ریاضی بطور فکر ۔ موردیخائی لیوی ایچل (ترجمہ: عاصم رضا)

 In ترجمہ

تعارف:  موردیخائی لیوی ایچل(Mordechai-Levy-Eichel) ییل یونیورسٹی (Yale-University) امریکہ میں شعبہ سیاسیات میں بطور لیکچرر تدریس کے فرائض سرانجام دیتے ہیں ۔ زیرِ نظر ترجمہ، ان کے ایک انگریزی مضمون  Intellectual-History-of-Mathematics پر مشتمل ہے جو  ایک آن لائن جریدے (aeon.co) پر 11 اکتوبر ، 2018ء کو شائع ہؤا۔

 

تاریخ  میں  ریاضیاتی تصورات    اپنی دلپذیری اور ہیئت میں تبدیلی لانے والے چند اہم ترین تصورات کی حیثیت سے معروف ہیں ۔ اس کے باوجود  ان کو   نہایت کم توجہ کیوں ملتی ہے ؟

’’مزید براں ، (علم ریاضی کی) یہ بنیادیں   ، ماہرین سائنس کے لیے تفکر اور  دریافت کا  دائمی  منبع ہیں ۔   حتی کہ عددی نظام میں  آپ کو گہرے تفکر کے لیے مواد مل جائے گا ۔ یاد رکھو کہ (جرمن مفکر ) لائبنز نے  اس میں مشغولیت  اختیار کر لینے کو حقیر نہیں جانا‘‘ (پال والیری بنام پیری ہونوریٹ ، 1942)

ریاضیاتی تصورات کی دسترس اور نفوذ پذیری کی بے شمار مثالیں موجود ہیں ۔ مثال کے طور پر ، زیرِ نظر مضمون کمپیوٹر کے ذریعےلکھا گیا تھا ۔ اس کمپیوٹر کو چلانے والا سافٹ ویئر یعنی اس کا ذہن و روح  ، انفارمیشن تھیوری کے بانی (امریکی ریاضی دان اور الیکٹریکل انجینئر )    کلاڈ شینن(Claude-Shannon)کے افکار  اور (خاص طور پر ) اس کے مضمون بعنوان ’’ابلاغ کا ریاضیاتی نظریہ‘‘ پر مبنی  مخصوص ہدایات  کا ایک  مجموعہ ہے  ۔  تاہم  یہ بالکل سامنے کی با ت ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت معمولی مثال بھی ہے ۔ذاتی  کمپیوٹر  (personal-computer)بمشکل ہی انسانی وجود کا ایک لازمی جزو ہے اگرچہ  آج کل  ہم میں سے بیشتر  افراد  کی زندگیاں اس کےاردگرد  تعمیر ہو چکی ہیں ۔  آئیے اس سے بھی زیادہ بنیادی اور دور رس شے کو لیتے ہیں جس کے بارے میں غالباً ہم سب پہلے سے ہی جانتے ہیں خواہ بہت معمولی ، جیسا کہ اوسط (mean) کی جانب مراجعت   (regression)کا تصور ۔

جیسا کہ آکسفورڈ انگلش ڈکشنری  بیان کرتی ہے ، اوسط کی جانب مراجعت سے مراد ’متواتر آزاد آزمائشی پھیروں  (trials)کے تحت   کسی   منقسم متغیر کی مقداروں کا  اوسط کی جانب  حرکت کارجحان‘ ہے ۔ بالفاظ دِگر جتنے زیادہ آزمائشی پھیرے ، غلطی کے اتنے ہی کم امکانات  ۔ مثال کے طور پر ،  آپ سکول میں ہونے والی دوڑ میں شامل ہیں ۔حیرت انگیز طور پہ اچھی  کارکردگی دکھاتے ہوئے آپ   اپنے ہم جماعتوں میں سے اکثر کوپیچھے چھوڑ جاتے ہیں  ۔ اگلی مرتبہ ، تمام اشیاء کے  یکساں ہونے پردوسرے ساتھیوں کے مقابلے میں آپ کی بہتر کارکردگی دکھانے کے زیادہ امکانات نہیں ہیں ۔ یقیناً ،  کسی کے اصل مرتبہ کا دارومدار  مہارت اور قابلیت  پر ہوتا ہے ۔ اگر آپ نے پہلی وفعہ میں عمدہ کارکردگی دکھائی  تو غالباً آپ تیز رفتار ہیں تاہم ہر دفعہ کے نتیجے کا دارومدار قسمت کے ساتھ دوسرے حالات پر ہوتا ہے ۔  لہذا، انتخاب  کے ممکنہ اثر  کو کم کرنے کی خاطر ایک شخص کو بارہا تجربہ کرنا لازم ہے ۔ اپنے مقام یا مرتبے کو صاف صاف دیکھنے کے قابل ہونے کے  لئے آپ کو نتائج  کےبکھراؤ (distribution-of-outcomes) کی صورت یا ہیئت کو جاننے کے قابل بننا  ناگزیر ہے ۔  اوسط کی جانب مراجعت کا تصور اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ہم طبی تحقیق  کے سانچے سے لیکر قمار بازی (gambling)اور سادہ چکنی چپڑی تقریروں (prosaic-pep-talks)   جن کے بارے میں ہم کہتے ہیں کہ ’’اگلی دفعہ بہتر ہو جائے گی‘‘ ، جیسے معاملات  کے ایک وسیع سلسلے کے بارے میں کیسے سوچتے ہیں ۔  درحقیقت ، شاید ایسا ہی ہو گا ۔

وکٹورین عہد کے  ایک جامع العلوم   اور مصلح (eugenicist)سر فرانسس گیلٹن (Sir-Francis-Galton) نے  سب سے پہلے  اوسط کی جانب مراجعت کے تصورکی دریافت  و تشکیل کی  جب وہ توارث  کا مطالعہ کر رہا تھا ۔ گیلٹن کے مشہور فقرے  ’’درمیانہ درجہ کی جانب مراجعت‘‘   نے اس شے کے مطالعہ سے جنم لیا  کہ عبقریت کیونکر نسل در نسل  منتقل ہوتی دکھائی دیتی  تھی  مگر پھر وقت  کے ساتھ ساتھ  یہ  کیسے اور کیونکر ختم ہو جاتی تھی  ۔  عبقریت اور قابلیت کو فی نفسہ ناقابل پیمائش سمجھتے ہوئے  گیلٹن نے دوسرے مقداری  (quantifiable)مظاہر کا مطالعہ کیا  جیسا کہ والدین اور بچوں کے مابین قد وقامت کا فرق اور گرتی ہوئی اشیاء کے مکانی بکھراؤ(spatial-distribution)۔  اس نے ’پانچ اور بارہ کی نسبت سے کام کرنے والے ہندسی  طریقہ کار‘(quincunx) کو وضع کیا   اور اس بات کو تلاش کر لیا کہ یکساں طور پر گرائی جانے والی (uniformly-dropped)اشیاء (اپنے متوقع راستہ سے )معمولی انحراف  کرتے ہوئے  سڈول گھنٹی کی  مثل ترسیمی صورت  (normal-distribution) اختیار کر لیتی تھیں  ۔ یقیناً ، سڈول گھنٹی کی مانند جھکاؤ جیسی ہیئت   ، خودمختار اور تابع متغیرات کے مابین نسبت کوریاضیاتی نقشہ(plot) کی مدد سے دکھانے  کی خاطر استعمال ہونے والی  کئی صورتوں میں سے ایک ہے ۔ گیلٹن کی ذہنی اختراع  یعنی اوسط کی جانب مراجعت کے اس کے تصور  نے ظاہری دنیا کے بعض اوصاف کو نمایاں کر دیا ۔  اس کارگزاری کے دوران اس نے ہمیں دیگر اشیاء کو شمار کرنے اور بیان کرنے میں مدد فراہم کی جن کو  نہ ہم دیکھ سکتے  ہیں  اور نہ ہی ان کو جانچ سکتے  ہیں  مگر جو ہماری زندگیوں کی صورت گری کرتی  ہیں  ۔

محققین کے  ہاں تاریخ افکار  اور تاریخ ِ ریاضی کے مابین  پائی جانے والی جدید تقسیم  بلاجواز (untenable)ہے کیونکہ شاید ریاضی ہی  حتمی علمی کاوش (intellectual-endeavor)  قرار پائے۔  انیسویں صدی کے جرمن ریاضی کارل  فریڈرش گاز(Carl -Frederich-Gauss)کے الفاظ میں ’’ریاضی ہی علوم کی ملکہ ہے‘‘ قسم کی باتوں سے یہ بات ہر جانب پھیل گئی کہ حساب دانی، جدیدیت کی صورت گری کرنے والے خصائص میں سے ایک ہے  ۔ درحقیقت ، جدیدیت کے تحت ہونے والی عظیم تبدیلیوں میں سے ایک   یہ ہے کہ کیسے قدرتی دنیا کے مطالعہ سے ہٹ کر تصورات و افکار کے مطالعہ پر اپنی توجہ مرکوز کرتے ہوئے حساب دانوں نے   ریاضی سے متعلق اپنے نقطہ نظر کو تبدیل کیا  ۔ غالباً کسی بھی دوسرے مضمون کی نسبت ریاضی،  افکار کے مطالعہ سے متعلق ہے ۔ تاہم تاریخ ِ افکار کا ذکر چھڑتے ہی اس بات کا امکان کم ہے کہ (جرمن ریاضی دان ) رچرڈ ڈیڈیکنڈ (Richard-Dedekind) کے مجوزہ قط (Dedekind-Cut) کے بارے میں کوئی بات آپ کے کانوں تک پہنچ پائے ۔ یہ ایک ایسی تکنیک ہے جس کے ذریعے ناطق اعداد کی بدولت حقیقی اعداد کی تعریف کی جاتی ہے ۔ یا   ارسطو کے ’’اصول برائے اجتماع نقیضین‘‘ (Law-of-Excluded-Middle)سے متعلق جان بروئر (Jan-Brouwer) کے انکار کو سن پائیں۔ (ارسطو کا ) یہ اصول کہتا ہے کہ کوئی بھی قضیہ درست ہوتا ہے یا اس  کے برعکس قضیہ درست ہوتا ہے۔ اور نہ ہی اس بات کا امکان ہے کہ ان تصورات کی متنازع تاریخ کے بارے میں آپ کو کچھ سننے کو ملے ۔ عام طور پر جب وہ افکار سے متعلق بات کرتے ہیں  توآج کل کے مؤرخین ان سے سیاسی فکر ، ثقافتی تجزیہ  اور شاید معاشی اور مذہبی تصورات کا چھڑکاؤ مراد لیتے ہیں ۔

ایسا نہیں ہے کہ ایسی تقسیم کو صرف ایک جانب سے بیان کیا جاتا رہا ہو ۔ جیسا کہ تاریخ دان جان ٹریش نے  زمانہ قریب میں نشاندہی کی  : ’’گزشتہ تیس برسوں میں تاریخ ِ سائنس میں مہارت حاصل کرنے والے  بیشتر مؤرخین   کے نزدیک سائنس کی تاریخ تحریر کرنے کا مطلب ہے تاریخ ِ افکار سے گریز کرنا‘‘ ۔ اگرچہ سائنس کے بیشتر مؤرخین علمِ ریاضی کی تاریخ کو بھی اپنے کام کا ایک حصہ  تصور کریں گے مگر ریاضی اپنی  موجودگی  کی نسبت اپنی غیرموجودگی سے زیادہ نمایاں ہے  ۔ تاہم مؤرخین ِ سائنس کے ہاں   یہ مسئلہ نسبتاً زیادہ ہے  کہ گزشتہ صدی میں کسی دائرہ علم  میں استحکام  اداروں اور معاشی کامیابی کی بدولت  ہوا ہے تاہم اس  نے علم کے اس دائرے کو (علم کے کلی دائرے سے ) کاٹ کر رکھ دیا ہے ۔ آج کل یہ کام بنیادی طور پر  جدا جدا شعبوں اور گروہوں  میں ہوتا ہے ، الگ الگ تربیت کے ساتھ ۔یہی شے عمل اور نتائج میں سائنس و معاشرے کے مطالعات کے مابین ایک تقسیم کو مضبوط کر تا ہے  یعنی ایک ایسی شے جس کو اس دائرہ علم کا اپنا ادب  بارہا تنقید کا نشانہ بناتا ہے ۔

اس علمی تقسیم کا نقصانات میں سے ایک یہ ہے کہ ہم میں سے بیشتر افراد جو کہ  ریاضی دان  یا ماہرین ِ طبیعیات یا انجیئنر  نہیں ہیں ، ایک ایسا تصور ریاضی اختیار کر لیتے ہیں جو بنیادی طور پر  گریجویشن کے دوران  ریاضی سے ہماری مڈھ بھیڑ کا نتیجہ   ہوتا ہے ۔ بدقسمتی سے بیشتر افراد کے لیے ریاضی ایک پریشان کن ، تکرار پر مبنی ، رسمی اور تجریدی تکنیکوں کا ایک مجموعہ ہے ۔ اس کے باوجود یہ رویہ   اس زاویے سے یکسر مختلف ہے جس سے   ریاضی دان اپنی تحقیقات کو دیکھتے ہیں ۔ اس کی بجائے ،  ہندسی ترسیم کے ماہر  ایڈ شینرمین  کی 2017ء میں چھپنے والی  کتاب  ’’ریاضی کے محبوب کی ہم سفر‘‘ کے الفاظ میں، ریاضی دانوں کو وہ ’فرحت افزا، خوبصورت‘ قضایہ(theorems) اور تصدیقات (proofs) اپنی جانب کھینچتے ہیں جن تک وہ ایک شدید ذہنی ریاضت   کے ذریعے پہنچتے ہیں  ۔

غالباً ، علم ریاضی سے متعلق ہمارے دولخت تصور  کے خلاف سب سے زیادہ جوشیلا   احتجاج امریکہ میں نجی سکول کے استاد پال لاک ہارٹ  کا کتابچہ  ’’ایک ریاضی دان کا نوحہ‘‘ (A-Mathematician’s-Lament) ہے ۔ 2002 ء میں قلمبند ہونے   اور کئی برسوں تک ریاضی دانوں اور ماہرین ِ تعلیم کے درمیان گردش کرنے والے لاک  ہارٹ کے مضمون نے  علم ریاضی کی  لازمی تعلیم کے لئے استعمال ہونے والے زیادہ تر حصہ کی سادہ ترین ماہیت کو  نہایت بے رحمی سے تنقید کا نشانہ بنایا ۔ لاک ہارٹ  نے لکھا کہ علم ریاضی کو ہمیشہ اس طرز سے پڑھایا جاتا ہے کہ ریاضی دان کو بڑھا و ا دینے والی  اصل بصیرت و استدلال ، بڑائی و معرفت اور  دلچسپی  و بے چینی کو اندھیرے میں رکھا جائے ۔ (ریاضی کے) مضمون کوآسمان سے زمین پر لانے کی کوشش کرتے ہوئے لاک ہارٹ لکھتا ہے کہ ’’طلبا کے پاس اس راز سے آگاہی حاصل کرنے کے لیے کوئی وقت نہیں ہوتا کہ کسی  بھی دوسرے ادب کی مانند علم ریاضی   کو انسانوں نے اپنی تفریح طبع کے لیے ایجاد  کیا ہے ۔‘‘

ادب کی تمثیل کو مزید  بڑھاوا دیتے ہوئے لاک ہارٹ  اصرار کرتا ہے کہ ’’ریاضی کا ایک نمونہ   ایک نظم کی مانند ہوتا ہے اور ہم دریافت کر سکتے ہیں کہ کیا   یہ ہمارے جمالیاتی معیارات کی تشفی کرتا ہے : کیا یہ دلیل  معتبر ہے ؟ کیا  یہ بامعنی  معلوم پڑتی ہے ؟ کیا یہ سادہ اور دلفریب ہے ؟ کیا یہ مجھے معاملے کے مرکز سے قریب تر کرتی ہے ؟‘‘ نیز آرٹ کے بیشتر نمونوں کی مانند ، اس کی صحیح تحسین کرنے کا طریقہ رٹا لگانا نہیں ہے :’’ریاضیاتی تحقیقات  سنجیدہ تحسین کی متقاضی ہیں یعنی کوئی بھی ریاضی کا ذوق رکھ سکتا ہے اور پیدا کر سکتا ہے‘‘۔ تکنیکوں کے ایک سلسلے کے انداز سے  ریاضی کی تدریس    سے علم ریاضی کی کشش اور ماہیت اوجھل ہو جاتے ہیں :’’ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ سکول میں  کسی قسم کی تنقید نہیں ہورہی ہوتی ہے یعنی وہاں  تنقید کے لائق کوئی آرٹ تخلیق نہیں ہو رہا‘‘۔ معروف انگریزریاضی دان گاڈفرے ہیرالڈ ہارڈی (Godfrey-Harold-Hardy)  نے اپنی کتاب ’’ایک ریاضی دان  کی معذرت‘‘ (A-Mathematician’s-Apology)  میں ریاضی و موسیقی کا باہم موازنہ کیا تھا  : ’’ایک مصور یا  شاعر کی مثل ، ایک ریاضی دان بھی  سانچے (patterns)تخلیق کرتا ہے ۔ اگر اس کے سانچے دوسروں کی نسبت زیادہ پائیدار ہیں تو   اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ افکار / خیالات کی مدد سے بنائے جاتے ہیں۔‘‘

پھر ان دونوں کو نسبتاً بہتر انداز میں یکجا کر لینے سے ہم   کیا  کچھ سیکھ سکتے ہیں ؟ کیا کچھ حاصل کر لینا ممکن ہوتا  اگر  فلم ’’گھوسٹ بسٹر‘‘ (1984) میں ایگون سپنگلر  (Egon-Spengler) کے الفاظ  کو استعمال کرتے ہوئے ’’ہم تاریخِ ریاضی اور تاریخ ِ افکار کی  ندیوں  کو عبور کرتے ہیں؟‘‘

ہمیں تاریخ ِ افکار کو سیاست کے بارے میں قیاس آرائیوں کا گرویدہ (besotted) نہیں سمجھنا چاہیے ۔ علاوہ ازیں ، ہم پر امید ہیں کہ ہم   ان متفرق افکار اور بصیرتوں  کو زیادہ بامعنی بنا سکتے ہیں  جو(خوش قسمتی اور  بد قسمتی سے )  پس پردہ  رہتے ہوئے  ہماری جدوجہد کے  محرک بنتے ہیں نیز ہمیں ان کے بارے میں معلومات فراہم کرتے ہیں ۔ زمانہ حاضر کی علمی تاریخ   پر  اعلیٰ سیاسی تصورات  کا غلبہ ہے ۔ ریاضی کی تاریخ اور اس کے افکار کو کم تر  حیثیت دینے میں کئی عناصر کا ہاتھ ہے ۔ ان سب میں سے ممتاز عنصر یہ ہے کہ نمایاں علمی مؤرخین کا کام کس قدر سیاست پر مبنی رہا ہے ۔

مثال کے طور پر ، برطانوی محقق کوئنٹن سکینر (Quentin-Skinner) اور فرانسیسی مفکر مثل فوکو (Michel-Foucault) گزشتہ پچاس برسوں کے موثر ترین  علمی مؤرخین میں شامل ہوتے ہیں ۔ بادی النظر میں وہ کم و بیش ہر طریقہ سے یعنی اپنی نثر   کےاسلوب سے لے کر  اپنے موضوعات تک ایک دوسرے سے مختلف ہیں ۔ اس کے باوجود ، دونوں علمی تاریخ کو اکثر و بیشتر سیاسی اصطلاحوں اوربطور اظہار ِ قو ت   ہی پیش کرتے ہیں ۔  دونوں کے نزدیک ، افراد کے بیانیے اور ذہنی رویے  زیادہ تر سماجی اور سیاسی دنیا کو ہی بیان کرتے ہیں نیز تبدیلی  کی وجوہات  اور زمانہ بتلاتے ہیں ۔ تاہم جدید ریاست کے نمودار ہونے کی اہم ترین وجوہات میں سے ایک  سیاست دانوں اور افسر شاہی کی بڑھتی ہوئی ممکنہ پہنچ ، ریاضی اور ٹیکنالوجی کے میدانوں میں ہونے والی ترقی کی بدولت تقویت پکڑنے والی تبدیلیاں  ہیں اور (یہی نکتہ ) ان دونوں کے ہاں ناپید ہے ۔

تاریخ  افکار میں ریاضی کے کردار سے واقفیت ہمارے سیاسی فہم کو مزید صیقل کردے گی ۔ اپنے نظریات کو حتمیت اور اختیار فراہم کرنے کے خواہاں لوگ ریاضی کو استعمال کرتے ہیں تاہم و ہ اس کا بے جا فائدہ بھی اٹھاتےہیں ۔  رسمی علم کے نچوڑ (epitome-of-formal-knowledge)اور تجریدی استدلال  کے بہترین نمونے کی حیثیت سے ریاضی کے تصوراتی پیکر نے یورپی فکر کو صدیوں تک ااپنا اسیر بنائےرکھا ہے ۔   ماہرین ِ الہٰیات سے لیکر سیاست دانوں اور معاشی ماہرین  تک اکثر وبیشتر  نے بھولپن   ، حتی کہ چالاکی  سے ،  ریاضیاتی طریقہ ہائے کار کو حد سے زیادہ   سادہ نظریات کی تشکیل اور ان کے اطلاق کے لیے اختیار کیا ۔ اس طریقہ کار کو درپیش ہونے والے لگاتار مسائل کے باوجود،یہ  ترنگ مرکزی حیثیت کی حامل اور صورت گر رہی ہے نیز اس سے نسبتاً تغافل برتا گیا ہے ۔

علم ِ معاشیات  ایک تازہ  مثال فراہم کرتا ہے  تاہم یہ بات فن ِ تعمیر اور فلسفہ جیسے  متفرق مضامین کے لیے بھی اسی طرح  درست ہے  جیسا کہ ماہر سیاسیات و بشریات جیمز سی سکاٹ نے اپنی کتاب ’’ریاست کی مثل :کیسے مخصوص منصوبے  انسانی صورت حال کو بہتر بنانے میں ناکام ہوئے ہیں‘‘(Seeing-Like-a-State: How-Certain-Schemes-to-Improve the-Human-Condition-have-Failed) ۔ رسمی منصوبوں(Formal-Schemes) نے ریاضی دانوں کے عمل و فکر کے تخلیقی طریقوں کی بجائے  لوگوں کی توجہ کا رخ ریاضی کے نتائج کی جانب موڑ دیا ہے ۔ انیسیویں صدی کے اخیر اوربیسویں صدی کے ابتدائی ایام میں علم ریاضی کی بنیادوں  کے بارے میں ہونے والی ابحاث کے حاصلات پر تبصرہ کرتے ہوئے ، مؤثر (امریکی ) ریاضی دان جان وان نیومین (John-Von-Neumann)نے اپنے مضمون ’’ریاضی دان‘‘ (The-Mathematician) میں  لکھا ،

’’’مطلق‘ ریاضیاتی قطعیت   (mathematical-rigour) کا تصور مستقل حیثیت کا حامل نہیں ہے ۔  قطعیت  (rigour)کے تصور میں تغیر / تنوع ظاہر کرتا ہے کہ ریاضیاتی تجرید کے  علاوہ بھی کسی شے کو ریاضی کے پیکر (makeup)میں لازمی داخل ہونا  چاہیے۔‘‘

جبکہ  ریاضی  کے مستند ہونے والی دلیل  کی بنیاد اس کے اپنے تئیں قطعی  اور حتمی ہونے پر  ہے  نیز ہم جس شے کو قطعیت کہتے ہیں ،  تاریخ میں تازہ افکار اور تفہیم / ادراک  کی بنیاد  پر اس کی تعریف   تبدیل ہو چکی ہے ۔آج کل کے   بیشتر لوگوں کے مفروضوں کے برعکس،   اس کی باریک بینی اور افادیت کے باوجود  ریاضیاتی طریقہ کار  کی بنیاد  کسی ابدی / لازمانی معیار پر نہیں رکھی   گئی ہے۔

چند اعتبارات سے ریاضی سب سے زیادہ مشکل اور سب سے زیادہ حقیقت پسندانہ آرٹ ہے ۔ مثال کے طورر پر ، جرمن مفکر مارٹن ہائیڈیگر (Martin-Heidegger) ایک ایسے بااثر مفکر کی مثال پیش کرتا ہے جو  قدرتی دنیا سے کاٹ کر فکر کی ایک قسم کی حیثیت سے ریاضی کی غلط صورت کو سامنے لایا ۔ اپنے مضمون ’جدید سائنس ، مابعد الطبیعیات اور ریاضی’ (Modern-Science, Metaphysics-and-Mathematics) میں وہ لکھتا ہے کہ ،

’’ریاضیاتی منصوبہ ان اصولوں کی پابندی فرض قرار دیتا ہے جو ریاضی کے ہی مطلوب ہیں۔‘‘

ہائیڈیگر کے نزدیک ، ریاضی اور ٹیکنالوجی کاملاپ ایک متواتر ،معمولات کی پابند ، بیگانگی کی عادی دنیا کو تخلیق کرنے کے مترادف ہے ۔ تاہم معمہ یہ ہے کہ معمولات سے آزادی حاصل کرنا ہی ان اشیاء میں سے ایک ہے جو ریاضی دانوں کو ابھارتی ہے ۔ ابتدائی ثبوت تسلی بخش نہیں ہوتے اگر کسی شے کو  تمام قابل اطلاق  معمولات میں ثابت کرنے کے طریقہ ہائے کار نہیں  بنائے سکتے  ۔ لہذا ہر امکان کو متواتر امتحان سے گزارنا   (منطقی اعتبار سے ) لازمی نہیں ہے  ۔ اس سے زیادہ کچھ  بھی دلفریب نہیں ہو سکتا تھا ۔  جب ہم ٹیکنالوجی اور فکر کے ریاضیاتی اسالیب کو  میکانکی اور بیگانگی قرار دیتے ہیں تو دراصل ہم غلطی سےعمل کی بجائے نتائج کے بارے میں سوچ رہے ہوتے ہیں ۔

آخری بات یہ کہ  ریاضیاتی افکار کو سنجیدہ  لینے سے اس شے کو دریافت کر لینا ممکن  ہو سکتا ہے کہ تکنیکی افکار بھی سیاسی اور مذہبی افکارکے  برابر اہمیت کے حامل ہیں ۔روایتی سوچ کے برعکس ،  ریاضی کو سنجیدہ لینے کی بدولت    کلچر اور طاقت کی بحثوں  سے گریز ممکن ہو سکتا ہے نیزحسن و جمالیات کے سوالوں کی جانب لوٹا جا سکتا ہے  ۔   آرٹ و ریاضی میں حسن و جمالیات  ہمیشہ سے اٹھائے جانے والے سوالات ہیں ، گرچہ آج  کل کے مورخین اور انسان پرستوں کو ادنیٰ دکھائی دیتے ہیں کیونکہ وہ طاقت کے سوال میں الجھے ہوئے ہیں۔

مثال کے طور پر ، ویل خاندان کی مثال لے لیجئے : (فرانسیسی  نژاد ) سیمون ویل (Simone-Weil) ایک اہم ادبی اور سیاسی لکھاری تھی جس کو بیسویں صدی کے نصف اول کے صاحب بصیرت  مذہبی مفکروں اور سماجی نقادوں میں شامل کیا جاتا تھا ۔ اس کے ریاضی دان  بھائی آندرے ویل (Andre-Weil)نے  ریاضی کے متفرق شعبوں میں اہم  اضافے کئے  تاہم اسے بہت کم لوگ جانتے ہیں ، الا کہ کوئی خود ریاضی دان ہو ۔  آندرے ویل کی زندگی سے متعلق بہت سے  شاندار واقعات ہیں  جیسا کہ وہ جنگ عظیم  کے نتیجے میں  کٹے پھٹے یورپ سے فرار   ہوا اور اس نے دنیا بھر میں زندگی  بسر کی تاہم شاید سب سے زیادہ اہم  اور دل کو موہ لینے والی بات یہ ہے کہ وہ (خالصتاًریاضی دانوں کی بنائی ہوئی ایک تنظیم  ) بورباقی(Bourbaki) کے بانی ارکان میں سے ایک تھا ۔ یہ بیسویں صدی کے نصف اول  میں بننے والی ایک ڈھیلی ڈھالی تنظیم تھی جس کے بیشتر ارکان فرانسیسی ریاضی دان تھے  جنھوں نے ریاضی کو ایک تازہ اور خود مکتفی (self-contained) بنیادوں پر استوار کرنے کی ٹھانی  (تاریخ افکار میں بالعموم اور علم ِ ریاضی کی تاریخ میں  یہ بارہا دہرایا جانے والا منصوبہ ہے ) ۔ اپنے منصوبے کو تکمیل تک پہنچانے کی خاطر ان کے آزمائےگئے طریقوں   میں سے  ایک  یہ تھا کہ نکولس بورباقی (Nicolas-Bourbaki)کے فرضی کردار کے نام سے درسی کتب تحریر کی گئیں ۔  بورباقی نامی فرد وجود نہیں رکھتا ہے تاہم اس نے  چند کتب لکھیں اور جدید ریاضی دانوں کے زیر ِ استعمال اصطلاحیں اور علامات ایجاد کیں جیسا کہ اس نے ’’خالی سیٹ‘‘ (empty-set)  کے لیے Ø     کو اختیار کیا ۔ آندرے ویل نے بورباقی تنظیم کے پہلے اجتماع کی صدارت کی ۔

آندرے ویل تو صرف آغاز ہے ۔ دوسری مثال  شینن (Shannon) اور انفارمیشن تھیوری  سے متعلق اس کے بصیرت افروز معارف  پر مبنی ہے جن  پر اس نے اپنے  غیرمعمولی نوجوان استاد (prodigy) ناربرٹ وائنر (Norbet-Wiener) کے ساتھ مل کر کام کیا  ۔ ناربرٹ وائنر نے ’سائبرنیٹکس‘ (Cybernetics)کی اصطلاح وضع  کی   نیز دو جلدوں پر مبنی ایک شاندار خودنوشت لکھی ) ۔ ایک اور مثال ریاضی کی بنیادوں کے بارے میں جان بروئر اور داؤد  ہلبرٹ (David-Hilbert) کے مابین  ہونے والی  ابحاث   ہیں  ۔پھر (جرمن ریاضی دان ) ایمی نودر (Emmy-Noether) کی  غیرمعمولی سرگزشت ہے جس نے  ریاضی اور طبیعیات کے کئی شعبوں میں کارہائے نمایاں سرانجام دیے  اور ہندسیہ کی رو سے مختلف ہیئتوں کے درمیان باہم  ہونے والی تبدیلیوں  کے دوران مکانی خصوصیات کو محفوظ رکھنے سے متعلق ایک علم  (Topology)پر تجریدی الجبرا (abstract-algebra)  کے اصول و قواعد کو نافذ کرنے میں مدد فراہم کی ۔  بالفاظِ دگر ، اس کا مطلب ہو گا کہ ہماری تکنیکی تہذیب کو خلق کرنے والوں میں اسی طرح دلچسپی لینا جس طرح اس کے ملامت کرنے والوں میں تاریخ دلچسپی لیتی رہی ہے ۔

تاریخی اعتبار سے تاریخ ِ افکار سیاست کی  حدود اور دیگر افکار کے ثمرات سے متعلق  ہو سکتی ہے ، ہونا چاہیے اور ٹھیک ٹھیک اسی سے متعلق رہی ہے ۔ بنیادی طور پر اس کو ان مفکروں کے مطالعہ سے متعلق ہونے کی چنداں ضرورت نہیں ہے جو براہ راست  طاقت ور نہیں رہے  ہیں ۔ گہرائی میں ہماری  اور ہمارے معاشروں کی زیادہ سے زیادہ صورت گری کرنے  والے افکار  ، عام طور پر سیاسی فکر کی تاریخ کا غالب حصہ نہیں ہیں بلکہ  کئی دوسرےشعبوں کی طرف سے آئے ہیں۔ زیرِ نظر تحریر افکار کو واجب التعظیم سمجھتے ہوئے ان کے نوافلاطونی تجزیے کے بارے میں دلیل پیش نہیں کرتی ہے یا سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرنے کی تجویز پیش نہیں کرتی ہے ۔ اس کے بجائے زیرِ نظر تحریر  ان شاہراہوں کو کھوجنے کی دعوت ہے  جہاں  انسانیت درحقیقت تصورات اور  دنیا میں ریاضیاتی تصورات  کی منفرد حیات بخش قوت کو دریافت کرتی ہے۔

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search