اچھا احتجاجی، بُرا احتجاجی- تحریر:تنویر فضل-مترجم: کبیر علی

 In ترجمہ

(تنویر فضل جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے شعبہ سماجی علوم میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔ انھوں نے اس مضمون میں ہندوستان میں منظور ہونے والے حالیہ ترمیمی قانون برائے شہریت پر بات کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ اس ترمیمی قانون کے خلاف ہونے والے بے ساختہ عوامی احتجاج اور پڑھے لکھے احتجاج کے درمیان زمین آسمان کا فرق ہے اور یہ بتایا ہے کہ کس طرح پڑھا لکھا احتجاج سٹیٹس-کو ہی کو دانستہ/نادانستہ طور پہ تقویت پہنچاتا ہے ، لہذا طاقت کے مراکز ان احتجاجیوں (Protesters)  سے اپنائیت کا سلوک کرتے ہیں جبکہ دوسری طرف بے ساختہ عوامی احتجاج ریاستی طاقت کو منظور نہیں ، لہذا پولیس ان احتجاجیوں کے خلاف نہایت بربریت سے بروئے کار آتی ہے۔ اصل مضمون اس لنک پر دستیاب ہے۔ )

ترمیمی قانون برائے شہریت[Citizenship    (Amendment)    Act]، اپنی تمام تر امتیازی شقوں کے ساتھ ، پارلیمنٹ نے فی الفور منظور کر لیا۔ نازی جرمنی کے نیورمبرگ قوانین اور اسرائیل کو صہیونی ریاست بنا دینے والے ”قانونِ واپسی” کے ساتھ اگر ہندوستانی قانونِ شہریت کی حالیہ ترمیم کا موازنہ کیا جائے تو محض تفصیلات کا فرق ہے، روح ایک ہے۔ 1935ء میں نافذ ہونے والے نیورمبرگ قوانین میں یہودیوں اور ” جرمن یا ان کے قرابت داروں” کے مابین شادیاں ممنوع قرار پائیں۔ نیز ان میں یہ اعلان بھی کیا گیا کہ صرف جرمن باشندے یا ان کے قرابت دار ہی رائخ (جرمن سلطنت) کی شہریت کے اہل ہوں گے۔ 1950ء میں منظور ہونے والا ”قانونِ واپسی” (Law            of            Return) ایک اسرائیلی قانون ہے جو دنیا کے کسی بھی کونے میں رہنے والے یہودی کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ اسرائیل لوٹ سکے اور اسرائیلی شہریت حاصل کر سکے۔

ہندوستانی قانون کی کتابوں میں عقیدے نے چپکے سے چھلانگ لگا دی ہے اور ہندوستانی شہریت کی ضمانت بن گیا ہے۔ اس قانون نے بلاشبہ یہ پیغام دیا ہے کہ نسل اور ایمان ہندوستانی شہریت کا فیصلہ کریں گے– اس طرح نام نہاد ہندوستانی عقیدے اور دیگر عقائد کے درمیان ایک خطِ تقسیم کھینچ دیا گیا ہے۔ جن مذاہب کے ماننے والوں کو شہریت مل سکے گی ان میں بعد ازاں پارسی اور عیسائی مذہب بھی شامل کردیے گئے؛ پیغام بالکل واضح اور صاف ہے۔ بلا مغالطہ، ناپسندیدہ تو مسلمان ہی ہے– قابلِ ترک اور لائقِ تخریب۔ مہاجر اور درانداز کے مابین پرانی ابلیسی تفریق کا پھر سے احیا ہُوا ہے– ڈھکی چھپی زبان کہ جس میں یہ بات کہی جاتی تھی ترک کر دی گئی ہے اور دشمن کی واضح نشاندہی کر دی گئی ہے۔ یہ قانون ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے کہ جب عام مسلمان گلی کوچوں میں ہونے والے تشدد سے پہلے ہی خوفزدہ ہے۔ یہ اس صبح و شام کی نفرت کے علاوہ ہے جس کا سامنا انھیں دائیں بازو کے مقررین اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے آئی۔ٹی سیل کے نامعلوم مبلغین کی جانب سے کرنا پڑتا ہے۔

ترمیمی قانون اور شہریوں کے مجوزہ قومی کھاتے(National    Register    of    Citizens) کے خلاف احتجاج ختم ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ جو عمل اقلیتی اداروں – جامعہ ملیہ اسلامیہ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، دارالعلوم ندوۃالعلماء – کے طلبا نے شروع کیا تھا وہ اب کئی چھوٹے بڑے، سیکولر اور تکنیکی، مشہور اور بین الاقوامی شہرت کے حامل اداروں تک پھیل چکا ہے۔ ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج آج واقعتاً عوامی ہو چکا ہے جس میں ہر طبقے کے لوگ شامل ہیں، عظیم الشان ہلچل پیدا ہوئی ہے اور سب سے بڑھ کر اس عمل میں ایک خاص درجے کی بے ساختگی شامل ہے۔ یہ وہ وقت ہے جب ریاست کے عمومی مصاحبین – سمجھوتہ زدہ سیاستدان، پہچان کے طالب مختلف ذاتوں اور طبقوں کے رہنما، اور پالے ہوئے درمیانی آدمی – خود کو ٹکسال باہر پا رہے ہیں۔خواتین، کہ جو اب تک سیاست سے دور رہی ہیں اور لازمی طور پہ کسی انقلابی تبدیلی کے نظریے سے بھی لیس نہیں ہیں، رہنمائی کا سنگھاسن سنبھال چکی ہیں، جیسا کہ مختلف طرح کے پس منظر رکھنے والا عام آدمی سنبھال چکا ہے۔ چاہے اس کی وجہ ذلتوں کے سلسلے کے خلاف جمع شدہ غصہ ہو یا پھر مساوی اور آزاد شہری ہونے پر کیا گیا حالیہ حملہ – مگر واقعہ یہ ہے کہ ان احتجاجوں میں اکثریت مسلمانوں کی ہے۔ اگرچہ غیر مسلموں کا ایک قابلِ ذکر طبقہ، اور روشن خیال سِول سوسائٹی کا ایک حصہ بھی سڑکوں پہ نکل آیا ہے۔

 

احتجاج اپنی شدت اور صورت، اور انداز میں ایک تنوع لیے ہوئے ہیں — لانگ مارچ، دھرنے، موم بتیاں روشن کرنے والے، اور حتی ٰ کہ مبینہ طور پہ سنگ باری اور جلاؤ گھیراؤ کرنے والے بھی۔ مزاحمت کرنے والے لوگ قید، گرفتاریوں، جسمانی تشدد، وحشیانہ لاٹھی چارج اور پولیس کی گولیوں سے سے بے خوف نظر آتے ہیں ۔ تاہم احتجاجیوں کے خلاف پولیس کے ردِ عمل میں ایک نمایاں تفریق نظر آتی ہے — ایک جانب سوچی سمجھی برداشت اور لاتعلقی ہے، دوسری جانب غیر ضروری ہلاکتیں۔ دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ کی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبا اگرچہ جغرافیائی طور پہ بیسیوں میل کے فاصلے پہ ہیں مگر دونوں کے خلاف پولیس کا جواب کم و بیش ایک ہی طرح کا تھا۔ یوں لگتا ہے کہ دونوں جگہ ایکشن کی منصوبہ بندی ایک ہی جگہ پر ہوئی ہے: پولیس احتجاجیوں کا پیچھا کرتے ہوئے کیمپسوں میں گھس گئی، ان پر وحشیانہ تشدد کیا، اور ان کی پسلیاں، انگلیاں اور بازو توڑ کر واپس چلی گئی۔ بعض طلبا نے یہ بھی کہا ہے کہ پولیس نے گولیاں بھی برسائیں۔ لائبریریوں اور ہاسٹلوں کے کمروں پہ حملہ کیا گیا، اور جامعہ کی مسجد میں شام کی نماز کے لیے جمع ہونے والے نمازیوں کو بے رحمی سے مارا گیا۔ پولیس کے قہر سے بچنے کے لیے نمازیوں کو ٹوٹے ہوئے شیشے اور اپنے جوتے چھوڑ کر بھاگنا پڑا، اور صفوں پہ لگے خون کے دھبے اس شام ِ قہر کی دردناک باقیات ہیں۔
دہلی کے علاقے سیلم پور میں — جو جمنا کے کنارے مزدورں کی ایک بستی ہے ، اور شاہجہاں آباد کے جامع مسجد کے علاقے میں پولیس نے ایک بار پھر بدترین بربریت کا مظاہرہ کیا۔ پولیس کی زیادتیوں کی خبریں ملک کے مختلف علاقوں سے دھڑا دھڑ آ رہی ہیں۔ بجنور کے علاقے نہتور میں ، جو کہ بنیادی طور پہ مسلم آبادی ہے، پولیس نے ”سیلف ڈیفنس” کی آڑ میں فائر کھول دیا اور کئی احتجاج کرنے والے مار دیے۔ منگلور کی پولیس نے دو احتجاجی مار دیے اور وجہ وہی بتائی۔ مظفر نگر، میرٹھ ، رامپور اور اتر پردیش کے دیگر کئی علاقوں میں ، مسلح پولیس نے دہشت کا بازار گرم کیے رکھا، گولیاں برسائیں، گھروں پہ حملہ کیا اور مسلم علاقوں میں — جو راتوں رات زور دار احتجاج کی آماجگاہیں بن گئے تھے — اندھا دھند لوگوں کو گرفتار کیا۔
لیکن احتجاج کی کچھ دوسری جگہیں بھی ہیں جو ایک برعکس منظر پیش کرتی ہیں۔ یہ وہ واضح طور پہ تسلیم کردہ جگہیں ہیں جہاں شہریوں کو جمع ہونے اور اپنا احتجاج درج کروانے کی اجازت ہے۔ اکٹھ چھوٹا ہو تو دہلی کا جنتر منتر میدان، اور اگر چند ہزار لوگوں کا اکٹھ ہو تو رام لیلا میدان یا پھر انڈیا گیٹ۔ یہاں احتجاج کرنے والوں اور قانون نافذ کرنے والوں ہر دو کو کھیل کے اصول معلوم ہیں — اگر غصہ بہت زیادہ اور جذبہ بلند ہے تو ایک دو رکاوٹیں لگائی جا سکتی ہیں ، اور کبھی کبھار پانی کی دھار ماری جا سکتی ہے۔ یہ احتجاجی جو بالعموم شہر کے پڑھے لکھے طبقے سے ہوتے ہیں — اساتذہ، انسانی حقوق کے معروف علمبردار — بالعموم ان معمولی سپاہیوں اور چھوٹے پولیس افسروں کی بہ نسبت بلند تر طبقے سے ہوتے ہیں جو ان سے نبٹنے کے لیے وہاں کھڑے ہوتے ہیں۔ یہاں طاقت سے تعلق کی نسبتیں بدل جاتی ہیں، اور ریاست کی طاقت، پولیس کے نمائندوں کی شکل میں، حیران کن طور پہ پابند ہوتی ہے۔
اس اعلیٰ احتجاج کا بشرنامہ (ethnography) دیکھتے ہوئے ہمیں ان مختلف النوع طریقوں کو بھولنا نہیں چاہیے جو اس احتجاج کی صورت، مواد اور جمالیات میں داخل ہیں — چاہے یہ تقریروں کی لفظیات ہو؛ یا تخلیقی پلےکارڈ ہوں جن میں نکتہ رسی، اور بالعموم بذلہ سنجی کے ساتھ اپنے احتجاج کا اظہار کیا جاتا ہے؛ یا پھر ترانوں اور شاعری کی بیٹھکیں ہوں۔ احتجاجی اور قانون نافذ کرنے والے ہر دو لوگ اپنی پیشہ ورانہ مہارت دکھانے میں کم ہی شرماتے ہیں۔ احتجاج ایک قسم کے جشن میں بدل جاتا ہے — انسانی جذبے کا، بُرے دنوں میں یکجہتی کا، نیز مل بیٹھنے کے ایک موقعے کا جشن۔پھر اس میں قابلِ پیش گوئی ہونے کا پہلو بھی موجود رہتا ہے۔ پھر اس میں اچھے احتجاجی ہیں، لائقِ ستائش و قابلِ تقلید؛ کچی آبادیوں، بازاروں اور جھونپڑ پٹیوں کے قابلِ نفرت احتجاجیوں کے برعکس کہ جنھیں سیدھا کرنا ضروری ہوتا ہے اور جن کے احتجاج اگرچہ زیادہ زندہ ہوتے ہیں مگر ان میں نظم و ضبط کا امکان بہت کم ہوتا ہے، اور وہ اپنی سرشت میں ہی اضطرا ر اور انتشار کے حامل ہوتے ہیں۔
ایک دوسرے سے بالکل الگ ہونے کے باوجود ان دونوں قسم کے احتجاجوں میں باہمی ادغام و تکمیل کے لمحات بھی آتے ہیں۔ غصے اور ابال کے طوفانی لمحوں میں ، محتاط طریقے سے الگ کیے گئے ان احتجاجوں میں اختلاط ہوجاتا ہے۔ غریب اور ادنیٰ — مسلمان، دَلِت اور دوسرے مظلوم لوگ — کبھی کبھی ان مقررہ اور صاف ستھری جگہوں پہ پہنچ جاتے ہیں تاکہ اپنی بات پہنچا سکیں اور اچھے اور قابلِ تقلید احتجاجیوں کا کردار نبھا سکیں کہ شاید اس طرح ہی کچھ بات بن جائے۔ اسی طرح انسانی حقوق کے علمبردار،ہنگامے کے بعدتشدد والی جگہوں پہ پہنچ جاتے ہیں۔ حقائق کی متلاشی ٹولیاں ایک متبادل سچ کے لیے جگہ بناتی ہیں اور ریاست کے بیانیے کا مقابلہ کرتی ہیں۔ حساس اداکار، لکھاری اور صحافی بربریت کی ان داستانوں کو عوام میں لاتے ہیں کہ جو کمزوروں پہ رقم ہوئیں۔ لیکن نتیجے میں، ناقابلِ پیش بینی اور متحرک احتجاج والوں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ سیدھے رستے پہ آجائیں۔ عدم تشدد پہ بار بار زور دیا جاتا ہے، انتظامیہ سے براہِ راست ٹکراؤ پہ تیوری چڑھائی جاتی ہے، اور احتجاج کی زبان کے بارے میں نصیحت کی جاتی ہے۔ نادانستہ طور پہ ، سٹیٹس-کو کی بحالی کا عمل تکمیل کو پہنچتا ہے۔
اگر مسلمانوں کی بات کی جائے تو احتجاج کی غیر متعین اور غیر مقررہ جگہیں کچھ اور بھی زیادہ  بوجھ کی حامل ہوتی ہیں۔ پولیس کے بیانات میں نیز مقبول بیانیوں میں بھی، یہ جگہیں حقیر مجرموں اور خطرناک دہشت گردوں ؛ عوام کو بھڑکانے والے مذہبی متعصبین ؛ اور واقعتاً تشدد پہ اتر آنے والے بے ہنگم ہجوم کی پناہ گاہیں ہیں۔ مِنی -پاکستان کا لقب بھی اسی لیے استعمال کیا جاتا ہے تاکہ ان جھونپڑ پٹیوں کے باسیوں کو دیگریت اور غیر-قومیت کا نشانہ بنایا جا سکے۔ ان علاقوں کے بیرونی کناروں کو بالعموم بارڈر کہا جاتا ہے ، جس میں ہندو پاک سرحد کی جانب اشارہ ہوتا ہے، نیز اُسی تناؤ اور تشدد کے امکان کا اظہار ہوتا ہے۔ ممبئی کا ممبرا، احمد آباد کا جوہاپورہ، دہلی کا جامعہ نگر، رانچی کا دورانڈہ، اور مغربی اترپردیش میں مسلم اکثریتی آبادیاں اس قسم کے زیرِ نگرانی علاقے ہیں — دیگر شہریوں کے لیے خطرے اور عدم تحفظ کے علاقے۔ یہاں ریاست کی موجودگی بنیادی طور پہ پولیس کی چوکیوں اور پکٹوں کی تعداد ، ا ور عام باسیوں پہ ہونے والے روز مرہ تشدد کی صورت میں نظر آتی ہے، نہ کہ شہری سہولیات کی صورت میں جو یہاں بالعموم غائب ہی رہتی ہیں۔
رہائشی علاقوں کی متعصبانہ نقشہ بندی کے بعد خود رہائشیوں کی مجرم سازی کا مرحلہ آتا ہے۔ ریاست سرکشی کے ہر عمل کو – چاہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا، مجہول ہو یا فعال – اپنی قوت کے ساتھ کچل دیتی ہے۔ احتجاج کی صورت اور اسلوب کی بات نہیں ہے بلکہ خود احتجاج ہی کو ریاستی نظم و نسق کی راہ میں رکاوٹ باور کرایا جاتا ہے۔کرفیو، دفعہ 144-جو چار سے زائد لوگوں کے اکٹھ کو روکتی ہے، گرفتاریاں، مختلف رہنماؤں اور تحریکیوں پر انڈین پینل کوڈ کی مختلف شقوں کے تحت اندراجِ مقدمات بہت افسوسناک سہی، لیکن یہ ان علاقوں میں احتیاطی تدابیر کی معمول کی داستان ہے۔ اگر سرکشی پھر بھی برقرار رہے تو زنبیل میں کچھ غیر معمولی ہتھکنڈے بھی موجود ہیں۔ منگلور میں، پولیس نے مسلمانوں کے زیرِ انتظام ایک ایسے ہسپتال پہ مبینہ طور پہ آنسو گیس سے حملہ کیا جہاں زخمی لوگوں نے پناہ لی ہوئی تھی۔ مغربی اتر پردیش میں، پولیس گھروں پہ حملے کر تی رہی ہے، املاک کو تباہ ، اور من پسندی سے مسلمانوں کو گرفتار کرتی آ رہی ہے۔
2013ء میں ، تین صوبوں کے سربراہانِ پولیس – مہاراشٹرا سے سنجیو دیال، اتر پردیش سے دیوراج ناگر اور تامل ناڈو سے کے رامناجام – نے مرکزی حکومت کو ایک رپورٹ پیش کی کہ مسلم کمیونٹی پولیس کو کس نگاہ سے دیکھتی ہے۔ رپورٹ میں یہ بات نمایاں تھی کہ پولیس کے متعلق ایک عدم اعتماد پایا جاتا ہے۔ اس کا نچوڑ یہ نکالا گیا کہ مسلمانوں اور پولیس کے مابین تناؤ کی جڑیں غلط اطلاعات پہ مبنی اس احساس میں موجود ہیں جو مسلمانوں کو یہ باور کرواتا ہے کہ پولیس جانبدار اور فرقہ واریت کا شکار ہے۔ تاہم اس احساس کی جڑیں پولیس کی حقیقی اور واضح جانبداری کی طویل تاریخ میں پیوست ہیں۔ مثال کے طور پہ 1970ء میں مہاراشٹرا میں ہونے والے بھوانڈی دنگوں کے بعد قائم ہونے والے مَدن کمیشن نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ مہاراشٹرا پولیس کے خصوصی تفتیشی سکواڈ نے اعانت جرم کرتے ہوئے”زیادہ سے زیادہ مسلمانوں کوجرم میں پھنسایا اور ہندوؤں کو جرم سے نکالا ، اور اس شے کا کوئی لحاظ نہ رکھا کہ کون معصوم ہے اور کون خطاکار”۔ دو عشروں سے بھی زائد عرصے بعد 1993-1992 ء کے ممبئی دنگوں پر جسٹس سِری کرشنا نے اپنی تفتیش میں بتایا کہ پولیس نےمسلمانوں کے خلاف پہلے سے موجود تعصب کو اس طرح تقویت دی کہ ہندوں شر پسند کھلے عام تشدد کرتے رہے اور پولیس چشم پوشی کرتی رہی۔
آج سڑکوں پہ موجود مسلم عوام ماضی کی علامتی سیاست کے بوجھ تلے دبے ہوئے نہیں ہیں۔ مابعد آزادی زیادہ سے زیادہ مسلمان مڈل کلاس میں شامل ہوئے ہیں – اگرچہ اس کے زیریں حصو ں میں۔ اپنی تشکیل میں ہی ، یہ نیا ابھرتا ہو طبقہ – پرانے معززین کی طرح – ریاست کے وظیفوں کا دریوزہ گر نہیں۔ اخلاقیات اور غیرت کے جاگیردارانہ خیالات کی جگہ خودداری اور عزتِ نفس نے لے لی ہے۔ عوامی حلقوں میں شناخت کے ایک نئے تصور پہ زور دیا جا رہا ہے ، اور یہ نیا مسلمان چاہتا ہے کہ اپنے ہونے کو مساوات اور پہچان کی بنیادوں پہ ممکن بنائے۔ نقاب اور حجاب اوڑھنے والی خواتین اب گھروں کی دہلیزیں پار کر کے عوامی جگہوں – کالجوں، یونیورسٹیوں، بینکوں اور بازاروں – میں اسی طرح جا رہی ہیں جس طرح کہ مَرد حضرات ۔ مردو خواتین ہر دو میں ایسے لوگ بھی بہت ہیں جو یہ پسند نہیں کرتے کہ انھیں ٹائپ کاسٹ کیا جائے۔ نیا مسلمان تقسیم کے گناہ کا بوجھ اب مزید اٹھانے کو تیار نہیں ، اور نہ ہی ایک اقلیت ہونے کی سیاست سے مغلوب ہے۔ یہ یکجہتی کا خواہش مند ہے، نجات دہندوں کا نہیں۔

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search