استاد تاری خاں ۔ علی عدنان (مترجم: کبیر علی)

 In ترجمہ

استاد عبدالستار خاں تاریؔ کا شمار دنیا کے بلند پایہ طبلہ نوازوں میں ہوتا ہے۔ وہ پنجاب گھرانے کے مستند علم، اپنی فیاضی، فنِ طبلہ نوازی کے باب میں اپنی عظیم خدمات، اپنے طبلے کی بے مثل آواز اور سب سے بڑھ کر طبلے سے موسیقی پیدا کرنے کی صلاحیت کے حوالے سے جانے جاتے ہیں۔ اس مصاحبے میں انھو ں نے طبلے کے متعلق، گائیکی میں اپنی آمد ، اپنے اساتذہ، اپنے خیالات اور کئی دیگر چیزوں کے متعلق اظہارِ خیال کیا ہے۔

علی عدنان: ایک اچھے طبلہ نواز میں کن خوبیوں کا ہونا ضروری ہے؟
استاد تاری خاں: میری رائے میں، ایک حقیقی اعلیٰ فنکار تو خدا ہی آسمانوں میں بناتا ہے اور جب وہ اس دنیا میں آتا ہے تو اپنے استاد سے تربیت پاتا ہے ، جو کہ بہت ضروری ہے، مگر کسی بھی فنکار کی اصلی صلاحیت پیدائشی ہوتی ہے۔ ایک اچھا طبلہ نواز وہ ہوتا ہے جس نے ایک اچھے استاد سے سیکھا ہو۔ استاد ہی وہ بنیاد رکھتا ہے جس پر طبلہ نواز اپنی مہارت کی عمارت تعمیر کرتا ہے۔ ایک اچھے استاد سے سیکھے بغیر ایک اچھا طبلہ نواز بننا ممکن نہیں۔ جہاں تک خوبیوں کی بات ہے تو ایک اچھا طبلہ نواز لَے کو خوب سمجھتا ہے اور وقت شناسی پر کامل قدرت رکھتا ہے۔ اس کے پاس طبلے کا جامع علم اور شاندار ذخیرہ ہوتا ہے۔ وہ گانے والوں کے علاوہ بجانے والوں کے ساتھ بھی اتنے ہی اچھے طریقے سے طبلہ بجا سکتا ہے ؛ اور اُس فنکار کی خاص ضروریات کو سمجھتا ہے کہ جس کے ساتھ وہ سنگت کر رہا ہے۔ طبلہ نواز کو سولو طبلہ بجانے کا بھی پتہ ہونا چاہیے۔ سولو طبلہ بجانا کوئی آسان کام نہیں۔ ایک اچھی سولو کے لیے گہرےعلم، بہترین نظم و ضبط، اچھی یادداشت اور پرفارمنس کو بتدریج ایک نظام کے تحت آگے بڑھانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ پیش کارہ ( قاعدے کا تعارف) کی پیشکش، قاعدے کی پُر خیال مگر منضبط بڑھت، ریلوں، گتوں اور پرنوں کا نظام کے مطابق تعارف؛اور ان سب چیزوں کو ایک منظم طریقے سے پیش کرنا ایک اچھی سولو کو تشکیل دیتا ہے۔ سنگت اور سولو بجانے کے علاوہ ایک اچھا طبلہ نواز رقص کے ساتھ بھی طبلہ بجانے کی بھی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کے لیے کامل وقت شناسی اور بہت اچھی یادداشت کی ضرورت ہوتی ہے۔ سب سے بڑھ کر، ایک اچھے طبلہ نواز کا ہاتھ بہت سُریلا ہوتا ہے۔ اس کا طبلہ کانوں کو خوشگوار لگتا ہے، اس کا دایاں اور بایاں متوازن ہوتے ہیں، اور و ہ بولوں کو محبت، نفاست اور سمجھداری کے ساتھ بجاتا ہے۔ بول واضح، کرارے اور صاف ہونے چاہئیں اور ہر طرح کی لَے میں ان کی آواز ایک جیسی رہنی چاہیے۔ یہ وہ چیزیں ہیں جن سے ایک اچھا طبلہ نواز بنتا ہے۔
علی عدنان: آپ نے ایک “اچھے استاد” کی بات کی۔ ایک “اچھا استاد” کیسا ہوتا ہے؟
استاد تاری خاں: سب سے پہلے تو ایک اچھا استاد علم کا مالک ہوتا ہے۔ یہ علم قدیم و جدید ہر طرح کی طبلہ نوازی پر محیط ہونا چاہیے۔ زمانے کے ساتھ ساتھ طبلے کے فن میں بھی ارتقاء ہوا ہے۔ سو سال پہلے کا طبلہ ، اگرچہ وہ بھی اچھا اور اہم ہے مگر، آج کے طبلے سے مختلف تھا اور مستقبل کے طبلے سے بھی مختلف تھا۔ میں آپ کو ہوابازی کی صنعت سے ایک مثال دیتا ہوں۔ 1920 ءکا ریان مونو جہاز اپنے زمانے کا بہت اچھا جہاز تھا، انجینئرنگ کا ایک شاہکار، اور سب سے پہلے بین البراعظمی پروازوں کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔ آج ہم بہترین جہازوں سے روزانہ سیکڑوں بین البراعظمی پروازیں اڑاتے ہیں۔ یہ نئے جہاز بھی پرانے جہازوں کے اصولو ں پر بنائے گئے ہیں مگر یہ ان پرانے جہازوں کی بہ نسبت کہیں زیادہ عمدہ ہیں۔ اب ہم طبلے کی طرف واپس آتے ہیں۔ ایک اچھا استاد قدیم طبلے کا بھی علم رکھتا ہے مگر وہ وقت کے ساتھ ساتھ بھی چلتا ہے اور جدید طبلہ بھی بجاتا ہے۔ وہ مستقبل کے طبلے کے بارے میں بھی پیش گوئی کر سکتا ہے۔ اچھا استاد اپنے شاگردوں کو قدیم ، جدید اور آنے والے زمانے کا طبلہ سکھاتا ہے۔
اچھا استاد اپنے شاگردوں کا استحصال نہیں کرتا ؛ بلکہ انھیں اپنے بیٹوں کی طرح سمجھتا ہےا ور انھیں ایمانداری اور درست طریقے سے سکھاتا ہے۔ وہ سخت، صاف گو، شفیق اور مشقت کرانے والا گُرو ہوتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ کس شاگرد کو کس وقت کیا سکھانا ہے اور وہ اپنے شاگردوں کی صلاحیتوں اور امکانات سے مطابقت پیدا کرنے کے لیے اپنے طریقہ ء تعلیم میں بھی تبدیلیاں لاتا ہے۔ ایک اچھا استاد ہر کسی کو اپنا علم نہیں بانٹتا ؛ وہ صرف ان لوگوں کو سکھاتا ہے جو کڑی ریاضت، خلوص اور دیانت داری کے ذریعے حصولِ علم کے حقدار بنیں ، اور جن کے امکانات روشن ہوں۔ اچھے استاد بے صلاحیت شاگردوں پر اپنا وقت اور محنت صرف نہیں کرتے ۔
علی عدنان: طبلے کا ارتقاء کیسے ہوا ہے؟
استاد تاری خاں: جو طبلہ سو سال قبل بجتا تھا وہ ساخت میں سادہ، آواز میں بلند اور تقریبا ً ایک سنگت کے ساز کی حد تک محدود تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ عظیم اساتذہ نے طبلہ بجانے کے اصول و قواعد کی تعیین و تشکیل کی۔اس سے قبل ہر کوئی تین تال بجاتا تھا۔ رفتہ رفتہ کئی طرح کے تال بجائے جانے لگے۔ عظیم استادوں نے مسلسل نئے قاعدے، گتیں اور پرنیں بنا کر اس ساز کے ذخیرے میں اضافہ کیا۔ بیسویں صدی کے نصف اول میں طبلہ نواز اس فنکار کے پیچھے بیٹھا کرتے تھے کہ جس کی وہ سنگت کر رہے ہوتے تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ وہ ا سٹیج پر سامنے بیٹھنے لگے۔ صدی کے نصف دوم میں لے کاری، ماتروں کی تقسیم اور نئے منقسم تالوں کی تشکیل پر بہت زور دیا جانے لگا۔ جہاں تک طبلے کے ارتقاء و ترقی کی بات ہے تو پچھلے پچاس سال طبلے کے سنہرے سال ہیں۔ ان برسوں میں وہ طبلہ نواز سامنے آئے کہ جن کا مرتبہ کسی بھی بڑے گائیک اور بجائیک کے برابر تھا۔ لے کاری میں اورلے اور تال سے کھیلنے میں بڑے بڑے کام ہوئے۔ طبلہ نوازوں نے اپنے استادوں اور دادا استادوں کی رکھی گئی بنیادوں پر محلات تعمیر کیے۔ نئے تال اختراع ہوئے ہیں؛ پیچیدہ قاعدے اور لڑیاں بنائی گئی ہیں۔ مائیکروفون کی آمد اور صوتی ٹیکنالوجی میں ترقی سے طبلہ نوازوں کو موقع ملا کہ وہ اپنے طبلے کی آواز، نفاست اور احساس کو بہتر بنائیں کیونکہ اب انھیں اس چیز کی ضرورت نہیں رہی تھی کہ کھلے ماحول میں بجانے کے لیے بلند آواز میں طبلہ بجائیں۔ ماضی کا طبلہ اہم ہے ، اس کی علمی اہمیت ہے اور اس کے ساتھ ماضی کی یادیں جڑی ہوئی ہیں ؛ لیکن یہ آج کے فنِ طبلہ کے مقابلے میں سادہ ہے۔
علی عدنان: طبلے کے چھ بڑے گھرانے ہیں۔ براہِ کرم ہمیں ان کے بارے میں بتائیے۔
استاد تاری خاں: گھرانہ دراصل طبلہ نوازی کا ایک مکتب ہوتا ہے۔طبلے کے حروفِ تہجی تو مشترک ہیں مگر ہر گھرانے میں طبلے کے اِن بولوں کو بجانے کا انداز مختلف ہے۔ بعض گھرانے کچھ خاص بولوں کی تخلیق کا دعوٰی رکھتے ہیں اور وہ اپنی دھنوں میں ان بولوں پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ مختلف گھرانوں کے بانیوں اور بزرگوں نے اس فن میں بہت شاندار چیزیں بنائی ہیں جو ان گھرانوں کے ساتھ وابستہ چلی آتی ہیں۔ طبلے کے حروفِ تہجی ہر گھرانے کی ملکیت ہیں مگر ہر گھرانہ کچھ خاص بولوں کو زیادہ پسند کرتا ہے۔ آپ کو دہلی گھرانے میں ” تِٹ ۔دِھٹ” اور لکھنؤ میں “تک ۔دِھن۔ نا۔ نگ” بہت زیادہ سننے کو ملے گا۔
دہلی گھرانہ نرم ضربوں اور نفیس آواز پر زور دیتا ہے اور بلند اور گونج دار انداز میں بجانے سے گریز کرتا ہے۔ ان کے ہاں “تِٹ۔ دِھٹ، دھا۔ تِٹ، تِر۔ کِٹ، تی ۔نا۔گِن ۔نا کے بولوں پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ یہ گھرانہ اپنے قاعدوں کے وسیع ذخیرے کے لیے جانا جاتا ہے۔
لکھنؤ والے “کِنار” سے دور رہتے ہیں اور اس کے بجائے “سُر” اور “سیاہی” پر توجہ دیتے ہیں۔ اس گھرانے کے طبلہ نواز تیکھی آواز سے دور رہتے ہیں۔کتھک ڈانسرز کی سنگت کے باعث ان کے ہاں دلکش “ٹکڑے، تہائیاں اور چکردار” زیادہ پائے جاتے ہیں۔ یہ گھرانہ کرارے “ریلوں” اور منفرد “پَرَن۔گَت” کے باعث مشہور ہے۔
اجراڑہ گھرانے میں پیچیدہ بولوں مثلاً “گے۔تاکے، دَھٹ۔ترِکے، دِھن ۔نا۔گِن۔نا۔تا۔کے” پر زیادہ زور دیا جاتا ہے۔ اس گھرانے کے طبلہ نواز بعض اوقات دانستہ طور پہ لے سے نکل جاتے ہیں اور پھر بڑی مہارت سے واپس آتے ہیں۔ یہ گھرانہ ایسے خاص قاعدوں کے لیے مشہور ہے جو تال کے کئی کئی چکروں پہ محیط ہوتے ہیں اور جن میں “خالی” کو بڑی غیر متوقع جگہوں پر رکھا جاتا ہے۔
فرخ آباد گھرانے کے طبلہ نواز “دِھر ۔دِھر” اور ” تَک تَک” کے بولوں کے شائق ہیں۔ ان کے ہاں “سُر” اور “سیاہی” پر زیادہ دھیان دیا جاتا ہے۔ یہ گھرانہ اپنی “گتوں، چلن اور چکردار ٹکڑوں” کے لیے مشہور ہے۔ ان کے ہاں “پیش کارے اور قاعدوں” پر کم دھیان دیا جاتا ہے۔
بنارس گھرانہ اپنے طاقت ور آواز اور گونج دار ضربوں کے لیے مشہور ہے۔ ان کا ‘باج’ کھلا ہے اور محض انگلیوں سے بجانے کے بجائے یہ اکثر پورے ہاتھ کا استعمال کرتے ہیں۔ بنارس کے طبلہ نواز پکھاوج کے بہت سے بول مثلا ” دُھم ۔کِت، گَڑی ۔گِن۔نا، گھے۔گے۔ نا۔کا،کَڑ دَھن، کی۔تا۔ دَھن” استعمال کرتے ہیں۔ وہ اپنی گتوں کو “زنانہ اور مردانہ” میں تقسیم کرنے کے لیے بھی مشہور ہیں۔
پنجاب گھرانہ پکھاوج سے بہت زیادہ متاثر ہے اور اس قدیم ساز کے بولوں اور تکنیک کو بہت زیادہ استعمال کرتا ہے۔ پنجاب گھرانے کے طبلہ نواز لے کاری پر بہت توجہ دیتے ہیں اور تال کے شدید پیچیدہ نقشے پیدا کر لیتے ہیں۔ وہ “برابر، آڑ، کو آڑ” بجاتے ہیں۔ ان کے ہاں گت اور ریلوں پر بہت توجہ دی جاتی ہے۔ پیش کارے اور قاعدے پیچیدہ ہوتے ہیں۔ “بایاں” پر ایک خاص پھسلتی ہوئی آواز پیدا کرنا پنجاب گھرانے کی خاصیت ہے۔
علی عدنان: ہم استادوں اور گھرانوں کی بات کر رہے تھے۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے طبلہ نواز ایک سے زائد استادوں سے سیکھ رہے ہیں۔ آپ اس بارے میں کیا سوچتے ہیں؟
استاد تاری خاں: پنجابی کی ایک کہاوت ہے: “بوہتے گھراں دا پراؤناں پُکھا رہندا اے” یعنی زیادہ گھروں کا مہمان بھوکا ہی رہتا ہے۔ میرے تو کئی استاد نہیں ہیں۔ ایک طبلہ نواز کا ایک ہی استاد ہونا چاہیے جیسا کہ اس کا ایک باپ ہوتا ہے۔ یقیناً موت، بیماری ، نقل مکانی یا دوسرے حالات کے سبب بعض اوقات دوسرے بلکہ تیسرے استاد کی بھی ضرورت پڑ سکتی ہے، مگر مثالی لحاظ سے ایک شاگرد کو ایک ہی اچھے استاد سے سیکھنا چاہیے۔ استاد-شاگرد کا رشتہ ایسا نہیں ہے جو ہر روز بنایا جا سکے۔ جب ایک دفعہ کوئی اس بندھن میں بندھ جائے تو پھر یہ ہمیشہ کے لیے رہنا چاہیے۔
علی عدنان: براہِ کرم ہمیں اپنے گھرانے کے بارے میں بتائیے۔
استاد تاری خاں: میرا تعلق پنجاب گھرانے سے ہے جو پکھاوجیوں کا قائم کردہ گھرانہ ہے۔ لیکن سچ یہ ہے کہ میرے استاد، میاں شوکت حسین خاں، اور لہذا میرا طبلہ پنجاب گھرانے کی روایت سے مختلف ہے۔ میاں صاحب کے پہلے استاد دہلی گھرانہ کے پنڈت ہیرا لال تھے۔ پس انھوں نے بہ طور طبلہ نواز اپنا سفر ‘قاعدوں’ پر زور دیتے ہوئے شروع کیا اور اس چیز کے استاد ہوئے۔ تقسیم کے بعد وہ پاکستان ہجرت کر آئے اور انھیں میاں قادر بخش کو سننے کا اتفاق ہوا جو اپنی ‘گتوں اور پرنوں ‘کے لیے مشہور تھے۔ میرے استاد ایک عاجز آدمی تھے اور وہ ہمیشہ محسوس کرتے تھے کہ انھیں مزید سیکھنے کی ضرورت ہے۔ وہ میاں قادر بخش کے شاگرد ہو گئے تاکہ ان سے گتیں اور پرنیں سیکھ سکیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ بہت تھوڑا دہلی کا طبلہ بجاتے تھے اور پنجاب کا بھی خالص نہیں بجاتے تھے۔ وہ ایک نابغہ تھے اور انھوں نے طبلے کے ان دونوں گھرانوں کے علم کو یکجا کر کے ایک نہایت ہی خوبصورت، متوازن اور مکمل اندازِ طبلہ بنایا اور کلاسیکل موسیقی کے بہت سے دیگر عقیدت مندوں کی طرح میرا بھی یہ ماننا ہے کہ ان کا اپنا ایک گھرانہ بن گیا ہے۔ سچ کہوں تو میں پنجاب گھرانے کی میاں شوکت حسین والی شاخ کا شاگرد ہوں۔
علی عدنان: آپ کا تعلق گانے والوں کے خاندان سے ہے ، آپ طبلے کے طالب علم کیسے بن گئے؟
استاد تاری خاں: میرے والد بڑے باصلاحیت گانے والے تھے۔ ہجرت کے بعد وہ پاکستان آ گئے لیکن نئے قائم شدہ ملک میں فنونِ لطیفہ کی عدم سرپرستی سے نالاں تھے۔ انھوں نے پاکستان آکر گانا چھوڑ دیا اور چاہتے تھے کہ میں بھی موسیقی کے شعبے میں داخل نہ ہوں۔ طبلہ مجھے ہمیشہ اپنی جانب کھینچتا تھا اور میں محسوس کرتا تھا کہ لَے میرے خون میں شامل ہے۔ میرے ابا کو اس بات پہ آمادہ کرنا بہت مشکل تھا کہ وہ مجھے صرف موسیقی کے شعبے ہی میں نہیں بلکہ ایک طبلہ نواز کے طور پہ کام کرنے کی اجازت دیں۔ برسوں کی منت سماجت کے بعد انھوں نے مجھے اجازت دی کہ باقاعدہ طبلہ سیکھنا شروع کروں۔
علی عدنان: براہِ کرم اپنے استاد کے بارے میں بتائیے۔
استاد تاری خاں: جیسا کہ آپ نے کہا کہ میں فنکاروں کے خاندان میں پیدا ہوا تھا۔ مجھے “سُر” سے محبت تھی اور میں ہر قسم کی سُریلی موسیقی سے لطف اندوز ہوتا تھا۔ جب میں ایک چھوٹا لڑکا تھا تو مجھے خوش قسمتی سے بہت سے اچھے فنکاروں اور طبلہ نوازوں کو سننے کا موقع ملا لیکن جب میں نے میاں صاحب کا طبلہ سنا تو اس نے مجھے جکڑ لیا۔ یہ طبلہ اس قدر “سُریلا” اور موسیقی سے بھرا تھا کہ اس نے مجھے مسحور کر لیا۔ میں ریڈیو کے سامنے بیٹھ جاتا اور گھنٹوں ان کا طبلہ سنتا۔ان کے طبلے کی صوت اور مترنم آواز بس انھی کا حصہ تھی۔ جب میں ایسی عمر میں تھا کہ قاعدے اور گَت کا فرق بھی نہیں جانتا تھا مگر میں یہ جانتا تھا کہ ان کا طبلہ دوسرے سبھی فنکاروں سے مختلف ہے اور میری روح تک پہنچتا ہے۔ میں نے سب سے پہلے تو انھیں ٹی۔وی پر دیکھا۔ وہ سیدھے تن کر بیٹھتے، صرف اپنی انگلیوں کو حرکت دیتے اور ان کے بیٹھنے کا ڈھنگ اس قدر شاہانہ اور شاندار تھا کہ اس سے قبل میں نے ایسا اندازِ نشست نہ دیکھا تھا۔ جب میں نے انھیں دیکھا تو یوں محسوس ہوا کہ میں طبلے کے شہنشاہ کو دیکھ رہا ہوں۔ مجھے میاں صاحب کے طبلے اور ان کی شخصیت دونوں سے محبت ہو گئی۔ میں نے فیصلہ کیا کہ میں ان کا شاگرد بنوں گا صرف اس لیے نہیں کہ میں طبلے کو اپنا پیشہ بنانا چاہتا تھا بلکہ اس لیے کہ میں ان کے قریب ہونے اور ان کی ‘سیوا’ کرنے کا موقع چاہتا تھا ۔
میں نے باقاعد ہ طور پہ سب سے پہلے انھیں کُل پاکستان موسیقی کانفرنس میں دیکھا۔ میں کچھ دوستوں کے ساتھ وہاں تھا۔ میں سٹیج کے پیچھے تھا جب میں نے دیکھا کہ میاں صاحب اپنے طبلے چھوڑ کر چائے کے لیے تشریف لے گئے ہیں ۔میں ان طبلوں کو بجانے سے خود کو باز نہ رکھ سکا۔ جب میں بجا رہا تھا تو بھائی نصیر ااندر تشریف لائے اور پوچھا کہ کیا میں میاں صاحب کا بیٹا ہوں۔ کسی شخص کا یہ سوچنا کہ میں میاں صاحب کا بیٹا ہوں میرے لیے بڑا اعزاز تھا۔ میں نے انھیں بتایا کہ میں ان کا بیٹا نہیں ہوں لیکن اس تبصرے پر مجھے بڑا فخر ہوا۔ جب میں نے بھائی نصیرا کو اپنے والدِ حقیقی کے متعلق بتایا تو انھوں نے جواب دیا کہ وہ ہمارے دور پار کے رشتے دار ہیں اور مجھے طبلہ نوازی جاری رکھنے پر ابھارا۔
اس کے بعد میں نے کئی مرتبہ میاں صاحب سے ملنے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہو سکا۔ پھر میں استاد عالمگیر خاں کی برسی پر پرویز مہدی کے ساتھ بجارہا تھا۔ جب میں طبلہ سُر کر رہا تھا تو میاں صاحب سٹیج پر تشریف لائے اور ایک طرف پڑی کرسی پر بیٹھ گئے ۔ میں ان کی موجودگی کو کہاں سنبھال سکتا تھا اور میں آج بھی یہ نہیں بتا سکتا کہ میں نے کیا بجایا تھا اور آیا کہ میں نے اچھا بجایا تھا یا بُرا۔ مجھے تو یہ یاد ہے کہ انھوں نے فرمایا کہ میں نے اچھا بجایا ہے۔ میرے پاس اُس وقت جو بھی رقم تھی وہ میں نے انھیں بہ طور نذر پیش کر دی۔ قادر فریدی بھی وہیں موجود تھے ۔ انھوں نے میاں صاحب کو بتایا کہ میں ان سے بہت محبت کرتا ہوں اور یہ کہ وہ مجھے اپنا شاگرد بنانے پر غور کریں۔ میں نے شوکت صاحب کو بتایا کہ میرا کوئی استاد نہیں ہے اور جو بھی تھوڑا بہت میں بجاتا ہوں وہ انھیں سُن کر اور ان کی طرز کی نقل کر کے بجاتا ہوں۔ میرے اور پرویز کے بعد میاں صاحب نے ایک سولو آئٹم پیش کی اور پھر استاد سلامت علی خاں اور استاد نزاکت علی خاں کے ساتھ سنگت کی۔ مجھے یاد ہے کہ یہ طبلہ میرے آر پار ہو گیا اور میرے آنسو نکل آئے۔ جب محفل ختم ہوئی تو میں نے ان سے گزارش کی کہ میں ان کا طبلہ ان کے گھر پہنچا دوں اور ٹیکسی پر انھیں چھوڑنے گیا۔ سفر کے دوران انھوں نے کوئی خاص بات چیت نہیں کی لیکن جب اترنے لگے تو انھوں نے مجھے بتایاکہ وہ جانتے ہیں کہ میں ان سے کتنا پیار کرتا ہوں اور یہ کہ مجھے چاہیے کہ اُن سے سیکھنے کے لیے لاہور ریڈیو سٹیشن آنا شروع کر دوں۔
انھوں نے مجھے سکھانا شروع کر دیا لیکن وہ مجھے باقاعدہ گنڈا بندھ شاگرد نہیں بنا رہے تھے۔ میں ان سے کہتا رہتا تھا کہ گنڈا باندھ دیں لیکن وہ اتفاق نہیں کرتے تھے اور ہمیشہ انتظار کرنے کا کہتے۔ مجھے اس سے بہت بے چینی ہوتی تھی لیکن برسوں بعد مجھے سمجھ آئی کہ وہ اس وقت تک گنڈا بندھن کی رسم کو موخر کرنا چاہتے تھے جب تک کہ میں بڑے فنکاروں کے سامنے بجانے اور دنیائے موسیقی میں ہلچل پیدا کرنے کے قابل نہیں ہو جاتا ۔آٹھ سال بعد وہ مجھے اپنا باقاعدہ شاگرد بنانے پر رضا مند ہوئے۔ میرے گنڈا بندھن کے موقعے پر عنایتی خاں، طفیل نوروالیا، غلام علی اور اکثر بڑے فنکار تشریف لائے تھے۔ اس موقعے پر میاں صاحب نے مجھ سے سولو بجانے کو کہا اور پدرانہ فخر کے ساتھ مجھے دنیائے موسیقی کے سامنے پیش کیا۔
علی عدنان: میاں شوکت حسین کے ساتھ آپ کا رشتہ کیسا تھا؟
استاد تاری خاں: یہ ایک استاد-شاگرد کے رشتے کی طرح نہیں تھا۔ ان کے بہت سے اچھے شاگرد تھے، مجھ سے پہلے بھی اور بعد میں بھی۔ لیکن خوش قسمتی سے میرا ان کے ساتھ کچھ ایسا تعلق قائم ہو گیا تھا کہ جو کسی دوسرے کو نصیب نہیں ہوا۔ یہ ایک روحانی رشتہ تھا۔ میں ان کے پاس طبلہ سیکھنے گیا ہی نہیں تھا۔ میری واحد خواہش یہ تھی کہ ان کی خدمت اور سیوا کرنے کا موقع ملے۔ دیانت داری سے کہتا ہوں کہ میں نے کبھی پروا ہی نہیں کی کہ وہ مجھے طبلہ سکھا رہے ہیں یا نہیں۔ میں بس ان کے قریب رہنا چاہتا تھا۔
وہ میرے لیے ایک دوست، ایک باپ اور ایک استاد بن گئے تھے۔ مجھے کسی اور کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ شوکت صاحب کو تعلیم دینے میں کبھی دلچسپی نہ رہی تھی لیکن مجھے سکھانے کے لیے وہ ہمیشہ وقت نکال لیتے۔ یہ بڑی نا انصافی ہو گی اگر میں اپنے استاد کے متعلق صرف طبلہ نوازی کے حوالے سے بات کروں۔ وہ میرے روحانی مرشد بھی تھے۔ وہ گہری سوچ کے حامل اور ایک سچے فلسفی تھے۔ وہ میرے ساتھ اپنے خیالات سانجھے کرتے اور مجھے عزت، دیانت داری، ایمان ، اخلاص، محبت، عاجزی اور دوسری اقدار سکھاتے ۔ میں نے بڑی دنیا گھومی ہے لیکن اپنے استاد جیسا شاندار آدمی نہیں دیکھا۔ وہ ایک عاجز، ایک دیانت دار اور پُر شکوہ آدمی تھے۔ زندگی کے متعلق جو بھی اچھی چیزیں میں نے سیکھی ہیں وہ سب انھی کے طفیل ہیں۔
علی عدنان: ان کے فن کے متعلق کچھ بتائیے۔
استاد تاری خاں: میری خوش قسمتی ہے کہ میں نے ساری دنیا کے بڑے طبلہ نوازوں کو سن رکھا ہے اور میں سب کا احترام بھی کرتا ہوں لیکن “دایاں اور بایاں” کا جیسا تواز ن شوکت صاحب کے ہاں پایا جاتا ہے وہ کسی اور میں موجود نہیں۔ ان کے طبلے کی صوتی خوبی کا کوئی مقابلہ نہیں۔ ان کے طبلے کی آواز خالص ہے اور کوئی اس کا ہمسر نہیں۔ اکثر لوگ ‘دایاں’ پر زور دیتے ہیں اور ا چھا بجاتے ہیں لیکن ‘بایاں’ کو شاید ہی سُریلا بجاتے ہوں۔ میاں صاحب ‘بایاں’ پر مینڈھ بجا سکتے تھے؛ جس طرح وہ ‘بایاں’ پر سُروں کو چھوتے ہوئے گزرتے تھے ، کوئی بھی ایسا نہیں کر سکتا۔ انھوں نے ہتھیلی کے دباؤ اور رسیوں کے کھچاؤ کے ذریعے ‘بایاں’ کی فریکونسی کو بدلنے کا طریقہ اختراع کیا اور اسے عروج پہ لے گئے۔ طبلہ نواز ‘بایاں’ کو سُر کرتے وقت مشکل میں پڑ جاتے ہیں، بہت سے تو اسے اونچے سُروں میں سُر کر لیتے ہیں، لیکن وہ ہمیشہ ‘بایاں’ کو نیچے کی سپتک میں بجاتے تھے جو کہ اس کا درست مقام ہے اور اپنے ہاتھوں کی ناقابلِ تصور حرکات سے اس کی پچ کو بدل لیتے تھے۔
میری خوش قسمتی ہے کہ میں ان کا شاگرد بنا لیکن اگر میں ان کا شاگرد نہ بھی ہوتا اور میرا استاد کوئی اور ہوتا تو بھی مجھے یہ تسلیم کرنا پڑتا کہ وہ سبھی زمانوں کے عظیم ترین طبلہ نواز ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ کہنا جھوٹ ہو گا۔
علی عدنان: آپ طبلے کی قدآور شخصیت ہیں اور بہت سے بڑے طبلہ نوازوں کے ساتھ آپ کے قریبی تعلقات ہیں۔ شوکت صاحب کی وفات کےبعد آپ نے کسی اور استاد سے سیکھنے کا سوچا؟
استاد تاری خاں: جب آدمی نے میاں شوکت حسین خاں سے سیکھا ہوتو اسے کسی اور سے سیکھنے کی حاجت نہیں رہتی۔
علی عدنان: آپ نے کہا کہ میاں شوکت حسین خاں ایک عظیم فنکار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ایک عظیم انسان بھی تھے۔ کیا آپ کے خیال میں اچھا فنکار بننے کے لیے ایک اچھا انسان بننا بھی ضروری ہے؟
استاد تاری خاں: کاش ایسا ہوتا لیکن بدقسمتی سے حقیقت یہ نہیں ہے۔
علی عدنان: نذر پیش کرنے کی روایت کیا ہے؟
استاد تاری خاں: اپنے استاد کو احتراماً کچھ نقد ہدیہ پیش کرنے کا نام نذر ہے۔ کوئی بھی طبلہ نواز جو اپنے استاد کی موجودگی میں طبلہ بجاتا ہے اسے چاہیے کہ طبلہ شروع کرنے سے پہلے ضرور اپنے استاد کو نذر پیش کرے اور اس کی اجازت حاصل کرے۔ اور شاگردوں کو چاہیے کہ استاد کے بجانے سے قبل بھی ہمیشہ نذر پیش کریں۔ استاد کے بجانے کے دوران یا اس کے بعد نذر پیش نہیں کرنی چاہیے کیونکہ اس کا مطلب ہو گاکہ شاگرد اپنے استاد کو “شاباش” دے رہا ہے۔ نذر کا مطلب شاگرد کو معاشی مشکل میں گرفتار کرنا نہیں ہے۔ رقم اس قدر مناسب ہونی چاہیے کہ شاگرد کے لیے اسے پیش کرنا مشکل نہ ہو۔
ایک اور روایت بھی ہے کہ جب استاد اپنے شاگرد کے کام سے خوش ہو تو اسے “انعام” سے نوازتا ہے۔ یہ رقم بالعموم شاگرد کے مظاہرہء فن کے بعد دی جاتی ہے۔
علی عدنان: اور قاعدے، گتیں اور پرنیں جہیز میں دینے کی رسم؟
استاد تاری خاں: پرانے زمانوں میں، استاد اپنی طبلہ کی دُھنوں کو جواہرات سے زیادہ قیمتی سمجھتے تھے۔ وہ بڑی سختی سے اپنے علم کی حفاظت کرتے اور اس سے کم ہی کسی کو نوازتے۔ علم سبھی مادی چیزوں سے برتر قدر کا حامل تھا۔ پس دُھنوں کا جہیز میں دیاجانا سب سے قیمتی تحفہ سمجھا جاتا تھا۔
علی عدنان: آج طبلہ سولو اور سنگت دونوں طرح سے بجایا جاتا ہے۔ دراصل آپ سولو بھی اتنے ہی تواتر سے بجاتے ہیں جتنے تواتر کے ساتھ آپ سنگت کرتے ہیں۔ ہمیں سولو طبلہ نوازی کے فن کے متعلق کچھ بتائیے۔
استاد تاری خاں: روایتی طور پہ طبلہ کی پرفارمنس ایک ایسی چیز سے شروع ہوتی ہے جسے “اِذن” کہتے ہیں۔یہ ایک چھوٹا سا کمپوز شدہ ٹکڑا ہوتا ہے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ بجانے کی اجازت مانگی جا رہی ہے۔ صرف زیادہ علم والے ، اور اگر بے تکلفی سے کہوں تو زیادہ تہذیب یافتہ، فنکار ہی آج کل “اِذن” بجاتے اور اسے سمجھتے ہیں۔
اذن کے بعد ‘پیش کارا’ بجایا جاتا ہے۔ یہ ایک اردو کے لفظ سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے پیش کش۔ یہ گویا طبلے کا ‘الاپ’ ہوتا ہے۔ یہ بالعموم ایک بے ساختہ اور آمد کا ٹکڑا ہوتا ہے جو بڑے سکون سے بجایا جاتا ہے۔ ایک طبلہ نواز کو قاعدے کی بہ نسبت پیش کارے میں زیادہ آزادی ہوتی ہے۔ پیش کارے میں بہت سے متنوع بول بجائے جاتے ہیں اور لے کاری کی بھی آزادی ہوتی ہے۔ کچھ بنیادی بول ایک بنیاد کے طور پہ قائم کر لیے جاتے ہیں اور پھر دوسرے بول ایک نظام کے تحت ان بولوں میں شامل ہوتے جاتے ہیں۔ یہ وہ مقام ہوتا ہے جہاں طبلہ نواز اپنی تخلیقی صلاحیت اور فنی مہارت دکھاتا ہے اور پیش کارے کے بعد کی پرفارمنس کی جھلک دکھاتا ہے۔
پیش کارا کے بعد قاعدے کی باری آتی ہے۔ یہ ایک خاص ساخت کا کمپوز شدہ ٹکڑا ہوتا ہے۔ آغاز میں تو قاعدے طلبا کی مشق کے لیے بنائے گئے تھے تاکہ طلبا کے فن میں پھرتی، تکنیک، حسنِ صوت، رفتار اور صفائی پیدا کی جا سکے۔ آج قاعدہ کسی بھی سولو کا ایک اہم اور لازمی حصہ ہے۔ ہر قاعدے کی اپنی فضا ہوتی ہے جو کمپوز شدہ ٹکڑوں پر مشتمل ہوتی ہے؛ طبلہ نواز’ لڑیاں ‘شامل کر کے قاعدے کو پھیلاتا ہے جبکہ اس دوران وہ قاعدے کے اصولوں اور اس کی فضا کو بھی برقرار رکھتا ہے۔ قابل طبلہ نواز ایک قاعدے کو گھنٹوں تک کھنگال سکتا ہے۔ اس کا اختتام ‘تہائی’پر ہوتا ہے جو ایک جملے، جسے ‘پلہ’ کہتے ہیں، کا کمپوز شدہ ٹکڑا ہوتا ہے اور لگاتار تین بار اس طرح بجایا جاتا ہے کہ تیسرا ‘پلہ’ سَم پر ختم ہو۔ ‘تہائی’پر کسی قاعدے کو ختم کرنا ایک جدید اخترا ع ہے۔ ‘تہائی’ کی دو قسمیں ہیں۔ “دَم دار” تہائی وہ ہوتی ہے جس میں ہر تین ‘پلوں’ کے درمیان ایک وقفہ ہوتا ہے اور “بے دَم” تہائی وہ ہوتی ہے جس میں وقفے نہیں ہوتے۔ دہلی گھرانہ پیش کاروں اور گتوں کے وسیع خزانے کے لیے معروف ہے۔
قاعدوں کے بعد بہت سے دیگر کمپوز شدہ ٹکڑے بجائے جاتے ہیں۔ ان میں ‘پَرن، گَت،تِپلی اور چو پلی’ شامل ہیں۔ اس حوالے سے پنجاب گھرانہ بہت آگے ہے۔ ‘پرن’ طویل کمپوز شدہ ٹکڑا ہوتا ہے جس میں پکھاوج کے بول کثر ت سے استعمال ہوتے ہیں اور یہ سولو کا بڑا ڈرامائی عنصر ہوتا ہے۔ ‘گت’ ایسی کمپوز شدہ چیز ہوتی ہے جس میں مشکل بولوں کو تال کے پیچیدہ نقشوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ گت کا اختتام لازمی طور پہ تہائی پر نہیں ہوتا ۔ ‘تِپلی اور چوپلی’ بھی گت کی قسمیں ہیں۔ لکھنؤ اپنی گتوں کے لیے مشہور ہے۔
سولو کے آخر میں تیز لے میں “ریلا” بجایا جاتا ہے جو ایک ماحول پیدا کر دیتا ہے۔ ریلے سادہ بولوں مثلاً ‘دھا۔تِٹ،گھِرے۔نگ، تِر۔کِٹ’ اور نسبتا ً سادہ نقشوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ ریلوں کا اختتام بالعموم بڑی طوفانی تہائیوں پر ہوتا ہے۔
علی عدنان: بعض اوقات پنجاب گھرانے کو اس لیے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے کہ اس کے قاعدوں کا ذخیرہ بہت چھوٹا ہے۔ کیا یہ تنقید جائز ہے؟
استاد تاری خاں: پنجاب گھرانہ پکھاوجیوں نے قائم کیا تھا۔ ان کی توجہ گت، پرن اور لے کاری پر تھی۔ روایتی طور پہ پنجاب گھرانے کے پاس تھوڑے سے قاعدے ہیں مگر یہ بڑے پیچیدہ اور مشکل قاعدے ہیں۔ تاریخی لحاظ سے تو یہ تنقید درست ہے مگر آج پنجاب گھرانے کے طبلہ نواز اپنے قاعدوں کے علاوہ دوسرے گھرانوں سے سیکھے ہوئے قاعدے بھی بجاتے ہیں ۔
میاں صاحب پاکستان کی طرف ہجرت اور پنجاب گھرانے کی شاگردی سے قبل بھی قاعدے کے بڑے استاد تھے۔ انھوں نے اپنی زندگی ایسے قاعدے بناتے گزاری جو بڑے مشکل، اپج دار، شدید مترنم اور پیچیدہ ساخت کے حامل ہوتے تھے۔ ان کا کام نیا اور انوکھا تھا۔ میری خوش قسمتی ہے کہ میں نے ان سے یہ قاعدے سیکھے۔ میں انھیں ساری دنیا میں بجاتا ہوں اور لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ ان قاعدوں کی ساخت کیا ہے۔ میاں صاحب کے بنائے ہوئے قاعدے اتنے منفرد اور جدید ہیں کہ انھیں بجانا تو دور کی بات، لوگ انھیں مکمل طور پہ سمجھ بھی نہیں سکتے۔ میاں صاحب اپنے قاعدوں کو ایسی تہائیوں پر ختم کرتے جو اسی قاعدے پر بنیاد رکھتی تھیں اور خاص اسی قاعدے کے لیے بنائی گئی ہوتی تھیں۔
علی عدنان: آپ اپنی سولو پرفارمنس میں اپنے ساتھ ‘لہرا’ بجانے والے کا بڑا اہتمام کرتے ہیں۔ ایسا کیوں؟
استاد تاری خاں: ‘لہرا’ یا ‘نغمہ’ بجانا ایک بہت ہی مشکل کام ہے۔ حتیٰ کہ بہت قابل سارنگی نوازوں اور ہارمونیم نوا زوں کو بھی لہرا بجانے میں بڑی محنت کرنی پڑتی ہے۔ جب وہ لَے قائم رکھنے میں ناکام ہوتے ہیں تو طبلہ نواز کو ان کے ساتھ مصالحت کرنی پڑتی ہے اور وہ اپنی توجہ کھو سکتا ہے۔ یقیناً ایسے لہرا بجانے والے بھی ہیں جو اتنے ماہر ہوتے ہیں کہ نو آموز طبلہ نواز کی غلطیوں کو بھی چھپا جاتے ہیں۔ میں لہرا بجانے والے کو بہت سوچ سمجھ کر منتخب کرتا ہوں کیونکہ میری توجہ اپنے طبلے کو سُریلا رکھنے پر ہوتی ہے اور مجھے سنگت کے لیے ایک سُریلا لہرا بجانے والا درکار ہوتا ہے۔ مجھے ایک کامل وقت شناس درکار ہوتا ہے تاکہ میں لہرا بجانے والے کی لَے کے بجائے اپنی پرفارمنس پر توجہ مرکوز رکھ سکوں۔
علی عدنان: کیا آپ کا کوئی پسندیدہ لہرا بجانے والا ہے؟
استاد تاری خاں: جی بالکل۔ بہت سے اچھے سارنگی نوازوں نے میرے فنی سفر کےدوران میری سنگت کی ہے۔ آج کل میں رامِش مِشرا کے ساتھ بجانے میں مزا لیتا ہوں۔ میری رائے میں وہ آج کا عظیم ترین لہرا بجانے والا ہے۔
علی عدنان: کتھک کے ساتھ طبلے کی سنگت میں کون سی باتیں ضروری ہوتی ہیں؟
کتھک کی سنگت کرنے والے طبلہ نواز کو لے پر مکمل گرفت اور تال کی ساخت کی گہری جانکاری ہونی چاہیے۔ انھیں رقاصوں کے استعمال میں آنے والے ‘توڑے، تہائیاں اور ٹکڑے” زبانی یاد کرنے ہوتے ہیں۔ ان میں اس ٹھیکے میں متوقع تغیرات کو بھانپ لینے کی صلاحیت ہونی چاہیے جسے رقاص استعمال کرے گا۔ اگر انھیں بول یاد نہ بھی ہوں تو بھی رقاص کے پاؤں سے پیدا ہونے والی آواز کی نقل طبلے سے پیدا ہونی چاہیے۔
میں نے کتھک کے ساتھ بجایا ہے مگر بہت کم کم۔ کتھک کی دھنوں کو یاد کرنے میں بڑا وقت درکار ہوتا ہے۔ کتھک رقاصوں کی اکثریت کا تعلق صنفِ نازک سے ہے اور میں خواتین کے معاملے میں ہمیشہ سے شرمیلا ہوں۔ کتھک کے ساتھ بجانے میں مجھے مزا نہیں آتا۔
علی عدنان: طبلے اور کتھک کے بول مختلف ہیں۔ جب رقاص’تا۔تھئی۔ تھئی۔ تت’کہتا ہے تو طبلہ نواز ‘نا۔دِھن۔دِھن۔نا ‘بجاتا ہے۔ کیا طبلہ نواز اور کتھک رقاص کا مکالمہ طے شدہ ہوتا ہےیعنی یہ کہ کتھک کے بول کے جواب میں طبلے کا کون سا بول ہو گا؟
استاد تاری خاں: نہیں، ایسا نہیں ہے۔بعض طبلہ نواز رقاص کے ‘کِر۔کِر۔تھُن۔تھُن’ کے جواب میں ‘کِر۔کِر۔تِن۔تِن’ بجائیں گے جبکہ بعض ‘کِر۔کِر۔تی۔تی” بجائیں گے۔ اصل ضرورت اس امر کی ہوتی ہے کہ جوابی آواز ہوبہو پیدا کی جائے۔ دونوں کے بولوں کا مکالمہ ہوتا ہے لیکن اس میں سبھی کچھ طے شدہ نہیں ہوتا۔ رقاص کے ساتھ سنگت کرتے ہوئے طبلہ نواز کو بولوں کے انتخاب میں کچھ آزادی رہتی ہے۔
علی عدنان: ابھی تک ہم نے رقص کی سنگت اور سولو طبلے کی بات کی ہے۔ اب ذرا سنگت میں طبلہ بجانے کی بات ہو جائے۔
استاد تاری خاں: طبلہ پر سنگت کرنا مشکل کام ہے۔ ہمیں مرکزی فنکار کے مطالبات کو پورا کرنا ہوتا ہے۔ اب استاد سلامت علی خاں اور استاد فتح علی خاں جیسے موسیقار بھی ہیں جو طبلہ نواز کے ساتھ سوال جواب کو بہت پسند کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ طبلہ نواز بھی تال کے ساتھ کھیلے۔ جبکہ بعض دوسرے فنکار ہیں جو کسی قسم کی فنکاری کے بغیر سادہ ٹھیکہ پسند کرتے ہیں۔ ایک اچھا طبلہ نواز وہ ہوتا ہے جو مرکزی فنکار کے مطالبات کے حساب سے اپنے کام میں تبدیلیاں پیدا کرے۔
علی عدنان: آپ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ آپ نے غزل میں طبلے کی سنگت کی طرز تنِ تنہا اختراع کی ہے۔ براہِ کرم ہمیں غزل کی سنگت کے بارے میں کچھ بتائیے۔
استاد تاری خاں: گائیکی کی تمام اصناف میں سے غزل کی سنگت سب سے مشکل کام ہے۔ غزل کے ساتھ میں جو “ٹھاہ دونیاں’ بجاتا ہوں وہ اس سارے علم کا نچوڑ ہیں جو میں نے اپنے پورے فنی سفر میں حاصل کیا ہے۔ وہ پیچیدہ ہیں، لَے پر گہری قدرت مانگتی ہیں، تال کے قواعد کی پیروی کرتی ہیں اور کچھ ایسی رفتار سے بجائی جاتی ہیں جو ہر طبلہ نواز کے بس کا کام نہیں۔ جب غزل کے ساتھ طبلے کی سنگت اپنے ابتدائی دور میں تھی تو اس وقت ‘ٹھاہ دونی’ کے کوئی اصول نہ تھے۔ پچھلی صدی کی غزل سنگت میں آپ کو ایسی ریکارڈنگز بھی ملیں گی کہ ‘ٹھاہ دونیاں’ کہروا تال کی بجائی جا رہی ہیں جبکہ غزل روپک تال میں گائی جا رہی ہے۔ میں پہلا طبلہ نواز تھا جس نے غزل کی سنگت کو کلاسیکی صنف سمجھا اور اپنے استاد کی رہنمائی میں غزل سنگت کے اصول، قواعد اور اس کی خاص طرز تشکیل دی۔ غزل نہ صرف موسیقی کی بلکہ شاعری کی بھی صنف ہے۔ غزل کی سنگت کرتے ہوئے طبلہ نواز کو چاہیے کہ شاعری کے مرکزی خیال اور اس کے مزاج کو ذہن میں رکھے۔ اگر غزل کا مزاج ہلکا پھلکا ہو گا تو ہم اسی روپک تال کو ایک سرخوشی کے انداز میں بجائیں گے لیکن اگر غزل کا مزاج اداس ہو گا تو اسی روپک تال کو ہم بڑے سنجیدہ انداز میں بجائیں گے۔ پھر ‘سَم، خالی اور تالی’ کا بیان نہایت واضح ہونا چاہیے تاکہ طبلہ نواز کو ٹھیکے پر دھیان نہ دینا پڑے اور اسے ہمیشہ معلوم ہو کہ تال کے چکر میں وہ کہاں ہے۔ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ٹھیکہ بے کیف نہ ہو۔ غزل کی سنگت میں طبلہ نواز کو چاہیے کہ بنیادی ٹھیکے کو سجانے کے لیے چھوٹے چھوٹے آرائشی ٹکڑے بجاتا رہے۔
میں نے مہدی حسن کے ساتھ بہت بجایا ہے۔ وہ ایک شام میں بیس یا تیس غزلیں بھی گاتے تھے اور غزل کے شعر دس بھی ہو سکتے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک نشست میں مجھے تین سو ‘ٹھاہ دونیاں’ بجانی ہوتی تھیں۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو خیال یا کسی بھی دوسری صنف کے ساتھ طبلہ بجانا اس قدر مشکل نہیں ہے۔
علی عدنان: آپ نے ہندوستانی کلاسیکل موسیقی کے بعض چوٹی کے فنکاروں کے ساتھ سنگت کی ہے مثلا روشن آراء بیگم، استاد سلامت علی خاں، استاد فتح علی خاں، پنڈت جسراج، استاد غلام حسن شگن، استاد ولایت خاں، استاد شریف خاں پونچھ والے اور مہدی حسن ۔ لیکن آپ نوجوان اور جونیئر فنکاروں کے ساتھ بجانے کے لیے بھی ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔ کیا ان جونئیر فنکاروں کے ساتھ بجانا جو لَے پر بہت زیادہ قدرت نہیں رکھتے یا اپنی فنی سفر کا محض آغاز کر رہے ہوں کوفت پیدا کرتا ہے؟
استاد تاری خاں: نہیں، ایسا نہیں ہے۔ موسیقی محبت اور شفقت سے عبارت ہے۔ میں جونئیر اور سینئر دونوں قسم کے فنکاروں کے ساتھ بجا کر خوش ہوتا ہوں۔ اگر کوئی جونیئر فنکار غلطی کرتا ہے تو ایک طبلہ نواز کا فرض ہے کہ اپنی سنگت کو اس طرح ڈھال لے کہ غلطی چھپ جائے۔ اچھے طبلہ نواز صبر اور محبت کرنے والے ہوتے ہیں۔ وہ بھرپور کوشش کرتے ہیں کہ مرکزی فنکار کی پرفارمنس کو اوپر اٹھائیں چاہے وہ جونیئر ہو یا سینئر۔
علی عدنان: وہ کون سے موسیقار ہیں جن کے ساتھ بجا کر آپ کو مزا آتا ہے؟
استاد تاری خاں: مجھے ان سب موسیقاروں کے ساتھ بجانے میں مزا آتا ہے جو مجھے طبلہ بجانے کی آزادی دیتے ہیں۔ میں یہاں نام نہیں لوں گا لیکن وہ سب فنکار جو لَے کی گہری سمجھ اور اپنے علم پر اعتماد رکھتے ہیں مجھے ان کے ساتھ سنگت کر کے مزا آتا ہے۔ وہ مجھے صحیح وقت پہ موقع دیتے ہیں کہ میں اپنے فن کا مظاہر ہ کر سکوں اور وہ بہت مزیدار مکالمہ کرتے ہیں۔ میری بہترین پرفارمنس وہی ہوتی ہیں جن میں مرکزی فنکار میری بہترین صلاحیتوں کو باہر نکلنے کا موقع دیتے ہیں۔
علی عدنان: آپ پرفارمنس کے لیے کس طرح کی تیاری کرتے ہیں؟
استاد تاری خاں: میں تیاری نہیں کرتا۔ ہندوستانی کلاسیکی موسیقار محفلوں میں اپنے فن کا مظاہرہ کرنے سے قبل برسوں تک تعلیم لیتے ہیں۔ بس یہی تعلیم درکار ہوتی ہے۔ بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ متعلقہ فنکار سے میری ملاقات اسٹیج پر ہی ہوتی ہے اور محفل سے قبل میری اس سے کوئی بات چیت نہیں ہوئی ہوتی۔ یہی وہ مقام ہوتا ہے کہ جہاں طبلہ نواز کا ‘ریاض’ علم اور تربیت کام آتی ہے۔ کسی تیاری کی ضرورت نہیں پڑتی۔
علی عدنان: ایک اچھی پرفارمنس کے دوران آپ کیسا محسوس کرتے ہیں؟
استاد تاری خاں: ایک اچھی پرفارمنس میں بڑا سرور ہوتا ہے۔ جب مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میں اچھا بجا رہا ہوں تو موسیقی مجھے مدہوش کر دیتی ہے۔ وقت کے چکر پر اور اس کے قواعد و ضوابط پہ شدید دھیان ہوتا ہے۔ میں اپنا ارد گرد بھول جاتا ہوں اور اپنی موسیقی میں اس قدر کھو جاتا ہوں کہ احساسات تقریباً ماورائے ہوش و خرد ہوجاتے ہیں۔ اکثر مجھے یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ میں نے بعد میں کیا بجایا تھا ۔ لہذا یہ معلوم کرنے کے لیے مجھے ریکارڈنگ سننی پڑتی ہے۔ بعض اوقات میں حیران ہو جاتا ہوں کہ میں نے اسٹیج پر کیا چیز بجا دی ہے اور پھر مجھے اس کی کھوج کے لیے غور و فکر کرنا پڑتا ہے۔
علی عدنان: پاکستان میں بڑے فنکاروں کی برسیوں پر موسیقی کی محافل کا رواج ہے۔ جبکہ موسیقی کو بالعموم خوشی سے منسلک کیا جاتا ہے۔ ایسا کیوں ہے کہ ہم برسی کے موقع پر گانا بجانا کرتے ہیں؟
استاد تاری خاں: عظیم فنکار مرتے نہیں۔ وہ اپنے پیچھے موسیقی کا ایسا بھرپور ورثہ چھوڑتے ہیں جو انھیں مرنے کے بعد بھی زندہ رکھتا ہے۔ برسی تو ان کے فن کا جشن ہوتا ہے جو ان کی موت کے بعد بھی غائب نہیں ہوتا۔
میں نے برسیوں پر بجا کر نام کمایا۔ لاہور میں نام بنانا کسی بھی فنکار کے لیے آسان نہیں ہے۔ یہ محافل فنکاروں کو یہ موقع فراہم کرتی ہیں کہ وہ یا تو دنیائے موسیقی میں اپنا نام بنائیں یا پھر گمنامی کی دھند میں کھو جائیں۔ بڑی برسیوں میں میاں قادر بخش خاں ، استاد عالمگیر خاں، بھائی لال محمد، فتح علی خاں قوال کی برسی شامل تھی۔ بڑے نامی گرامی فنکار آتے اور بغیر کسی معاوضے کے گاتے۔ یہ میری زندگی کی بہترین محافل تھیں۔
علی عدنان: طبلے کی دنیا میں اپنا نام بنانے اور دنیائے موسیقی میں قدم رکھنے کے برسوں بعد آپ نے گانا شروع کر دیا۔ کیوں؟
استا د تاری خاں: میرے والد ایک کلاسیکل گلوکار تھے۔ وہ بہت سُریلے اور علم والے تھے۔ ہندوستان سے پاکستان ہجرت کے بعد انھوں نے گانا ترک کر دیا لیکن وقتاً فوقتاً گھر میں گایا کرتے تھے۔ مجھے یہ نشستیں بڑی اچھی لگتی تھیں اور میں ان سے اکثر کہا کرتا تھا کہ مجھے سکھائیں۔ مہدی حسن کے ساتھ بہ طور سنگتی اور دوست میرا طویل عرصے سمبندھ رہا ۔ ان کی موسیقی مجھ پر ویسے ہی اثر کرتی تھی جیسا کہ میاں صاحب کا طبلہ۔ وقت کے ساتھ میرے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ میں ان کا باقاعدہ گنڈا بندھ شاگرد بنوں۔ میری خوش قسمتی ہے کہ وہ آمادہ ہو گئے۔
علی عدنان: مہدی حسن کی گائیکی میں آپ کو کیا چیز پسند تھی؟
استاد تاری خاں: مجھے ہمیشہ سے سُر سے پیار رہا ہے۔ اور مہدی حسن سے زیادہ سُریلا کوئی نہیں ہے۔ سارے بارہ سُر ان کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے رہتے ہیں، وہ گویا ان کے مالک ہیں۔ ان کی آواز کی خوبی، اس کا بھرپور ہونا، اس کی شدت، گونج اور گہرائی بالکل منفرد ہے۔ وہ بہت احساس آمیزی ، تاثر انگیزی اور سمجھداری سے گاتے ہیں۔ اپنے ریاض کی بدولت انھیں ایسی ‘تیاری’ نصیب ہوئی جس تک بہت کم گائیک پہنچ سکے۔ گائیک اکثر ایک ترتیب وار طریقے سے سُر لگاتے ہیں؛ یہ کام تو خاں صاحب کے لیے بہت آسان تھا۔ مگر انھوں نے اپنی تخلیقی اپج اور بے حد مشکل طریقے سے سُروں کے نہایت پیچیدہ مجموعے بنائے۔ گائیک جب ان کے طریقے کی نقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو سُر سے اتر جاتے ہیں۔ وہ کلاسیکل موسیقی میں تربیت یافتہ تھے اور ہندوستانی اور کرناٹکی دونوں طرح کی موسیقی کے بہت سارے راگوں کا بڑا گہرا علم رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ غزل کو ایسے طریقے سے گانے کے قابل ہوئے جو بہت سے گائیکوں کی خیال گائیکی سے بھی اوپر کی چیز ہے۔
ان کے ساتھ طبلہ بجانا بہت مشکل تھا۔ بہت آسان تھا کہ آپ ان کی موسیقی میں کھو جائیں اور بھول جائیں کہ آپ کیا کر رہے تھے۔ پھر وہ کامل طور پہ سُر کیا ہوا طبلہ چاہتے تھے۔ ان کے ساتھ طبلہ بجانے والے میں بہت زیادہ دم خم ہونا چاہیے کیونکہ جب وہ اچھے موڈ میں ہوتے تو گھنٹوں تک گاتے تھے۔ ان کے ساتھ بجانا جذباتی لحاظ سے اور موسیقی کے لحاظ سے بہت بڑے بات تھی۔ اکثر ان کے گانے سے میرے آنسو نکل آتے تھے۔
علی عدنان: آپ کس کا گانا سنتے ہیں؟
استاد تاری خاں: میں ہر طرح کی موسیقی سنتا ہوں۔ ہندو پاک کے تمام بڑے استادوں کے گانے کا میں شائق ہوں۔ مجھے استاد امیر خاں اور بڑے غلام علی خاں سے محبت ہے۔ استاد فتح علی خاں، استاد غلام حسن شگن اور استاد سلامت علی خاں میرے پسندیدہ ہیں۔ مجھے نور جہاں کی موسیقی سے بھی بڑا پیار ہے۔ لتا منگیشکر کے گانے میرے لیے بہت خاص ہیں۔ اور ہاں، مہدی حسن ایسا سُریلا کوئی بھی نہیں ہے۔
علی عدنان: آپ کے پوری دنیا میں بہت سے شاگرد ہیں۔ پاکستان، بھارت، برطانیہ، کینیڈا، امریکہ ۔۔۔شاید کوئی ملک ایسا نہیں ہے جہاں آپ کے شاگرد نہ ہوں۔ آپ محفلوں میں گانے بجانے والے فنکار ہیں اور اس کام میں مصروف رہتے ہیں لیکن اس کے باجود آپ سکھانا پسند کرتے ہیں اور اس کے لیے وقت نکالتے ہیں۔ کیوں؟
استاد تاری خاں: میں نہیں چاہتا کہ میرا فن، جو کہ میرے استاد کا فن ہے، میرے ساتھ ہی چلا جائے۔ میری وراثتِ موسیقی کو میرے شاگرد آگے لے کر جائیں گے۔ میرے شاگرد میرے بچوں کی طرح ہیں۔ یہ سچ ہے کہ وہ مجھ سے بڑی محبت کرتے ہیں اور بڑا احترام کرتے ہیں مگر یہ بھی سچ ہے کہ میں ان سے بہت محبت کرتا ہوں۔ مجھے بہت اچھے شاگرد ملے ہیں اور میں انھیں سکھانا چاہتا ہوں۔ وہ اچھی طرح سیکھتے ہیں اور اکثر ایک سال میں بجانے بھی لگتے ہیں۔
علی عدنان: طبلے کا اچھا طالب علم کیسا ہوتا ہے؟
ایک اچھا طالب علم ادب کا مطلب سمجھتا ہے۔ وہ اپنے استاد، اپنے والدین اور دیگر سینئر فنکاروں کا ادب کرتا ہے۔ وہ دیانت دار اور مخلص ہوتا ہے۔ اس کا دماغ روشن ہوتا ہے اور وہ سیکھنے کے لیے یکسو ہوتا ہے۔صبر ضروری ہے۔ اور بہت زیادہ محنت اور ریاض تو بلاشبہ درکار ہے۔
علی عدنان: اب آپ اپنے فن کی اس سطح پر پہنچ چکے ہیں جہاں آپ کو بہ طور طبلہ نواز جانچنا ناممکن ہے۔ کسی کے پاس اتنا علم نہیں ہے کہ آپ کے طبلے کو مکمل طور پہ سمجھ سکے اور اس کے بارے میں فیصلہ کر سکے۔ لہذا مجھے یہ پوچھنے دیجیے کہ آپ اپنے طبلے کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔
استاد تاری خاں: میں اپنے طبلے سے کبھی بھی مطمئن نہیں ہوتا۔ میں مزید سیکھنے، اپنے فن کو بہتر بنانے اور نئی چیزیں تخلیق کرنے کی جستجو میں لگا رہتا ہوں۔ بہت سے مواقع ایسے آئے جب میرے طبلے نے مجھے مسرت بخشی لیکن میں اس سے مکمل طور پہ مطمئن کبھی بھی نہیں ہوا۔ میں ابھی تک اس پر کام کر رہا ہوں۔

ماخذ: فرائیڈے ٹائمز

https://www.thefridaytimes.com/beta3/tft/article.php?issue=20121019&page=22

https://www.thefridaytimes.com/beta3/tft/article.php?issue=20121026&page=22

Recommended Posts
Comments
  • سجاد خالد
    جواب دیں

    طبلہ نوازی کے عہد بہ عہد اور مکتب بہ مکتب سفر پر استاد تاری خان کی گرفت سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک یہ فن کس قدر سنجیدگی کا تقاضا کرتا ہے۔ علی عدنان صاحب کی منضبط مزاجی اور یادداشت دونوں مثالی ہیں۔ کبیر علی صاحب نے جس دل جمعی کے ساتھ رواں اور بامعنی ترجمہ کیا ہے، اس کی داد الگ سے دینی پڑے گی۔ اور حسن رحمٰن بھلے خود کو کتنے ہی دور کھڑے سمجھ رہے ہوں، اس خزانےکو ہمارے قریب کرنے میں انہی کا بڑا حصہ ہے۔

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search