برصغیر کی موسیقی میں مسلمانوں کی خدمات۔ مسعود اختر شیخ۔ ترجمہ: کبیر علی

 In ترجمہ

[برصغیر پاک و ہند کی موسیقی میں سے مسلمانوں کی کاوشیں نکال دی جائیں تو باقی بچتا ہی کیا ہے۔ بدقسمتی سے مسلمانوں نے ان خدمات کو دستاویزی شکل دینے میں شدید کوتاہی سے کام لیا ہے، آج ہندوستان میں موسیقی کے کئی جرنلز موجود ہیں جن میں ہندوستانی اور کرناٹکی ہر دو قسم کی موسیقی پر تحقیقی مقالے شائع ہوتے ہیں؛ ہمیں بھی اس سلسلے میں کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ مسعود اختر شیخ کا یہ مضمون اہم ہے، جس کا ترجمہ جائزہ پر پیش کیا جا رہا ہے۔ مدیر]

برصغیر کی موسیقی  ایک ارتقائی عمل سے گزری ہے اور  یہ تبدیلیاں   ساخت کے ساتھ ساتھ اس  کے مزاج میں بھی ہوئی ہیں۔ اس سفر میں مسلمانوں کی خدمات شاندار رہی  ہیں۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد سے قبل ہندوستانی موسیقی میں، نٹ شاستر(500-400 سال قبل مسیح) کے مطابق، سات سُر ، بائیس شُرتیاں، چھ راگ ، تیس راگنیاں اور اکیس مُورچھن متعارف ہو چکے تھے۔ نیز اس وقت کے گیتوں میں  چھند، پربندھ، اشلوک، بھجن، دھرُو، پَد  وغیرہ شامل تھے جنھیں   ڈھیلے ڈھالے طریقے سے مرق ، اور دیشی  راگوں میں بانٹا جاتا تھا۔

711ء میں محمد بن قاسم کی  آمد سے  بہت پہلے ، جنوبی  ہندوستان  کے بہت سے حصوں میں  مسلمانوں کی بستیاں آباد  اور مساجد تعمیر ہو چکی تھیں۔  فطری طور پہ ان علاقوں کے رہائشی عربی موسیقی سنتے  تھے۔ وہ نماز سے قبل دی جانے والی  اذان کے سُروں  کے بھی عادی  ہو گئے تھے۔ لہذا یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ  محمد بن قاسم کی آمد سے قبل، جنوبی ہندوستان میں  عربی موسیقی کا رواج ہو  چکا تھا۔  محمد بن قاسم کی آمد کے بعدعرب سندھ میں بس گئے اور محمد بن قاسم  نے  براہمنوں کو اونچے عہدوں  پہ فائز کیا۔ مقامی خواتین میں سے اسلام قبول کر لینے والیوں   سے شادیاں ہونے لگیں۔ منصورہ، خضدار، بائزہ، محفوظہ اور ملتان  فنونِ لطیفہ اور علمی سرگرمیوں کے مراکز بن گئے۔ مقامی  عالموں اور  فنکاروں سے عرب  متاثر ہوئے اور  ثقافتوں کا  ادغام شروع ہو گیا۔

چشتیہ روایت اور موسیقی

ثقافتوں کے باہمی ملاپ کے عمل پر ان عظیم صوفی بزرگوں کا بہت  اثر ہُوا  جو  باہر سے ہندوستان آئے تھے۔  صوفیائے چشت، جو عبادت کے لیے  موسیقی کو ایک واسطے کے طور پہ استعمال کرتے تھے، کی جانب مقامی لوگ مائل  ہوئے۔ اُس وقت کا ہندو سماج کٹر مذہبی پجاریوں کے ظلم کا شکار تھا اور مقامی لوگ  براہمنوں  کی تنگ نظری کے خلاف  بغاوت کر رہے تھے۔ ان حالات نے صوفیوں کی   تبلیغی سرگرمیوں میں سہولت فراہم کی۔ اپنے مقصد کے موثر  حصول کے لیے ان صوفیوں نے مقامی زبانوں اور دُھنوں کو سیکھا۔ چونکہ وہ عربی اور فارسی موسیقی سے واقف تھے ، لہذا انھوں نے ایک  نئی قسم کی موسیقی کو رائج کیا جو ہندوستانی، فارسی اور عربی موسیقی کا  ایک امتزاج تھی۔ اسے ہم ہندوستانی موسیقی کی حقیقی معنوں میں   قلب ماہیت کا آغاز کہہ سکتے ہیں۔

اس روایت کے بانی اجمیر کے خواجہ  معین الدین چشتی ؒ تھے، جو غزنی سے محمد غوری کی فوج کے ہمراہ  ہندوستان آئے تھے۔خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ  پر،جو خواجہ اجمیریؒ کے خلیفہ تھے،  قوالی میں پڑھے گئے ایک شعر  کا اتنا اثر ہوا کہ  چار  روز و شب  تک وہ اسے سنتے رہے اور اسی حالت میں واصل بحق ہوئے۔ بابا فریدالدین گنج شکرؒ اور  شیخ بہاؤالدین ذکریاؒ  بھی   موسیقی  اور شاعری  سے  محبت    کے لیے معروف تھے ۔  شیخ  نظام الدین چشتیؒ بھی موسیقی کے عظیم عالم اور  محب تھے۔ ایک ہم عصر کتاب سیرالاولیاء میں  خواجہ سید محمد امام کا ذکر،  جن کی خدمت میں  فارس اور  ہندوستان کے بہت سے قوال رہا کرتے تھے،  ایک عظیم موسیقی دان کے طور پہ  کیا گیا ہے۔ ان کے بھائی خواجہ سید موسیٰ    احساس آمیزی  اور دلسوزی     کے ساتھ   غزلیں پیش کیا کرتے تھے۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سے عظیم  صوفی  تھے جنھوں نے اس نئی قسم کی موسیقی  کی تشکیل میں   اپنا کردار ادا کیا  جن میں  شیخ نصیرالدین چراغ دہلوی (اودھ)، قطب الدین منور (اودھ)،  مولانا فخرالدین زرادی(دیوگیری)، شیخ علاؤالدین  نیلی، برہان الدین  غریب (دیو گیری)، مولانا وجیہ الدین یوسف (چندیری)، مولانا عربی سراج (لکھنو-بنگال)،  مولانا  شمس الدین (دھار، اجین)،  سید محمد بن سید مبارک (سیرالاولیاء کے مصنف) اور بہت سے دیگر شامل تھے۔ یہ سب شیخ نظام الدین  چشتیؒ  کے ارادت مند تھے  اور ملک  کے مختلف حصوں میں  خسرو کی غزلوں اور قوالیوں کی مقبولیت  ان کے مرہونِ منت تھی۔ ان علاقوں میں  دلی، آگرہ، گلبرگہ، بیجا پور، وِجے نگر، جون پور، مالوہ اور گجرات  شامل تھے۔

خسروؒ :ایک  عبقری

خسرو، چشتیہ روایت    کے پیروکاروں میں سے  تھے۔ ان کی ماں بولی برج بھاشا تھی مگر وہ ترکی، عربی اور فارسی زبانیں بھی جانتے تھے۔”اعجازِ خسروی” کے مطابق، خسرو فارسی موسیقی کا  بھی قابلِ لحاظ علم رکھتے تھے اور  اس کے اصولِ اربعہ اور بارہ مقامات اور بہت سی دیگر باریکیاں بھی جانتے تھے اور  ہندوستانی و غیر ملکی   فنکاروں  کے مابین محافلِ موسیقی منعقد کروایا کرتے تھے۔  اگرچہ  خسرو ہندوستانی موسیقی سے بڑی محبت کرتے تھے لیکن وہ  ہندوستانی موسیقی کے ویدک اصولوں  سے ناواقف تھے۔ ان کے مسلمان ہونے کے باعث کوئی شخص یہ جرات نہ کر سکتا تھا کہ انھیں  ویدک موسیقی کی تکنیکی باریکیاں سکھائے۔ مزید برآں، ویدوں  پر مبنی گرام راگوں کا استعمال  تفریح کے واسطے ممنوع تھا   مبادا  یہ آلودہ ہو جائیں۔ لہذا خسرو نے  مقبول  ہندوستانی  راگوں کی درجہ بندی نظامِ مقامات ،  یعنی مسلم موسیقی کے تحت کی  جس کا  ویدوں  کے نظام  کی درجہ بندی  سے کوئی تعلق نہ تھا۔ اس  نظام میں بارہ سُر تھے جنھیں نغمے کہا جاتا تھا۔

اگرچہ ان آوازوں  کے ہندوستانی نام  رکھے گئے  تھے مگر یہ   ویدوں میں  مذکور اصل  آوازوں سے کافی مختلف تھیں۔   درجہ بندی کے اس نئے نظام کو  شمالی ہندوستان میں  نظامِ مقام،یا  سناستھن نظام یا   پھر اندرپراستمت  یا ٹھاٹھوں کا نظام کہا جاتا تھا جبکہ  جنوبی ہندوستان میں  ”میلَ کرتا” کہا گیا۔  اس نظام کا مطلب تھا کہ ”سا” اور ”پا”  قائم سُر تھے ، اور یہ کہ   تین سپتک تھیں اور ہر ایک بارہ سُروں پر مشتمل تھی یعنی سات تیور سُر اور  پانچ کومل سُر۔ یہ وہ نظام ہے جس پر   ہندوستانی موسیقی کا  مروجہ نظریہ اپنی بنیاد رکھتا ہے۔  نئے زمرہ بندی  نظام کو متعارف کروانے کے ساتھ ساتھ خسرو نے ایرانی اور ہندوستانی راگوں  کے امتزاج کے تجربات کیے اور بہت سے  راگ اختراع کیے  مثلا عشاق، زریاب، یمن، زیلف، سرپردہ، شاہانہ، ساز گیری، تلانہ، ضلع وغیرہ۔  شاہ بہاالدین ذکریا نے بھی انھی خطوط پر کام کرتے ہوئے  راگ وضع کیے۔  امیر خسرو نے  ہندوستانی اور غیر ہندوستانی دھنوں کی مدد سے  عربی  مقولوں کو مقبول بنایا۔ ان دھنوں کو قوالی کہا جاتا تھا اور انھیں گانے والوں کو قوال کہا جاتا تھا۔ انھوں نے خیال ، ترانہ اور غزل کی گائیکی بھی متعارف کروائی۔

یہ سب دیکھتے ہوئے ہم بلا جھجک یہ اقرار کیوں نہ کریں کہ  مسلمان گائیک ہمارے اصل  مربی تھے۔

عمادی دیورائے  نے،جو 1446ء سے 1465ء تک حکمران رہے، کالی ناتھ سے کہا کہ تیرھویں صدی میں شائع ہونے والے مشہور گرنتھ ”سنگیت رتناکر” پر  حواشی لکھے۔  اس نے لکھا کہ سنگیت رتناکر   گنجلک اور مبہم ہے اور کوئی  اسے سمجھ نہیں سکتا۔  اپنے حواشی میں  اس نے  ”سا” اور ”پا” کے  اَچل ہونے کا ذکر کیا، ”رے” اور ”دھا” کی پانچ پانچ شُرتیوں کا ، راگوں کے مختلف ٹھاٹھوں میں سے ہونے کا،  راگوں کے رَس کے متعلق  متضاد  بیانات کا، ورجت  (ممنوعہ) سُروں  کے استعمال کا  اور ایسے ہی کچھ دیگر رجحانات کا ذکر کیا جن سے صاف طور پہ معلوم ہوتا تھا کہ  جنوبی ہندوستان کی موسیقی بھی  خسرو کی روایت کے زیرِ اثر  تھی۔

راما ماتیا نے جو وینا  اختراع کی تھی اس میں بھی  مقاموں کے نظام کے تحت بارہ  متعین   سُر  تھے۔ سُروں  کے  تعین   کی بات کی جائے تو  شمالی ہندوستان کی بین اور جنوبی ہندوستان کی وینا میں  کوئی فرق نہیں ہے۔ دونوں میں مقاموں کے نظام کے  مطابق بارہ بارہ سُر ہیں۔ شمال و جنوب میں  سُروں کے ناموں میں فرق ضرور ہے جو  راما ماتیا نے دانستہ رکھا تھا۔  مسلم وینا پر پرانے ناموں کو تھوپنا  نہایت لغو حرکت تھی۔

مسلمانوں کے ان اثرات نے   نہ صرف رائج موسیقی  کے اندازِ فکر بلکہ اس کے عملی پہلوؤں پر بھی اثر  ڈالا۔ ہندوؤں کے  قدیم ”مورچھن پدھتی” کے نظام کی جگہ ایرانیوں کے نظامِ مقام نے لے  لی ۔ سنسکرت میں مردانہ پدھتی  اور   موسیقی کے کئی گرنتھ   لکھے گئے جن کی بنیاد ایرانی نظامِ مقام  کی  مردانہ پدھتی  تھی۔

بابر کی آمد کے 23 سال بعد، راما ماتیا نے  1550ء میں ”سُر میل کلاندھی” لکھی،  جبکہ اکبر کے زمانے   (1650-1556) میں  پندریک اور شری کرشن نے گرنتھ لکھے۔ مزید برآں سومناتھ نے جہانگیر کے زمانے  (1609) میں  راگ وِبودھ لکھی اور  گوند وِکشٹ نے شاہ جہاں کے زمانے  (1658-1627) میں   اپنی تصنیف شائع کی۔ وَنکت مکھی، گرنتھ، چتر ڈانڈی پرکاش وغیرہ  اورنگزیب کے زمانے  (1660) میں شائع ہوئیں۔  البتہ  لوکان کا  گرنتھ ”راگ ترنجنی” بہت پہلے شائع ہو گیا تھا۔ سنسکرت زبان میں لکھے گئے ان تمام گرنتھوں میں راگوں  کی زمرہ بندی ایرانی  نظامِ مقام کے مطابق  کی گئی   ہے،  قدیم  مورچھن پدھتی یا  رَس شاستر کے نظام کے مطابق نہیں۔

نئے رجحانات

مزید برآں  کچھ ایسے ارتقائی رجحانات ہیں  جنھیں حتمی طور پہ  بڑے مسلم  موسیقاروں سے  منسوب کیا جا سکتا ہے۔جونپور کے سلطان حسین شرقی  (1477-1458)   نے ”خیال” کے تصور  کو مزید ترقی دی اور کئی نئے راگ اختراع کیے مثلا: سندھوری ٹوڑی، جونپوری، حسینی ٹوڑی، حسینی کانڑا وغیرہ۔ اسی طرح  بہادر شاہ  (1537-1526)، گجرات کا راجہ اور مالوہ کا راجہ باز بہادر بھی اپنے وقت کے معروف موسیقی داں تھے۔ کئی مغل بادشاہوں کی موسیقی میں دلچسپی معروف تھی جس کی وجہ سے ان کے دور میں موسیقی کو نئی رفعتیں نصیب ہوئیں۔ البتہ  یہ محمد شاہ رنگیلا  کا زمانہ (1748-1719)  تھا  جب شاہ سدا رنگ اور شاہ ادا رنگ کی بدولت خیال گائیکی کو بڑی تقویت ملی۔ ان فنکاروں نے   ”زمزمہ”، ”مُرکیوں”، ”بہلاووں” اور ”دُرت کی تانوں”  کی مدد سے  ایک اپنا انداز  پیدا کیا  جس   کی وجہ سے خیال گائیکی نے  قدیم دھرپد گائیکی   کی جگہ لینے کا آغاز کر دیا۔

شہنشاہ اکبر کے درباری گویے میاں تان سین (1588-1506)  نے کئی نئے راگ بنائے مثلاً درباری، میاں کی ملہار، میاں کی ٹوڑی، میاں کا سارنگ وغیرہ وغیرہ۔ بڑے میاں محمد  خان  (قوال بچے دہلی گھرانہ، وفات 1840) نے ”پھرَت تان”  (بغیر لفظوں کے تان جس میں پھرنے کا تاثر ابھرتا ہے) ایجاد کی جبکہ آگرہ گھرانے کے نتھن  خاں  (1900-1840) نے ”بول تان” (ایسی تان جس میں لفظ  بھی ہوتے ہیں)  اختراع کی۔

اسی  دوران ایک اور بڑا اہم کام ہُوا یعنی   شمالی  ہندوستان میں  بلاول ٹھاٹھ ، جسے شُدھ ٹھاٹھ بھی کہتے ہیں  ،  اختیار کر لیا گیا۔  اس سلسلے میں ہمیں پہلا حوالہ  ”سنگیت سرا” میں دستیاب ہوتا ہے  جسے جے پور کے مہاراجہ پرتاپ سنگھ دیوا (1804-1779) کی سرپرستی میں لکھا گیا۔  تاہم  یہ حقیقت اپنی جگہ برقرار رہے گی کہ  یہ پٹنہ کے ایک معزز ، محمد رضا تھے جنھوں نے 1813ء میں موسیقی پر   ”نغماتِ آصفی”   کے نام سے ایک کتاب لکھی اور  اس وقت  موجود بعض مکاتبِ فکر پر شدید  تنقید  کی، جن میں  مثلاً ”بھر ت مَت”، ”ہنومان مَت”، ”کالی ناتھ مَت” وغیرہ شامل تھے، اور  انھیں     غیر ضروری اور ازکارِ رفتہ قرار دیا۔  اس نے راگوں کی زمرہ بندی  کا ایک نیا نظام متعارف کروایا جو  ان کی ساختی مماثلتوں  پر مبنی تھا۔ اس نے مروجہ ٹھاٹھ کو بھی رَد کیا اور  ”بلاول” کو بنیادی ٹھاٹھ کے طور پہ متعارف کروایا۔  یہی نظام پنڈت بھات کھنڈے نے  اپنی معروف کتاب   ”سری مَل لکھشن سنگیت (1929)” میں اختیار کیا  نیز  ”بلاول” کو بنیادی ٹھاٹھ کے طور پہ تسلیم کر لیا اور  یہی آج تک مستعمل چلا آتا ہے۔

اسی سیاق  میں ایک اور  اہم پیشرفت    ٹھمری کی نشو ونما تھی  جو  بالعموم ہلکے پھلکے راگوں مثلاً کافی، تلنگ، کھماج، پیلو اور بھیرویں میں  کمپوز کی جاتی ہے۔ جیسا کہ کے۔ایم۔ منشی نے اپنی فکر انگیز کتاب   ”خطوطِ  کلپتی” میں  لکھا ہے ، نواب واجد علی شاہ (اختر  پیا 1887-1882) فارسی زبان  پہ  بڑا عبور رکھتے تھے  اور اردو کے بھی ماہر تھے۔  موسیقی میں عملی دستگاہ رکھنے  کے ساتھ ساتھ وہ موسیقی اور رقص  کے  ایک عظیم سرپرست بھی تھے۔ ان کے دور میں  ”پری خانہ” کی سانس موسیقی اور  رقص سے چلتی تھی  اور اس کا  سربراہ لکھنؤ کی مشہورِ زمانہ  ٹھمری  کا  سرپرست تھا۔  لکھنؤ سے تعلق رکھنے والے کئی مسلم فنکاروں کی بدولت  ٹھمری گائیکی کا  نیا انداز تشکیل پایا  جن میں  قادر پیا، سانداد پیا، نجر پیا، سگھڑ پیا، لالن پیا اور نواب چولکھی مرزا مراد  ڈاہر  شامل تھے۔  مرحوم استاد ولایت  حسین خاں کے بقول ، نواب  واجد علی شاہ کے زمانے میں صادق علی خاں نے ٹھمری گانے کا ایک  نیا  ڈھنگ  اختراع کیا   جو بنارس، گیا اور کلکتہ  میں بہت مقبول ہوا۔  اس سلسلے میں  موجود الدین خاں کو بھی  ایک  امام مانا جاتا ہے۔ ابھی حال ہی میں  بڑے غلام علی خاں او ربرکت علی خاں نے  ٹھمری  گائیکی کا  ایک نیا طریقہ وضع کیا  جسے عام طور پہ ”پنجاب انگ” کہا جاتا ہے۔

مسلمانوں کی ایک اور اہم اختراع  ”ٹپہ”  تھی جسے پنجاب کے میاں شوری نے متعارف کروایا۔  اس نے   ہلکے پھلکے راگوں  مثلا  کھماج، کافی اور جھنجھوٹی وغیرہ  کی گائیکی میں  اس  نئے انداز کو   استعمال کیا۔  یہ نیا انداز جلدی ہی پورے برصغیر میں پھیل گیا۔  یہ اندازِ گائیکی بہت  باریک ہے اور سُروں پہ بہت زیادہ قدرت اور  ان کی صحیح خوانی مانگتا ہے۔  ٹپہ کی شاعری اکثر پنجابی زبان میں ہوتی ہے۔  غزل بنیادی طور پہ  شاعری کی ایک صنف ہے، جس نے اپنا آغاز عربی شاعری سے کیا، اور  پھر فارسی و اردو کے کلاسیکی  ادب  کا نمایاں ترین     نمائندہ بنی۔ برصغیر میں  فارسی غزل کی  اپنی ایک طویل تاریخ  ہے  جس کا آغاز امیر خسرو (1325-1253) سے ہوتا ہے جن کی  شاعری آج بھی مقبول ہے۔  اردو غزل گائیکی،  ہند اسلامی فن کی   مصفیٰ ترین اصناف میں سے ایک ہے۔ غزل گائیکی  ایک طویل عرصے سے مسلمان گائیکوں  کا امتیاز رہا  ہے   اور  کئی عظیم ترین غزل گائیک مسلمان ہیں  جن میں اختری بائی فیض آبادی، استاد برکت علی خاں اور  حال کے فنکاروں میں  فریدہ خانم، مہدی حسن، اقبال بانو، غلام علی اور  کئی دوسرے فنکار شامل ہیں۔

دیش پانڈے کے مطابق  پچھلی دو صدیوں سے  موسیقی کی  عظیم روایت اس طور آگے بڑھتی رہی ہے کہ گھرانے کا ہر آنے والا فنکار  اپنی تخلیقات کا  اضافہ کرتا ہے۔  مسلمانوں کے ہاں   موسیقی کے ”گھرانوں”  کا ظہور اس سلسلے میں  بہت بڑی پیشرفت تھا کیونکہ  انھوں نے  اپنے اپنے اندازِ گائیکی وضع کیے جو برصغیر کی کلاسیکی موسیقی  کے فروغ کا ایک اہم عنصر  بنے۔

مسلمانوں  کے  مشہور  ترین گھرانوں میں  گوالیار، آگرہ، پٹیالہ، جے پور، کیرانہ، تلونڈی، شام چوراسی اور دہلی گھرانہ شامل ہیں۔  گوالیار گھرانے (حدو خاں، حسو خاں  وفات 1870ء)  کی نمایاں خصوصیت  تانوں کی گھن  گرج ہے جو کبھی دو  سے تین  سپتک پر بھی مشتمل ہوتی ہیں اور صحیح  خوانی۔  آگرہ گھرانہ  (فیاض خاں  ، وفات  1950) پرانی بندشوں بالخصوص ہوری اور دھمار  کی ٹھیٹھ  صحیح خوانی    اور پیچدار ”بول تانوں”  کے لیے معروف ہے۔ پٹیالہ گھرانہ (علی بخش خاں 1930-1824 اور  فتح علی خاں )   تیز طرار تانوں کے لیے معروف ہے اور ان کے انداز میں تین معروف گھرانوں  یعنی  دہلی، جے پور اور گوالیار  کا جوہر جمع ہو گیا ہے۔ جے پور گھرانے (بہرام خاں  وفات 1852ء)  میں راگ کی  ساری بڑھت تال کی پیچیدگی کے  ساتھ  ہوتی ہے۔ اس گھرانے کی پیچدار تانیں بھی مشہور ہیں۔  کیرانہ گھرانہ  (عبدالکریم خاں وفات 1937ء)  سُروں  کے خالص پن اور    پرسکون مزاج کے لیے جانا جاتا ہے۔  دھرپد گائیکی کا تلونڈی گھرانہ، برصغیر کے  قدیم ترین گھرانوں میں سے ایک ہے اور اس گھرانے کے بزرگ  مغل دربار کے نمایاں ترین گائیکوں میں سے تھے مثلا  چتراڑ خاں، پرویز داد، ہمزان خاں، خرم داد اور جہانگیر داد۔ میاں مولا بخش (1930-1845)  اپنے وقت کے عظیم دھرپد گائیکوں میں سے تھے۔  شام چوراسی گھرانے نے  پچھلی تین صدیوں میں کچھ بڑے دھرپد گائیک   اور بین کار پیدا کیے ہیں۔ اس گھرانے کا سلسلہ  سولھویں صدی کے چاند خاں اور سورج خاں سے ملتا ہے، اور اس گھرانے کا  دھرپد گائیکی  سے  خیال گائیکی پر منتقل ہونا وہ معجزہ ہے جسے استاد سلامت علی  خاں  ایسے بڑے فنکار نے سرانجام دیا۔  شام چوراسی کا آکار  شفاف، فطری اور  پرشکو ہ ہے  اور  ناک سے آواز پیدا کرنے اور کچھ دیگر مصنوعی طریقوں سے گریز کیا جاتا ہے جنھیں دوسرے گھرانو ں میں سُر کی تاثیر میں اضافے کے لیے اختیار کیا جاتا ہے۔ اس مجذوبانہ آکار  نے  ان کی گائیکی کو ایک  روحانی  ذائقہ بخشا ہے۔ دہلی گھرانہ، خیال گائیکی کا قدیم ترین گھرانہ ہے اور اس کا سلسلہ مغل بادشاہ محمد شاہ رنگیلے کے دور کے   نعمت خاں سدا رنگ سے جا ملتا ہے۔ اس  کی بندشیں زمزموں، بہلاووں اور دُرت کی تانوں سے  مزین ہوتی ہیں۔

قوال بچوں گا گھرانہ   جو دہلی گھرانے ہی کی ایک شاخ ہے،  پیچیدہ پھرت کی تانوں اور  لَے کاری کے لیے مشہور ہے۔ تان رَس خاں  ، مغل شہنشاہ بہادر شاہ ظفر (1861-1837) کے درباری گویے تھے اور تمام  زمانوں کے بہترین خیال گائیک تھے۔ یہ گھرانہ زیادہ تر سُر اور  لَے کی  قوتِ اظہار  سے سروکار رکھتا ہے اور بندش کو  ایک عمدہ ”صوتی نظم”  تصور کرتا ہے۔اس گھرانے کی  دوسری شاخ  کی نمائندگی استاد محمد خاں اور بندو خاں کرتے ہیں جو برصغیر کے دو عظیم  سارنگی نواز تھے اور  استاد چاند خاں دہلی والے اور استاد رمضان خاں کراچی والے کرتے ہیں۔

ہندوستان کے عظیم موسیقی داں  پنڈت بھات کھنڈے اپنی کتاب سنگیت شاستر کے صفحہ 660 پہ رقم طراز ہیں:”ہم چھ بنیادی راگوں کا ذکر بڑے فخر سے کرتے ہیں، لیکن ہم اس تفاخر کے حق میں پرانے گرنتھوں  سے کوئی ثبوت فراہم نہیں  کر سکتے.”گرنتھوں میں موجود پرانے  راگ ”پھیروں” کا موازنہ آج کے راگ بھیروں سے کر لیجیے، ان دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ یہی معاملہ راگ ہنڈول اور راگ شِری کا ہے۔ قدیم راگ ‘دیپک’ آج کے راگ ‘مالکونس’ سے بالکل ہی مختلف ہے۔ یہ سب دیکھتے ہوئے ہم بلا جھجک یہ اقرار کیوں نہ کریں کہ  مسلمان گائیک ہمارے اصل  مربی تھے۔

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search