مذہبی معاشرہ اور اخلاقی معاشرہ: عبدالکریم سروش (ترجمہ: اسد فاطمی)

 In ترجمہ

خلاصہ بشکریہ مرکز تحقیقات علوم انسانی و ثقافتی تہران

کوئی بھی معاشرہ کسی بھی طور سے اخلاقیات کی نفی نہیں کر سکتا۔ اگرچہ مذہب کو حکومتی معاملات سے الگ کیا جا سکتا ہے، لیکن اخلاقیات کو کاروبارِ حکومت سے الگ کرنا ممکن نہیں ہے۔ حتیٰ کہ لبرل ترین معاشروں میں بھی ایک ساتھ رہنے کے لیے کوئی نہ کوئی اخلاقی اصول ضرور وضع کیا گیا ہے۔ اس طرح معاشرے اور حکومت کے سیکولر ترین حصوں میں بھی ایک یا کچھ اخلاقی اصول ضرور ایسے ہوتے ہیں جن کی بنیاد پر امور سر انجام دیے جاتے ہیں۔ اس بات کو اس طرح سے عمومیت دی جا سکتی ہے کہ کوئی بھی خردمند انسان، یا کہیے کہ صحیح معنوں میں انسان، جس وقت پیدا ہوتا ہے اس پر اخلاقیات لاگو ہو جاتے ہیں۔ چونکہ بااخلاق ہونا، بذاتِ خود باعقل اور باخرد ہونے کا ہی ایک حصہ ہے۔ اس لیے باعقل ہونا، ہمیشہ بااخلاق ہونے سے زیادہ جامع ہوتا ہے، پھر بھی اخلاق پر تاکید و توجہ نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ اخلاق کا پتہ ترجیحات سے چلتا ہے۔ جس وقت ہمیں مختلف چیزوں میں سے کچھ چننا پڑ جائے تو ہمیں دیکھنا ہو گا کہ کون سا انتخاب زیادہ اخلاقی ہے۔ مثال کے طور پر آمریت اور جمہوریت کے معاملے میں جتنے بھی دلائل بھی ملتے ہیں ان سے یہی پتہ چلتا ہے کہ جمہوریت، آمریت کے مقابلے میں زیادہ اخلاقی انتخاب ہے۔ آزادی اور شہری معاشرے کے معاملے میں اسی طرح سوچا جا سکتا ہے۔ مذہب کا انتخاب بھی اسی دلیل کے تحت ہونا چاہیے۔ یعنی اگر یوں کہیے کہ دینداری، بے دینی کی نسبت زیادہ اخلاقی ہے۔ اگرچہ مذہب ایک اختیاری اور انتخابی چیز ہے، لیکن اگر وہ کسی اخلاقی بنیاد پر نہیں کھڑا تو اس کی بنیاد مستحکم نہیں ہے۔ مذہب اپنے اعمال اور مطالبِ حق میں یہ مظاہرہ کرتا ہو کہ لوگ کسی مذہبی نظم و ضبط کو قائم کرتے ہوئے اخلاقی تر رہ کر عمل کر رہے ہیں اور اہلِ مذہب کی ترجیحات اور طرزِ زندگی، بے مذہبوں سے بہتر ہیں۔ اس مقام پر اخلاق کی مذہب پر اولیت آشکار ہو جاتی ہے۔ اس طرح سے، یہ ہو سکتا ہے کہ کوئی معاشرہ بامذہب تو ہو، لیکن بااخلاق نہ ہو، اس طرح جو صورت ہو گی وہ بھی غیر واضح نہیں ہے۔ اخلاق، قطعی طور پر مذہب پر مقدم ہے اور مذہب اخلاقیات کی خدمت بجا لاتا ہے۔ بہرحال ہمارے پاس ایسی اخلاقی قدریں موجود ہیں جن پر دنیا بھر کے عقلاء متفق ہیں۔ ان سب میں حقیقت کو تسلیم کرنا اور رنج و تکلیف کو گھٹانا اکثر کے خیال میں اخلاقی برتریوں میں سب سے بنیادی ہے، بلکہ تمام برتریوں کی بنیاد ہے۔ ایک تعریف مذہبی معاشرے کی طرف سے ہے کہ لوگ پوری آگاہی، آزادی اور دلبستگی سے مذہب کی بنیادوں اور مفاہیم پر ایمان رکھتے ہوں اور دوسری تعریف ان کی یہ ہے کہ معاشرے میں مذہبی احکام کا اجراء ہو؛ یعنی مذہبی اور شرعی احکام کو کم و بیش عوامی سطح پر جاری کیا جائے۔ البتہ میرے خیال میں ایسا معاشرہ جس کی بنیاد شرعی احکام کی پائے بندی پر ہو، مذہبی معاشرہ نہیں بلکہ فقہی معاشرہ ہے۔ ایسا ہو سکتا ہے کہ کوئی معاشرہ فقہی تو ہو لیکن مذہبی نہ ہو۔ چونکہ فقہی احکام کی بجا آوری کبھی کبھی عجیب دلائل اور نتائج کی حامل ہوتی ہے یہ پوچھا جانا چاہیے کہ اخلاقی معاشرے اور اخلاقی عمل کی اساس اور کسوٹی کیا ہے۔ دو عوامل یا عناصر ایسے ہیں کہ جن پر اصولی طور پر سبھی متفق ہیں۔ کسی عمل یا معاشرے کو اخلاقی قرار دینے کے لیے پہلا عنصر اختیار ہے۔ کسی عمل یا سماج کو اخلاقی قرار دینے کے لیے دوسرا نکتہ یا عنصر، قدریں یا اخلاقی برتریاں ہیں۔ جس معاشرے میں اخلاق استوار ہے یہ دونوں امکان فراہم ہونے چاہئیں؛ یعنی اختیار اور اخلاقی برتریوں اور قدروں کی پاسداری۔

اس سوال پر ہمیشہ غور کرتے رہنا چاہیے کہ اختیاری برائی بہتر ہے یا غیر اختیاری اچھائی؛ یعنی ایسا معاشرہ جو اختیار اور آزادی سے کام کرتا ہے یا ایسا معاشرہ جو تمام راستے بند کر دے تاکہ آپ صرف نیکی بجا لائیں۔ حقیقت میں، بااخلاق ہونے کے لیے دونوں نکات کی اولیت اور بَعدیت میں، ایک انسان شناسانہ قضاوت بھی چھپی ہوئی ہے کہ انسان بالذات اچھائی کی طرف مائل ہوتے ہیں یا بالذات برائی کی طرف جاتے ہیں۔ وہ انسان شناسانہ مؤقف، ان دونوں عناصر میں سے ایک کو چننے اور اولیت دینے میں دخیل ہوتا ہے۔ جو لوگ فطری طور پر انسان کو پاک سمجھتے ہیں، اختیار کو فوقیت دیتے ہیں اور وہ جو انسان کو رذائل پسند سمجھتے ہیں، دوسرا عنصر چنتے ہیں خواہ اس کے لیے کسی کا اختیار ہی کیوں نہ سلب کرنا پڑے۔

اس سوال کے جواب کے لیے اور اس انسان شناسانہ مؤقف کو قائم کرتے ہوئے، اس مسئلے پر بھی توجہ رکھنی چاہیے کہ ان دونوں انسان شناسانہ قضاوتوں کی بنیاد کس بات پر ہے۔ یعنی آیا یہ کسی تجرباتی و تاریخی حکم پر مبنی ہے یا عقلی استدلال پر، یا پھر مقدس متون کو مدنظر رکھتے ہوئے ان دونوں میں سے ایک رائے چنی جائے۔

ایران

14-15 مرداد 1383

(4-5 اگست 2004)

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search