مرزا اطہر بیگ سے گفتگو ۔ مصاحبہ کار: سعید الرحمن (مترجم: کبیر علی)

 In ترجمہ

(فوٹوگرافر: محمد عارف، White Star، بشکریہ ہیرلڈ)

سب سے پہلی چیز جو آپ مرزا اطہر بیگ  کے بارے میں  محسوس کرتے ہیں وہ ان کا دنیا  سے  لاتعلقی کے انداز میں  واسطہ  رکھنا ہے، گویا دنیا کوئی فلسفیانہ مسئلہ ہو  جو نہایت احتیاط سے سلجھائے جانے کا متقاضی ہے۔

میں جنوبی مضافاتِ لاہور کی ایک   متمول آبادی  میں واقع ان کی رہائش گاہ پہنچا۔ جب انھوں نے دروازہ کھولا تو میں نے  ان سے  پوچھا کہ غالباً آپ نے  یہ گھر  ،سمن آباد لاہور والے گھر کو بیچ کر خریدا ہے۔ انھوں نے فوراً میری تصحیح کرتے ہوئے کہا کہ   وہ کبھی بھی گھر کے مالک نہیں رہے، حتیٰ کہ  سمن آباد( درمیانے طبقے پہ مشتمل وسطی لاہور  کی آبادی) والا گھر  بھی ان کا اپنا نہیں تھا۔ اس وضاحت کے بعد انھوں نے  ذاتی مکان تعمیر کرنے یا خریدنے کو  ایک  ’’فضول کام‘‘ قرار دیا۔

’’ہمیشہ ایسے لوگ موجود رہتے ہیں  جو ذاتی گھر بنا کر خوش ہوتے ہیں، وہ  اس کام میں خوش رہیں اور  لکھاری، فنکار اور مفکر  ان گھروں  کو  کرائے پر لیتے رہیں اور  اپنا کام کرتے رہیں۔ ‘‘یوں شروع ہوئی گفتگو اس آدمی سے جو تصورات کی دنیا کا گیانی، بھاری بھرکم ناولوں کا لکھاری، تخلیقی لکھت کا گرو، فلسفے کا مہاگرو اور مابعدالجدید عہد میں سانس لیتا، ماقبل جدید وضع قطع کا انسان ہے۔

مرزا اطہر بیگ لاہور سے 35 کلومیٹر کے فاصلے پہ واقع  شرقپور نامی قصبے میں  مارچ 1950ء میں پیدا ہوئے اور  2010ء میں گورنمنٹ کالج لاہور  سے بہ طور صدر شعبہء فلسفہ سبکدوش ہوئے۔ ان کا پہلا ناول ”غلام باغ‘‘ 2006ء میں شائع ہوا۔ ان کا دوسرا ناول  ’’صفر سے ایک تک‘‘ 2009 ء میں سامنے آیا جبکہ  ان کا تیسرا ناول  ’’حَسن کی صورتحال؛ خالی جگہیں پُر کرو‘‘ 2014ء میں شائع ہوا۔ ان  کے افسانوں پہ مشتمل  مجموعہ  ’’بے افسانہ‘‘ 2008ء میں  شائع ہوا۔ بیگ صاحب نے  تقریبا   پندرہ  کثیرالاقساط ٹیلی ویژن سیریلز   لکھے ہیں  جن میں  دوسرا آسمان، دلدل، حصار، پاتال، نشیب، یہ آزاد لوگ، گہرے پانی اور خواب تماشا شامل ہیں۔ اس کے علاوہ  انھوں نے ٹی۔وی کے لیے پچاس سے زائد یک قسطی  ڈرامے  بھی لکھے ہیں۔ اس انٹرویو میں ہم نے کوشش کی ہے کہ  مرزا صاحب  اپنی  زندگی، اپنے فن  اور  اپنے گرد موجود دنیا  سے متعلق  کچھ بات کریں۔

سعید الرحمان: آپ کو تصورات میں دلچسپی کیونکر پیدا ہوئی؟

مرزا اطہر بیگ:اس کا آغاز سائنس سے ہوا۔ ہم شرقپور میں رہتے  تھے جہاں  میرے والد ایک سکول میں  استاد تھے اور میں ایک طالب علم۔ یہ میں  ساٹھ  کی دہائی کے اوائل کی بات کر رہا ہوں۔ ہم دونوں اس پائلٹ سکول میں تھے جہاں امریکی حکومت کی جانب سے ملنے والی فلکیاتی دوربین   موجود تھی۔ میرے والد اگرچہ  زبان  پڑھاتے تھے مگر  کسی طرح سے انھوں نے یہ دور بین استعمال  کرنا  سیکھ لی اور  مشتری  کے چاند اور  زحل کے حلقے  دیکھنے لگے۔ اس چھوٹے سے قصبے میں یہ بہت بڑی بات تھی۔ ان کی دیکھا دیکھی میں نے  بھی  دوربین  استعمال کرنا شروع کر دی۔  بعض اوقات تو والد صاحب اس دوربین کو گھر بھی لے آتے تھے۔ اس طرح  طبیعی دنیااورقابلِ دید کائنات میں  میری بے پناہ دلچسپی کا آغاز ہوا  اور مجھے محسوس ہوا کہ چیزوں کو نئے ڈھنگ سے دیکھنے کے لیے سائنس کس طرح ہماری مدد کر سکتی ہے۔

میری والدہ بھی ایک  سکول میں  پڑھاتی  تھیں، پس ہمارا گھر کتابوں سے بھرا ہوا تھا۔ گھر میں ہر طرف  ہر طرح کے ادبی رسالے بکھرے رہتے تھے۔ گرمیوں کی چھٹیوں  میں مَیں  کتابوں کے اِس ڈھیر میں گھس جاتا تھا۔ اب اس ساری صورتحال کو اس  امر سے جوڑئیے کہ  میرے والد ایک  صوفی مزاج آدمی تھے ۔یہ مزاج  بنیادی طور پہ بڑی رعایتیں دینے والا اور   انسانی معاملات کو   احساسِ جرم  کے بغیر  دیکھنے والا ہے۔

رحمان: سائنس پڑھتے پڑھتے  آپ  فلسفے کے سنجیدہ طالب علم کیسے بن گئے؟

بیگ: جب میں نے گورنمنٹ کالج لاہور میں  پری۔انجینئرنگ پڑھنی شروع کی تو  مجھے  محسوس ہوا کہ  میرے ہم جماعت  انجینئرنگ   سے بہت سطحی انداز سے وابستہ ہیں۔ انھیں اس  حیرت  سے کوئی واسطہ نہیں تھا جو   ہمیں  اشیا کی ماہیئت پہ غور کرنے پہ ابھارتا ہے۔ وہ   مختلف مضامین اس لیے پڑھ  رہے تھے تاکہ  اچھے گریڈز حاصل کر سکیں  اور اساتذہ بھی  طلبا کے اندر  کسی قسم کے احساسِ حیرانی  کو جگانے  کی کوشش نہیں کررہے تھے۔ انھی دنوں    (امریکی فلسفی اور  نفسیات دان) ولیم جیمز کی کتاب  ’’مذہبی تجربے کا تنوع: انسانی فطرت کا ایک مطالعہ‘‘ کسی طرح میرے ہاتھ آ گئی۔ انگریزی زبان میں فلسفیانہ تحریر سے یہ  میرا  تعارف تھا۔اس کتاب  کے ساتھ  ہی میں  نصاب  کی مجوزہ  کتابوں  سے دور ہو گیا۔

رحمان: پہلے پہل  آپ پر کس طرح کے   فکری  اثرات مرتب ہوئے؟

بیگ: ان دنوں  مارکسزم اور  وجودیت   سب سے زیادہ  موثر  مکاتبِ فکر تھے اور میں ان سے متاثر تھا۔ میں نے آندرے ژید (فرنچ لکھاری)، مورث بلانشو(فرنچ نقاد)،لوئس بورخیس(ارجنٹینی فکشن نگار)، جارج بیٹئی(فرنچ لکھاری) اور فیودر دوستو وسکی (روسی ناول نگار) کو پڑھا۔ کسی بھی مقامی  لکھاری سے میں متاثر نہ تھا۔ مشتا ق احمد یوسفی   اردو کے   واحد  لکھاری تھے جنھیں میں نے سنجیدگی  سے پڑھا تھا۔ میرے پہلے افسانے کا نام ’’سو پہلا دن ہوا‘‘ تھا۔ یہ عنوان بائبل کے بابِ پیدائش کے زیرِ اثر  رکھا گیا تھا۔جب میں نے اسے 1972 ء میں حلقہ اربابِ ذوق  کی ایک نشست  منعقدہ پاک ٹی ہاؤس میں پڑھا تو یہ اس قدر مختلف تھا کہ  سامعین انگشت بدنداں رہ گئے۔ ان کا  خیال تھا کہ میں  اردو کی تمام روایات سے الگ اپنا راستہ بنا رہا ہوں۔

رحمان: آپ اپنی تحریروں میں کس مرکزی مسئلے سے جوجھ رہے ہیں؟آپ  کے لکھنے کا سبب کیا ہے؟

بیگ: کچھ لکھنے کی خواہش بجائے خود ایک مسئلہ ہے جو کچھ لوگوں میں بس پیدا ہو جاتا ہے۔ اس کا کوئی مقصد نہیں ہوتا اور  نہ ہی یہ کسی معاملے کا حل ڈھونڈنے  کا راستہ ہوتا ہے۔ایسے کوئی سماجی۔سیاسی  مظاہر نہیں ہیں جو کسی  کو  لکھاری بنا دیں۔ بس کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔جب آپ کے اندر لکھنے کی خواہش جاگے تو یا تو  آپ کو لکھنا پڑے گا یا پھر اس مسئلے کو کسی بھی طریقے سے سلجھانا پڑے گا۔

رحمان: ایک بڑے پیمانے اور  ضخیم ناول ہوتے ہوئے غلام باغ کو کس طرح سے  لیا گیا؟

بیگ: ابھی تک اس کے پانچ ایڈیشن نکل چکے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ  اس کی پانچ ہزار کاپیاں بک چکی ہیں۔  اچھی خاصی ضخامت اور  فلسفیانہ مباحث سے  بھرے ہوئے ناول کے لیے  یہ تعداد  بڑی اچھی ہے۔ تاہم  میں خود کو ان معنوں میں ایک مقبول لکھاری نہیں سمجھتا  کہ جن معنوں میں کچھ دوسرے مصنفین  مقبول ہیں۔

رحمان: شاید  آپ کو ان لوگوں  کے ساتھ اپنا موازنہ کرنا ہی نہیں چاہیے؟

بیگ: جی ہاں۔ میری لکھت  میں  فکر ہوتی ہے اور میرا خیال ہے میں نے کبھی بھی ڈرامہ، ناول یا افسانہ  عام قاری کو خوش کرنے کے لیے نہیں لکھا۔ میری تحریروں میں مسالہ نہیں ہوتا۔یہ شاید ایک غلطی تھی کہ میں  ٹیلی ویژن کے لیے لکھ رہا تھا اور  اس کے باوجود  اپنے ڈراموں میں  فکری مباحث میں الجھا ہوا تھا۔ میرا خیال ہے اگر میں مقبول ہونے کے لیے  دوسرے لکھاریوں  کی نقل کرنے لگوں تو  میں  ان کی نقل بھی  نہیں کر پاؤں گا اور  اپنی شناخت بھی کھو بیٹھوں گا۔ اس لیے میں نے  فیصلہ کیا ہے کہ میں    اپنے سے  چمٹے ہوئے  خیالات اور مسائل ہی سے جڑا رہوں گا۔جیسا کہ محاورہ ہے کہ کوے کو  ہنس کی چال نہیں چلنی چاہیے۔

رحمان: غلام باغ میں آپ کو کون سے  بڑے فلسفیانہ  مسائل کا  سامنا ہے؟

بیگ: یہ غلبے کی صورتحال  سے متعلق ہے۔یہ غلبے  کے تمام پہلوؤں سےنمٹنے  کی کوشش کرتا ہے چاہے وہ فرد کے اندر ہوں یا افراد کے مابین ہوں یا بین التہذیبی ہوں۔ آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہ ہماری مابعد نو آبادیاتی صورتحال کے بارے میں ہے۔غلام باغ  دراصل ان تمام چیزوں کو مجتمع کرنے کی ایک کوشش ہے جو تاریخ کے لمحہ موجود میں  اس خطے (پاکستان جس کا ایک حصہ ہے) کو درپیش ہیں۔ میں نے  اس خطے کے عام آدمی  کے مزاج کو  پکڑنے کی کوشش کی ہے، جو سوچتا بھی ہے اور محسوس بھی کرتا ہے۔ ناول کا مرکزی کردار ایک ناکام فکشن نگار ہے۔ یہ اُس کی شکست کے بارے میں ہے  اور اس کے خطے کی شکست کے بارے میں بھی جو سو طرح کے مسائل سے نبردآزما ہو رہا ہے۔جب میں  ایک ناکام فکشن نگار کے بارے میں  لکھ رہا ہوتا ہوں تو کہیں نہ کہیں  میں  لکھنے کے بارے میں لکھ رہا ہوتا ہے۔ گویا یہ  ناول ایک طرح کی  میٹا فکشن بن جاتا ہے۔

میرے تمام ناول کسی نہ کسی فکری مسئلے کو گرفت میں لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ میں ان مسائل سے  فکشن کے زمان و مکاں میں نبردآزما ہوتا ہوں۔میرے کردار ان  فلسفیانہ مسائل سے  کُشتی کرتے ہیں۔ یہی (جدوجہد) میرے ناولوں کا متن تخلیق کرتی ہے۔میرے  کردار  وہ ایجنٹ ہیں  جو  مرکزی مسئلے کو کھنگالنے میں  میری مدد کرتے ہیں۔

میرا خیال ہے کہ میں  ہر چیز کے بارے میں  حد سے زیادہ حساس ہوجانے کی عادت سے  چھٹکارہ نہیں پا سکتا۔ یہ میری سبھی کہانیوں میں ہوتا ہے۔  میں اپنی فکشن میں خیالات کی مختلف تہوں کو پھرولنے کی کوشش کرتا رہتا ہوں۔ آپ  ’’غلام باغ‘‘ اور ’’حَسن کی صورتحال‘‘ میں یہ دیکھ سکتے ہیں۔ غالبا ً ’’صفر سے ایک تک‘‘ میں یہ حساسیت اتنی زیادہ نہیں ۔ مگر یہ میرے افسانوں میں بہت نمایاں ہے۔

رحمان: غلبے کی صورتحال کو کھنگال کر آپ نے کیا پایا؟

بیگ: میں وثوق سے نہیں کہہ سکتا کہ  ہم اس سوال کا جواب دے بھی سکتے ہیں یا نہیں: کیا ہوتا  اگر کوئی بھی تہذیب ہماری ثقافت  پہ غلبہ حاصل نہ کرتی؟ میرا خیال ہے کہ تاریخ ممکنہ صورتِ احوال کے بارے میں  نہیں ہوتی۔ہمیں تو  جوہو چکا ہے،اس سے معاملہ  کرنا ہوتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ  مقامی (ثقافتی) پروسث ابھی تک  جدیدیت  سےبرسرِپیکار ہیں۔ہماری (تہذیب کے) بعض دھارے ایسے ہیں جو اَب معطل ہو چکے ہیں۔ہم نے جدیدیت کو   دیکھا دیکھی اور سطحی انداز سے قبول کیا ہے۔ اب ہم نہ تو روایت کے ساتھ ہیں اور نہ ہی جدیدیت کے ساتھ۔

رحمان:مگر یہ بات تو ہم کسی بھی دو  تہذیبوں  کے  تصادم  کے متعلق کہہ سکتے ہیں۔  مثلا  جنوبی ایشیا میں عربوں کی آمد کے متعلق، جنوبی ایشیا میں مغلوں  کی آمد کے متعلق۔۔۔

بیگ: بالکل۔ ہم کہہ سکتے ہیں۔ مگر یہ سبھی تصادم ہمارے اس (یعنی مغرب کے  ساتھ ) تصادم سے  بالکل مختلف  ہیں اور   ان کے تاریخی پروسث بڑے پیچیدہ رہے ہیں۔ ان تصادموں سے ہماری تہذیب میں  ایک احساسِ کمتری بھی پیدا ہوا ہے۔  کسی بھی غالب تہذیب کے ساتھ   ہمارا تعلق نامیاتی نہیں ہے۔

رحمان: آپ کے لکھنے  کی تکنیک  کیا ہے؟ کیا آپ کے پاس کوئی خاص طریقہ ہے جو آپ کے عملِ لکھت  کو انگیخت کرتا ہے؟

بیگ: ناول نگاری میرے لیے  فلسفہ  کرنے جیسی ہی ہے۔ فلسفے سے نبردآزما ہونے کے  بہت سے طریقے ہیں مگر میں  اس کام کے لیے فکشن نگاری کو سب سے پسندیدہ پاتا ہوں کیونکہ ناول بہ طور صنفِ ادب زندگی سے بہت ملتا جلتا ہے۔

رحمان: آپ کی فکشن   میں  مابعد جدیدیت  برتاؤ کا منبع یا اس کی منطق کیا ہے؟  مثال کے طور پہ  ’حَسن کی صورتحال‘ کے  ایک باب کے آغاز میں  آپ نے لکھا ہے کہ جو قارئین پیچیدہ فلسفیانہ مباحث کو پسند نہیں کر سکتے  وہ اس باب  کو چھوڑ سکتے ہیں۔

بیگ: میں سچ مچ  یہی کہہ رہا تھا۔

رحمان: اگر کوئی قاری اس باب کو چھوڑ دیتا ہے تو کیا وہ پھر بھی  مکمل  کہانی سے لطف اندوز ہو سکتا ہے؟

بیگ: جی بالکل۔

رحمان:آپ کا کام امریکی ناول نگار ڈیو ایگرز کے ناول ’’آ ہارٹ بریکنگ وَرک آف سٹیگرنگ جینئس‘‘ سے  ملتا جلتا ہے۔ وہ بھی اپنے قارئین کو ایسی ہدایات دیتا ہے کہ  اُس کی کتاب کا  کون کون سا حصہ چھوڑا جا سکتا ہے۔

بیگ: میں نے  ایک ایسا کردار بھی متعارف کروایا ہے جو   بیانیے میں ایک باقاعدہ مدیر کی طرح بروئے کار آتا ہے۔ ہاپ سکاچ (ارجنٹائن  کے ایک مصنف جولیو کورتزار کا لکھا  ہوا ایک ناول ، مطبوعہ 1963) میں  بھی اسی طرح  کی تکنیک  استعمال کی گئی ہیں۔ (چلی کے ناول نگار) رابرٹ بولافیو نے بھی کچھ ایسی ہی  تدابیر اختیار کی تھیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ میں یہ کام اردو میں کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ مگر آہستہ آہستہ  میں نے قارئین کا ایک حلقہ حاصل کر ہی لیا ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ  میں نے کہانی کو قابلِ پڑھت  بنائے رکھنے کی کوشش کی ہے۔

رحمان: آپ اپنی  تحریر میں  عصری سیاسی و سماجی مسائل سے کس طرح معاملہ کرتے ہیں؟

بیگ:  سب سے پہلے  میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ایک  مصنف  کو  مصلح بننے کا سوچنا بھی نہیں چاہیے۔ ظاہر ہے میری تمام تحاریر  کی تہہ میں میرے کچھ نقطہء ہائے نظر موجود ہیں مگر یہ قاری کے  (سماجی و سیاسی مسائل کے)لیے کسی دستورالعمل کی حیثیت نہیں رکھتے۔ میرے پاس کسی کے لیے بھی کوئی دستورالعمل نہیں ہے۔میں  ان معنوں میں صرف اپنے آپ سے متعلق  ہوں   کہ  میری لکھت  خودعملِ تحریر کے بارے میں ہے۔ یہ میرا سب سے  اولین  جنون ہے۔ میں ناممکن کو پانا چاہتا ہوں۔ میں اس تلاش و سعی میں رہتا ہوں کہ کسی طرح  اَن کہی کو  کہی میں بدلا جا سکے۔ میں  (اپنی کہانیوں میں) حقیقی زندگی کے تجربات سے چیزیں نہیں اٹھاتا۔ میں  حقیقی زندگی کے تجربات کو استعمال کرنے سے اس لیے  ڈرتا ہوں کہ  کہیں  لوگوں کی  شناخت ظاہر  ہونے کا خطرہ نہ پیدا ہو جائے۔ اس لیے  میری فکشن کے تمام کردار میرے تخیل کی پیداوار ہیں۔

رحمان: آپ نے ٹی۔وی کے لیے بہت لکھا ہے  جو اگر  حقیقی زندگی کے کرداروں سے متعلق نہ ہوتو  بے معنی ہوتا ہے۔  اپنے ٹی۔وی ڈراموں میں  آپ اس مسئلے سے کس طرح  نبردآزما ہوتے ہیں؟

بیگ:دراصل میں  نے  پاک ٹی ہاؤس میں  (ستر کی دہائی کے اوائل میں) اپنے افسانے پڑھنے سے  آغاز کیا تھا۔ یہ انھی برسوں کی بات ہے کہ میری ملاقات عارف وقار سے ہوئی۔ وہ ہائی سکول کے زمانوں میں میرا دوست رہا تھا اور بعد میں ہمارا رابطہ نہ رہ سکا تھا۔ جب ہم دوبارہ ملے توہ پاکستان ٹیلی ویژن کا پروڈیوسر تھا۔ ہم فوری طور پہ ایک لکھاری اور ایک پروڈیوسر  کے طور پہ جڑ گئے اور  میں آج بھی اس کی دوستی  پہ خوش ہوں۔ عارف مجھے پی۔ٹی۔وی لاہور اسٹیشن لے گیا اور  میں نے  بلیک۔اینڈ۔وائٹ ٹی۔وی کے دنوں  میں  ٹی۔وی کے لیے لکھنا شروع کر دیا۔ پہلا ڈرامہ جو میں نے لکھا اس کا عنوان  تھا ’وجود برابر ہے منفی ایک کا جزر‘۔ فلسفے اور  ادب کے مطالعے میں صرف ہونے والے میرے  سب سال اس   کھیل  میں جھلک رہے تھے۔یہ  ایک  نوجوان فلسفی،  ماہرِ بشریات اور  شاعر کے بارے میں پچیس منٹ کا ڈرامہ تھا۔

رحمان: کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ   یہ  غلام باغ  کی ابتدائی شکل تھی؟

بیگ: نہیں۔ یہ  فرضی اعداد  کے  جزر کے بارے میں، جو ریاضی میں  ناممکن ہے،  ایک مختصر سا  کھیل تھا۔ ان دنوں  ان چیزوں کے بارے میں  ڈرامے لکھے جا سکتے تھے۔یہ وہ زمانہ تھا جب  ٹی۔وی کے پروڈیوسرز ابھی  اشتہارات اور ریٹنگز کے جنون میں مبتلا نہیں ہوئے تھے۔ میں اس طرح کے ڈرامے لکھتا رہا۔ یہ سلسلہ کچھ عرصے کے لیے ا س وقت منقطع ہوا جب میں (ایک کالج میں پڑھانے کے لیے)   پنڈ دادن خان چلا گیا مگر جب میں لاہور لوٹا تو یہ سلسلہ پھر سے جُڑ گیا۔

رحمان: کیا آپ کے پاس ان سبھی ڈراموں کا ریکارڈ ہے؟

بیگ: صرف چند ایک ہی  باقی بچے ہیں۔ ان میں سے اکثر   ڈراموں کا  کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔ پی۔ٹی۔وی پہ صورتحال اس قدر خراب ہے کہ  مجھے اپنے ڈراموں کے مسودے تک نہیں   مل سکے۔

رحمان: گویا  آپ  کی ٹیلی۔ویژن  کے لیے لکھی گئی تحریروں کا کوئی  ثبوت باقی نہیں رہا؟

بیگ:  جی بالکل۔  البتہ بعض ڈراموں  کے مسودوں کی نقول میرے پاس ہیں۔

رحمان: اگر اس سارے کام کو ضائع ہی ہونا تھا تو شاید یہی بہتر ہوتا کہ آپ ان ڈراموں کے بجائے  صرف  ناول ہی لکھتے رہتے؟

بیگ: جی بالکل۔ میں اس بارے میں سوچتا رہا ہوں۔ ان دنوں مجھے   پیسوں کی ضرورت  ہوتی تھی اور ٹی۔وی کے لیے لکھ کر  میں پیسے حاصل کر لیتا تھا۔ اور اب جب کہ  تقریبا سبھی ڈراموں  کا ریکارڈ   غائب ہے تو میں محسوس کرتا ہوں کہ مجھے ناول لکھنے چاہیے تھے۔ کم از کم ناول کتابی شکل میں  بچ تو  جاتا ہے۔ میں محسوس کرتا ہوں کہ ہر سیریل ایک مکمل ناول تھا اور ہر   یک قسطی ڈرامہ ایک  افسانہ۔ مجھے ایک  پچھتاوا اور بھی ہے: لوگ   سمجھتے ہیں کہ ٹی۔وی کے لیے لکھا گیامواد ادب میں شمارنہیں ہوتا۔

رحمان: مگر لوگ اسکرین پلے پڑھتے  ہیں۔

بیگ: ہاں ۔ مگر وہ  فلم اسکولوں  ہی میں ہوتا ہے۔

رحمان:  فلموں کو ناول   میں بھی ڈھالا جاتا ہے۔

بیگ:ناول میں ڈھالنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ  فلم کا اسکرین پلے  کوئی ایسی چیز نہیں  ہے کہ جسے پڑھنے میں عوام دلچسپی لیں۔

رحمان: مگر لوگ  تھیئٹر کے مسودے پڑھتے ہیں۔

بیگ: جی بالکل۔ تھیئٹر ادب ہے۔ مگر  فلم کا اسکرین پلے اِن معنوں میں ادب نہیں ہے۔ اسٹیج پہ کھیلے جانے کے لیے لکھے گئے ڈرامے ادب ہیں، ایسکائلس  سے  لے کر  ایڈورڈ ایلبی تک دیکھ لیں۔ اس بارے میں کسی شک و شبے  کی ضرورت نہیں۔ مگر  کسی فلم کے لیے لکھا گیا مسودہ  ادب نہیں بن پاتا۔  لوگوں نے ٹی۔وی  کے لیے لکھے گئے ڈراموں کو شائع کروایا ہے۔ مثال کے طور پہ اشفاق احمد اور بانو قدسیہ نے۔ مگر میں اس بات سے متفق نہیں ہوں کہ جو کچھ  ٹی۔وی کے لیے  لکھا گیا ہو اسے کتابی شکل میں بھی شائع کروا دیا جائے۔

رحمان: پھر آپ نے ٹی۔وی ڈرامے لکھنے کی عادت سے پیچھا کیسے چھڑایا؟

بیگ: ’دلدل‘ کے نام سے   ٹی۔وی سیریل لکھنے  کے بعد میں نے اسی کی دہائی  کے وسط میں غلام باغ لکھنا شروع کیا۔ میں اسے برسوں تک لکھتا رہا۔ مگر میں اس ناول  کے ساتھ ساتھ ٹی۔وی کے لیے بھی لکھ رہا تھا۔ بس پھر ایک  وقت  ایسا آیا کہ میں نے فیصلہ کر لیا کہ بس!  اب ٹی۔وی کے لیے مزید نہیں لکھنا۔

رحمان: تو  آپ نے ٹی۔وی کے لیے لکھنا  مکمل طور پہ چھوڑدیا اور خود کو   صرف ناول لکھنے  کے لیے  وقف کر دیا۔

بیگ: نہیں۔ ایسا بھی نہیں۔ اس دوران میں بعض بڑے دلچسپ واقعات بھی ہوئے۔1997ء میں جب  پاکستان  آزادی کی نصف صدی کا جشن منا رہا تھا تو    پی۔ٹی۔وی  لاہور  اسٹیشن نے مجھ  سے رابطہ کیا  کہ  میں اس جشن کے لیے  قسط وار ڈرامہ لکھوں۔ میں ٹی۔وی اسٹیشن گیا اور پوچھا کہ  انھیں یہ خیال کیوں آیا کہ  اس طرح  کے مبنی بر جشن  ڈرامے کے لیے  میں موزوں لکھاری    تھا۔ انھوں نے کہا کہ انھوں نے پہلے اشفاق احمد سے رابطہ کیا تھا لیکن انھوں نے  میرا نام تجویز کیا  اور  وعدہ کیا کہ اگر   میں کسی نظریاتی   مخمصے  میں پھنس گیا تو وہ میری مدد بھی کریں گے۔

جب میں اُن سے ملا تو اُنھوں  نے بتایا کہ اگر ضرورت پڑی تو وہ درست سمت میں میری رہنمائی کردیں گے۔ میں نے سیریل لکھا ، جس  کا نام تھا  ’یہ آزاد لوگ‘۔ اسے راشد ڈار نے پروڈیوس  کرنا تھا اور  وہ ایک ایسے   آدمی تھے جو لکھاری کے  مسودے میں  کبھی تبدیلی نہیں کرتے تھے۔ اگرچہ میں اشفاق  احمد کی جانب سے  کسی نہ کسی قسم کی مداخلت  کی توقع کر رہا تھا۔ مگر انھوں نے   بھی  مجھے بالکل  تنگ نہیں کیا۔ حتیٰ کہ جب میں نے بذریعہ فون  ان سے رابطہ کیا تو بھی انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اس سارے واقعے سے متعلق  میرا ایک خیال ہے: اشفاق احمد   اپنے دل کے نہاں خانوں میں  بہت آزاد خیال اور  کھلےڈلے آدمی تھے ،انھوں نے کسی مجبوری کے تحت  صوفی ازم  کا بھیس بنایا ہوا تھا۔ مجھے نہیں معلوم کہ  اُن  سے  ہونے والی گفتگو کے متعلق میں  اور کیا کہوں۔

رحمان: ٹی۔وی کے لیے لکھی گئی تحریروں  سے متعلق  آپ کا کیا منصوبہ ہے؟

بیگ: میرا ارادہ ہے کہ اپنے کچھ ٹی۔وی ڈراموں کو  ناول اور  سٹیج کے کھیلو ں میں ڈھال لوں۔

رحمان:ایک لکھاری ہونے کے علاوہ  آپ  35 سال تک   فلسفے کے استاد بھی رہے ہیں۔ اس  بارے میں کچھ بتائیے؟

بیگ:بی۔ایس۔سی کرنے کے بعد میں   نے فلسفے کا   اضافی امتحان دیا اور پھر پرائیویٹ  امیدوار کے طور پہ  فلسفے میں ایم۔اے کر لیا۔ پھر میں نے محکمہ ء تعلیم میں  فلسفے  کے لیکچرار  کی نوکری کے لیے درخواست دے دی۔ نوکری صرف ایک تھی۔ پنجاب یونیورسٹی اور گورنمنٹ کالج سے باقاعدہ فلسفہ پڑھے  ہوئے امیدواروں کے ساتھ مقابلہ تھا۔ میں نے تو پرائیویٹ امیدوار کے طور پہ  ایم۔اے کیا تھا  اور اس نوکری کے لیے بہت زیادہ پُر امید نہیں تھا، مگر میں منتخب ہو گیا۔ محکمہء تعلیم نے مجھے تعیناتی کے لیے تین جگہوں میں سے انتخاب کا کہا۔میں نارا کنجور (اٹک)، کلر سیداں (راولپنڈی) یا پھر  پنڈ دادن خان (جہلم) جا سکتا تھا۔  میں نے البیرونی گورنمنٹ  کالج  پنڈ دادن خان کا انتخاب کیا۔

ان دنوں کوئی موٹروے نہیں تھی۔ آپ کو پہلے (لاہور سے ) کھاریاں جانا  پڑتا تھا اور پھر بائیں جانب سالٹ رینج میں   گردو غبار سے بھری سطح مرتفع سے گزرنا ہوتا تھا۔ کھیوڑہ کان کے بالکل ساتھ ہی کالج تھا۔ میں نے اس کالج میں کسی کو فلسفہ پڑھنے  پہ آمادہ نہیں پایا۔ سرکاری  کاغذوں میں مَیں  پنڈ دادن خان کے ڈگری کالج میں فلسفے کا لیکچرار تھا مگر حقیقت میں  نہ تو میرے پاس کوئی مضمون تھا اور نہ ہی طلبا۔ میں نے وہاں تقریباً تین سال گزارے اور   ناکام کوشش کرتا رہا کہ  فلسفے کی  جماعت مل جائے۔ شام کے وقت کرنے کے لیے کچھ  خاص ہوتا نہیں  تھا۔ میں نے  سالٹ رینج کو چھان مارا اور کالج سے ملحقہ ہاسٹل میں  رہتا رہا۔ پھر میرا  تبادلہ   گورنمنٹ کالج میں ہو گیا اور  اب میں اپنی سبکدوشی کے  بعد بھی  وہاں پڑھا رہا ہوں۔میں نے  کچھ عرصے  کے لیے طبقہء بالا کے ایک ادارے میں  تخلیقی لکھت بھی پڑھائی ہے۔

 

(فوٹوگرافر: محمد عارف، White Star، بشکریہ ہیرلڈ)

رحمان: تخلیقی لکھت  پڑھانے کا تجربہ کیسا رہا؟

بیگ: میرے  طلبا ، جو ایک خاص طبقے سے تعلق رکھتے تھے، وہ گریڈز اور  کامیابی کے معاملے میں تو بہت پرجوش تھے اور یہ بھی  بڑے محدود انداز سے۔ اور بلاشبہ  وہ طلبا اپنی تعلیمی کامیابیوں  کے باعث ہی اس ادارے میں داخلے میں کامیاب ہوئے اور  وہ  تعلیمی میدان میں اپنی  دماغی قابلیت کا اظہار بھی کر سکتے تھے  مگر بات یہ ہے کہ جب آپ تخلیقی لکھت پڑھا رہے ہوں تو آپ چاہتے ہیں کہ طلبا بھی تخلیقی ذہن کے مالک ہوں۔ میں نے محسوس کیا کہ دیگر تعلیمی پیمانوں کے حساب سے  لائق ترین طالب علموں  میں بھی یہ عنصر نایاب تھا۔

رحمان:کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ایک لحاظ سے یہ ہمارے موجودہ اعلی تعلیمی نظام  کی خرابی ہے؟

بیگ: ہمارے پاس جو نظام ہے وہ ایک ایسی تہذیب سے درآمد کیا گیا ہے جہاں اس کے پیچھے ادارہ جاتی ارتقاء کی  ایک طویل تاریخ  موجود تھی۔ یہاں یہ نمبروں کا ایک کھیل  بن گیا ہے۔ آپ کو ایسوسی ایٹ پروفیسر بننے کے لیے  اتنے مقالے شائع کرنے ہوں گے اور  اگر پروفیسر بننا ہے تو اتنے۔ تحقیق پر اس اصرار کا ایک غیر ارادی نتیجہ یہ نکلا کہ  تدریس کو  ایک کمتر  درجے کی سرگرمی سمجھا جانے لگا، گویا  اعلیٰ تعلیم کا  تحقیق کے علاوہ  کوئی کام ہی نہ ہو۔ میرا خیال ہے کہ  تحقیق کو   گہری جڑیں رکھنے والی  ضرورتِ معاشرہ کے طور پہ ارتقاء  حاصل کرنا چاہیے تھا نہ کہ  عالمی تعلیمی کلچر میں  شمولیت  کی ایک  مجبوری کے طور پہ۔

رحمان: ایک تقریباً سبکدوشی کی زندگی گزارتے ہوئے آپ کا کیا خیال ہے کہ آپ کے پاس مستقبل میں  کرنے کے لیے کون سے کام ہیں؟

بیگ:  بہت سے کام  ہیں۔میں   اب سٹیج کے لیے کھیل لکھنے کا سوچ رہا ہوں اور مجھے امید ہے کہ یہ  کھیلے بھی جائیں گے۔ میں بیک وقت  ایک سے زائد کتابوں پہ کام کر رہا ہوں۔  ایک ساڑے تین سو صفحوں کی ہے۔  ایک اور کتاب کے سَو صفحات  لکھ چکا ہوں۔ ایک ناول  لکھنا شروع کیا ہے جو  میں نے  پہلے چھوڑ دیا تھا ۔

رحمان:کیا آپ کے قارئین یہ توقع رکھیں کہ  چند برسوں کے اندر  آپ  کی کچھ نئی کتابیں سامنے آ ئیں گی؟

بیگ: مجھے نہیں معلوم کہ سرِدست میں ایسا کوئی وعدہ کر سکتا ہوں یا نہیں۔ شاید مجھے ایک ہی کتاب پہ توجہ مرکوز کرنی چاہیے  اور پہلے اسے مکمل کرنا چاہیے۔ مگر کوئی نہ کوئی چیز جلد ہی شائع ہونی چاہیے۔ میں اس وقت کئی منصوبوں  میں   الجھا ہوا ہوں۔  میں بہت ہی عجیب صورتحال میں ہوں۔ایک وقت تھا جب میرا خیال  تھا کہ میں ان سب منصوبوں کو سنبھال لوں گا۔

رحمان:اس  قدر فکشن لکھتے ہوئے کیا آپ سوچتے ہیں کہ  آپ نے   روز مرہ زندگی سے زیادہ وقت  اپنی ہی تخلیق کردہ  افسانوی دنیا میں  بسر کیا ہے؟

بیگ: بالکل۔جب میں ایک ناول ختم کر تاہوں  اور اس کی افسانوی دنیا کو الوداع کہتا ہوں تو  میں بہت زبردست جذباتی جھٹکا محسوس کر تا ہوں۔ بعض اوقات  فکشن کی کوئی چیز لکھ کر میں  جذباتی طور  پہ ڈھے جاتا ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ اب میں ایک وقت میں دو یا تین افسانوی دنیاؤں میں رہتا ہوں۔ میں ان دنیاؤں  کو  چھوڑ نہیں سکتا۔ مگر اس کا یہ (بھی) مطلب ہے کہ میں  کسی ایک افسانوی دنیا میں  پورے طور پہ بسیرا نہیں  کر سکتا اور  کامل  توجہ کے ساتھ  اس کی کہانی کو مکمل نہیں کر سکتا۔ دیکھتے ہیں  اِ س دنیا اور میرے تخیل کی دنیا کے مابین سفر  سے کیا  نتیجہ برآمد ہوتا ہے۔

 

(سعید الرحمن نے آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی سے پوسٹ کلونیل تھیوری میں ڈاکٹریٹ کی تعلیم حاصل کی۔ آپ سینٹر آف ماڈرن اورینٹل سٹڈیذ، برلن میں پوسٹ کلونیل فیلو رہ چکے ہیں)

ماخذ: ہیرلڈ

سنِ اشاعت: 2016ء

 

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search