کیا کائنات   منفصل ہے یا  متصل  ؟  جوہری نظریے کے حامیوں کے ہاں غلطی نے کیسے جنم لیا ؟ تھامس نیل (ترجمہ: عاصم رضا)

 In ترجمہ

نوٹ : تھامس نیل  امریکی رسیاست کولوریڈو  میں ڈینور  یونیورسٹی  میں فلسفہ کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں ۔ زیرِ نظر  ترجمہ ،    ان کے انگریزی مضمون  کو اردو زبان کے قالب میں ڈھالنے کی ایک کاوش ہے ۔ انگریزی تحریر ، آن لائن جریدے (aeon.com) پر 18 مئی  2018 کو شائع ہوئی ۔

 

منفصل کائنات کے جدید تصور کا آغاز قدیم یونانی جوہریت سے ہوا ۔ لیوسی پس، دیموقریطس اور ابیقیورس   ہر ایک نے دلیل دی کہ کائنات  ذرات  (atoms)یا ’’ناقابل تقسیم اجزاء‘‘ (indivisible-individuals) سے وجود میں آئی  ۔ ان کے نزدیک ، کائنات ایک دوسرے سے  الگ  متحرک اجزاء  کے مجموعے کا نام تھا ۔  کوئی خالق نہیں تھا ، آتما کو ابدیت حاصل  نہیں تھی  اور کسی شے کو قرار  حاصل نہیں تھا (اجزاء کی  قدیم  داخلی ماہیت  اس سے مستثنی ہیں )۔   کائنات ، متحرک اور پیچیدہ ساخت کے حامل  منفرد جواہر (discrete-atoms)کا نام ہے ۔ نہ اس سے زیادہ نہ اس سے کم  ۔

تاہم افلاطون و   ارسطو کے فلسفیانہ نظاموں اور قرون وسطی  کی عیسائی روایت نے  جوہریت کو اس کے تاریخی اثر کے باوجود یکسر غائب کر دیا ۔ افلاطون نے اپنے پیروکاروں کو حکم دیا کہ جہاں کہیں  دیموقریطس کی کتابیں ملیں ، ان کو تلف کردو ۔ بعد ازاں ، عیسائی روایت نے اس   مطالبہ کو بخوبی سر انجام دیا ۔ آج ہمارے پاس ابیقیورس کے چند مختصر خطوط کے سوا کچھ باقی نہیں ہے ۔

تاہم جوہریت  کا خاتمہ نہیں ہوا تھا ۔ 1417ء میں  یہ دوبارہ سے ظاہر ہوئی  جب پوچیو براچیولینی  (Poggio-Bracciolini) نامی ایک اطالوی کتاب جُو (book-hunter)  نے   دور دراز کی ایک   عیسائی خانقاہ سے  ایک قدیم نظم کے ایک نسخے کوڈھونڈ نکالا ۔ ابیقیورس سے بیحد  متاثر  ایک رومی شاعر لیوکریتس کی لکھی ہوئی  اس نظم کا عنوان ’’ماہیت اشیاء کے بارے میں‘‘ (On-the-Nature-of-Things)  تھا   ۔ ایک کتاب پر مشتمل   رزمیہ شاعری میں لکھی جانے والی اس  فلسفیانہ نظم نے  خوش قسمتی سے ہم تک پہنچنے والے  قدیم مادیت کے سب سے زیادہ مفصل اور منضبط بیانیے کو آگے بڑھایا   ۔ اس میں لیوکریتس طبیعیات سے لیکر اخلاقیات ، جمالیات ، تاریخ ، موسمیات اور مذہب یعنی ہر شے کے بارے میں نہایت بنیادی    پہلوؤں پر مبنی  ایک حیرت انگیز  اور بیباک نظریے کو پیش  کرتا ہے ۔  عیسائی کلیسا کی  خواہشات اور بھرپور کاوشوں کے برخلاف ، برچیولینی  نے اس نظم کی اشاعت کا بندوبست کیا اور جلد ہی وہ تمام یورپ میں پھیل گئی ۔

سولہویں اور ستارھویں صدی کے سائنسی انقلاب کے لیے  تحریک فراہم کرنے والے اہم ترین ماخذات میں سے ایک  یہ کتاب تھی ۔  نشاۃ ثانیہ  اور تحریک تنویر  سے وابستہ کم و بیش ہر علمی شخص نے اس کو پڑھا اور کسی نہ کسی درجہ میں جوہریت کا حامی بن گیا (ان سب نے اکثر و بیشتر روح اور خدا کی خاطر گنجائش نکالی)۔  اس  طویل اور اہم داستان کو نہایت مختصر کرتے ہوئے ، بلاشبہ   اسی کارن عصر حاضر تک سائنس اور فلسفہ  کائنات میں  اجزاء کی جداگانہ  حیثیت (discreteness)کو فرض کرتے ہیں نیز اس کی کھوج کرتے ہیں ۔(یہ امر)  لیوکریتس کے اثرات کو  کسی طور کم خراج تحسین نہیں ہے کہ اس جداگانہ حیثیت کی کھوج ہمارے تاریخی ڈی این اے کا حصہ بن گئی ۔حقیقی معنوں میں مغرب کے ہاں جدید سائنس کا تشریحی طریقہ کار  اور دھارا(orientation)  ،  کائنات کے بارے میں لیوکریتس کی اس چھوٹی سی کتاب کے توسط سے   قدیم جوہریت  میں اپنی فلسفیانہ بنیادیں رکھتے ہیں۔ جیسا کہ سٹیفن گرین بلاٹ،  2011ء میں چھپنے والی اپنی کتاب ’’انحراف‘‘(The-Swerve)  میں کہتا ہے کہ لیوکریتس ہی وہ کلید ہے کہ  ’’جدید دنیا کیسے وجود میں آئی‘‘۔

تاہم ، ایک دشواری ہے ۔ اگر یہ داستان درست ہے تو جدید مغربی فکر  ، لیوکریتس کی نظم کی غلط تفہیم پر استوار ہے ۔ یقیناً یہ ایک شعوری چوک  نہیں ہے لیکن ایک ایسا مطالعہ ہے جس میں قارئین،   یونانی جوہریت کے بارے میں اپنی تھوڑی سی معلومات (جواکثر و بیشتر اس کے مخالفین کی شہادتوں سے اکٹھی ہوئی ہے ) کی روشنی میں لیوکریتس کی تحریر کو اجاگر کرنے کی  سادہ   خطا  کے مرتکب ہوئے  ۔ انہوں نے لیوکریتس  اور اس کے حقیقی پیشروؤں کے کاموں میں  اصل سے زیادہ قریب تر تعلق  کو فرض کر لیا ۔ بلاشبہ ، انہوں نے ’’جوہر‘‘ (ایٹم) اور’’ذرات‘‘ (پارٹیکل ) کے الفاظ  کو  ترجمے کے متن میں داخل کر   دیا    جب کہ لیوکریتس نے کبھی ان الفاظ کو استعمال نہیں کیا  تھا ۔ ایک دفعہ بھی نہیں ! جوہریت کے کسی نام نہاد حامی کے لیے   ان الفاظ کو حذف کر دینا  قدرے  حیرت انگیزبھول  نہیں ہے ؟  لیوکریتس نہایت آسانی سے لاطینی لفظ ’’اٹیموس‘‘ (سب سے چھوٹا جوہر)(atomus)یا  ’’پارٹیکولا‘‘ (ذرہ) (particula) جیسے الفاظ کو استعمال میں لا سکتا تھا  لیکن اس نے ان سے گریز کیا ۔ تاہم اپنی بہترین کاوشوں کے باوجود ،  اس کے زیر ِ استعمال دو یکسر مختلف لاطینی الفاظ  ’’مادی جسم‘‘ (corpora)اور ’’اشیاء‘‘ (rerum)کو ‘منفرد  جواہر’ کی ترکیب   کے مترادف کے طور پہ   ترجمہ کیا گیا ۔

مزید ، جدید لوگوں نے   اس کی  کتاب میں ’’سادہ تسلسل‘‘ (solida-primordial-simplicitate:simplex-continuum) جیسی تراکیب کے ذریعے  کم  و بیش ہر جگہ استعمال ہونے والی  تسلسل   اور انکشاف کی لفظیات  کو ترجمہ نہیں کیا  یا اس کو یکسر نظر انداز کر دیا  ۔ کلاسیکی  متون اور کوانٹم طبیعیات دونوں میں   تحقیقی دلچسپی رکھنے والے  محققین کے نایاب گروہ  سے تعلق  رکھنے کے باعث  ، اصل لاطینی متن میں تسلسل کی موجودگی  نے مجھے نہایت شدت سے متاثر کیا ۔ میں نے اپنے حالیہ ترجمہ اور تبصرے  بعنوان ’’لیوکریتس  اول :  حرکت کی وجودیات‘‘ میں یہ سب دکھانے کی  کوشش کی ہے  تاہم  (اس کتاب کا ) مغز یہ ہے : اس سادہ لیکن  منضبط اور ہر جگہ پائے جانے والی تعبیری غلطی کو دیکھیں تو  شاید یہ جدید سائنس اور فلسفے کی تاریخ کی واحد سب سے بڑی   خطاء قرار پائے۔

اس خطاء نے جدید سائنس اور فلسفے کو  پانچ سو سال کےاُس  کھوج میں ڈال دیا جس کو سین کیرول  نے 2012ء کی اپنی کتاب  میں ’’کائنات کے اخیر میں موجود ذرہ‘‘ کہا تھا ۔ اس نے  فطرت پرستی  اور مادیت پرستی پر مبنی بے شمار نظاموں کے تحت   لائق ستائش اخلاق (virtues)  کو جنم دیا  ، تاہم اس نے کم تر لائق تعریف   میکانکی تخفیف پرستی  ، گروہی عقلی پرستی (patriarchal-rationalism)  جیسے نظاموں اور فطرت کی کھلی تسخیر  کے انسانی جذبوں کو  بھی تخلیق کیا   جن میں سے کسی کو بھی لیوکریتس کی اصلی لاطینی تحریر میں تلاش نہیں کیا جا سکتا   ۔ مزید براں ، کشش ثقل ، برقی اور مقناطیسی میدانوں اور زمان – مکان (space-time)کے بظاہر متواتر مظاہر کا سامنا کرنے پر اسحاق نیوٹن ، جیمز میکس ول اور یہاں تک کہ آئن سٹائن  نے بھی  ان (مظاہر) کی تشریح کرنے کی بجائے  جوہر ی ‘ایتھر’ کے تصور کی جانب پسپائی اختیار کی ۔ قدیم زمانے سے  ایتھر کو ناقابل مشاہدہ   ننھے ذرات پر مشتمل ایک لطیف متحرک مادہ  جوہر  فرض کیا جاتا تھا ۔ آج ، ہم ایتھر  کو  مزید تسلیم نہیں کرتے ہیں یا لیوکرتیس (کی نظم ) کاایک مستند سائنسی متن کی حیثیت سے  مطالعہ کرتے ہیں ۔ اس کے باوجود اپنے انداز سے ، ہمیں  قدری  طبیعیات (Quantum-Physics)میں وہی سوال برائے منفصل یا متصل درپیش ہے جو  ہمیں بنیادی طور پر  جدید (سائنس )  سے  ترکہ  میں حاصل ہوا  ۔

دور ِ حاضر  میں نظری طبیعیات ایک فیصلہ کن موڑ پر ہے ۔ عمومی نظریہ اضافیت اور  نظریہ برائے قدری میدان   (quantum-field-theory) آج کے طبیعیات دانوں کی اصطلاح میں   ‘معیاری ماڈل‘ کے دو سب سے بڑے جزو ہیں  جن کو  پیشین گوئی کے معاملے میں حیرت انگیز کامیابی حاصل ہوئی ہیں۔  تاہم ، مسئلہ یہ ہے کہ ان دونوں نظریات کو کسی ایک وسیع نظریے میں یکجا   کرنے میں  تاحال کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے ۔ بیشتر طبیعیات دان اس رائے کے حامی ہیں  کہ  جلد ہی  ایسی وحدت (unification)حاصل ہو جائے گی   جب کہ صف ِ اول کے عصری نظریات  (سٹرنگ تھیوری اور  دائروی قدری کشش ثقل (Loop-Quantum-Gravity))  کو تاحال تجرباتی ثبوت حاصل نہیں ہوئے ہیں ۔

قدری  کشش ثقل  (quantum-gravity) بے حد اہمیت کی حامل ہے ۔ اس کے حمایتوں کے نزدیک ، اس شے کو دنیا بھر کے سامنے لانا دشوار ہے کہ کائنات (یعنی زمان- مکان ) اپنی بنیادی ساخت میں مسلسل نہیں ہے بلکہ دانے دار ہے  اور بنیادی طور پر منفرد اجزاء پر مبنی ہے ۔ اس کا امکان تھا کہ اپنی بنیاد میں ایک تشریحی سہو (interpretive-error)  کے باوجود مادیت  کے ترکے کو قطعی طور پر سنبھال لیا جائے۔

صرف ایک تکلیف دہ مسئلہ  باقی ہے :  نظریہ برائے قدری علاقہ    دعوی کرتا ہے کہ توانائی کے تمام بنیادی منفرد اجزاء   ، قدری  میدانوں کے  کلی تسلسل (completely-continuous-quantum-fields) میں    امڈنے والے مدوجزر اور  ہیجانات ہیں ۔ (قدری ) میدان بنیادی طور پر دانے دار نہیں ہیں ۔ نظریہ برائےقدری علاقہ کے نزدیک ، اس بات کا امکان ہے  کہ ہر شے دانے دار اجزاء (granular)سے مل کر بنی ہوں  تاہم تمام تر دانے دار اجزاء (بذاتہ )   خم دا ر (قدری ) میدانوں کے تسلسل پر مبنی ہیں جن کی ہم دانوں کی صورت پیمائش کرتے ہیں ۔  اسی شے کو (قدری )ماہرین ِ طبیعیات  ’’نظریہ برائے انحراف‘‘ (perturbation-theory)کہتے ہیں یعنی  اس لامتناہی تسلسل کی انفرادی پیمائش   جو ‘کسی کی کلی انفرادی پیمائش  کو بدل دیتا ہے ‘ ، جیسا کہ فرینک کلوز اپنی کتاب ’’لامتناہیت  کا چیستان‘‘ میں پیش کرتا ہے ۔   ماہرین ِ طبیعیات نے  اس متصل میدان  (continuous-field) میں ہونے والی اس دانے دار حرکت کا ایک نام بھی  رکھا ہوا ہے یعنی ’’خلائی ہیجانات‘‘ (vacuum- fluctuations)۔ قدری میدان     مستقل متحرک مادے کے سوا کچھ نہیں ہیں  (توانائی اور معیارِ حرکت ) ۔ لہذا، وہ (یعنی قدری  میدان   )  ہمیشہ  سے  ‘لاشے‘ نہیں ہیں بلکہ ایک کلی مثبت خلا (void)(خلا کی اپنے تئیں حرکت )   یاطوفانی  سمندر(undulating-ocean)   سے زیادہ مماثل ہیں     جس کو ’’بحر ِ ڈیراک‘‘ (Dirac-sea)کہنا زیادہ موزوں ہے  جس   کے ساحل تک پہنچنے والے بلبلے  ہی  انفرادی اشیاء   کی مثل ہیں ، جیسا کہ  کارلو روویلی  نے 2016ء میں چھپنے والی  اپنی کتاب ’’حقیقت وہ نہیں جو یہ دکھائی دیتی ہے‘‘۔  بالفاظ دگر ، انفرادی اجزاء    متواتر میدانوں   کی پرتیں  (folds)ہیں ۔

جدید سائنس کے مرکزی سوال  ’’کیا کائنات منفصل ہے یا  متصل  ؟‘‘ کا جواب اتنا ہی انقلابی  ہے جتنا یہ  سادہ ہے ۔ زمان – مکان(time-space) مسلسل نہیں ہے کیونکہ یہ قدری  دانوں پر مبنی ہے ۔مگر  قدری  دانے  منفرد نہیں ہیں کیونکہ وہ بل کھاتے ہوئے لامتناہی  متصل میدانوں میں پڑنے والی سلوٹیں (folds) ہیں ۔ لہذا ، کائنات محض تسلسل نہیں ہے بلکہ  لپٹا ہوا ایک تسلسل (enfolded-continuum)ہے۔

یہ (جواب ) ہمیں لیوکریتس اور ہماری ابتدائی بھول کی جانب واپس لے جاتا ہے ۔  بیک وقت مادیت پر مبنی روایت کے تحت اور اس کے برخلاف کام کرتے ہوئے ، لیوکریتس  نے لگاتار حرکت اور بہاؤ (flux) میں رہنے والی لامتناہی اور متصل کائنات کے بارے میں پہلے مادی فلسفہ کو  پیش کیا ۔ لیوکریتس کے نزدیک اشیاء ، اپنے ہی ہلکورے سے بُنے ہوئے  ایک واحد متصل  کپڑے کی  پرتوں  (folds)، شکنوں (pleats) ، بلبلوں یا مساموں (pores) کے سوا کچھ نہیں ہیں ۔ کائنات   بے انتہا تلاطم یا ہیجان ہے تاہم  یہ(حسن و عشق کی رومی  )   دیوی  زہرہ  کی پیدائش  (کے واقعہ ) کی مثل، نہایت ہی نازک حالت میں   ساحلوں پر نمودار ہوتی ہے    ۔ جیساکہ لیوکریتس اپنی نظم کی ابتدائی سطروں میں لکھتا ہے : ’’(اے حسن و عشق کی دیوی زہرہ ) تمہارے بغیرسورج کی بھڑکائی ہوئی روشنی کے سمندر سے کچھ نمودار نہیں ہوتا ہے‘‘۔ اس بات کو دو ہزار برس ہونے کو آئے مگر آخر کار شاید لیوکریتس ہمارا ہم عصر بن چکا ہے ۔

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search