اصطلاحاتِ طریق۔ توجّہ: الشیخ سیدی عبدالغنی العمری الحسنی (ترجمہ: محمود احمد غزنوی)

 In ترجمہ

توجّہ کسی خاص جہت کی جانب رخ پھیرنے کا نام ہے۔ محسوسات کی دنیا میں کسی شئے کے سامنے بیٹھنے کو توجّہ کہا جاتا ہےگویا یوں کہا جاتا ہے کہ ’’فلاں شخص قبلے کی جانب متوجہ ہوکر بیٹھا‘‘ ۔ کسی شئے کی طرف چلنے کو بھی توجّہ کے معنوں میں لیا جاتا ہے جیسے کوئی کہے کہ ’’فلاں شخص نے شہرِ مکّہ کا رخ کیا‘‘ یعنی مکّے کی جانب سفر اختیار کیا۔ لیکن اھلِ طریق ( اھلِ تصوف) کی اصطلاح میں قلب کا رخ اللہ کے چہرے (وجہ اللہ)کی جانب پھیر دینا توجّہ کہلاتا ہے۔ اور وجہ اللہ وہ صورت ہے جس کو اللہ نے قلوب کے قبلے کے طور پر چُن لیا، بالکل اسی طرح جیسے کعبہ کو اللہ سبحانہ نے ابدان ( اجسام)کے قبلے کے طور پر چُن لیا ۔
اور توجہ کے مختلف مراتب ہیں اور یہ مراتب متوجہ الیہ (جس کی جانب توجہ کی جائے) کی صورت کے مطابق ہوتے ہیں۔ چنانچہ عوام الناس اور اھلِ کلام (اھلِ عقائد) کی توجہ خیالی ہوتی ہے جس کا رخ ان کے ذھنوں میں موجود انکے اعتقاد کی ایک ذھنی صورت کی جانب ہوتا ہے۔ اور اس خیالی توجہ کے لئے ضروری نہیں کہ وہ کسی جسمانی تصور کے ساتھ وابستہ ہو، بلکہ یہ ایک معنوی اور تنزیہی (Transcended ) صورت بھی ہوسکتی ہے، بشرطیکہ یہ تنزیہہ تعطیل کی حد تک نہ پہنچی ہوئی ہو۔ ہماری مراد ہے ایسی تنزیہہ جس میں کسی قدر تشبیہہ( Likening) کی بُو پائی جائے، خواہ توجّہ کرنے والے کو اس بات کا علم ہو یا نہ ہو۔
توجہ کا دوسرا مرتبہ ، مریدین کا مرتبہ ہے۔ اور ان کی توجہ کا رخ ان کے شیوخ کی صورت کی جانب ہوتا ہے۔، جیسا کہ درمیانے اور اونچے درجات سے تعلق رکھنے والے صحابہ کرام کی توجّہ تھی، جو ہمیشہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب متوجّہ رہا کرتے تھے۔
اور بعض تقلیدی عقول کے نزدیک یہ حسّی توجہ بہت بعید ہے اور ان پر بہت گراں گذرتی ہے اور وہ اسے شرک کی قبیل سے سمجھتے ہیں کہ جس سے تخلص حاصل کرنا واجب ہے۔ لیکن ان کا یہ وہم غلط ہے اور اس کی دو وجوہات ہیں :
1- محسوسات دراصل معانی کی تکثیف شدہ (Condensed ) صورت کے سوا اور کچھ نہیں۔ جس طرح حسِ لطیف کو معانی کہا جاتا ہے، اسی طرح معانی کی تکثیف ( Condensation) کو محسوسات کہا جاتا ہے، کیونکہ ان کی اصل ایک ہی ہے۔ چنانچہ معنی اور حس کی تقسیم صرف عوام اور مبتدیوں یعنی ابتدائی سطح کے افراد میں پائی جاتی ہے۔ اور اسی باب سے معانی کا خواب و خیال اور مشاہدات میں حسّی صورتوں کی شکل میں ظہور ہوتا ہے۔
2- عبدِ ربّانی جو بالاصالت صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں یا بالنیابت وارثین نبوّت ہیں، ان کا معاملہ ان بندوں جیسا نہیں جو اھلِ ظلمت ہیں اور اھلِ نفس ہیں۔ چنانچہ عبدِ ربّانی کی حقیقت کی رُو سے دیکھا جائے تو جو شخص ان کی جانب متوجہ ہوتا ہے، وہ دراصل اللہ سبحانہ کی جانب ہی متوجہ ہوتا ہے، خواہ توجّہ کرنے والے کو اس بات کا علم ہو یا نہ ہو۔
3- توجّہ کا تیسرا مرتبہ وہ ہے جو عارفین کا نصیب ہے۔ اور یہ توجہ مقیّد نہیں بلکہ مطلق ہوتی ہے اور ہر وہ حسّی و معنوی صورت جس پرحق کی تجلّی ہوتی ہے، یہ عارفین ان صورتوں میں اس حق کی جانب متوجہ رہتے ہیں۔ اور کتاب میں ان عارفین کی سند اللہ تعالیٰ کا یہ قول ہے {وَلِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ وَاسِعٌ عَلِيمٌ} [البقرة: 115] (اور اللہ ہی کے لئے ہیں مشرق اور مغرب، پس تم جدھر کابھی رخ کرو، ادھر اللہ کا چہرہ ہے۔ بے شک اللہ بہت وسعت والا اور علم والا ہے)۔ پس مشرق وہ ہے جو عالمِ حس میں صورتوں سے ظاہر ہوا، اور مغرب وہ ہے جو عالمِ معقولات میں پوشیدہ ہوا، اور وسعتِ الٰہیہ ان سب کے عموم کو شامل ہے اور یہی وسعتِ علمیہ ہے جو تمام معلومات کو محیط ہے۔
چنانچہ مرید یعنی اللہ کے چہرے کا ارادہ کرنے والے پر لازم ہے کہ اس آیت {وَمَا تُنْفِقُونَ إِلَّا ابْتِغَاءَ وَجْهِ اللَّهِ} [البقرة: 272] کے معنی کے مطابق جان لے کہ وجہ اللہ وہ صورت ہے جس پر آدم علیہ السلام کی تخلیق ہوئی۔ حدیثِ مبارکہ میں آیا ہے کہ «خَلَقَ اللَّهُ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ»[متفق علیہ] ( اللہ نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا) اور وہ صورت سوائے حقیقتِ محمّدیہ (انسانِ مطلق) کے اور کچھ نہیں۔ کہ جو عین کے اعتبار سے اللہ کی صورت ہے۔ اور ہر وہ شخص جو یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں صورت سے ماوراء تجلّی فرماتا ہے، اسے اس مسئلے میں سے کسی شئے کا علم نہیں ہوسکا۔
چنانچہ معرفتِ الٰہیہ کے ارکان میں سے سب سے خاص رکن یہ توجّہ ہی ہے،خواہ یہ معرفت عقلی ہو یا شہودی۔ بالکل اسی طرح جیسے لا الہ الّا اللہ ، ارکانِ دین میں سے خاص ترین رکن ہے، خواہ دین اپنے تینوں مراتب یعنی اسلام، ایمان اور احسان میں سے کسی بھی مرتبے سے تعلق رکھتا ہو۔

Recent Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search