مصنوعی ذہانت ، ٹرانس ہیومنزم اور مابعد انسان دنیا کا روحانی چیلنج: شیخ کبیر ہیل منسکی (ترجمہ: عاصم رضا)

 In ترجمہ
نوٹ:    امریکی نژاد مصنف اور مولانا روم  کے انگریزی مترجم ،  جناب کبیر ہیل منسکی  (1947 – ) مولانا روم کی تعلیمات پر استوار ساڑھے سات سو برس قدیم مولویہ  سلسلے  کے ساتھ وابستہ ایک صوفی شیخ  ہیں  ۔26 اکتوبر 2018ء کو  شیخ کبیر ہیل منسکی  نے Science   and   Nonduality   Conference   2018   (SAND18)     کے زیر اہتمام ایک   سیشن بعنوان ’’  انسان ہونے کا بھید   ‘‘  (The   Mystery   of   Being   Human) میں  گفتگو فرمائی جس نے بقول شخصے ، شرکائے کانفرنس کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ۔اصل مضمون کا عنوان  (The   Spiritual   Challenge   of   Artificial   Intelligence,   Trans-Humanism   and   the   Post-Human   World) ہے  جس کو اس لنک سے پڑھا جا سکتا ہے۔ اصل مضمون کےاخیر میں چند  اقوال پر مبنی ایک  مختصر ضمیمہ بھی ہے جو اردو ترجمہ میں شامل نہیں ہے ۔   غالب قیاس ہے کہ شیخ کبیر کے کسی مضمون کو پہلی مرتبہ اردو زبان کے قالب میں ڈھالا جا رہا ہے  ۔ علاوہ ازیں ،  مصنوعی ذہانت ، ٹرانس ہیومنزم اور مابعد انسان دنیا کی بدولت معاصرعہد کو درپیش روحانی چیلنجز کو بھی  ایک مبسوط انداز میں  پہلی مرتبہ  اردو دان طبقے کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے ۔

شبانہ روز رونما ہونے والے  واقعات کی تفہیم  کے لیے  ہماری ثقافت  کی ایک مابعد الطبیعیاتی تناظر سے محرومی کے کارن   میں خود کو اس بات پر آمادہ  پاتا ہوں کہ  ٹرانس ہیومنزم ، مصنوعی ذہانت اور مابعد انسان  کائنات سے متعلق سوال پر بات کروں ۔  مذہبی فکر  میں ہونے والی ٹوٹ پھوٹ نیز   ’صرف قابل پیمائش ہی حقیقی ہے‘   ، کے اصول  کو مذہبی فکر کا بدل ٹھہرانے کی بدولت  ہم میں سے وہ لوگ  بھی وجودیات اور  مابعد الطبیعیات کے سوالات پر غوروخوض کرنے میں کمزور ہو گئے ہیں جو روحانیت کے حامل تو ہیں البتہ ان کو ٹھیٹھ معنوں میں مذہبی آدمی قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ ہم   نے  الوہی   نظام میں گندھے ہوئے انسانی فطرت کے تصور کو کھو دیا ہے  ؛ اور   اس  کو  انسانی شخصیت یا انسانی انا  کی بت سازی  سے بدل ڈالا ہے ،  خالص موضوعی اور غیرمربوط ہیجانات کے  ساتھ  ۔

ٹرانس ہیومنزم   ،  ٹیکنالوجی میں ہمہ وقت مشغول   افراد (geeky   tech) پر مشتمل کوئی ذیلی ثقافت نہیں ہے او رنہ ہی    مستقبل کے بارے میں کوئی خیالی پلاؤ ہے بلکہ ہمارے اذہان میں سرایت کر جانے والا ایک ایسا مظہر ہے جس نے  ہماری صفتِ بشریت  (humanness) پر اپنا نقش جما  نا شروع کر دیا  ہے ۔ ہم انسانوں اور ٹیکنالوجی  کی باہمی یکجائی   کے بارے میں بات کر رہے ہیں   جو صرف ظاہری سطح پر   ہی رونما نہیں ہو رہی ہے بلکہ یہ ایک ایسا ممکنہ  ادغام  ہے جو روحانی سطح پر    عمیق ترین  جہات کو بھی نگل  سکتا ہے ۔

ہم  بیک وقت دو متفرق  جہات میں زندگی گزار دیتے ہیں  : پہلی  جہت مادے اور توانائی کی  دنیا پر مبنی ہے    جس کو سائنس کھوجتی   اور پرکھتی ہے نیز اس کو  کھول کھول کر بیان کرتی ہے  ۔ اپنی بہترین صورت (یا حالت ) میں  یہ جہت ایسی دنیا کو منکشف کرتی ہے جہاں توانائی اور مادہ ، موج اور ذرات ایک دوسرے میں ضم ہوتے ہیں،  حتی کہ حقیقت    سے متعلق ہمارے روایتی   احساس  کی جگہ بھی زمان و مکان  کی ایک  ناقابل بیان وحدت    حاصل کر  لیتی ہے ،  جو کہ عظیم صوفیاء کے عمیق مطالعہ کی یادگار ہے ۔ تاہم ایک دوسری جہت بھی ہے  جو اکثر و بیشتر حقیقت کے سائنسی بیان کی وجہ سے  نظر انداز ہو جاتی  ہے  ،  ایک ایسی جہت جو نہ صرف ہماری توجہ کی متقاضی  ہے بلکہ  بطور انسان ہمارے موضوعی    تجربے کی سب سے زیادہ قیمتی اور بامعنی جہت  ہے ۔ عام طور پراس جہت  کو  شعورسے منسوب کیا جاتا  ہے   لیکن    میں اس  باریک نکتے کی جانب توجہ مبذول کروانے کا متمنی  ہوں کہ مذکورہ  شعور محض  ایک ذہنی تجربہ نہیں ہے بلکہ اقدار ، کیفیات اور احساس ِ یگانگت   پر مبنی  ہمارے تجربےکا احاطہ کرتا ہے۔یہ  وہی  پہلو ہیں ،  جن  کے بارے میں کلائیو سٹیپل  لیوس (C. S. Lewis: 1898 – 1963) نے کہا تھا کہ’’ عین ممکن ہے کہ وہ بقائے حیات   میں ہمارے معاون  نہ ہوں تاہم   جینے کو بامعنی ضرور  بناتےہیں ‘‘۔

 یووال حراری  اپنی کتاب ’’انسانی الوہیت‘‘ (Homo   Deus) میں’’مذہب‘‘ سے آغاز کرنے والے ارتقائے انسانی کے ایک قوسی  خط کو بیان کرتا ہے،  جو دیوتاؤں اور اعتقادات کی اصطلاحات   میں  حقیقت کی تشریح کرتا تھا ۔  کئی صدیاں قبل ، انسانوں کے موضوعی  احساسات کے بل بوتے پر  انسان پرستی /انسان دوستی نے مذہب  پر  سبقت حاصل کر لی تھی    ۔ موجودہ زمانے میں  مصنوعی ذہانت(AI) اور ڈیٹا ازم  (dataism)  کےاس اعتقاد کی بدولت  دونوں(نظریات) انسان پرستی کے قائم مقام بنتے جا رہے ہیں   کہ تمام اشیاء اور افعال  بنیادی  اعتبار سے الگورتھم ہیں نیز  جانداروں سے لیکر سیاسی اور مادی ہر قسم کے افعال،(درحقیقت)    ڈیٹا پراسیسنگ  کی اقسام  ہیں   اور  مصنوعی ذہانت (AI)کی بدولت ان کی بہتر   تفہیم اور واقفیت  جلد ہی حاصل  ہو جائے گی   ۔

یووال حراری کے تجزیے میں  مذہب    من پسند  عقائد اور رجحانات  سے  زیادہ کچھ نہیں ہے  جو   حقیقت کی تفہیم کے لیے   بالعمو م  بچگانہ  اور غیر سائنسی کاوشوں پر مشتمل ہیں ۔ اس کے تجزیے میں  روحانی ادراک  اور اعلیٰ اخلاقی وجود  کی خاطر ہونے والی جدوجہد کا کوئی ذکر نہیں ملتا  ۔ انسان پرستی کی صورت میں (مذہب کے بعد ) ارتقائے انسانی کے دوسرے مرحلے کی حقیقت  موضوعی تجربے  یعنی   خواہشات اور جذبات کا سہارا لینے سے زیادہ کچھ نہیں ہے  تاہم انسان پرستی کا انسان کے اخلاقی وجود کو    نتھارنے  ، کندن کرنے یا  جذبات میں ترفع    ، تمناؤں ، آدرشوں اور الہامات سے کچھ  لینا دینا نہیں ۔ اور اب آخر کار مصنوعی ذہانت اور ڈیٹا ازم کے دور میں  انسان کو صرف مادی معنوں میں ہی تصور کیا جاتا ہے : خوراک ، لباس  ، سیاست ، تفریح ، کھیل ، کاروں اور جنس سے متعلق ہماری ترجیحات ہی ہماری شخصیت کی صورت گری کرتی ہیں۔ جب یووال  حراری  کہتا ہے کہ مصنوعی ذہانت ،  ہمارے متعلق ہم  سے زیادہ معلومات رکھتی ہے  تو  اس سے وہ انہی ترجیحات ، ذائقوں اور سماجی شناختوں کو مراد لیتا ہے ۔  ڈیٹا ازم کے اس جدید عقیدے کے ذریعے ہم اپنی بنیادی صفتِ  بشریت کے انہدام کی گواہی دے رہے ہیں  جس کی جگہ محض معلومات کی بت پرستی کو دی جا رہی ہے ۔  ڈیٹاازم کے اس جدید مذہب میں  موضوعی  تجربہ ، کیفیاتی شعور(  qualitative consciousness)، قلبی ادراک  اور حیات کے سب سے زیادہ بامعنی تجربات  حقیقت کے بیان سے خارج  کر دیے جاتے ہیں ۔

ٹرانس ہیومنزم بنیادی طور سے  انسانوں اور ٹیکنالوجی کا باہم ملاپ (ادغام)  ہے اور ڈیٹاازم انسان کو اس کے مقام سے نیچے  محض  الگورتھم  کی سطح پر  گرا دیتا ہے ۔ٹرانس ہیومنزم کے حمایتی   ماہرین ِ ٹیکنالوجی کی جانب سے پیش کردہ   انسانی شناخت کا تصور   یہ ہے کہ ہم محض یادداشتوں اور صلاحیتوں    کا ڈیٹا بنک ہیں اور  معلومات کو  بروئے کار لانے  والی مشینیں  ہیں ۔ ہمہ گیر مشینی انتظام کے حامی فلسفی(  Cybernetic Totalist   Philosopher)  مثلاً دانیال ڈینٹ (Daniel   Dennett) بیان کرتا ہے کہ انسان  صرف اعداد و شمار سے کام لینے والی ایک کمپیوٹر   مشین ہے جو حامل ِ شعور ہونے کے فریب کو جنم دیتی ہے  ۔ وہ انسانوں اور کمپیوٹر وں کے مابین کسی بنیادی وجودی امتیاز کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔اور رے کرزویل (Ray   Kurzweil)اس بات کا قائل ہے کہ صرف تھوڑے  ہی عرصہ  کی بات ہے  کہ   ذہین مشینیں شعور یافتہ ہو جائیں    گی ۔ ٹیکنالوجی کے ان ماہرین کے نزدیک موت صرف معلومات کے کھو جانے کا نام  ہے  ۔ معلومات کو محفوظ رکھنے اور اس کی بازیافت  کے ممکن ہو نے کی بنیاد پر  ہم لامتناہی  زمانوں تک ’’زندہ ‘‘ رہ سکیں  گے  نیز اپنی شناخت کوگمنامی کے گڑھے  میں غرق ہونے سے  بچا سکیں گے ۔

انتہائی   شخصی  (deeply   personal)  سے لیکر آفاقی ماورائیت(cosmically transcendent)   کی سطح تک ، ہماری صفتِ بشریت     ایک وسیع  طیفِ تجربے کی  حامل ہوتی  ہے ۔   میں اس تقریر میں  خاص مفروضات قائم کر رہا ہوں  کہ میں ان لوگوں سے بات کر رہا ہوں جو اس بات سے واقف ہیں کہ ہم حیاتیاتی سانچوں  سے تعمیر ہونے والے  محض کمپیوٹر  ز سے بڑھ  کر ہیں اور ہم معلومات سے لدے  گوشت کے ڈھیر سے زیادہ  ہیں ؛  ہم اصل میں روحانی وجود ہیں ۔

انسان کے مشینی نظام (cybernetic)پر مبنی تصور کے برخلاف  ، ہماری حقیقی صفت ِ بشریت   کو ایک عظیم روحانی حقیقت کے تناظر میں ہی سمجھنا  چاہیے  ۔(دینی متون  میں بیان کردہ تصور )   ’’ صورتِ خدا وندی  پرتخلیق  کردہ ‘‘ (created in   the   image   of   God:   imago   dei)   ،   انفرادیت اور روح کے مابین ایک تعلق سجھاتا ہے ۔ تمام روحانی روایات اس بات کی ترویج کرتی ہیں کہ انسان   کا   منبع  ایک عظیم تر روحانی حقیقت میں ہے اور انسان اسی عظیم تر روحانی حقیقت کے ساتھ کوئی نہ کوئی تعلق رکھتا ہے ۔ ہندومت ،یہودیت ،  عیسائیت اور اسلام تسلیم کرتے ہیں کہ انسان بنیادی اعتبار سے  آگہی و  شعور کا مالک نیز ارادے اور محبت   کے خمیر سے گندھی ہوئی  داخلی حیات  کا حامل  ایک وجود ہے ۔یہاں تک    کہ بدھ مت بھی  جو  انا ، روح اور خدا جیسے مابعد الطبیعیاتی  بیانات  سے گریز کرتا ہے ،   دانش اور احساس ِ دردمندی  کو اپنی روایت کے عناصر قرار دیتا ہے  اور نروان/ روشن خیالی  (enlightenment)  کے مظاہر قرار دیتا  ہے ۔

 انسان تجربات کے  شوقین اور متلاشی وجود  ہیں ۔ اپنی اس ضرورت کو پورا کرنے کے  لیے ہمارے دستیاب طریقے یہ ہیں:    تلاش ِ  مسرت ، دنیا پرغلبہ  ، فکری کامیابی  ، تسکین ِ انا ۔  اور بعض کے نزدیک    ہستی مطلق ، الوہی اورماورائے  بیان ، حسن کا تجربہ بھی شامل ہوتے ہیں ۔

تمام داخلی تجربات  برابر  یا  یکساں تسلی بخش نہیں ہیں یا  ہماری  شناخت کی تفہیم کے لیے ایک جیسے نتائج مہیا  نہیں کرتے ۔ شاید یہ بات درست ہو  کہ چند افراد بربریت میں مسرت تلاش کرتے ہیں اور دیگر نہایت سطحی تجربات، ادنیٰ ترین  خیالات ، یا عصر حاضر کی  غیرشخصی (مشینی ) اور مصروف زندگی  کی بدولت  لاحق مستقل  بے حسی  کے  ساتھ زندگی بسر کرتے  دکھائی دیتے  ہیں  ۔

کیا نفس (soul)کا کوئی کیفیاتی تجربہ ایسا  ہے جو  اعلیٰ تمناؤں کے ذریعے بروئے کار آتا ہے اور ان تمناؤں کےحصول میں صرف ہو جاتا ہے؟ اور کیا اس سب کی کوئی وقعت ہوتی ہے ؟ چند انسان اپنی خودغرض  امنگوں  سے اوپر اٹھنے  اورروحانی  وحدت  کو حاصل کر لینے کی ضرورت کو نہایت شدت سے محسوس کرتے ہیں  ۔کچھ کردار کی خوبی کے خواہاں ہوتے ہیں۔

میں داخلی روحانی  تجربے کی خاطر، انسانی تڑپ کے تناظر  میں  ، روحانیات کی ایک تعریف پیش کرنے  لگا  ہوں : روحانیات وہ سرگرمی (عمل ) ہے  جس کے ذریعے  ہم اپنے حق (صداقت) اور ذوق ِ حسن کو  لطیف تر درجات تک  پروان چڑھاتے ہیں    ۔ یہاں (اس تعریف میں ) حسن  کی شمولیت اس واسطے  ہے کہ   ’’ حق (صداقت) ‘‘ سے متعلق ہماری تفہیمات  ،ہمیں ذوقی  اعتبار سے  متاثر کرتی ہیں ۔ یہی تصور،   عصر حاضر میں ہمیں درپیش مابعد انسان دنیا کے سوال پر ہونے والی میری تقریر کا مرکزی نکتہ  ہے  یعنی حسن و حق  کا تجربہ کرنے کی ہماری صلاحیت ۔

ہماری ٹیکنالوجی ہمیں کہاں لیکر جا رہی ہے ، کس مقصد کی خاطر اوراس سفر کا نگران  کون ہے ؟

توسیع ِ  حیات کے مقصد   کی نیت سے ٹرانس ہیومنزم انفرادیت سے متعلق بنیادی معلومات کو کسی واسطے یا جسم میں منتقل کر دینے کا متلاشی ہوتا ہے   خواہ وہ جسم حیاتیاتی ہو یا نہ ہو ۔یوں  انفرادیت  کو محض حیاتیات  اور ڈیٹا کے ذخیرے تک محدود کر دیا جاتا ہے۔  ان کے لیےاس ذخیرے سے  ماورائیت    صرف انجیئنرنگ کا ایک مسئلہ ہے ۔ کیا ہماری قسمت   میں  یہی لکھا ہے کہ ہم  ایک ڈبے یا حیاتیاتی روبوٹ  میں محفوظ  ہو جانے والی یادداشتوں کا مجموعہ بن کر رہ جائیں ؟

ہم سب  اس بات سے واقف ہیں کہ سمارٹ فونز ، سوشل میڈیا اور مجازی حقیقت (ورچوئل ریئلٹی ) نے ہماری سماجی  حیات ،انسانی   رابطے    و یگانگت  کی صلاحیتیوں کو متاثر کیا ہے  نیز کسریت  اور خودفراموشی تک پہنچا دیا ہے ۔  بالفاظ ِ دیگر ، لوگ اپنا بیشتر وقت   ٹویٹس ، فیس بک کی لائکس   اور انسٹا گرام کی  پوسٹوں کی بدولت وجود میں آنے والی سماجی شناخت کے ساتھ مجازی (ورچوئل)  سماجی تعلقات   کی اقلیم میں  بسر کر رہے ہیں ۔ اس  امر کامشاہدہ کرنے کی غرض سے  ہمیں صرف اپنے آس پاس کے عوامی مقامات  پر نگاہ ڈالنی ہے کہ  بیشتر اشخاص  ہمراہیوں     کی بجائے اپنے آئی فونز   کے ساتھ رابطہ قائم کرنے اور ان میں محو ہونے کو زیادہ اطمینان بخش سمجھ رہے ہیں ۔  بیشترخبریں ہمیں اس بات سے آگاہی  دیتی  ہیں  کہ نئی نسل (یہاں میری مراد سکول کی ابتدائی جماعتوں کے طلباء سے ہے )  ، ہم سے نہایت  مختلف   ہے  جو  احساس ِ یگانگت   اورانسانی تعلق  کی صلاحیت سے کافی حد تک عاری دکھائی دیتی ہے ۔  تاہم سماجی تعلقات میں برپا ہونے والا یہ انقلاب انسانی شناخت اور مصنوعی ذہانت کے ادغام کی محض شروعات ہے ۔

کسی نے مابعد انسان دنیا کی تخلیق کے بارے میں    ہنوز ہم سے اجازت نہیں لی ہے  ، ایک ایسی دنیا جس میں مصنوعی ذہانت کے حامل الگورتھم  بے شمار روایتی  افعال  سرانجام دیں گے ۔ لوگ  حیران ہو جائیں گے کہ مشینی آموزش  (machine   learning) کتنی تیزی سے  نوکریوں کو انسانوں سے چھین لے گی ۔(ترقی یافتہ ممالک میں )   اگلے دس سے پندرہ برسوں  تک  پچاس فیصد اور ترقی پذیر ممالک میں ساٹھ سے پچاسی فیصد نوکریاں  ختم  ہو جائیں گی ۔

مصنوعی ذہانت غیر محسوس انداز میں بتدریج  اور کلی طور پر ہم سے آگے نکل  جائے گی اور ہمیں ان افعال    کےسہارے پر چھوڑ جائے گی جو  خود مصنوعی ذہانت کی بدولت ہی وجود میں آئیں گے ۔ لاریب ، ہم میں سے چند  انسانوں کو   معیشت اور مصنوعی ذہانت کے محکوم معاشرے میں مسابقت رکھنے  اور مفید  و کارآمد رہنے کی خاطر اپنی حیاتیاتی ذہانت کو توسیع (augment) دینے کی ضرورت  محسوس ہو گی ۔ مابعد انسان دنیا میں انسانی عظمت سے کیا مراد لیا جائے گا  جب  ہماری کارگزاری  اور مزدوری  کی ضرورت کم ہو  جائے گی  اور ہمارا بنیادی فریضہ  صارف  اور مفت خورے (  useless mouths)بن کررہنا قرار پائے گا   جنہیں  معیشت  میں مفید کردار ادا کرنے کی خاطر ایک لگی بندھی  آمدن    (guaranteed income) کی حاجت ہوتی ہے ۔

مشینی انسانوں (روبوٹس )کے ساتھ کام کرنے کے واسطے  ہم سے کیا درکار ہو گا ؟  مستقل کے معاشرے میں مفید اور کارآمد    بن کر رہنے کے لیے ہمیں خود کو مشینی آلات کے حامل وجود (cyborg) میں ڈھالنے کی ضرورت ہو گی ۔ عصبی توانائی (innervate) یا  مشینی ریشوں / بافت (  cyborg tissue) کی خاطر تفصیلی نقشہ(بلیو پرنٹ)  پہلے ہی سے تیار کر لیا گیا  ہے ۔ برقی آلات(الیکٹرونکس )کو دماغ میں داخل  کیا جا سکتا ہے نیز دماغ کا برقی آلات کے ساتھ مَیل ہو سکتا ہے ۔ہمیں  انٹرنیٹ  کے ساتھ منسلک  کمپیوٹروں کے  مربوط  جال   (cloud) پر مبنی  مصنوعی ذہانت  کے ذریعے  اپنی جسمانی ذہانت کو بڑھاوا دینا ہو گا ۔ یہ تو پہلے ہی ممکن ہو چکا  ہے کہ ایک ننھی سی سوئی کو دماغ میں داخل کر دینے کے بعد ایک ہمہ گیر  جال (mesh)قائم کر دیا جاتا  ہے جو آپ  کو انٹرنیٹ کے ساتھ جوڑ دیتا ہے ۔

جوں جوں یہ(معاملہ ) آگے کو بڑھتا ہے  تو ہم  میں سے کچھ لوگ کہیں گے کہ ہم کو اس سے کچھ سروکار نہیں ہے تاہم آخرکار  ہمارے پاس کوئی اختیار باقی نہ رہے گا ۔

مفیداور کارآمد  رہنے  کے واسطے  جسمانی اور مشینی ذہانت  کا ادغام درکار ہو گا  تاہم یہ کس قسم کی ذہانت ہو گی ؟ کیا یہ  پہلے سے بھی زیادہ اعداد و شمار کرنے والی ، تجزیاتی اور غیرشخصی ذہانت ہو گی ؟ نیز  روحانی ذہانت کو تو الگ رکھیے  جو  ہمیں حقیقت  کے بلند درجات ،اعلیٰ  جذبات  اور آفاقی ذہانت کی جانب لے جاتی  ہے ، جذباتی اور انسانی تعلقات  کے لیے درکار ذہانت   کا کیا ہو گا ؟

اپنی جانب    امڈتے ہوئے اس  سیل ِ معلومات کے ہاتھوں ہم پہلے ہی مصنوعی ذہانت (AI)کے سمندر میں غرق ہو چکے ہیں  جو  ہمارے پردۂ  ذہن پر دکھائی  دینے والی ہر شے  ،  نظر ِ التفات کے لیےہمارے انتخاب ، ہماری صورت گری کرنے والے بیانیے  اور غیرمرئی اشیاء کو بھی متاثر کرتا ہے ۔

اس کی مثال امیزون نامی ویب گاہ کی استعداد    ہے کہ وہ آپ کو ایسی کتابیں تجویز  کرسکتی ہے جو  اس کی معلومات کے مطابق ماضی میں آپ کےزیرِ مطالعہ رہنے والی کتابوں کے مماثل  ہیں نیز  یکساں دلچسپی رکھنے والے دیگر افرادن جنہیں پسند کر رہے ہیں ۔ سسٹم  میں آپ کی حیثیت محض ایک الگورتھم کی ہے  اورسسٹم لائبریریوں یا کتب خانوں کے اندر تلاش کے دوران ضائع ہونے والے آپ کے وقت کو بچاتے ہوئے  زیادہ بہتر طریقے پر   آپ کے آئندہ مطالعہ کے لیے کتابیں تجویز کر سکتا ہے ۔

اگر  اس بات کی کوئی حد نہیں ہے  کہ مصنوعی ذہانت (AI)آپ کے بارے میں کیا کچھ جانکاری حاصل کر سکتی ہے   ،  تو (پھر جان لیجیے کہ ) یہ آپ کو  نہ صرف قابل ِ مطالعہ مواد بلکہ   خوراک ، طبی مشورے ، سماجی واقعات ، دلچسپ تصورات ، احباب  اور عشاق  فراہم کر سکے گی ۔  یہ  بالکل ویسے ہی زندگی  کے فیصلوں  سے متعلق  مدد دینے  کی شروعات  کر سکے گی    جس طرح گوگل کے نقشے(  Google Maps)،  راستے  کی بھیڑ بھاڑ  سے بچاتے ہوئے مختصر ترین راستے کا تعین کرتے ہیں ۔ شاید ایک دن گوگل زندگی (Google Life) نامی ایک سافٹ  ویئر(app) ہو گا  جو آپ  کے بارے میں  خود آپ سے بہتر جانکاری کا حامل ہو گا یا  پھر کم از کم اس بات کا دعویدار  ہو گا۔ مزید براں ،  وہ زندگی کے فیصلوں میں آپ کی رہنمائی کرے گا ۔

انسان کی خود شعوری ، داخلی حیات بطورمنبع ِ آرزو ، دانش ، شعور    بتدریج مفقود ہوتے جائیں گے  نیز  کھری  انفرادیت ،  تخلیقیت ، اخلاقی جدوجہد ، بے غرض ایثار  اور اعلیٰ اخلاقی شعور  کے امکانات بتدریج اوجھل ہوتے جائیں گے ۔

اس کےبر عکس،  ہماری توجہ معلومات کے بحر ِ ذخار میں زیادہ معلومات کی شمولیت ، خود آگاہی پر مبنی اپنی تصاویر کی زیادہ سے زیادہ  تشہیر  ، اپنی  حیات کے نرگسی بیانیوں کی قلمبندی   ، رسمی (فارمولا) رائے کی  دہرائی    اور خارجی ڈیٹا کے لامتناہی دریا  کی سطح پراِدھر اُدھر ڈگمگانے پر  مرکوز رہے گی ۔

نیز اس  سے کیا مراد  ہوتی ہے  جب صفت ِ بشریت کے ان خصائص ، ایسی  اقدار اور  انسانی انا سے اوپر اٹھانے  والی  خوبیوں  کو کچلا جاتا  ہے ، فراموش کر دیا جاتا ہے  اور  ان  کی جگہ    مجازی حقیقت(ورچوئل ریئلٹی)  اور  انٹرنیٹ سے منسلک کمپیوٹر نیٹ ورک (cloud) پر مبنی  ایک منتشر(کسریت زدہ )  ذہن  کو عطا کر دی جاتی ہے  ،  وہ ذہن جو ہمارے خیالات کو جنم دیتے ہوئے ، ان کاانتظا م و انصرام کرتے ہوئے   اورہماری ترجیحات  کو متاثر کرتے ہوئے  ٹیکنوکریٹس  کے ہاتھوں تشکیل  پانے والی انسانی حیات   کے لیے ایک بیانیہ فراہم کرتا ہے ،  بجائے اس امر کے کہ (اس ذہن کی تشکیل ) دنیا بھر کی  روایات ِ دانش  کے ہاتھوں وجود میں آئے  جو انسان کی مابعد الطبیعیاتی  حقیقت کو تسلیم کرتی ہیں؟

پہلے ہی تنظیموں کا ایک مخصوص گروہ جن کے ناموں سے آپ پہلے ہی واقف ہیں ، ہماری  ا جتماعی ( یا معاشرتی )حقیقت کےنگہبانوں کی حیثیت سے ایک فیصلہ کن مقام پر قابض ہو چکا ہے ۔ کیا وہ ایسا بننا تصور کر سکتے  ہیں یا پھر ممکن ہے کہ   وہ  پہلے ہی سے ایک سرکش مصنوعی ذہانت کے ایسےمرئی  عناصربن چکے ہیں  جوہماری بنیادی صفت ِ بشریت  کی تشکیل  کر رہی ہے، یا اسے تبدیل کر رہی ہے  اوریہاں تک کہ اسے خطرات سے دوچار کررہی ہے   ؟  ہم کیسے  اس بات کو یقینی بنا سکتے ہیں کہ ہماری معاشرتی حقیقت کے یہ نگہبان    ، ہماری سچی صفت ِ بشریت  کی  تفہیم سے اخذ کردہ  اقدار میں حصہ دار ہوں  ؟ یہ  ذمہ داری ان لوگوں  پر عائد ہو گی جو انسان ہونے کے بھید کو سمجھتے ہیں اور اس کو اہمیت دیتے ہیں ۔

کیا ہم ان تنظیموں کو اپنی  معلومات پر اس قدر غلبہ پانے کی اجازت دیں گے کہ  وہ منافع اور اقتدار کی اُن قوتوں کی خاطر ذہن سازی (برین واشنگ) کے گڑھ بن جائیں جو انسانیت کو غیرانسانی  بنا رہے ہیں  اور  زمین پرحیات (انسانی و حیوانی)  کو تباہ کر رہے ہیں ؟  آج یہ مکالمہ ناگزیر ہو چکا ہے جب    اشہبِ زمانہ   مصنوعی ذہانت اور ٹرانس ہیومنزم کےایجنڈے کو مناسب جواب دینے کی غرض  سے   حکومتوں  ، تعلیم ، مذہب یا نفسیات کی اہلیت کو مات دے رہا  ہے  ۔

تین دروازے

 برطانیہ میں ڈاکٹر  گراہم ڈاؤنگ  نے تجویز دی ہے کہ انسانی ادراک کے تین دروازے ہیں جو مصنوعی ذہانت اور انسانی اقدار کی اقلیم کے اس مابعد الطبیعیاتی جہل  سے متاثر ہو رہے ہیں۔ 

پہلا دروازہ  وہ ہے جو  ہمیں  خارجی کائنات تک لے جاتا ہے ۔جب  مجازی حقیقت سے تبدیل ہو جانے پر ، اصلی حقیقت  اپنی قدروقیمت کھو بیٹھتی ہے  نیز ایک مصنوعی حقیقت  ایک متبادل کی صورت اختیار کر لیتی  ہے۔ وہ مصنوعی حقیقت  جو  ایک تجارتی ، سیاسی اور مصنوعی ذہانت سے بڑھاوا حاصل کرنے  والی اناپسندانہ  قوتوں  کے ہاتھوں وجود میں آتی ہے ۔

دوسرا دروازہ وہ ہے جو ہمیں  داخلی کائنات تک لے جاتا ہے ۔یہ وہ دروازہ ہے جو  مجازی حقیقت کے داخلی کائنات بن جانے  پر بند ہو جائے گا ۔

آخر کار، وہ دروازہ    جو ہمیں  روحانی کائنات کی جانب لے جاتا ہے ، پہلے کی نسبت زیادہ  تنگ ہو جائے گا ۔ جب ہم   اس ٹیکنالوجی کے زمانے سے تعلق رکھنے والے مصنوعی اور محکوم زدہ  ماحول میں زیادہ سے زیادہ گھِر جاتے ہیں  ، جب ہم قدرتی دنیا اور اس کے ساتھ جڑے ہوئے ہمارے انسانی ردعمل   سے محروم کر دیے جاتے ہیں ، جب ہمیں مستند سماجی تعلقات کے زندہ و جاوید تجربے سے کاٹ دیا جاتا ہے  تو پھر ہمیں  حقیقت کی روحانی ماہیت کے سب سے زیادہ براہ راست احساس سے بھی  کاٹ دیا جائے گا ۔

خلاصہ یہ ہے کہ   یہ تینوں دروازے منظم انداز میں تباہ ہوتے جا رہے ہیں  اور   یہ نقصان ناقابل تلافی ہے ۔ روحانی ہم آہنگی  کا حصول دشوارتر  ہو رہا ہے  ؛  انسانیت کسریت  اور  ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہی ہے ۔

انسان کی روایاتِ دانش اس امر کی بہترین  کاوشیں انجام دے چکی ہیں کہ      انسان کی داخلی حیات کو  بیدا ر اور  برقرار  رکھا جائے،اس کو  مزین کیا جائےنیز اس کو رفعت بخشی جائے ۔ اگرچہ  مذہبی استعاروں یعنی جنت ، دوزخ ، جزا و سزا  ، خیروشر  کو بعض اوقات غلبہ کے لیے بطور ہتھیار  استعمال کیا جا سکتا ہے یا  ان کو کھوکھلے رسم و رواج  کی مثل ارزاں کیا جا سکتا ہے  تاہم اس کے باوجود وہ زمان و مکان  سے پرے ایک  حقیقت، کسی دائمی جہت   کی جانب اشارہ کرتے ہیں ، جسے نظر انداز کرنے میں ہمارا ہی  نقصان ہے ۔

اگر مجھے اپنی صوفیانہ روایت کے تناظر سے روحانی رفعت  کے مقصد کا لب لباب بیان کرنا  ہو،  تو  اس سے مراد   اناپرستی کے ان میلانات کو گھٹانا ہے جو حیات کی روحانی ماہیت کو ہم سے اوجھل کر دیتے ہیں  ، (بالخصوص ) اس حقیقت کی جانب  سے کہ  جس کا تجربہ کرنے کی انسان  خلقی استعداد رکھتا ہے۔اناپرستی کی انتہائی صورتیں مثلاً  خودغرضی ، تکبر ، نرگیسیت ، تعصب اور جارحیت   ہماری صلاحیت ِ معرفت  کو محدود کردیتی ہیں ۔ ہماری انا پرستی  کی سطح    ہمارے  کیفیت  ِ شعور (علمی احوال)  نیز اس شعور میں دوسروں  کے واسطے  موجود  احساس یگانگت اور(سب سے بڑھ کر )  خود ہماری ذات  کے واضح اور متوازن تصور کا تعین کرتی ہے۔

اگر ہمارا شعور صرف  مقداری تجزیے  یا اعدادوشمار پر مبنی خیالات  تک  محدود ہو جاتا ہے ، اگر ہمارا شعور بنیادی طور پر قلبی معاملات کی بجائےخارجی  دنیا کے زیرِ تسلط آ جاتا ہے  ، اگر ہمارے اذہان معانی کی بجائے معلومات سے بھر جاتے ہیں ،   تو (ایسی صورت میں )  ہم وجود  کی ایک مصنوعی سطح  اور انسانیت کی کم تر   حالت پر  زندگی بسر کر رہے ہیں ۔ ایسی انسانیت جو حقیقت کی کلی ترتیب کا شعور کھو چکی ہے اورجس نے  خود کو ایک ذہنی ڈبے میں مقید کر لیا ہے ۔ اس بات سے قطع نظر کہ  مذکورہ ڈبے کے اندر موجود  الگورتھم کس قدر عظیم اور وسیع ہیں،  ان  کا دائرہ کار صرف اسی ڈبے تک محدود ہے اور وہ  ہمیں اس ڈبے کے باہرکی خارجی دنیا   کے بارے میں کوئی معلومات  نہیں  دیتے ہیں ۔

سچی روحانیت ہمیشہ سے حقیقت کے وسیع دائروں کی کھوج  میں رہی ہے اور اب بھی  ہے ۔ سچی روحانیت کھری  صفت ِ بشریت کے سوا کچھ نہیں ہو سکتی  ۔ سچی روحانیت روح کی پاکیزگی و رفعت اور ایک ایسے  کیفی روحانی’’ جوہر‘‘ کی تخلیق و تشکیل کا ایک عمل ہے  جس کو ہم جان سکتے ہیں نیز تجربہ  میں لا سکتے ہیں  ۔ یہاں تک کہ  اگر ہمارے مادی و ریاضیاتی علوم اس جوہر کی تصدیق نہیں کر سکتے (اگرچہ بعض اوقات انسانی جسم اور خاص طور پر اعصابی نظام میں اس کے اثرات کا مطالعہ کر سکتے ہیں )    ، انسانی حیات کے اہم ترین اور  قیمتی تجربات اسی ورحانی  دائرے میں واقع ہوتےہیں ۔

انسان کی  روحانی رفعت  کا منصوبہ ایک  ایسی شے ہے کہ تمام مادی اور سماجی فلاح و بہبود کا انحصار اسی پر ہے ۔ اس کے بغیر ہم گم کردہ ، سطحی انسانی مفروضوں سے آلودہ  ، سنگ دلانہ  طمع  کے شکار  اور ممکنہ طور پر استبداد کے ایک ایسے نظام میں غرق ہیں جو  ہماری عزیز از جان صفتِ بشریت کا ہی دشمن ہے ۔

مصنوعی ذہانت(AI) کے ذریعے پیدا ہونے والے علم کے اپنے تئیں  ہمہ دانی پر مبنی  (کمپیوٹر) نیٹ ورک  کے ساتھ متفرق انسانی اذہان اور اجسام   کو جوڑتے ہوئے اپنی حیاتیاتی  ذہانت میں   اضافہ کرنے کی بجائے ، ہمارا فرض ہے کہ اپنی  اعلیٰ فطری انسانی استعداد  کو بیدا ر کریں ۔ سپر کمپیوٹر کے حامل مشینی جسم (cyborg   flesh)میں یادداشتوں کے ذخیرے کو منتقل کرتے ہوئے ماورائیت حاصل کرنے  یا اپنے دماغوں کو (مشین +انسان کے مابین )  ایک متواتریکتائی (  ongoing singularity) کی  حامل  بناوٹی حقیقت (simulated   reality) کے ساتھ مدغم  کرنے کی بجائے ، ممکن ہے کہ ہماری  ذمہ داری اس سب کے برخلاف  ہو   : اس فانی  زندگی میں  اپنی صفت ِ بشریت  سے فائدہ اٹھایا جائے  ، اس سے سبق حاصل کیا جائے   اور اخلاقی دائرے  کے اندر اس کی نشوونما کی جائے ، خود کو آفاقی آہنگ  (order)   کے ساتھ چلایا جائے  نیز اس  ہم آہنگی  کو اپنا حال بنایا جائے ، تاکہ  اسی (ہم آہنگی )  کے ذریعے  بلند سے بلندتر روحانی شعور کو حاصل کرتے ہوئے،  آخر کار اسی حال میں  اپنے نفوس کو ابدیت میں  فنا کر دیا جائے ۔

Recommended Posts
Comments
  • Ghulam Muhammad
    جواب دیں

    Masha A…
    Many thanks for educating us. It is indeed d smartest and fastest transormation human civilization has witnessed so far.

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search