کیا فلسفہ اور ر یاضیات ایک دوسرے کے متلاشی ہیں؟ جیریمی ایویگاڈ (مترجم : عاصم رضا)

 In ترجمہ
نوٹ: 1995ء میں کیلیفورنیا یونیورسٹی برکلے سے ریاضیات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے والے ڈاکٹر جیریمی ایویگاڈ آج کل کارنیگی میلن یونیورسٹی کے شعبہ فلسفہ میں پروفیسر ہیں ۔ان کی بنیادی دلچسپی کے موضوعات میں ریاضیاتی منطق ، فلسفہ ِ ریاضیات ، صوری تصدیق ، مشینی استدلال ، تاریخ ِ ریاضیات شامل ہیں ۔24 ستمبر 2018ء کو پروفیسر جیریمی نے فلسفہ اور ریاضیات کے مابین تعلق نیز معاصر فلسفہِ ریاضیات کے بارے میں ایک مربوط اور قیمتی مضمون بعنوان (does-philosophy-still-need-mathematics-and-vice-versa) تحریر کیا ۔ زیرِ نظر تحریر، اسی مضمون کے ترجمہ پر مشتمل ہے ۔

 

جب 1627ء میں رینے ڈیکارٹ اکتیس (31) برس کا تھا تو اس نے فلسفیانہ انداز میں استدلال کے مناسب طریقہ ہائے کار کی بابت ایک منشور (manifesto) لکھنے کا آغاز کیا ۔ اس کے لیے اس نے ’’فطری اہلیت کی اصلاح کے معیار‘‘ (Regulae-ad-Directionem) یا ’’ذہنی رہنمائی کے اصول‘‘ (Rules-for-the-Direction-of-the-Mind) کا عنوان منتخب کیا۔ یہ ایک حیرت انگیز کام ہے ۔ ڈیکارٹ بنیادی طور پر چھتیس (36 )اصولوں کو برابر کے تین حصوں میں تقسیم کر کے پیش کرنے کا متمنی تھا تاہم دوسرے حصے کے نصف پر ہی مسودہ ختم ہو جاتا ہے ۔ ہر اصول کو ایک یا دو جملوں میں بیان کرنے کے بعد ایک طولانی تفصیل دی جانی تھی ۔ پہلا اصول ہمیں بتاتا ہے کہ ’’ مطالعہ کا مقصد ذہن کو درپیش تمام معاملات میں معتبر و درست فیصلوں تک رسائی کی جانب رہنمائی ہونا چاہیے‘‘ ، اور تیسرا اصول بتاتا ہے کہ ’’ہماری تحقیقات کو دوسروں کے افکار کا پابند ہونے کی بجائے۔۔۔ ہمارے اپنے وا ضح اور قابل فہم مشاہدات کے مطابق ہونا چاہیے نیز جن کو کسی ابہام کے بغیر اخذ کیا جا سکے‘‘۔ چوتھا اصول ہمیں بتاتا ہے کہ ’’صداقت کی تلاش کی خاطر ایک طریقہ کار کی ضرورت ہے۔‘‘

تاہم جلد ہی مسودہ ایک غیرمتوقع ریاضیاتی موڑ لے لیتا ہے ۔ اشکال اور اعداد و شمار اندر گھس جاتے ہیں ۔انیسواں (19) اصول ہمیں مطلع کرتا ہے کہ فلسفیانہ طریقہ کار کا موزوں اطلاق اس بات کا متقاضی ہے کہ ’’معلوم سمجھ کر استعمال ہونے والی نامعلوم رقموں (terms) کے ہونے کی وجہ سے کثیر مقداروں(magnitudes) کو تلاش کیا جائے‘‘۔ یہ امر ’’ہمیں نامعلوم مقداروں کے برابر مساواتیں مہیا کرے گا ‘‘۔ بیسواں (20) اصول ہمیں بتلاتا ہے کہ ’’مساواتیں حاصل کرنے پر ہمیں ایسے (ریاضیاتی ) افعال سرانجام دینے چاہییں جنھیں ہم نظرانداز کرتے رہے ہیں یعنی جہاں ہم تقسیم کر سکتے ہیں تو کبھی ضرب کا قاعدہ استعمال نہیں کرنا چاہیے‘‘۔ ان اصولوں کا مطالعہ کرنا ایسے ہی ہے جیسے فلسفہ کے تعارف کو پڑھنے بیٹھیں اور ایک گھنٹہ کے بعد خود کو الجبرا کی ایک درسی کتاب میں پائیں ۔

چودہویں اصول پر بدلاؤ آجاتا ہے ۔ ڈیکارٹ کے مطابق ، متفرق اشیاء کے مابین پائے جانے والے مشترک خصائص کی تفہیم کے لیے مشترکہ خصائص کو کھوجتے ہوئے عمومی صداقتوں کو دریافت کرنے کا نام فلسفہ ہے ۔ اس ضمن میں خصائص کے’درجوں‘ کا موازنہ کرنے کی ضرورت پڑتی ہے ۔ ایک خاصیت جس کے درجے بن سکتے ہوں ، تعریف کے اعتبار سے ، ’مقدار‘ ہے ۔ اور قدیم یونانیوں کے زمانے سے ، ریاضیات کو علم ِ مقدار (science-of-magnitude) سے کم یا زیادہ نہیں سمجھا جاتا تھا ۔ (اس کو منفصل (discrete)اور متصل (continuous)دونوں مقداروں کے مطالعے پر مشتمل سمجھا جاتا تھا ۔ اول الذکر میں وہ اشیا ءشامل ہیں جن کو گنا جا سکتا ہے اور موخر الذکر میں وہ اشیاء جن کی نمائندگی لمبائیوں (یعنی اشکال ) کے ذریعے ہوسکتی ہے ۔)۔لہذا ، فلسفہ ان اشیاء کے مطالعہ کا نام ہے جن کی نمائندگی ریاضیاتی اصطلاحات میں ہو سکتی ہے اور فلسفیانہ طریقہ کار اور ریاضیاتی طریقہ کار کے مابین تفریق درحقیقت مٹ جاتی ہے ۔

فلسفہ اور ریاضیات کے مابین تعلق پر ملتے جلتے اشارے زمانہ قدیم میں بھی ڈھونڈے جا سکتے ہیں ۔ مثال کے طور پر ،فیثاغورث کا قول کہ’’سب کچھ عدد ہے‘‘ (all-is-number)۔ فیثاغورث کی دریافت کہ دو کا جذر غیرناطق عدد ہے (irrational-number)، نےہمارے تجربات کی مقداری تعین کرنے والے ایک طریقہ کار میں ایک بنیادی حد کو منکشف کرتے ہوئے مغربی فلسفہ کی پیدائش کا اعلان کیا نیز اس نے پیمائش اور عدد کے ایک وسیع تر تصور کی جانب دروازہ کھول دیا ۔ ماہیت ِ تسلسل (continuum) یعنی زمان و مکان کی خاکہ بندی کرنے کی خاطر استعمال ہونے والی متصل مقداریں (continuous-magnitudes) ، اُس وقت سے ہی فلسفیوں اور ریاضی دانوں کے مابین مفید تعامل کا ایک ذریعہ رہی ہیں ۔ افلاطون ریاضیات کو نہایت اونچی جگہ دیتا تھا اور اس نے استدلا ل کیا کہ ایک مثالی ریاست میں چوکیداروں سے لیکر فلسفی بادشاہوں تک تمام شہریوں کو حساب (arithmetic) اور ہندسہ (geometry)سکھائے جائیں گے ۔ جمہوریہ میں اس کا مرکزی کردار سقراط اس بات کو دہراتا ہے کہ ریاضیات ’’بہت عظیم الشان اور کبیر نتائج کی حامل‘‘ ہے اور اس کی تجریدات ’’ذہن کو صداقت کی جانب کھینچتی اور فلسفیانہ مزاج پیدا کرتی ہیں ‘‘۔

ڈیکارٹ کے ایک ہم عصر گلیگلیو نے بھی ریاضیاتی اور فلسفیانہ طریقہ کار کے مابین تفاوت کو دھندلا کر دیا ۔ اس کے مضمون ’’پارکھ‘‘(The-Assayer) (مطبوعہ 1623ء )کے ایک اقتباس کو اکثر و بیشتر طبیعیات کی انقلابی عملِ ریاضیات کو آگے بڑھانے کے ضمن میں نقل کیا جاتا ہے :

’’فلسفہ اس عظیم کتاب میں مرقوم ہے ۔ میری مراد کائنات سے ہے جو ہماری توجہ کے لیے ہر وقت سامنے رہتی ہے تاہم اس کو اس وقت تک نہیں سمجھا جا سکتا تاوقتیکہ کوئی پہلے اس زبان اور اس میں لکھے ہوئے کرداروں کو کھولنا نہ سیکھ لے ۔ یہ ریاضیات کی زبان میں مرقوم ہے اور اس کے کردار مثلثوں ، دائروں اور دیگر ہندسی صورتوں پر مشتمل ہیں جن کے بغیر اس کے ایک لفظ کو سمجھ لینا بھی انسان کے لیے ناممکن ہے ؛ ان کے بغیر انسان تاریک بھول بھلیوں میں ادھر ادھر بھٹکتا رہتا ہے‘‘۔

اس اقتباس کے مطابق یہ فلسفہ ہے جسے ریاضیات کی زبان میں لکھا جاتا ہے ۔ یہ کوئی محض لسانی اتفاق نہیں ہے کہ اسحاق نیوٹن کے علم الاحصاء (calculus) اور جدید طبیعیات کی شاندار پیش رفت کو ’’قدرتی فلسفہ کے ریاضیاتی اصول‘‘ (Mathematical-Principles-of-Natural-Philosophy) (مطبوعہ 1687ء)کا عنوان دیا گیا ۔ فلسفے کا مقصد کائنات اور اس میں ہمارے مقام کو سمجھنا ہے نیز اس کام کی خاطر موزوں طریقہ ہائے کار کا تعین کرنا ہے ۔ طبیعیات یا قدرتی فلسفہ اس منصوبے کا حصہ تھا اور ڈیکارٹ ،گلیگلیو اور نیوٹن نیز ان سے پہلے اور بعد کے فلاسفہ اس ضمن میں ریاضیات کے کردار سے متعلق نہایت سرگرم تھے ۔

سترھویں صدی میں ریاضیات اور فلسفہ کی ایک دوسری عظیم شخصیت ، گاڈفرے لائبنز (Gottfried Leibniz) بھی موزوں طریقہ کار کو وضع کرنے کی خواہش مند تھی ۔ 1677ء میں اس نے لکھا:

’’میرے ذہن کے مطابق ، اپنی پوری وسعت کے ساتھ پایا جانے والا حقیقی طریقہ کار ایک ایسی شے ہے جو آج تک نامعلوم ہے ، اور ریاضیات کے سوا کہیں اس کو استعمال نہیں کیا گیا ہے‘‘۔

اس سے قبل ، 1666ء میں ڈاکٹریٹ کے اپنے مقالہ میں اس نے کسی بھی معقولی خیال کو بیان کرنے کی اہل ایک علامتی زبان گھڑنے کو مقصود بنایا تھا ، اور ایک ایسے علامتی علم الاحصاء (symbolic- calculus) کو بھی جو اس طرز کے کسی بھی کلمے کی صداقت کا تعین کرنے کا خوب اہل ہوتا۔ صدیوں بعد اس شاندار تجویز نے علامتی منطق کے شعبہ میں ایک بلند و بانگ نعرے کا کام سرانجام دیا ۔ تاہم لائبنز نے اس بات کو واضح کر دیا کہ اس طریقہ کار کا اطلاق ریاضیات تک محدود نہ تھا :

’’اگر دوسرے علوم کی بنیادیں کھڑی کرنے والوں نے ریاضیات کی تقلید کی ہوتی ۔۔۔ تو ہم ایک طویل عرصہ قبل ہی ایک مستحکم مابعد الطبیعیات کے مالک بن چکے ہوتے نیز مابعد الطبیعیات پر انحصار کرتے ہوئے ایک اخلاقیات کے بھی ۔ کیونکہ موخر الذکر ، ہماری زندگی پر حکومت کرنے والے خدا وند اور روح کے علم پر مشتمل ہوتی ہے‘‘۔

یہاں ریاضیات صرف سائنس کو ہی بنیاد فراہم نہیں کرتی بلکہ اخلاقیات ، مابعد الطبیعیات نیز روح اور خدا کے علم کو بھی استوار کرتی ہے ۔ ڈیکارٹ ، گلیگلیو، نیوٹن اورلائبنز کے اختیار کردہ ریاضیاتی طریقہ ہائے کار اہم ترین فلسفیانہ پیش رفت تھے اور یہ ریاضیات کے متعلق فلسفیوں کے معروف خواب کو کھولنے میں مدد دیتا ہے : ہماری ریاضیاتی فکر کی صلاحیتیوں کی تفہیم ، ہماری فلسفیانہ تفکر کی صلاحیتوں کو سمجھنے کا ایک اہم حصہ ہے ۔

فلسفہِ ریاضیات ، بیسویں صدی کے وسط میں، ریاضیاتی منطق میں گزشتہ دہائیوں میں ہونے والی پیش رفت کے بعد اپنے عروج کو پہنچ گیا۔ اہل ِ منطق نےریاضیاتی استدلال کے بیشتر حصہ کے شافی بیان کی خاطر اصولِ متعارفہ (axioms) اور قوانین پر مبنی نظاموں کو بناتے ہوئے آخرکار لائبنز کے خواب یعنی فکر کے علم الاحصاء کو تعبیر دینے کا آغاز کر دیا تھا ۔ بیشتر مجوزہ ریاضیاتی بنیادوں میں سے ایک ، زرمیلو فرینکل(Zermelo-Fraenkel) کی سیٹ تھیوری (set-theory) کے نام سے معروف ہے نیز اس نے خود کو خصوصی طور سے پائیدار بنیادوں کا حامل ثابت کیا ہے ۔ یہ بنیادی منطقی تشکیلات اور اصول ِمتعارفہ کی بدولت سیٹ جیسے مجرد ریاضیاتی عناصر کو بیان کرتے ہوئے عام ریاضیاتی دلائل کی قدرتی اور کارآمد علامتی صورت (encoding) مہیا کرتی ہے ۔ سیٹ تھیوری بہت تھوڑے سے بنیادی تصورات اور قوانین کو استعمال کرتے ہوئے ریاضیاتی عمل کا ایک مضبوط بیان فراہم کرتی ہے ۔ 1930ء میں آسٹریائی نژاد منطقی کرٹ گوڈل نے ’’Incompleteness-Theorems‘‘ جیسے اہم نتائج کو ثابت کیا جو تمام تر ریاضیاتی صداقتوں کو طے کرنے کی خاطر بروئے کار آنے والے ریاضیاتی طریقہ کار کی اہلیت میں مضمر خلقی حدود کی نشان دہی کرتے ہیں ۔ لہذا ، خود ریاضیاتی عمل کی ریاضیاتی خاکہ بندی کے طفیل ، منطق ہمیں ریاضیاتی استدلال کی ماہیت اور وسعت کا ایک واضح بیان دیتی ہے ۔

منطق کی بدولت دوسرے دائروں میں فلسفیانہ اعتبار سے ترقی ہوئی جیسا کہ ماہیتِ صداقت ۔ تیس کی دہائی میں پولستان کے منطقی الفرڈ ٹرسکی (Alfred-Tarski) نے صداقت کا ایک ریاضیاتی تجزیہ پیش کیا یعنی علم ِ منطق کی اطلاقی وسعت کی خلقی حدود کو شناخت کرتے ہوئے ازسرنو ایک مثبت بیان دینا ۔1930ء کی ہی دہائی میں تصورِ ’’حسابیت‘‘ (computability) کا ریاضیاتی تجزیہ سامنے آیا ۔ اس نے ایک دفعہ پھر سے حدود کو منکشف کرتے ہوئے ، ڈیکارٹ اور لائبنز کو مطلوب مختلف النوع الگورتھم پر مبنی طریقہ ہائے کار کی ماہیت کا قوی تجزیہ فراہم کیا ۔

یہ نظریات خاص طور سے ریاضیاتی ہیں نیز ریاضی دانوں کے انداز میں تعریفات(definitions) ، مسلم الثبوت دعووں (theorems) اور تصدیقات (proofs) کی صورت میں پیش ہوئے ۔ تاہم ان سب کے پس پردہ فلسفیانہ بحث کارفرما تھی اور ان کو فلسفیانہ جان پڑتال کے لائق سمجھا گیا ۔ جیسا کہ سترھویں صدی میں ریاضیات و فلسفہ کے مابین حد ِ فاصل واضح نہ تھی اور قابل ِ ذکر ترقی کے ہونے سے انکار کرنا دشوار تھا ۔ ایجابی اور سلبی دونوں قسم کے نتائج اور حدود سے آگاہی دینے والے نتائج بھی قیمتی تھے یعنی اس بات کی واضح تفہیم کہ ایک مخصوص منہاجی طریقہ کار ، تحقیق پر توجہ مرکوز رکھنے اور تحقیق کے نت نئے گوشے تجویز کرنے کی بابت کیا توقع کر سکتا ہے اور کیا نہیں کر سکتا ہے ۔
غیرمعمولی کامیابی حاصل ہوئی اورکچھ عرصہ تک تو یوں دکھائی دیتا تھا کہ فلسفہ کی ہر دوسری شاخ فلسفہ ِ ریاضیات کی طرح بننا چاہتی ہے۔ فلسفہِ سائنس سے وابستہ افراد نے ریاضیاتی نظریات کو زیرِ بحث لانے کی خاطر اہل منطق کی لفظیات کو درآمد کیا ، چنانچہ ایک سائنسی نظریے کو ایسے ریاضیاتی نظریے کی مانند سمجھا گیا جس کی تکمیل اضافی ’’مشاہداتی خبروں‘‘ (observation- predicates) کے ذریعے ہوتی تھی جو اس کو تجربی دنیا سے جوڑ دیتے تھے ۔ فلسفہ ِ سائنس کے مقالوں میں اس بات کا چلن بہت عام ہو گیا کہ تجزیے کا آغاز اس کلمہ ’’الف کو ایک نظریہ فرض کیجئے‘‘ سے ہوتا تھا ۔ معاصر فلسفی مارک ولسن نے فلسفہ نویسی کے اس انداز کو ’’نظریہ الف کی بیماری‘‘ (theory-T-syndrome) بیان کیا ہے ۔

بعینہ ، فلسفہِ لسان (philosophy-of-language)سے وابستہ اہل علم حضرات نے معانی ، حوالہ اور صداقت جیسے تصورات کو ماہرین ِ منطق کے مطالعۂ ریاضیات سے درآمد کیا ۔ کیونکہ موضوع کی تمام تر پیچیدگی کے لیے ، یقیناً ریاضیاتی زبان کا ڈھانچہ سادہ ہے ۔نحو( گرامر) کے کوئی پیچ و خم نہیں ہیں کیونکہ ریاضیات عام طور سے یہ پریشانی مول نہیں لیتی کہ کب سات کا عدد طاق بن گیا اور اس کے جفت بننے پر دنیا کیا سے کیا ہو سکتی تھی ۔ ریاضیاتی جملے کی صداقت تاریخی تناظر یا متکلم کی صورتِ احوال پر منحصر نہیں ہوتی اور ریاضیات کے سمعی اسالیب، پیش قیاسی مفروضات اور نتائج کی پروا کئے بغیر واضح طور پر غیرجانب دار ہیں۔ چنانچہ ماہرین ِ لسانیات اور فلسفہ ِ لسان سے وابستہ افراد کے نزدیک ریاضیاتی زبان کی خاکہ بندی سے آغاز کرنا ایک حوصلہ بخش امر تھا کہ حرکیات بخوبی سمجھی جاتی ہیں اور پھر خاکہ بندیوں کو اس قابل بنا دیا جائے کہ وہ لسانی تشکیلات کے وسیع تر درجات کی گنجائش نکال سکیں ۔

اسی اثناء میں فلسفہ ِ ذہن (philosophy-of-mind)سے وابستہ اہل علم حضرات نے قضیاتی رویوں (propositional-attitudes) کے مطالعہ کی خاطر منطقی دروبست(logical-scaffolding) کو برآمد کیا ۔ عام انداز میں دیکھا جائے تو اگر ہم کسی شے کو جاننے، اعتقاد رکھنے ، شک کرنے یا کسی شے کے متمنی ہیں تو وہ شے ضرور کسی ایسے وجود کی حامل ہو گی جو تفکر کے لیے دستیاب ہے، غالباً کسی ذہنی نمائندگی کے ذریعے ۔ ایسی نمائندگی اور ریاضیاتی تعریفات اور بیانات کو پیش کرنے کے لیے استعمال ہونے والی علامتی صورتوں کے مابین کئی چیزوں پر اشتراک تھا ۔

اسی طرح کے فلسفیانہ موضوعات ، فلسفہ ِ ریاضیات کے مدار میں رہتے تھے ، ریاضیاتی عمل کے منطقی بیان سے روشنی اور حرارت پاتے تھے ۔ فلسفہ ِ ریاضیات میں کامیابی نےاس حوالےسے زبردست مثالیں پیش کیں کہ فلسفہ کیا کچھ حاصل کر سکتا تھا۔ تاہم آج کل یہ مضمون اپنی آب و تاب کھو چکا ہے اور اس میں پہلے کی سی کشش باقی نہیں رہی ہے ۔ غلطی کہاں پر ہوئی ؟ فلسفہِ ریاضیات کسی حد تک خود ہی اپنی کامیابی کا شکار ہو گیا ۔ روایتی طور پر ریاضیاتی علم کی موزوں بنیادوں کا تعین کرنے والے ایک مضمون کے طور پر جدید منطق نے ریاضیاتی تصدیق کا ایک ایسا واضح بیان فراہم کیا کہ پھر کرنے کو قریب قریب کچھ بھی باقی نہ بچا ۔ غالباً صرف ایک شے کے سوا : اگر ریاضیات ، سیٹ تھیوری کے اصول ِ متعارفہ اور قوانین کو استعمال کرنے واے استخراجی استدلال تک محدود رہتا ہے تو اس مضمون کی بنیا د کے حوالے سے ہمیں صرف اس بات کو تلاش کرنے کی ضرورت ہے کہ کس قسم کے سیٹ ہیں ، کیسے ہم ان کے بارے جانکاری لے سکتے ہیں اور علم کی مخصوص قسم کیونکر کائنات کے بارے کوئی مفید شے بتاتی ہے ۔لہذا مجرد عناصر کی ماہیت کے بارے ایسے سوالات ہی بیسویں صدی کے نصف سے لیکر اب تک فلسفہ ِ ریاضیات میں مرکزی حیثیت اختیار کیے ہوئے ہیں ۔

فلسفے کی دوسری شاخوں میں جہاں صورتحال واضح نہ تھی ، فلسفیوں کو زبان ، سائنس اور فکر کی خلقی بے ترتیبی کا سامنا کرنا پڑا ۔ اس بنا ء پر ان کو سنجیدہ منہاجی معاملات سے دوبدو ہونا پڑا ۔ 1950ء کی دہائی کے بعد سے فلسفہ ِ لسان سے وابستہ فلسفی ، ساختِ زبان اوربیان کی تخلیق و تفہیم کے بارے فکریات میں چومسکی کے اٹھائے ہوئے انقلاب کو سمجھنے کی خاطر لسانیات میں مشغول ہو گئے ۔ فلسفہِ ذہن سے وابستہ فلسفیوں نے ماہرین ِ نفسیات اور کمپیوٹر سائنس دانوں کے ساتھ باہمی تعامل میں دماغی سائنس (cognitive-science) یعنی مطالعہ ِ ذہن کی ایک نئی سائنس کو صورت میں ڈھالا ۔ حیاتیات سے وابستہ فلسفی ارتقا ء اور تیزرفتاری سے پھلنے پھولنے والے جینیاتی دائرے سے متعلقہ منہاجی مسائل کے ساتھ زورآزمائی کرنے لگے۔ اور طبیعیات سے وابستہ فلسفی قدری میکانیات (quantum-mechanics) اور عمومی نظریہ اضافیت (general-relativity) کے بنیادی مفروضوں کی ہم آہنگی کے بارے الجھ گئے ۔ اسی اثناء میں ، ریاضیات کے فلسفیوں کی بنیادی دلچسپی اس سوال کے ساتھ جڑی رہی کہ آیا اعداد اور دیگر مجرد عناصر حقیقی وجود کے حامل ہیں ؟

یہ تنصیب صحت مندانہ نہیں تھی ۔ اس کو روزمرہ کی ریاضیاتی کارگزاری کے ساتھ کچھ بھی لینا دینا نہیں تھا کیونکہ ماہرین ِ ریاضیات عام طور سےان شکوک میں مبتلا نہیں ہوتے کہ آیا وہ مفید اور بامعنی کام کر رہے ہیں ۔اور، اس کی پروا کئے بغیر فلسفہ اس ضمن میں بہت تھوڑی تسلی دے سکتا ہے ۔ عیاں ہوتا ہے کہ مجرد ریاضیاتی عناصر فی نفسہ اور ان کے بارے میں کہنے کو کچھ زیادہ دلچسپ چیزیں وجود نہیں رکھتیں ۔ یہاں تک کہ جس طرح ہم ریاضیات کو بروئے کار لاتے ہیں تو اس کا قوی جواز فراہم کرنا ممکن ہے ۔ اور وہ (جواز ) عمومی اعلانات کرنے کی بجائے اس مضمون کے مقاصد اور طریقہ ہائے کار کا محتاط مطالعہ کرنے اور ان مقاصد کے حصول میں جہاں تک ممکن ہے ان طریقہ ہائے کار پر غوروفکر کرنے کی ذمہ داری قبول کرنے سے مہیا ہو گا ۔ جب ہم اس بابت دریافت کرنے شروع کرتے ہیں کہ ریاضیات کیونکر ایسی دکھائی دیتی ہے جیسی کہ وہ ہے اور کیسے وہ مسائل کو حل کرنے اور سائنسی مظاہر کو بیان کرنے کی خاطر قوی ذرائع فراہم کرتی ہے ،تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ کہانی زرخیز اور پیچیدہ ہے ۔

مسئلہ یہ ہے کہ سیٹ تھیوری پر مبنی مثالیت (set-theoretic-idealisation) بہت کچھ تصور کر لیتی ہے ۔ ریاضیاتی فکر بے ترتیب ہے ۔ اس کی اوپری ہموار سطح کو کھرچنے پر ہمارا سامنا شور مچاتے اور کھلم کھلا تذبذب کے شکارتصورات سے ہوتا ہے ، اور ہمیں اس بارے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے کہ کیسے ریاضیات اس تخلیقی سرچشمہ کوپختہ سائنسی بیان میں ڈھال دیتی ہے ۔ تاہم اس کے لیے سخت محنت اور ہاتھوں سے کڑی مشقت لینے کی ضرورت پڑتی ہے ۔ اور پھرآوازِ جرس خوشنما اور دلفریب ہے : ریاضیات ، سیٹ تھیوری ہے ! ہمیں مجرد عناصر کے بارے میں حقیقی اعتبار سے اچھی کہانی فقط سناؤ اور کائنات کےبھید کھل جائیں گے ۔ اس نغمۂ جرس نے فلسفہ ِ ریاضیات کو اپنے حصار میں لیکر پتھریلے ساحلوں پر لا چھوڑا ہے ۔

دائرہ علم ِ کی منطق پر محدود توجہ اس کے زوال کی بابت ایک دوسری وجہ کو بیان کرتی ہے ۔ اس بات کو قبول کرتے ہوئے کہ پچھلی قریباً ایک صدی سے فلسفہِ ریاضیات اور منطق کے مابین گہری قربت رہی ہے ، کوئی بھی شخص یہ توقع کرے گا کہ ان دونوں مضامین کے مقدر کا عروج و زوال ساتھ ساتھ ہو گا ۔ اس عرصے میں منطق اپنے تئیں ریاضیات کی ایک حقیقی شاخ کی صورت میں پروان چڑھ چکی ہے ۔ اور 1966ء میں پال کوہن (Paul-Cohen) نے سیٹ تھیوری میں طویل عرصہ تک لاینحل رہنے والے دو مسئلوں کو حل کرنے پر شعبہ ِ ریاضی کا سب سے بڑا انعام یعنی فیلڈ میڈل حاصل کیا ۔ تاہم اس وقت کے بعد سے منطق میں کسی دوسرے نے فیلڈ میڈل حاصل نہیں کیا ہے اور اگرچہ اس مضمون کا ریاضیات کی دوسری شاخوں کے ساتھ تھوڑا بہت تعامل موجود ہے ، اس کو ریاضیات کے مرکزی دھارے میں جگہ نہیں مل پائی ہے ۔

زبان ، علم اور فکر کے بارے فلسفے کے بیشتر روایتی تحفظات اب کمپیوٹر سائنس میں جائے پناہ تلاش کرتے ہیں ، جہاں بنیادی مقصد (مشینی ) نظام کو وضع کرنا ہے جو ان صلاحیتیوں کی نقل کرتے ہیں ۔ اگر فلسفی کا مقصد تصورات کی توضیح کرنا اور بنیادیں استوار کرنا ہے ، اور سائنس دان کا مقصد مواد کو جمع کرنا اور خاکہ بندیوں کی کانٹ چھانٹ کرنا ہے ، تو کمپیوٹر سائنس دان کا مقصد حاصلات کو (الگورتھم کی صورت میں ) نافذ کرنا اور ان کے مفید استعمال کو بروئے کار لانا ہوتا ہے ۔ مثالی اعتبار سے تو انفارمیشن کوآگے اور پیچھے بہتے رہنا چاہیے یعنی فلسفیانہ تفہیم ، نفاذ اور عملی نتائج کو انگیخت کرے اور مسائل ، فلسفیانہ مطالعے کو انگیخت کریں ۔ چنانچہ کمپیوٹر سائنس میں منطق کے کردار پر غور کرنا معقول معلوم ہوتا ہے ۔

1950ء کی دہائی کے بعد ، دماغی سائنس اور مصنوعی ذہانت کے شعبوں میں اس طریقہ کار نے قبضہ جما رکھا تھا جسے فلسفہ ِ ذہن کے امریکی ماہر جان ہاگ لینڈ (John-Haugeland) نے ’’عمدہ روایتی مصنوعی ذہانت‘‘ (Good-old-fashioned-AI) کا نام دیا تھا یعنی علامتی نمائندگی (symbolic- representation) اور منطقی الگورتھم کے ذریعے ذہانت آمیز رویے کی مشینی تخلیق ۔ 1940ء کی دہائی میں جنم لینے والا ایک متبادل طریقہ کار عصبانی نیٹ ورک کو بروئے کارلاتا ہے ، ایک کمپیوٹر ماڈل جس میں دماغ کے عصبانیوں (neurons) کی مانندایک دوسرے میں پیوست سادہ پراسیسرز (processors)کی ایک کثیر تعداد کی قوتِ عمل کو (الگورتھم کی صورت میں ) ڈھالا جاتا ہے ۔ مصنوعی ذہانت پر ہونے والے کام کی ابتدائی دہائیوں میں منطقی طریقہ کار کو غلبہ حاصل تھا ، تاہم 1980ء کی دہائی میں محققین نے دکھایا کہ تکرارِ اسلوب (pattern) کی شناخت کرنے اور واضح الگورتھم یا کسی فیصلہ کو جواز دینے یا اس کے بیان کے لیے درکار خصائص کوعلامتی صورتوں میں ڈھالے بغیر تصاویر کی زمرہ بندیوں کی خاطر عصبانی نیٹ ورک کو سکھایا جا سکتا تھا ۔اس امر نے مشینی آموزش (machine-learning) کے شعبہ کو جنم دیا ۔ طریقہ ہائے کا ر میں بہتری اور کمپیوٹر کی استعداد میں اضافہ نے گزشتہ برسوں میں بہت بڑی کامیابیوں اور دن دگنی رات چوگنی بڑھوتری سے نوازا ہے ۔2017ء میں الفاگو(AlphaGo)نامی مشینی نظام نے اپنے آپ کو حکمت عملی پر مبنی کھیل ’’گو‘‘ (Go) اس عمدہ طریقے سے کھیلنا سکھایا کہ اس نے تین کھیلوں پر مبنی ایک مقابلے میں ’’گو‘‘ کے عالمی چیمپئن کو چت کر دیا۔ ڈیپ لرننگ (Deep-Learning) کے نام سے مشہور طریقہ کار آج کل خوب زوروں پر ہے ۔

خودمختار مشینی استدلال کی دوسری شاخوں میں بھی منطق کا زور ٹوٹ گیا ہے ۔اس کے باوجود منطقی طریقہ ہائے کار نے خودمختار مشینی استدلال کے باب میں قابل ِ ذکر کامیابی حاصل کی ہے ، جبکہ اخذ و تاخذ کے شماریاتی طریقہ ہائے کار ، خاص طور پروہ طریقے جنھیں بہت ہی زیادہ بڑے مواد کے تجزیہ کی خاطر استعمال کیا جاتا ہے ،صنعت و معیشت میں ان کا خوب ڈنکا بجتا ہے ۔ لسانیات کے زیرِ استعمال کمپیوٹر کے طریقہ ہائے کار ایک دفعہ زبان کے نحوی ڈھانچے کا نقشہ بناتے ہیں اور پھر ان کی منطقی صورت کے مطابق ان کی تحلیل حرفی (parse-down) کرنے کو الگورتھم وضع کرتے ہیں ۔ تاہم آج کل ، زبان سازی کے لیے عام طور سے شماریاتی طریقہ ہائے کار اور مشینی آموزش کو بروئے کار لایا جاتا ہے ، سیری(Siri)اور الیکسا (Alexa) کے پس پردہ آج کل یہی طریقے کام کرتے ہیں ۔

1994ء میں الیکٹریکل انجئینر اور کمپیوٹر سائنس دان لطفی زادہ نے کیلی فورنیا یونیورسٹی برکلے میں ایسے طریقہ ہائے کار کے لیے ’’سافٹ کمپیوٹنگ‘‘ کی ترکیب کو برتا۔ چونکہ ماہرین ریاضیات غیر مبہم اور حتمی جوابات تلاش کرتے ہیں اورحقیقی زندگی میں ان کا حصول دشوار ترین یا سیدھا سیدھا ناممکن ہے ۔ ایسے حالات میں ہمیں ایسے الگورتھم کی ضرورت پڑتی ہے جو حتمیت کے قریب قریب پہنچتے ہوئے بروقت اور معتبر انداز میں درست جوابات دے پائیں: حقیقی دنیا کے نمونے بھی خلقی اعتبار سے غیریقینی اور مبہم مفروضات پر انحصار کرتے ہیں۔ اور ہمارے سافٹ ویئر کو نہایت سمجھداری کے ساتھ ایسی غیریقینیت اور ابہام کے ساتھ معاملہ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔

فلسفے کے بیشتر بنیادی مطالعات یعنی زبان ، ادراک ، علم اور استدلال اس معنی میں ’سافٹ‘ ہیں ۔ زبان کا ڈھانچہ خلقی اعتبار سے کسی وضع و قطع کا حامل نہیں ہے(is-amorphous) ۔ تصورات مبہم حدود (fuzzy-boundaries) کے حامل ہیں ۔ کسی سائنسی نظریے کو درکار ثبوت شاذ ہی قطعی ہوتا ہے بلکہ وہ مختلف درجوں میں بنیادی قیاسات (hypotheses) کی تائید کرتا ہے ۔ اگر ان علمی دائروں میں موزوں سائنسی ماڈل کو قطعی (crisp) ریاضیاتی بیانات کی بجائے ’سافٹ‘ طریقہ ہائے کار کی ضرورت پڑتی ہے ، تو فلسفے کو اس پر توجہ دینی چاہیے ۔ ہمیں اس امکان پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اب نئے ہزاریے میں ریاضیاتی طریقہ کار فلسفے کے لیے بنیادی نہیں رہا ہے ۔

تاہم ’سافٹ‘ طریقہ ہائے کار کی آمد کا مطلب منطق کی موت نہیں ہے ۔ مثال کے طور پر سیری اور الیکسا کے ساتھ ہماری بات چیت کبھی گہرائی کی حامل نہیں رہی اور اس بارے سوچنا غلط نہیں ہے کہ نسبتاً زیادہ اہم تعاملات کے لیے موجودہ سے بڑھ کر غیرمبہم بیانات کی ضرورت پڑے گی ۔ انگریزی جریدے ’دی نیویارکر‘ میں 2012ء کے مضمون میں دماغی سائنس دان گیری مارکوس (Gary-Marcus) نے درج ذیل نکتہ اٹھایا ۔

’’درحقیقت ڈیپ لرننگ، ذہین مشینیں بنانے کے عظیم تر چیلنج کا محض ایک حصہ ہے ۔ ایسی تکنیک علت و معلول کے تعلقات کو بیان کرنے سے قاصر ہے (جیسا کہ بیماریوں اور ان کی علامات کے درمیان ) اور ان کو ’بہن بھائی‘ (sibling) یا ’ کسی شے سے مماثل‘ (identical-to) جیسے تجریدی تصورات کے حصول میں چیلنجز کا سامنا کرنے کے زیادہ امکانات ہیں ۔ یہ منطقی استنباط (logical-inference) کے واضح طریقوں کے حامل نہیں ہیں ، اور ان کو تجریدی علم کے باہم ملاپ (integrate) کی خاطر ابھی ایک طویل عرصہ درکار ہے جیسا کہ عناصر کی ماہیت ، ان کے وجودی اغراض اور ان کے عمومی استعمال کے بارے میں معلومات‘‘۔

بعض مقاصد کے لئے سافٹ طریقہ ہائے کار صریحاً غیر مناسب ہیں ۔ اگر آپ انٹرنیٹ کے ذریعے فضائی سفر کی بکنگ تبدیل کرنا چاہتے ہیں ، تو مشینی نظام کو متعلقہ قاعدوں کے مطابق کام کرتے ہوئے آپ کے کریڈٹ کارڈ سے رقم وصول کرنے کی ضرورت پڑتی ہے نیز کسی قسم کے ابہام کی اجازت نہیں ہے ۔ کمپیوٹر پروگرام اپنے آپ میں ناک کی سیدھ میں چلنے والے افعال (precise-artifacts) ہوتے ہیں ، اور یہ سوال کہ آیا کوئی کمپیوٹر پروگرام اپنے ڈیزائن کے عین مطابق ہے ، قطعی جواب کا متقاضی ہے ۔ درست جواب کا حصول خاصی اہمیت کا حامل ہے جب وہی سافٹ ویئر کسی ہوائی جہاز ، جوہری ری ایکٹر یا میزائل لانچنگ سسٹم کو قابو میں رکھنے کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔ حتی کہ سافٹ طریقہ ہائے کار کو بھی بعض اوقات قطعی عناصر کی ضرورت پڑتی ہے ۔ 2017ء میں ایک جریدے ’’Communications-of-the- ACM‘‘ میں کارنیگی میلن یونیورسٹی پٹس برگ کے ماہر ِ مصنوعی ذہانت مینولا وِیلوسو (Manuela- Veloso) کا حوالہ دیا گیا جو مصنوعی ذہانت کے حامل معاصر سسٹمز میں شفافیت کی عدم موجودگی کو تلاش کرتے ہوئے کہتا ہے :
’’انہیں خود کو بیان کرنے کی حاجت ہوتی ہے کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا ، ویسا کیوں کیا ، اس کو کیوں کھوجا اور فلاں تجویز کیونکر دی ؟ جواب دہی سو فیصد واجب ہے‘‘۔

پھر سوال یہ نہیں ہے کہ آیا حصولِ علم خلقی اعتبار سے دشوار ہے یا سافٹ ۔ بلکہ یہ ہے کہ کون سی نوعِ علم کہاں مناسب ہے اور کیسے دو طریقوں کا جوڑ لگ سکتا ہے ۔ کمپیوٹر سائنس میں معروف ایوارڈ یعنی ٹیورنگ ایوارڈ کی فاتح لیسلی ویلیئنٹ (Leslie-Valiant) کا مشاہدہ ہے :
’’مصنوعی ذہانت کے لیے ایک بنیادی سوال ادراک کو درکار بنیادی کمپیوٹر عناصر کی شناخت ہے ۔

مشینی آموزش کی کامیابی کو بنیاد بنا کر آگے بڑھنے کا مخصوص چیلنج درپیش ہے تاکہ ذہانت سے متعلقہ وسیع تر مسائل پر عبور حاصل کیا جائے۔ اس کے لیے خاص طور پر دو متضاد خصائص کے مابین تجدیدِ تعلقات (reconciliation) کی ضرورت ہے یعنی تعقل کی بظاہر منطقی اور آموزش کی شماریاتی فطرت کے درمیان‘‘۔
ایسے تجدیدِ تعلقات کے حصول کی خاطر ویلیئنٹ (Valiant) نے بذات خود ایک مضبوط منطق (robust- logic)تجویز کی ہے ۔

ہمارے فلسفیانہ فہم میں منطق سے آگے بڑھ کر ریاضیاتی فکر کا کیا کردار ہے ؟ سائنس پر ریاضیات کا اثر جو ہمارے زمانے میں بہت بڑھ چکا ہے ، گرہ کشائی کر رہا ہے ۔ حتی کہ حصول ِ علم کے سافٹ طریقہ ہائے کار کی جڑیں بھی ریاضیات میں پیوست ہیں ۔ شماریات بھی ریاضیاتی نظریہ احتمال کی بنیاد پر استوار ہے ، اور عصبانی نیٹ ورک بھی ریاضیاتی ماڈل ہیں جن کے خصائص کا تجزیہ و بیان ریاضیاتی اصطلاحوں میں ہوتا ہے نیز ان کا تجزیہ ہوتا ہے ۔ یقیناً، ایسے طریقہ ہائے کار ریاضیاتی علم کے غیر روایتی بیانات کو استعمال کرتے ہیں ۔ لیکن ہم ان طریقہ ہائے کار کی ماہیت اور فعلیت کو بامعنی بنانے کے لیے ریاضیات کا ہی استعمال کرتے ہیں ۔

جب سائنس کی ضروریات اور ا س کے اٹھائے ہوئے علمی چیلنجز کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنے کی بات کریں تو ریاضیات غیرمعمولی توانائی کا مظاہرہ کرتی رہی ہے ۔ کائنات غیریقینیت کی حامل ہے تاہم مقابلےکے لیے ریاضیات ہمیں نظریہ احتمال اورر شماریات سے لیس کرتی ہے۔ نیوٹن نے محور ی گردش میں رہنے والے دو اجسام کی حرکت کا حساب لگانے کے مسئلہ کو حل کیا ، تاہم جلد ہی اس بات کا ادراک کر لیا کہ محوری گردش میں رہنے والے تین اجسام کی حرکت کے بارے پیشین گوئی کرنے کا مسئلہ حسابی اعتبار سے بے مہار / دشوار ترین (intractable) ہے ۔ (اس کا معاصر جان میشن (John- Machin) لکھتا ہے کہ ’نیوٹن کو سوائے مطالعہ ِ قمر کے کبھی سر درد نہیں ہوا‘) ۔ اس کے جواب میں ، حرکیاتی نظاموں (dynamical-systems)کا جدید نظریہ، حسابی اعتبار سے بے مہار ہونے کے باوجود بھی ایسے نظاموں کے مقداری خصائص کو ثابت کرنے کی غرض سے ایک زبان اور فریم ورک مہیا کرتا ہے ۔ ایک انتہا یہ ہے کہ ایسے نظام انتشاری رویے (chaotic-behaviour) کے مرتکب ہو سکتے ہیں ، تاہم ایک دفعہ پھر ریاضیات اس بات کو سمجھنے میں ہماری مدد کرتی ہے کہ ایسا کب اور کیسے ہوتا ہے ۔ قدرتی اور مصنوعی مظاہر (artifacts) تعاملات کے پیچیدہ پھندوں پر مشتمل ہو سکتے ہیں ، تاہم ریاضیات میں جماعتی تجزیے کے حامل طریقہ ہائے کار (combinatorial-methods) ان کے رویوں کو سمجھنے اور تجزیہ کرنے کے ذرائع فراہم کرتے ہیں ۔

چنانچہ ریاضیات نے صدیوں تک حسابی بے مہاریت (intractability) ، غیریقینیت ، ناقابلیتِ پیش گوئی (unpredictability) اور پیچیدگی (complexity) کے بالمقابل ایسی تصورات سازی اور طریقہ ہائے کار سے مسلح کیا ہے جو قطعیت اور صحت کے ساتھ ہماری حدودِ علم کو وسعت دیتے ہیں ۔ 1930ء کی دہائی میں امریکی ماہرین الہٰیات رین ہولڈ نیئبور(Reinhold-Niebuhr) نے خدا سے التجا کی وہ ہمیں طمانیت عطا فرمائے تاکہ ہم ان اشیاء کو قبول کر لیں جنھیں تبدیل نہیں کر سکتے ، ہم سے تبدیل ہوسکنے والی اشیاء کو تبدیل کرنےکی ہمت عطا فرمائے ، اور اشیاء کے مابین فرق کو سمجھنے کی دانش عطا فرمائے ۔ تاہم تفہیم ِ دنیا کے لیے ہمیں سمجھ میں نہ آنے والی اشیاء کو متانت کے ساتھ قبول کرنے ، اشیاء کا تجزیہ کرنے کی ہمت ، اور فرق کو سمجھنے والی دانائی کی حقیقی ضرورت ہے ۔ جب تحصیل ِ علم کے ہمارے ذرائع اور حدودِ عقل کو وسعت دینے کی بات ہوتی ہے ، تو ہمارے لیے لازم ہے کہ رہنمائی کی غرض سے فلسفے کی جانب توجہ کریں ۔

ریاضیات میں عظیم علمی ترقیوں کو اکثر ذہانت اور وجدان سے منسوب کیا جاتا ہے جس کے بارے ہم کچھ زیادہ نہیں کہہ سکتے ۔ تاہم اس ذہانت کو ممکن بنانے وال اسالیبِ فکر (modes-of-thought)، ذہنی دروبست اور عقلی افعال کو مہیا کرنے کی بابت کچھ ذمہ داری خود ماہرین ِ ریاضیات پر عائد ہوتی ہے ۔ یہی وہ ’طریقہ کار‘ ہے جو ڈیکارٹ اور لائبنز کو بے حد عزیز تھا اور اس کا مطالعہ ہی بے انت تخیل (endless-fascination) کا ایک ماخذ ہے ۔ فلسفہِ ریاضیات اس بات کو سمجھنے میں ہماری مدد کرتا ہے کہ ریاضیات میں ایسا کیا ہے جو اس کو اس قدر قوی اور موثر ذریعہ ادراک بنا دیتا ہے ، اور یہ ہمارے گرد پھیلی ہوئی دنیا کو سمجھنے کے لیے ہماری صلاحیت کو کیسے وسعت دیتا ہے ۔

یقیناً صاحب ِ فکر ماہرین کے افکار، رہنمائی اورمعارف کے ساتھ مکتبی فلسفے کے بغیر ریاضیات اور سائنس ایک دوسرے میں پیوست ہو سکتے ہیں ۔ اس کے برعکس ، فلسفیانہ تفکر کسی کو اس وقت تک کچھ فائدہ نہیں دیتا تاوقتیکہ سوچ بچار کے لائق کسی چیز پر اس کا اطلاق نہیں کیا جاتا ہے۔ تاہم فلسفہ ِ ریاضیات نے ہمیں ماضی میں بھی بہت کچھ نوازا ہے اور ایک بار پھر دے سکتا ہے ۔ چنانچہ ہمیں فلسفیوں کی آئندہ نسل سے توقعات باندھنی چاہیے جن میں سے بعض نے حقیقی سوالات کے بارے کام کرنے اور نئے تجزیاتی طریقہ ہائے کار کے ساتھ تجربات کرنے کا آغاز کر دیا ہے اور ریاضیاتی عمل کو پہلے سے زیادہ توجہ دے رہے ہیں ۔ مضمون ہنوز امکانات کا حامل ہے ، تاوقتیکہ ہم ان وجوہات کو یاد رکھیں کہ ہم اس کی اتنی فکر کیوں کرتے ہیں ۔

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search