ، دوسرا، میرے بعد، ہوگا۔یہ سوچتے ہوئے مجھے وائلن پر  رحم سا آنے لگا۔ اب میں اسے نہلاتی تو نہ تھی مگر برفیلی راتوں  میں اسے کئی کمبلوں میں لپیٹ کر سردی سے بچاتی  اور  خود میں کانپتی رہتی۔ 

پھر سبزے نے جب ایک بار پھر انگڑائی لی تو میرا شوہر لوٹ آیا۔ ساتھ ہی نیا مہمان ، میرا بچہ ، بھی آ پہنچا۔ لیکن میرے شوہرنے نہایت سرد مہری سے اسے دیکھا اور ذرا بھی خوش نہ ہوا۔ میں کئی راتیں، بے شمار راتیں روتی رہی۔ اس قدر روئی کہ میرا چہرہ بدنما ہوگیااور شوہر نے میری طرف دیکھنا بھی چھوڑدیا۔ اب وہ صرف وائلن کو دیکھا کرتا۔ اسے دیکھتے ہوئے اس کی آنکھوں میں بہت نرمی ہوتی بالکل ویسی جیسے پرانے وقتوں میں مجھے دیکھتے ہوئے ہوا کرتی تھی۔

میرے دل میں زہر بھرنے لگا۔

 مجھے اکثر وہ اس سے باتیں کرتا سنائی دیتا، بالکل ویسی میٹھی میٹھی باتیں جیسی وہ کبھی مجھ سے کیا کرتا تھا۔ میرا جی چاہا میں وائلن کے بال، اس کے سنہرے بال اس کی پیشانی سے  نوچ لوں،اسے مار ڈالوں ، اسے اپنے قدموں تلے روند ڈالوں، اس کے کراہنے کی آواز سنوں اور اسے مرتا دیکھوں ‘‘

عورت کی آنکھوں میں کسی جنگجو کی مانند چمک آگئی۔ اس کے ہاتھ بھنچے ہوئے تھےاور اس کا چہر ہ تند اور وحشی لگ رہا تھا۔ غیظ و غضب میں بھری وہ پہلے سے زیادہ  طویل القامت  دکھائی دے رہی تھی۔ لگتا تھا وہ جنگجو سورماؤ ں کو جنم دے چکی ہے۔

’’ اور اس رات میں نے اپنے شوہر  کو خوب جلی کٹی سنائیں ۔ میں نے وائلن کو بھی برا بھلا کہا اور اسے بد دعائیں دیں: ’ تمہاری یہ محبوبہ گاتی تو ہے لیکن ذرا بتاؤتو سہی کیا یہ تمہیں بچےبھی دے سکتی ہے؟ ‘ ‘‘

وہ کھردری سی ہنسی ہنس کر چپ ہورہا۔

پھر اسی رات جب وہ سورہا تھا میں چوری چھپے اپنے بستر سے نکلی۔ میرا سینہ دردسے  مالا مال تھااور  کئی سیاہ روحوں نے اپنے پنجے میر ے دل میں  گاڑ رکھے تھے۔ میں نے ایک چاقو، بہت تیز چاقو،  اٹھالیا۔ پھر میں نے وائلن کو اس کے بستر سے نکالا اور ٹٹول ٹٹول کر  اس کے دل کی جگہ تلاش کی اور پھر میں وار پر وار کرتی چلی گئی۔ میں نے اسے بہت گہرے گھاؤلگائے ۔ اس کا دم نکلتے ہوئے اس کی چیخیں سن کر میں زور زور سے ہنسنے لگی ۔  شوہر نے یہ آوازیں سنی تو وہ اپنے بستر سے چھلانگ لگا کر اتر آیا۔ اور مجھ پر پل پڑا۔  مجھے اس نے بہت مارا اور بہت برا بھلا کہا ۔  مجھے مارنے کے بعد بھی اس کا غصہ فرو نہ ہوا بلکہ اس نے بچہ میرے حوالے کیا اور مجھےدروازے سے باہر اندھیرے میں دھکیل دیا: ’چلی جاؤ!تم نے وائلن کو مارڈالا ہے۔ ‘

اور میں اپنا بچہ اٹھائے اندھیروں میں نکل گئی۔ کئی دن میں بھوکی پیاسی چلتی رہی اور میرا بچہ مجھے بوجھ محسوس ہوتا رہا۔

 اور اب میں مریل ہوچکی ہوں اور میرے پاؤں تھک چکے ہیں۔ ‘‘

بیٹھتے ہوئے عورت نے اس قدر ٹھنڈی آہ بھری کہ اس کاوجود تک کانپ گیا۔ اب اس کا بوڑھا باپ اٹھا، اور سیانوں  کی طرف متوجہ ہوا۔ ان سے کے بھاری سانسوں کی آواز چاروں طرف محسوس ہورہی تھی۔ اس نے کہا: ’’ میری بیٹی اپنا جرم بیان کرچکی۔اس گورے کو جس گیت گانے والی روح سے محبت تھی، یہ اس کا قتل کربیٹھی ہے۔آپ فیصلہ کریں   اس کی سزا کیا ہوگی؟ ‘‘

خاموشی کے ایک نہایت طویل وقفے کے بعد بالآخر سردار بولا: ’’ عورت کا دل بڑی عجیب چیز ہے، اس کے خلاف  فیصلہ کوئی سنا سکتا ہے بھلا! ‘‘

 فیصلہ سنانے کی غرض سے بیٹھے سب سیانے باری باری اٹھے اور خیمے سے باہر نکل گئے۔  

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search